- شمولیت
- اگست 28، 2019
- پیغامات
- 70
- ری ایکشن اسکور
- 12
- پوائنٹ
- 56
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ کے نزدیک محبوب و مبغوض اعمال وحرکات
اللہ کے نزدیک محبوب و مبغوض اعمال وحرکات
ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی
الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم،امابعد
برادران اسلام!
آپ لوگوں کو اللہ رب العزت سے قریب کرنے اور اللہ کی ناراضگی سے بچانے کے لئےآج ایک اور اہم عنوان ’’ اللہ کے نزدیک محبوب ومبغوض اعمال وحرکات ‘‘ لے کرحاضر ہوا ہوں ،اس لئے آج کے بیان میں جوجوباتیں پیش کی جائیں گی اس کو بغورسماعت فرمائیں اوران تمام چیزوں کو ضروربالضروراپنائیں جس کو اپنانارب کو پسند ہے اور اپنے آپ کو ان تمام حرکات وسکنات اوراعمال وکردار سے محفوظ رکھیں جس سے رب کو نفرت ہے۔آگے بڑھنے سے پہلےآئیے سب سے پہلے ہم اللہ سے دعاکرلیتے ہیں کہ اے بارالہ تو ہم سب کو اپنی محبت عطافرما اور اپنی ناراضگی سے ہمیشہ محفوظ رکھ۔آمین۔ثم آمین یارب العالمین۔
1۔ذکرکے وہ کلمات جو رب کو بہت محبوب ہیں:
میرے دوستو!ہم اورآپ یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ذکرالٰہی کتنی بڑی عبادت ہے،خود ذات باری تعالی نے یہ اعلان کردیا ہے کہ ’’ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ ‘‘بے شک اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔(العنکبوت:45)اورجناب محمدعربیﷺ نے تو یہاں تک فرمادیا ہے کہ ذکر الٰہی کرنے والا انسان زندہ اور نہ کرنے والا انسان مردہ ہے جیسا کہ سیدنا ابوموسیؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ مَثَلُ الَّذِي يَذْكُرُ رَبَّهُ وَالَّذِي لاَ يَذْكُرُ رَبَّهُ مَثَلُ الحَيِّ وَالمَيِّتِ ‘‘ جو انسان اللہ کو بارباریادکرتاہے اور جوانسان ذکرالٰہی سے دور رہتاہےاور اللہ کا ذکرنہیں کرتاہے تو ان دونوں انسانوں کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔(بخاری:6407)اب آپ خود فیصلہ کرلیں کہ آپ کس زمرے میں شامل ہیں ، زندوں کی لسٹ میں ہیں یا پھر مردوں کی لسٹ میں؟اس لئے میرے بھائیو اور بہنو!کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے رہاکروکیونکہ اسی میں تو دونوں جہان کی کامیابی ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے ’’ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ‘‘اوربکثرت اللہ کا ذکر کیاکرو تاکہ تم فلاح پالو۔