• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسول اللہ

یقینا ﷲ تعالیٰ نے علماء سے یہ عہد اور میثاق کر رکھا ہے کہ وہ لوگوں کے لئے اس دین اور شریعت کو واضح کرتے رہیں جو انکی خاطر نازل کی گئی۔

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاِذْ اَخَدَ اﷲُ مِیْثاَقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہ، لِلنَّاسِ وَلَاتَکْتُمَوْنَہ،………… [آل عمران :۱۸۷]
’’اور جب اﷲتعالیٰ نے ان لوگوں سے جن کو کتاب عنایت کی گئی تھی اقرار لیا کہ اس میں جو کچھ لکھا ہے اسے صاف صاف بیان کرتے رہنااور اس کی بات کو نہ چھپانا۔‘‘


اور وہ لوگ ﷲ نے ملعون ٹھہرائے ہیں جو حق کو چھپالیں ۔فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللہُ وَيَلْعَنُهُمُ اللاعِنُونَ

بے شک جو لوگ ہمارے حکموں اور ہدایتوں کو جو ہم نے نازل کی ہیں )(کسی غرض فاسد سے) چھپاتے ہیں ‘جبکہ ہم نے انہیں لوگوں (کو سمجھانے) کیلئے اپنی کتاب میں کھول کھول کر بیان کردیا ہے‘سو ایسوں پر ﷲ اور تمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں ۔ [البقرۃ:۱۵۹]

فرمان باری تعالیٰ ہے :

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُ وا اﷲَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوت
اور بے شک ہم نے ہر امت میں رسول بھیجے کہ اﷲکی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو ۔ [النحل: ۳۶]


ﷲ تعالیٰ نے تمام بندوں (جن وانس) پر طاغوت کا انکار وکفر اور ﷲ تعالیٰ پر ایمان لانا فرض قرار دیا ہے ۔

طاغوت کیا ہے ؟

طاغوت ہر وہ چیز ہے جس کی ﷲ کے سوا عبادت کی جائے اور وہ اپنی عبادت کیے جانے یا کروائے جانے پر راضی ہو۔

طاغوت خدائی کے جھوٹے دعویدار کو کہتے ہیں ۔انبیاء اور اولیاء صرف ﷲ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلاتے تھے اور وہ غیر ﷲ کی عبادت کرنے والوں کے سب سے بڑے دشمن تھے اس لئے وہ طاغوت نہیں ہیں چاہے لوگ ان کی بندگی کریں ۔

امام مالک(رحمہ اللہ) فرماتے ہیں: ’’ہر وہ چیز جس کی ﷲ تعالیٰ کی سوا عبادت کی جائے ’’طاغوت‘‘ کہلاتی ہے۔‘‘ [ھدایۃ المستفید:۱۲۲۲]

امام ابن قیم (رحمہ اللہ) ’’طاغوت‘‘ کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں:

’ہر وہ ہستی یا شخصیت طاغوت ہے جس کی وجہ سے بندہ اپنی حدِ بندگی سے تجاوز کرجاتا ہے چاہے وہ معبود ہو، یا پیشوا، یا واجب اطاعت، چنانچہ ہر قوم کا طاغوت وہ شخص ہوتا ہے جس سے وہ ﷲ اور رسول ﷺ کو چھوڑ کر فیصلہ کراتے ہوں، یا ﷲ کو چھوڑ کے اس کی عبادت کرتے ہوں، یا الٰہی بصیرت کے بغیر اس کے پیچھے چلتے ہوں، یا ایسے امور میں اس کی اطاعت کرتے ہوں جن کے بارے میں انہیں علم ہے کہ یہ ﷲ کی اطاعت نہیں۔‘‘

[ھدایۃ المستفید:۱۲۱۹]

امام محمد بن عبدالوہاب (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:

’’ہر وہ شخص جسکی ﷲ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہو، اور وہ اپنی اس عبادت پر راضی ہو، چاہے وہ معبود بن کے ہو، پیشوا بن کے، یا ﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت سے بے نیاز، واجب اطاعت بن کے ہو ‘طاغوت ہوتا ہے۔‘‘

[الجامع الفرید: ۲۶۵]



’’طاغوت تو بے شمار ہیں مگر ان کے سَرکردہ وسَربَر آوردہ پانچ ہیں:‘‘

﴿۱﴾ ابلیس لعین۔
﴿۲﴾ ایسا شخص جس کی عبادت کی جائے اور وہ اس فعل پر رضامند ہو۔
﴿۳﴾ جو شخص لوگوں کو اپنی عبادت کرنے کی دعوت دیتا ہواگرچہ اس کی عبادت نہ بھی ہوتی ہو
﴿۴﴾ جو شخص علم غیب جاننے کا دعویٰ کرتا ہو۔
﴿۵﴾ جو شخص اﷲکی نازل کی ہوئی شریعت کے خلاف فیصلہ کرے ۔

ﷲ تعالیٰ کے مقابلے میں ایک بندے کے تین درجے ہیں ۔

پہلا درجہ یہ ہے: کہ بندہ ﷲ تعالیٰ کی اطاعت ہی کو حق سمجھے مگر اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے تو یہ فسق اور وہ گناہ گار ہوگا ۔

دوسرا درجہ یہ ہے: کہ وہ ﷲ کی فرمانبرداری سے منحرف ہوکر یا تو خود مختار بن جائے یا کسی اور کی بندگی کرنے لگے ۔یہ شرک وکفر ہے ۔

تیسرا درجہ یہ ہے: کہ وہ ﷲ سے بغاوت کرے اور اس کی مخلوق پر خود اپنا حکم چلائے ۔ جو شخص اس مرتبے پر پہنچ جائے وہ طاغوت ہے ۔ اور کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ طاغوت کا منکر نہ ہو۔ ﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے :

فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لا انْفِصَامَ [البقرۃ : ۲۵۶]

’’پس جو کوئی طاغوت کا انکار کرے اور ﷲ پر ایمان لے آئے اس نے ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں‘‘


شیطان سب سے بڑا طاغوت ہے ۔ جو غیر ﷲ کی عبادت کی طرف بلاتا ہے ۔

أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَنْ لا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [۶۰:یٰس]

’’اے اولاد آدم‘ کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا ‘وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے ‘‘


اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شیطان کی اطاعت شیطان کی عبادت ہے۔

رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا جو شخص (لَااِلٰہَ اِلَّا ﷲ) کا اقرار کرے اور ﷲ کے سوا جن جن کی عبادت کی جاتی ہے اُن کا انکار کرے ۔ اُس کا مال وخون مسلمانوں پر حرام ہوگیا اور اس کے دل کا معاملہ ﷲ کے حوالے ہے ۔ [مسلم کتاب الایمان ج ۱ :ص۷۳]

غور فرمائیے ! کہ صرف زبان سے کلمہ پڑھ لینے سے مال وجان حرام اور محفوظ نہیں ہوسکتی بلکہ مسلمانوں کی تلوار سے جان ومال اس وقت حرام ہوگی جب ان معبودوں کا انکار کردیا جائے جن کی ﷲ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے ۔

مگر آج ﷲ کو چھوڑ کر جن جن کی عبادت ہو رہی ہے اکثر لوگ اُن کی تردید نہیں کرتے جبکہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا : جن جن کی عبادت کی جاتی ہے اُن کا انکار کرو۔

وہ جابر اور ظالم حکمران جو فیصلے کے لیے کتاب وسنت کا پابند نہ ہو بلکہ انسانوں پر انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نافذ کرے وہ یقینا طاغوت ہے۔ ایسے حکمران کے بارے میں ﷲ تعالیٰ نے فرمایا :

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللہُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ [المائدۃ : ۴۴]
’’اور جو اﷲکے نازل کئے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو ایسے لوگ ہی کافر ہیں۔ ‘‘

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں: ’’جب کچھ دین اللہ کا اور کچھ غیر اللہ کا چل رہا ہو تو ایسا کرنے والوں کے ساتھ قتال کرنا واجب ہے جب تک کہ صرف اللہ کا دین نافذ نہ ہو جائے ‘‘ [مجموع الفتاوی ۲۸/ ۴۶۹]


دوسرے مقام پر ﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کے ایمان کی نفی کی ہے جو اپنے فیصلے طاغوت کی عدالتوں میں لے جاتے ہیں :

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالا بَعِيدًا [النساء :۶۰]

’’کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ پر اور آپ سے پہلے نازل ہوا ہے اُس پر ایمان رکھتے ہیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ (اپنا مقدمہ) طاغوت کے پاس لے جاکر فیصلہ کرائیں حالانکہ ان کو اس سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور شیطان ان کو دور کی گمراہی میں ڈالنا چاہتا ہے۔‘‘


آپ غور فرمائیے جو حکمران اُن قوانین کو ملک کے عوام پر نافذ کرتے ہیں جو انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں ، چاہے وہ مارشل لاء ہو، یا اسمبلی کا پاس کردہ قانون ‘یا کسی ایک شخص کا بنایا ہوا ‘وہ سب طواغیت ہیں ۔

اور جو شخص طاغوت سے فیصلہ کروانا چاہتا ہے ﴿يَزْعُمُونَ﴾کہہ کر ﷲ تعالیٰ نے ان قوانین پر چلنے والوں کے دعویٰ ایمانی کو جھٹلا دیا کہ یہ ایمان دار بنتے ہیں لیکن یہ طرز عمل اور ایمان ایک بندے کے دل میں جمع نہیں ہوسکتے کہ ﷲ اور آسمانی شریعت پر ایمان رکھنے کا دعویٰ بھی کریں اور اپنے معاملے کے تصفیے کے لیے طاغوت سے رجوع کریں ۔

شیطان نے ان کو گمراہ کردیا ہے۔﴿ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ ﴾’’جبکہ اُن کو اس سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے‘‘ فرما کر ہر مسلم پر لازم کردیا کہ وہ طاغوت سے دشمنی کرے ۔ یہ طاغوت چاہے دیہاتوں میں قبیلوں کے سرداروں کی پنچایت ، ثالثی کمیٹی یا جرگہ کی صورت میں ہوں جو کتاب وسنت کی بجائے رسم ورواج کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں یا وہ عدالتیں ہوں جو اسلامی ممالک میں ہی موجود ہیں ۔یہ عدالتیں اسمبلی کے بنائے ہوئے آئین کے مطابق کتاب وسنت سے آزاد ہوکر لوگوں میں فیصلہ کرتی ہیں جن پر پولیس اور فوج زبردستی عمل درآمد کرواتی ہے۔اس سے بڑھ کر اور کفر کیا ہوسکتا ہے ۔

ﷲ تعالیٰ نے قرآن میں اعلان کیا ہے:

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللہُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ......ھُمُ الظّٰالِمُونَ.......ھُمُ الفَاسِقُونَ [المائدۃ : ۴۴ تا ۴۷]

’’اور جو ﷲ کے نازل کئے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے وہی کا فر ہیں .....وہ ظالم ہیں......وہ فاسق ہیں‘‘


ﷲ ایسے لوگوں کو کافر کہے اور وہ کافر نہ ہوں !ہرگز نہیں، یہ لوگ پکے کافر ہیں ۔ عبدﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں طاؤس رحمہ ﷲ وغیرہ سے جو روایت آئی ہے وہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ﷲکے نازل کردہ احکام کے علاوہ کسی اور چیز سے فیصلہ کرنے والا کافر ہے ۔ [رسالہ تحکیم القوانین]