(الجمعۃ:10)ویسے تو آپ بہت سارے الفاظ کے ذریعے ذکر الٰہی کرسکتے ہیں مگر کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کے ذریعے اللہ کا ذکر کرنا خود رب العزت کو بہت پسند ہے،اوروہ کلمات سبحان اللہ ،الحمدللہ،لاالہ الا اللہ اور اللہ اکبر ہے ،جیسا کہ سمرہ بن جندبؓ راویٔ حدیث ہیں کہتے ہیں کہ جناب محمدعربیﷺ نے فرمایا ’’ أَحَبُّ الْكَلَامِ إِلَى اللهِ أَرْبَعٌ سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ ‘‘ کہ چارکلمے سبحان اللہ ،الحمدللہ،لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں،پھر آخرمیں آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ لَا يَضُرُّكَ بِأَيِّهِنَّ بَدَأْتَ ‘‘ تم ان چاروں کلمات میں سے جس کلمے سے چاہو اپنے رب کے ذکرکی شروعات کرسکتے ہو۔(مسلم:2137)میرے بھائیو اور بہنو!ان چاروں کلمات کی فضیلت کے بارے میں ،میں آپ کو کیابتاؤں کہ یہ صرف رب کو محبوب ہی نہیں ہیں بلکہ اس کی عظیم فضیلتیں بھی احادیث میں بکثرت موجود ہیں ،کسی حدیث میں یہ مذکور ہے کہ آپﷺ نے یہ فرمایا ’’ تَنْفُضُ الْخَطَايَا كَمَا تَنْفُضُ الشَّجَرُ وَرَقَهَا ‘‘ کہ جس طرح سے (موسم بہار میں )درختوں کی شاخوں سے پتے ایک ایک کرکے گِر اور جھڑجاتے ہیں ٹھیک اسی طرح سے یہ کلمات بھی ایک انسان کےچھوٹے چھوٹے گناہوں کو زائل کردیتے ہیں۔(الصحیحۃ:3168) کسی حدیث میں یہ مذکور ہے کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ ‘‘ یہ چاروں کلمات مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن پر سورج کی روشنی پڑتی ہے۔(مسلم:2695)اورسورج کی روشنی تو ساری دنیا پرپڑتی ہے تو گویا کہ یہ چاروں کلمات پوری دنیا سے زیادہ قیمتی ہیں،اسی طرح سے ایک حدیث میں تو آپﷺ نے اس کی ایک بہت ہی عظیم فضیلت بھی بیان کی ہے کہ جو تم تسبیح (سبحان اللہ)،تہلیل(لا الہ الا اللہ) اور تحمید(الحمدللہ) کے ذریعے اللہ کا ذکرکرتے ہو تو یہ ذکر کے کلمات ’’ يَنْعَطِفْنَ حَوْلَ الْعَرْشِ ‘‘ عرش الٰہی کے اردگردعاجزي كے ساتھ چکر لگاتے ہیں اور ’’ لَهُنَّ دَوِيٌّ كَدَوِيِّ النَّحْلِ ‘‘ ان کلمات میں شہد کی مکھی کی طرح بھنبھناہٹ کی آواز ہوتی ہے،اور ’’ تُذَكِّرُ بِصَاحِبِهَا ‘‘ یہ کلمات اللہ کے حضوراپنے پڑھنے والے کا تذکرہ کرتی ہیں۔سبحان اللہ۔ان کلمات کی کیا فضیلت ہیں ،پھرآخر میں آپﷺ نے یہ فرمایا کہ ’’ أَمَا يُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَوْ لَا يَزَالَ لَهُ مَنْ يُذَكِّرُ بِهِ ‘‘ تو کیا اب تم لوگ یہ نہیں چاہتے کہ تمہارا بھی کوئی ایسا عمل ہو جو عرش الٰہی کے پاس تمہاری یاد دلاتارہے۔(الصحیحۃ:3358،ابن ماجہ:3809) سناآپ نے کہ ان چاروں کلمات کی کتنی عظیم فضیلتیں ہیں اس لئے میرے بھائیو اور بہنو ان کلمات کو کبھی نہ چھوڑنا،تو میں یہ کہہ رہاتھا کہ یہ چاروں کلمات رب کو بہت ہی محبوب ہیں، اسی طرح سے ایک دوسری حدیث کے اندر ہے سیدنا ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے ان سے کہا کہ اے ابوذر ’’ أَلَا أُخْبِرُكَ بِأَحَبِّ الْكَلَامِ إِلَى اللهِ ‘‘ کیا میں تمہیں ان کلمات ذکر کے بارے میں نہ بتادوں جو رب کو بہت پسند ہیں ؟تو ابوذرؓ نے کہا کہ کیوں نہیں !اے اللہ کے نبیﷺ ’’ أَخْبِرْنِي بِأَحَبِّ الْكَلَامِ إِلَى اللهِ ‘‘مجھے وہ کلمات ضروربتادیجئے جو رب کو بہت پسند ہیں توآپﷺ نے فرمایا کہ ’’ إِنَّ أَحَبَّ الْكَلَامِ إِلَى اللهِ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ ‘‘ بے شک اللہ کے نزدیک سب سے محبوب کلام یہ سبحان اللہ وبحمدہ ہے۔ (مسلم:2731)اسی طرح سے ایک تیسری روایت ہےکہ آپﷺ نے فرمایا ’’ أَحَبُّ الْكَلَامِ إِلَى اللَّهِ سُبْحَانَ اللَّهِ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ ‘‘اللہ کے نزدیک پسندیدہ ومحبوب کلمات ذکر یہ ہیں ،سبحان اللہ لا شریک لہ ،لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر،لاحول ولا قوۃ الا باللہ،سبحان اللہ وبحمدہ۔(الادب المفرد:638، صحیح الادب المفرد للألبانیؒ:497) اور ایک چوتھی روایت کے اندر ہے کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ أَحَبُّ الكَلاَمِ إِلَى اللهِ تعالی مَا اصْطَفَاہ اللَّهُ لِمَلاَئِكَتِهِ سُبْحَانَ رَبِّي وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ رَبِّي وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ رَبِّي وَبِحَمْدِهِ ‘‘کہ اللہ کے نزدیک کلمات ذکر میں سے سب سے محبوب کلمہ وہ ہے جس کلمے کو اللہ رب العزت نے فرشتوں کے لئے منتخب کیا ہے وہ سبحان ربی وبحمدہ ،سبحان ربی وبحمدہ،سبحان ربی وبحمدہ ہے۔صحیح الجامع للألبانیؒ:175)اسی طرح سے ایک پانچویں حدیث کےاندر یہ بات مذکور ہے کہ آپﷺ نے فرمایا’’ إِنَّ أَحَبَّ الْكَلَامِ إِلَى اللهِ أَنْ يَقُولَ الْعَبْدُ ‘‘بے شک اللہ رب العزت کو سب سے زیادہ محبوب کلام یہ ہے کہ بندہ یہ کلمات پڑھے ’’ سُبْحَانَكَ اللهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرَكَ ‘‘ کہ اے اللہ تو اپنی تعریف وتوصیف کے ساتھ پاک ہےاور تیرانام بھی بابرکت ہے،تیرامقام ومرتبہ بھی بلندوبالا ہے اورتیرے سواکوئی معبود برحق نہیں۔(الصحیحۃ:2598)تومیرے بھائیو اور بہنو!یہ سب کلمات ذکرایسے ہیں جو رب العزت کو بے حد محبوب ہیں اس لئے ان سب کو ہم اورآپ ہمیشہ لازم پکڑلیں اور اپنی زندگی کے ہرموڑ پر چلتے پھرتے،اٹھتے بیٹھتے ،سوتے جاگتے،ہروقت اور ہرآن وہرلمحہ ان الفاظ کے ذریعے اپنے رب کا ذکرکرتے رہیں اورہرطرح کی خیروبھلائی اور رب کی رحمت وعنایات کو پاتے رہیں کیونکہ ذکرکرنے والوں سے اللہ رب العزت نے اپنے کلام پاک میں یہ خود وعدہ لیاہے کہ ’’ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ ‘‘ اس لئے تم میرا ذکر کرو،میں بھی تمہیں یاد کروں گا۔(البقرۃ:152)اورحدیث قدسی میں بھی اللہ کا یہ اعلان ہے کہ ’’ أَنَا مَعَ عَبْدِي إِذَا هُوَ ذَكَرَنِي وَتَحَرَّكَتْ بِي شَفَتَاهُ ‘‘ میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتاہوں،جب وہ میرا ذکرکرتاہے اور اس کے ہونٹ میرے ذکرکے ساتھ حرکت کرتے رہتے ہیں ۔