جب صحابہ (رضی اللہ عنہم) نے زکوٰۃ نہ دینے والوں کے کلمہ کا اعتبار نہ کیا اور ان کو قتل کیا تو بشری قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے والے بھی مذکورہ آیت کی رو سے یقینا کافر ہیں، چاہے وہ کلمہ پڑھتے ہوں۔

امام محمد بن عبدالوہاب (رحمۃ اللہ علیہ) اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں:

’’پس جو شخص ﷲ تعالیٰ اور رسول ﷲ ﷺ کی مخالفت اس طرح کرتا ہے کہ وہ کتاب وسنت کے علاوہ کسی اور جگہ سے فیصلہ کراتا ہے یا اپنی خواہشات کی تکمیل میں مگن ہے تو گویا اس نے عملاً ایمان اور اسلام کی رسی کو گردن سے اتار پھینکا۔ اس کے بعد خواہ وہ کتنا ہی ایمان کا دعویٰ کرے بے کار ہے، کیونکہ ﷲ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو جھوٹا قرار دیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’طاغوت کا انکار کرنا ‘‘ توحید کا سب سے بڑا رکن ہے ۔ جب تک کسی شخص میں یہ رُکن نہ ہوگا وہ موحد نہیں کہلا سکتا۔ ‘‘

[ ھدایۃ المستفید: ۱۲۲۳]

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:

"یہ بات سب کو معلوم ہونی چاہیئے کہ ایمان کے لئے زبان سے اقرار لازم ہے، صرف دلی طور پر تصدیق کافی نہیں ہے۔ اقرار دل کی تصدیق کے تحت ہے اور دل کا عمل اطاعت اور جھکاؤ ہے رسول اللہ کی طرف اور رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کی تصدیق کرنا ہے اور جو بھی آپ ﷺ نے حکم دیئے ہیں ان کو ماننا جس طرح کہ اللہ کے اقرار کا معنی ہے: اس کی ذات کا اعتراف اور اس کی عبادت کرنا۔ کفر کا مطلب ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو نہ ماننا چاہے وہ جھٹلا رہا ہو یا تکبر کی وجہ سے یا انکار اور اعراض کی وجہ سے ہو، یہ کفر ہے۔ جس کے دل میں تصدیق اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف جھکاؤ و اطاعت نہ ہو وہ کافر ہے۔‘‘

[مجموع الفتاوی ۷ /۶۳۹- ۶۳۸]


آج کے دور کا سب سے بڑا طاغوت ، انسان کے انسان پر اُس کے بنائے ہوئے قوانین کی حکمرانی کی شکل میں تمام عالم پر چھایا ہوا ہے ۔ جس سے ﷲ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو کفر کرنے کا حکم دیا ہے ۔ کیونکہ جس طرح خالق ، ﷲ وحدہ، لاشریک ہے اسی طرح آمر (حکم دینے اور قوانین مقرر کرنے والی ذات) بھی صرف وہی ہے اور اُس کے امر (حکم) کی اطاعت واجب ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمانِ ذیشان ہے:

﴿ لَا یُشْرِکْ فِیْ حُکْمِہٰٓ اَحَدًا﴾ [سورۃالکہف آیت: ۲۶]
’’اللہ تعالیٰ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔‘‘

علامہ شنقیطی (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:

’’اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی شخص اللہ کے حکم میں کسی بھی قسم کے احکام کی آمیزش نہ کرے، حکم صرف اور صرف اللہ ہی کا تسلیم کرے۔ آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ جو بھی حکم، جو فیصلہ اللہ نے کر دیا ہے اسے بغیر کسی ملاوٹ کے تسلیم کرنا ہے۔ اللہ کے فیصلوں میں سب سے پہلا فیصلہ ہے اس کے بنائے اور نازل کئے ہوئے قوانین۔ جو لوگ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی اتباع کرتے ہیں، جو دراصل شیطانی قوانین ہیں جو اس نے اپنے متبعین کے ذریعہ بنوائے ہیں یہ سراسر اللہ کی شریعت کے مخالف ہیں ان کی تابعداری کرنے والے بلا شک و شبہ کافر ہیں، اللہ نے ان کی بصارت و بصیرت چھین لی ہے۔ یہ لوگ وحی الٰہی کے نور سے مکمل طور پر محروم ہیں۔"

[اضواء البیان ص: ۴/۵۳-۸۲]

ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَلَا لَہُ الخلق والامر [الاعراف : ۵۴]
’’خبردار رہو! سب مخلوق اسی کی ہے اور (لہٰذا سب) حکم بھی اُسی کا ہے‘‘

اِنِ الحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ [یوسف : ۴۰]
’’حکم وقانون (چلانا) صرف ﷲ کا حق ہے ‘‘

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اِنَّ اﷲَ ھُوَ الحُکمُ وَاِلیہِ الحُکمُ [ابی داؤد]
’’ﷲ تعالیٰ کا حکم ہے اور فیصلہ بھی اسی کا ہے ۔‘


طاغوت سے دشمنی وبغاوت کوئی نفلی عبادت نہیں ہے جس کا کرلینا صرف بلندی درجات کا سبب ہو ۔ بلکہ طاغوت ﷲ کے دین کا سب سے بڑا دشمن ہے ۔ اس دشمن سے بغض وحقارت کا اظہار ایمان کا حصہ ،نجات کا سبب اور انبیاء علیہم السلام کا بنیادی مشن ہے ۔

شیخ عبدالعزیز بن باز فرماتے ہیں کہ:

’’آدمی کا ایمان صرف اسی صورت میں مکمل ہوسکتا ہے کہ وہ ﷲ تعالیٰ پر ایمان لائے ۔ چھوٹے بڑے ہر معاملے میں ﷲ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی ہو۔ اور زندگی کے ہر معاملے میں خواہ اس کا تعلق جان سے ہویا مال سے یا عزت وآبرو سے ‘ فیصلے کے لئے صرف ﷲ تعالیٰ کی شریعت (قانون) کی طرف رجوع کرے ۔ ورنہ وہ ﷲ کا نہیں غیر ﷲ کا پجاری ہوگا ۔

اور قرآن سے اس کی دلیل یہ ہے:


وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُ وا اﷲَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ
اور بے شک ہم نے ہر امت میں رسول بھیجے کہ اﷲکی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو ۔ [النحل: ۳۶]


جو شخص ﷲ سبحانہُ وتعالیٰ کے سامنے سرِ اطاعت جھکادے (یعنی سرِ تسلیم خم کردے) اور اس کی وحی سے اپنے مقدمات کا فیصلہ کرائے تو وہ ﷲ تعالیٰ کا عبادت گزار ہے ۔ اور جو شخص غیر ﷲ کے سامنے سرِ اطاعت جھکائے اور غیر شریعت (غیر ﷲکے قانون) سے فیصلہ کرائے تو اس نے بتوں کی عبادت کی اور ان کی اطاعت وبندگی اختیار کی۔

[مقالات وفتاویٰ شیخ ابن باز، صفحہ : ۱۰۹]

شیخ محمد الصالح العثیمین کہتے ہیں :

جس نے اللہ کی شریعت کو حقیر و معمولی سمجھ کر اس کے مطابق حکومت نہیں چلائی یا یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ دوسرے نظریات و قوانین اسلام کی بنسبت زیادہ مفید اور موجودہ دور کے موافق ہیں تو ایسا شخص کافر ہے دین اسلام سے خارج ہے ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو خلاف اسلام قوانین بناتے ہیں او رلوگوں کو ان پر عمل کی تاکید کرتے ہیں یہ لوگ شریعت کو چھوڑ کر خود اس لئے قوانین بناتے ہیں کہ ان کا عقیدہ ہے کہ یہ شریعت سے زیادہ مفید اور حالات کے لئے موزوں ہیں یہ ہم اس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ ایک طریقہ چھوڑ کر دوسرا طریقہ تب اپناتا ہے جب وہ اسے پہلے والے سے بہتر نظر آتا ہو یا پہلے والے میں کو نقص یا سقم نظر آیا ہو۔

[المجموع الثمین ص ۱ /۶۱]


أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ
(اگر یہ اﷲکے قانون سے منہ موڑتے ہیں) تو کیا پھر یہ جہالت کے حکم اور فیصلے کے خواہش مند ہیں ؟ اور جو لوگ یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک ﷲ تعالیٰ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے۔!! [المائدۃ: ۵۰]

حافظ ابن کثیر(رحمۃ اللہ علیہ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مذمت کر رہا ہے جو اس کے ایسے احکام کو چھوڑ رہے ہیں جن میں ہر قسم کا خیر ہے۔ ہر قسم کے شر سے روکنے والے ہیں ایسے احکام کو چھوڑ کر لوگوںکی خواہشات، ان کی آراء اور خود ساختہ اصطلاحات کی طرف جاتے ہیں جس طرح دورِ جاہلیت کے لوگ اسی طرح کے جاہلانہ اور گمراہ کن احکامات کو نافذ کرتے تھے جو انہوں نے اپنی خواہشات اور آراء سے بنائے ہوئے ہوتے تھے اور جس طرح کے فیصلے اور احکامات تاتاری کرتے تھے جو انہوں نے اپنے بادشاہ چنگیز خان سے لئے تھے۔ چنگیز خان نے تاتاریوں کے لئے یاسق وضع کیا تھا۔ یاسق اس مجموعہ قوانین کا نام ہے جو چنگیز خان نے مختلف مذاہب، یہودیت، نصرانیت اور اسلام وغیرہ سے لے کر مرتب کیا تھا۔ اس میں بہت سے ایسے احکام بھی تھے جو کسی مذہب سے ماخوذ نہیں تھے وہ محض چنگیز خان کی خواہشات اور اس کی صوابدید پر مبنی تھے۔ یہ کتاب بعد میں قابل اتباع قرار پائی اور وہ اس کتاب کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات پر بھی مقدم رکھتے تھے۔ ان میں سے جس جس نے بھی ایسا کیا ہے وہ کافر ہے، واجب القتل ہے جب تک کہ توبہ کر کے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کی طرف نہ آئے اور ہر قسم کا چھوٹا بڑا فیصلہ اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق نہ کرے۔‘‘

[تفسیر ابنِ کثیر(رحمۃ اللہ علیہ) :صفحہ ۷۷۲]

شیخ حامد الفقی(رحمۃ اللہ علیہ) ابن کثیر(رحمۃ اللہ علیہ) کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں

’’ان تاتاریوں کی طرح بلکہ ان سے بھی بدتر وہ لوگ ہیں جو انگریزوں کے قوانین اپناتے ہیں اور اپنے مالی، فوجداری اور عائلی معاملات کے فیصلے ان کے مطابق کرتے ہیں اور ان انگریزی قوانین کو اللہ اور اس کے رسول ا کے احکامات پر مقدم رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ بغیر کسی شک و شبہ کے مرتد اور کافر ہیں جب تک وہ اس روش پر برقرار ہیں اور اللہ کے حکم کی طرف رجوع نہیں کرتے۔ وہ اپنا نام کچھ بھی کیوں نہ رکھ لیں، انہیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور وہ اسلام کے ظاہری اعمال میں سے جتنے چاہیں عمل کر لیں، وہ سب کے سب بیکار ہیں جیسے نماز، روزہ اور حج و عمرہ وغیرہ۔ ‘‘