(ابن ماجہ:3792،صححہ الألبانیؒ)اور ایک دوسری حدیث قدسی میں تو اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ ’’ وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ ‘‘جب تک میرا بندہ میرے ذکرمیں مشغول رہتاہے تب تک میں اس کے ساتھ ہوتاہوں،پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتاہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتاہوں اور اگر وہ مجھے کسی محفل ومجلس میں یادکرتاہے تو میں اسے اس سے بہترمجلس یعنی فرشتوں کی مجلس میں یاد کرتاہوں۔(بخاری:7405،مسلم:2675)سبحان اللہ۔
2۔رب العزت کو تین کام ناپسند ہیں:
میرے پیارے پیارے اسلامی بھائیو اور بہنو!تین کام ایسے ہیں جن کا کرنا اللہ رب العزت کو بالکل بھی پسند نہیں ہے ،سب سے پہلی بات تو یہ ہے ہروقت بک بک کرتے رہنا اورہروقت فضول باتیں کرتے رہنا،بہت سارے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ ہر معاملے میں جب تک وہ اپنی زبان نہ کھولے تب تک ان کو صبرہی نہیں ہوتا،جب دیکھئے بک بک کرتے رہتے ہیں،اور دوسری بات جو اللہ رب العزت کو ناپسند ہے وہ ہے اپنے مال کو ضائع وبرباد کرنا،میرے دوستو جہاں ایک طرف اللہ رب العزت کو اسراف وفضول خرچی کرنا ناپسند ہے وہیں دوسری طرف رب العزت کو یہ بات بھی بالکل ناپسند ہے کہ کوئی انسان اپنے مال کو ضائع وبرباد کرے ،چاہے وہ جس طریقے سے بھی ہو،اہل علم نے تو یہاں تک فتوے دئے ہیں کہ مہنگا سے مہنگا کفن دینا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں مال کا ضیاع ہے اور اللہ رب العزت کو مال ضائع وبرباد کرنا پسند نہیں ہے اور تیسری بات جو اللہ رب العزت کو ناپسند ہے وہ ہے بلاوجہ میں سوال کرتے رہنا،علماء سے طرح طرح کے عنقاءمسائل پوچھنااوردیکھا یہ جاتا ہے کہ آج کل لوگ سوال تو بہت کرتے ہیں مگر عمل سے کوسوں دور رہتے ہیں تو جولوگ بھی ایسا کرتے ہیں وہ لوگ سن لیں کہ ایسا کرنا رب العزت کوبالکل بھی پسند نہیں ہے جیسا کہ سیدنامغیرہ بن شعبہ ؓبیان کرتے ہیں کہ تاجدار مدینہ واحمد مجتبیﷺ نے فرمایا ’’ إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلاَثًا ‘‘بے شک رب العزت نے تمہارے لئے تین باتوں اورتین کاموں کو ناپسند کیا ہے، نمبر ایک’’ قِيلَ وَقَالَ ‘‘ فضول بات کرنے اور ہروقت بک بک کرتے رہنا رب کو ناپسند ہے،نمبر دو’’ وَإِضَاعَةَ المَالِ ‘‘ اور اپنے مال ومنال کو ضائع وبربادکرنا یہ بھی رب کو ناپسند ہے اورنمبر تین’’ وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ ‘‘بیجا سوال کرنے کو بھی رب ناپسند کرتاہے۔