[فتح المجیدص: ۸۳۸]


اسی طرح اسمبلی کو یہ حق دینے والے بھی مشرک ہیں کہ وہ سیاسی ‘ معاشی ‘ دیوانی اور بین الاقوامی قانون کے بنانے میں کتاب وسنت کے پابند نہیں ۔ ان کی اکثریت جو قانون بناتی ہے ۔ اس کی اطاعت لازم قرار دینے والے دراصل اس کی عبادت کرتے ہیں کیونکہ ﷲ کے قانون پر چلنا ﷲ کی عبادت ہے اور غیر ﷲ کے قانون پر چلنا غیر ﷲ کی عبادت ہے۔

عظیم محدث اسحاق بن راھویہ (رحمۃ اللہ علیہ) کہتے ہیں:

اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ جس نے اللہ کو یا رسول اللہ ﷺ کو گالی دی یا اللہ کے نازل کردہ دین میں سے کسی حکم کورد کردیا یا کسی نبی کو قتل کیا ہو گا اگرچہ وہ اللہ کی شریعت کا اقرار بھی کر رہا ہوپھر بھی وہ کافر ہے۔

[التمہید لابن عبدالبر۴/۲۲۶]


شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ) نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دینے والے کو کافر قرار دیا ہے مگر اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ یہ کام زبانی کرے اگر عملاً بھی ایسا کیا تو تب بھی کفر ہوگا بلکہ زبانی سے زیادہ عملی طور پر حلال کو حرام یا حرام کو حلال قرار دینا شدید کفر ہے جیسا کہ الصارم المسلول میں فرماتے ہیں جس نے (عملاً) حرام کو حلال قرار دیا وہ بالاتفاق کافر ہے اس کا قرآن پر ایمان ہی نہیں ورنہ اس کے حرام کو حلال یا حلال کو حرام کیوں قرار دیتا؟ کسی حرام کوحلال قرار دینے کامطلب یہ ہوا کہ ایسا شخص یا تو یہ سمجھتا ہے کہ اس چیز کو اللہ نے حرام قرار نہیں دیا اگر ایسی بات ہے تو اس شخص کاربوبیت پر ایمان ناقص ہے اور رسالت محمد ﷺ پر بھی لہٰذا یہ تو شریعت کاخالص انکار ہے اور اگر وہ اس بات کا عقیدہ تورکھتا ہے کہ یہ چیز اللہ و رسول ﷺ نے حرام قرار دی مگرا سکے باوجود وہ اس حرام کو حلال سمجھتاہے تو پہلے والے سے بھی شدید کافر ہو گا۔ یااس شخص کاخیال ہوتا ہے کہ اللہ کی حرام کردہ کو حلال یاحلال کردہ کو حرام کرنے سے اللہ سزا نہیں دے گا ۔ اگر یہ خیال ہے توپھر اس شخص نے رب کو پہچانا نہیں ۔ اگر سب سمجھتا ہے پھر بھی ایسا عمل کرتا ہے تو یا اپنی خواہشات کی اتباع کر رہا ہے یا شرعی احکام سے نفرت کی بنا پر اگر ایسا ہے تو اسکا کفر مکمل طور پر واضح ہے ایسے لوگوں کے کفر پر قرآنی دلائل بیشمار ہیں۔ [الصارم المسلول: ۴۹۹]

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:

’’ اگر حاکم دیندار ہے لیکن عدم علم کی بنیاد پر فیصلہ صادر کرتا ہے تو وہ جہنمی ہے اور اگر وہ شریعت سے واقف ہے لیکن اس معلوم شدہ حق کے خلاف فیصلہ کرتا ہے تو بھی وہ جہنمی ہے ۔اور اگر بلا علم وعدل فیصلہ دیتا ہے تو وہ جہنم کا سب سے زیادہ مستحق ہے۔‘‘

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:

’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس شخص کا یہ اعتقاد ہو کہ شریعت کے مطابق فیصلہ اور اس کی پیروی واجب نہیں وہ کافر ہے ۔لہٰذا اگر کوئی شخص لوگوں کے معاملات میں شریعت سے ہٹ کر ایسے قانون کے مطابق فیصلہ دیتا ہے جسے وہ عادلانہ قانون سمجھتا ہے تو وہ بھی کافر ہے ۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہر مذہب وملت عموماً منصفانہ فیصلہ کا حکم دیتی ہے ۔ کبھی یہ عدل وانصاف کسی دین میں موجود ہوتا ہے اور اُس دین کے اکابر اُسی کا حکم دیتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اسلام کی طرف انتساب کرنے والے مسلمان اپنی عادات کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں یعنی اپنے آباواجداد کے فیصلوں کو دیکھ کر ویسا ہی ویسا کردیتے ہیں ،اس طرح کہ امرائے سلطنت کا عام اعتقاد ہوتا ہے کہ عوام کے جذبات کاخیال رکھ کر ہی فیصلہ کرنا چاہیے تاکہ لوگ ان سے متنفر نہ ہوں ، یہ بھی سراسر کفر ہے ۔ بہت سے لوگ اپنا انتساب اسلام کی طرف کرتے ہیں لیکن کتاب وسنت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے بلکہ فیصلہ کے وقت لوگوں یا اپنے آباء واَجداد کی رَوِش کو دیکھتے ہیں ، انہیں اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ شریعت کے مطابق فیصلہ کرنا واجب ہے لیکن پھر بھی وہ شریعت کے برخلاف فیصلہ کو اپنے لیے جائز سمجھ لیتے ہیں ، ایسے لوگ بھی کافر ہیں۔‘‘

[مجموع الفتاویٰ]


بعض لوگ قصۂ یوسف علیہ السلام سے یہ بات نکالتے ہیں کہ طاغوت کی حکومت میں ایک مسلمان کا اسمبلی ممبر بننا یا وزیر بننا جائز ہے۔ اس بات میں تو کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش نہیں کہ جو حاکم ‘ شریعت سے بے پرواہ ہوکر کسی اور قانون ودستور کی حکمرانی مقرر کرے وہ طاغوت ہے اور اس کے بنائے ہوئے قانون کاانکار ایک ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کے لیے بھی شرطِ ایمان ہے ۔

جب حقیقت حال یہ ہے تو کیا ایک کریم ابنِ کریم ہستی یوسف علیہ السلام کے بارے میں ایسا سوچنا بھی جائز ہوگا کہ وہ طاغوتی دستور ونظام کے نفاذ میں ایک واسطہ ہوں؟ معاذ ﷲ! یہ تو صریح ظلم وزیادتی ہے ۔ تفصیلات کچھ بھی ہوں یقینا نبی کی حیثیت سے طاغوت کے سب سے بڑھ کر انکار کرنے والے اور ﷲ کے حکم کے سب سے زیادہ فرمانبردار اور اس کے قانون کو قائم کرنے والے تھے۔

لہٰذا اُن لوگوں کے لئے جو آج کی طاغوتی حکومتوں کی چاکری میں مصروف ہیں اور ان کے بنائے ہوئے دستور وقوانین کی حلف برداریاں کرتے پھرتے ہیں اور اکثریت کی حاکمیت واختیار کو تسلیم کرتے ہیں ‘ برگزیدہ نبی کے قصے میں ہرگز کوئی گنجائش موجود نہیں ۔ وہ تو اپنی تقاریر ومواعظ میں لوگوں کو ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہتے تھے :

اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ’’حاکمیت کا حق صرف ﷲ کے لیے ہے ۔‘‘ [یوسف : ۶۷]

اِسی طرح تمام انبیاء علیہم السلام کی زندگیاں وقت کے طاغوتوں کے خدائی دعووں اور اِن طاغوتوں کے رائج نظاموں کے خلاف آواز اُٹھانے اور ﷲ کے قانون ‘ ﷲکے نظام کو نافذ کرنے میں گزریں ۔ جیسا کہ ﷲ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایا :

اِذْھَبْ اِلٰی فِرْعَونَ اِ نَّہُ طَغٰی وَ قُلْ ھَلْ لَکَ اِلٰیٓ اَنْ تَزَکّٰی
’’فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہوگیا ہے اور اس سے کہو کہ کیا تو پاکیزگی اختیار کرنے پر تیار ہے؟۔ " [النازعات : ۱۷-۱۸]


وہ اپنے آپ کو ربّ کہتا اور کہلواتا تھا (یعنی وہ طاغوت بن گیا تھا) اور اپنے طاغوتی نظام پر لوگوں کو زبردستی چلواتا تھا ۔ لیکن موسیٰ علیہ السلام نے اس کے رب ہونے کا انکار کیا اور کروایا اور اس کے طاغوتی نظام کو ختم کرکے ﷲ کا نظام لوگوں پر نافذ کیا ۔ یہی ہمیشہ انبیاء علیہم السلام کا مقصد ومنہج رہا ہے کہ طاغوت سے کفر کریں اور طاغوتی نظاموں کو ختم کرکے ایک ﷲ کا قانون ونظام اُس کے بندوں پر نافذ کریں۔

مگر آج کے نام نہاد اسلامی ممالک میں رائج جمہوری نظام سلطنت میں اسمبلی کے ممبران کو شریعت کے احکامات کے نفاذ یا عدم نفاذ پر بحث وفیصلے کا اختیار ہوتا ہے ۔ ایسی گستاخی اور جسارت تو فرعون جیسے طاغوت نے بھی نہ کی تھی کہ شریعت کو ﷲ کی طرف سے تسلیم کرکے بھی اس پر بحث کرتا کہ اِس کو انسانوں پر نافذ کروں یا نہ کروں ۔ آسمان سے نازل شدہ شریعت کو منظور نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا جاتا ہے ۔ بلکہ اسلام میں داخل ہی اُس وقت ہوا جاتا ہے جب ﷲ اور ر سول کے ہر حُکم کے سامنے پارلیمنٹ سمیت تمام مخلوقات کے ہر قسم کے اختیار کی واضح ترین نفی کردی جائے ۔

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللہُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ [الاحزاب:۳۶]
’’کسی مومن مرد یاعورت کے لائق ہی نہیں کہ اﷲاور اُس کا رسول ا کسی بات کا فیصلہ فرمادیں پھر اُن کے لیے کسی اختیار کی گنجائش باقی رہ جائے ۔‘‘

شیخ عبداللہ عزام (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:

جس نے بھی اللہ کی شریعت سے اپنے فیصلے کرانا چھوڑ دیا، یا کسی بھی قانون کو اللہ کی شریعت پر ترجیح دیدی یا اللہ کی شریعت کے ساتھ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو ملا دیا، برابر کر دیا تو وہ شخص دائرہ اسلام سے خارج ہوگیا اس نے دین کا طوق اپنے گلے سے اتار دیا اور اپنے لئے یہ راستہ چن لیا کہ وہ کافر ہوکر اسلام سے خارج ہوجائے۔

[العقیدہ وٲثرھا فی بناء الجیل للشیخ عبداﷲعزام(رحمۃ اللہ علیہ)ص ۱۱ ۶]


یہ معلوم ہوجانا ضروری ہے کہ ایک غیر شرعی نظام کے حوالے سے چار قسم کے افراد کُفر میں مبتلا ہوتے ہیں -

﴿۱﴾ وہ ، جو غیر شرعی قانون بنائے یا بنانے کا اختیا ررکھے ۔جیسے اراکین اسمبلی وغیرہ ۔
﴿۲﴾ وہ، جو غیر شرعی قانون سے فیصلہ کرے ،جیسے مجسٹریٹ ،جج وغیرہ۔
﴿۳﴾ وہ جو غیر شرعی قانون کو بزور نافذ کرے ،جیسے پولیس ،فوج وغیرہ ۔
﴿۴﴾ وہ جو غیر شرعی عدالت سے فیصلہ کرائے ، یا اُس کے افعال پر راضی ہو۔

پہلی دو اقسام ہی طاغوت ہیں ۔ جبکہ دوسری دو اقسام طاغوت کے ساتھیوں اور پُجاریو ں کے زمرے میں آتی ہیں۔

علامہ ابن حجر (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایسے حکمران جن سے کفریہ افعال کا ظہور ہو ہر مسلم پر فرض ہوجاتا ہے کہ اس بارے میں اپنی ذمہ داری نبھانے کیلئے اٹھ کھڑا ہو جس میں طاقت و قوت ہوگی اسے ثواب ملے گا جو طاقت کے باوجود سستی کریگا اسے گناہ ملے گا اورجس کی طاقت نہ ہو اسے چاہیئے کہ ایسے ملک سے ہجرت کر لے اس پر اجماع ہے ۔

[فتح الباری۔۱۲۳/۱۳]

صحیحین میں عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں:

’’ہم سے نبی کریم ﷺ نے اس بات پر بیعت لی کہ ہم سنیں گے اطاعت کریں گے چاہے سخت حالات ہوں یا سازگار خوشی ہو یا غمی، ہم پر کسی کو ترجیح دی جائے (ہم محروم کئے جائیں) پھر بھی اور ہم اہل حکومت سے اختیارات واپس نہ لیں سوائے اس صورت کے کہ ان سے ایسا واضح کفر سرزد ہوجائے جس کے کفر ہونے پر اللہ کے دین میں صریح دلیل موجود ہو۔‘‘

[بخاری مسلم کے علاوہ احمد بیہقی وغیرہ نے بھی اس کو مختلف ابواب و عنوانات کے تحت روایت کیاہے]


ابن ابطال (رحمۃ اللہ علیہ) کہتے ہیں:

فقہاء نے ایسے حکمران کی اطاعت پر اجماع کیاہے جس کی برائیاں اچھائیوں سے زیادہ ہوں اس کے ساتھ مل کر جہاد کرنے پر بھی اجماع ہے اس کی اطاعت اس کے خلاف بغاوت سے
اس لئے بہتر ہے کہ بغاوت میں لوگوں کا خون بہے گا اس کی دلیل یہ مذکورہ حدیث اور اس جیسی دیگر روایات ہیں البتہ وہ حکمران اس سے مستثنیٰ ہیں جو ایسے کفریہ کام کریں جن کے کفر ہونے میں کوئی شبہ نہ ہو یعنی صریح کفر کریں توانکی اطاعت جائز نہیں ہے بلکہ طاقت و قدرت ہوتو ا س کے خلاف جہاد کرنا چاہیئے۔

[فتح الباری ص ۸/۱۳]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:

مسلمانوں کے علماء نے اس بات پر اتفاق کیاہے جب کوئی گروہ )حکمرانوں کا(اسلام کے ظاہری اور متواتر چلے آنیوالی ذمہ داریوں اور واجبات کی ادائیگی سے دست کش ہوجائیں ان سے قتال کرنا واجب ہوجاتا ہے۔

[مجموع الفتاوی۔ ۵۴۰/۲۸]

امام شوکانی (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں :

ان لوگوں کے بارے میں جو اپنے فیصلے طاغوتی احکام کے پاس لے جاتے ہیں کہتے ہیں اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ یہ لوگ اللہ اور اسکی شریعت کے منکر ہیں وہ شریعت جس کی اتباع کا حکم اللہ نے محمد رسول اللہ ﷺ کی زبانی دیا ہے ۔
بلکہ یہ لوگ آدم علیہ السلام سے لیکر اب تک تمام آسمانی شریعتوں کے منکر ہیں ان کے خلاف جہاد لازم ہوگیا ہے جب تک کہ یہ اسلام کے احکام قبول نہ کریں اور ان پر یقین نہ کر لیں اور اپنے باہمی معاملات کے تصفیے شریعت مطہرہ کے مطابق نہ کریں اور ان تمام شیطانی طاغوتی امور کو چھوڑ نہ دیں جن میں یہ ملوث ہیں۔


[الدواء العاجل ۔ ص ۳۴]


اولیاء الطاغوت (طاغوت کے ساتھی) کون ہیں؟
قرآن مجید نے صرف طاغوت ہی نہیں ’’اولیاء الطاغوت‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے ۔ کیونکہ طاغوت کو جب تک طاغوتی منصب پر فائز نہ کیا جائے وہ ربّ بن ہی نہیں سکتا ۔ نہ ہی وہ اپنے لاؤ لشکر اور حمایتیوں کے بغیر لوگوں پر اپنا قانون نافذ کرسکتا ہے ۔ چنانچہ وہ تمام ادارے اور محکمے نیز ان میں کام کرنے والے افراد جو ملک میں طاغوت کے قوانین کا نفاذ کرتے ہوں اور اس کے تحفظ کے ذمہ دار ہوں ‘ سب اولیاء الطاغوت (طاغوت کے ساتھ ‘مددگار اور رُفقاء) کے زُمرے میں آتے ہیں ۔ جیسے فوج ‘پولیس ‘رینجرز‘فضائیہ ، بحریہ ، اور عدالتوں کے وکلاء وغیرہ ۔ اور جو لوگ طاغوت کی اطاعت پر راضی ہوں یا اس سے کفر کرنے پر آمادہ نہ ہوں وہ ’’عباد الطاغوت‘‘ (طاغوت کے بندے/پُجاری) ہیں۔

دین اﷲکے لیے خالص نہیں ہوسکتا جب تک کہ طاغوت ‘ اولیاء الطاغوت اور عبادالطاغوت تینوں سے صاف صاف کفر اور دشمنی کا اعلان نہ کردیاجائے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللہِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللہِ وَحْدَهُ [الممتحنۃ : ۴]

’’تم لوگوں کے لیے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہہ دیا کہ ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جن کو تم اﷲکو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں ،ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہوگئی اور بیر پڑگیا جب تک کہ تم ایک اﷲپر ایمان نہ لے آؤ۔‘‘


طاغوت کی ہمنوائی بلکہ حمایت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ملکی انتخابات کی جاہلی رسم میں شرکت کی جائے اور ووٹ ڈالے جائیں اور ڈلوائے جائیں .......اس بات سے بے نیاز اور بے پرواہ ہوکر ملک کا آئین /دستور منتخب ممبران اسمبلی کو آزادانہ قانون سازی کے کیا کیا خدائی اختیارات عطاکرتا ہے ‘ اور یہ ارکان پارلیمنٹ بعد میں ﷲ کے حقِ حاکمیت میں کس کس طرح ڈاکہ نہ ڈالیں گے ۔!

طاغوت کے انتخاب کی صورت میں باطل کی یہ ہمنوائی تو بہت بڑی بات ہے ﷲ نے تو ظالمین کی جانب تھوڑے سے جھکاؤ اور میلان کی وجہ سے جہنم کی وعید سنائی ہے :

وَلَا تَرْکَنُوا اِلَی الَّذِ ینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ [ھود : ۱۱۳]
’’اور جو لوگ ظالم ہیں ان کی طرف مائل نہ ہونا ‘نہیں تو تمہیں (دوزخ کی) گ آلپٹے گی ۔‘‘

امام محمد بن عبدالوہاب (رحمۃ اللہ علیہ)سے اس جھکاؤ کی تفسیر بھی سن لیجئے :

’’ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :﴿لَا تَرْکَنُوا﴾سے مراد ہے میلان بھی نہ رکھو ۔ عکرمہ(رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں مراد ہے کہ تم ان کی بات نہ مانو ان سے محبت اور لگاؤ نہ رکھو ، نہ انہیں (مسلمانوں کے) امور سونپو ‘ مثلاً کسی فاسق ‘ فاجر کو کوئی عہدہ سونپ دیا جائے ۔ امام سفیان ثوری (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں ۔’’جو ظالموں کے ظلم کے لیے دوات بنائے یا قلم تراش کر دے یا انہیں کاغذ پکڑا دے وہ بھی اس آیت کی وعید میں آتا ہے ۔‘‘

ارشاد نبویﷺہے ((اذا قال الرجل للمنافق سید فقد اغضب ربہ عز وجل))، [مستدرک حاکم]
’’جب کسی شخص نے منافق کو سید کہا تو اس نے اپنے ربّ کو ناراض کیا ‘‘
جناب بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’منافق کو صاحب تک بھی نہ کہو کیونکہ اگر وہ تمہارا صاحب ہے تو تم نے اپنے ربّ کو ناراض کرلیا ۔

[مجموعۃ التوحید :۱۱۸-۱۱۹]


اولیاء الطاغوت اور عبادالطاغوت سے کفر اور دشمنی کرنا اسی طرح فرض ہے جس طرح طاغوت سے کفر کرنا کیونکہ جو ﷲ کے دشمن کا دوست ہے ‘ وہ ﷲ اور اس کے دوست کا دشمن ہے ۔ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ طاغوت سے کفر کی صورت یہ ہے کہ طاغوت کے باطل ہونے کا اعتقاد رکھاجائے ۔ اُس سے بُغض وعداوت رکھتے ہوئے اُس سے اور اُس کے ساتھیوں اور پیروکاروں سے علیحدہ رہاجائے ۔ اور ان سب سے برأت اور دشمنی کا اعلان قول اور عمل دونوں کے ساتھ کیا جائے ۔

اسلامی شریعت میں مشرکوں سے مخالفت فرض ہے ۔ مگر طاغوت سے کفر وبراءت (بیزاری) اسلام کا فرضِ اولین ہے ۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ کسی موحد کی طاغوت یا اُسکے ساتھیوں اور پیروکاروں کے ساتھ دوستی ہو ۔ کیونکہ تحریک اسلامی کی ٹکر طاغوت سے ہونا ناگزیر ہے ۔ اہل حق و باطل میں معرکہ عنقریب ہونے والا ہے لہٰذا اہل حق کا فرض ہے کہ اپنے ہتھیاروں سے لیس ہوں اور دشمنان دین کے خلاف اللہ سے مدد و استقامت طلب کریں دشمن مرتدین کی شکل میں سامنے ہے اور ان کی پشت پر یہود نصاری اور لادین طبقات ہیں جنہوں نے خود کو علم و عمل سے مسلح کر رکھا ہے اب مسلمانوں سے یہی التجا ہے کہ مسلمان بھائیو، بیٹو، جوانو، موت کی طرف بڑھو زندگی خود بخود تمہارے قدم چومے گی۔

ﷲ جل جلالہ سے دعاہے کہ ﷲ تعالیٰ ہمیں توحید خالص کو سمجھنے ‘ اس پر عمل کرنے اور اسے لوگوں میں عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین)

ابو عبداللہ مہاجر السلفی حفظہ اللہ
 
Top