(بخاری:1477) ذرا غور کرو میرے بھائیو! جب ہروقت بک بک کرتے رہنا اوراپنے مال کو ضائع وبرباد کرنا اوراسی طرح سے بلاوجہ میں سوال کرنا رب العزت کو ناپسند ہے تو جو بھی ایسا کرے گا وہ رب العزت کی نظر میں مبغوض ہوگا۔اس لئے میرے بھائیو اور بہنو! اپنی زبان کی حفاظت کرو اوراگر اللہ نےآپ کو مال ودولت سے نوازا ہے تو اس کی قدر کرتے ہوئے اس کی حفاظت کرو،ناجائز اور واہیات رسم ورواج پر اپنے مال کو خرچ نہ کیا کرو اور نہ ہی بلاوجہ کےسوالات کیا کرو۔
3۔ رب کوپیٹ کے بل لیٹنا ناپسند ہے:
میرے نوجوانو!بہت سارے نوجوانوں کو دیکھا یہ جاتاہے کہ وہ پیٹ کے بل ہی سوتے ہیں تو جولوگ پیٹ کے بل سوتے ہیں ایسے لوگ سن لیں کہ اس طریقے و اس کیفیت سے سونا رب العزت کو بالکل بھی پسند نہیں ہے جیسا کہ سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں ’’ رَأَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلاً مُضْطَجِعًا عَلَى بَطْنِهِ ‘‘ کہ آپ ﷺ نےایک آدمی کو پیٹ کے بل لیٹے ہوئے دیکھا تو فرمایا ’’ إِنَّ هَذِهِ ضِجْعَةٌ لاَ يُحِبُّهَا اللَّهُ ‘‘ کہ اس طرح سے لیٹنا یہ اللہ کو بالکل بھی پسند نہیں ہے(ترمذی:2768 صححہ الألبانیؒ) اور ایک دوسری روایت میں ہے آپﷺ نے فرمایا ’’ إِنَّ هَذِهِ ضِجْعَةٌ يُبْغِضُهَا اللهُ تَعَالىٰ يعني أَلْاِضْطِجَاعُ عَلَى الْبَطَنِ ‘‘کہ بے شک اللہ رب العزت کے نزدیک الٹایعنی پیٹ کے بل لیٹنااور سونا قابل نفرت ہے۔(صحیح الجامع للألبانیؒ:2271)ميرےدوستو !صرف یہی نہیں کہ اس طرح سے پیٹ کے بل لیٹنا اور سونا اللہ کو ناپسند ہے بلکہ یہی وہ کیفیت ہے جس کیفیت سےجہنمیوں کو جہنم میں سلایا جائے گا ، اللہ کی پناہ! سنئے حدیث سیدنا ابوذر غفاریؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مسجد نبوی میں پیٹ کے بل سویا ہواتھا کہ آپﷺ کا وہاں سے گذر ہوا تو آپ نے اپنے قدم مبارک سے مجھے ٹھوکا دیا اور فرمایا کہ اے میرے پیارے جندب! اس طرح سے نہ سویاکر کیونکہ ’’ إِنَّمَا هَذِهِ ضِجْعَةُ أَهْلِ النَّارِ ‘‘یہ جہنمیوں کے لیٹنے وسونے کا انداز ہے ۔(ابن ماجہ:3724 صححہ الألبانیؒ)سنا آپ نے کہ اس طرح سے لیٹنا اور سونا اللہ کو سخت ناپسند ہے اور اس طرح سے جہنمیوں کو لٹایا اور سلایا جائے گا،اس لئےمیرے بھائیو اور بہنو! کسی بھی حال میں اس طرح سے نہ سویا کرو، جہاں ایک طرف اس طرح سے سونا اللہ کو سخت ناپسند ہےوہیں دوسری طرف اس طرح سے سونا ایک انسان کے صحت کے لئے بہت خطرناک بھی ہے،آج میڈیکل سائنس نے بھی یہ ثابت کردیا ہے کہ پیٹ کے بل سونا صحت کے لئے بہت خطرناک ہے،اس سے دل کی بیماریاں اور معدے کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں،کمر اور ریڑھ کی ہڈیوں میں درد کے امکانات بڑھ جاتے ہیں،الٹا لیٹنے سے پھیپھڑوں میں ہوا کا بھرنا بھی دشوار ہوجاتاہے جس کی وجہ سے سانس لینے میں بھی دشوری آتی ہے، اس لئے اس طرح سے کبھی نہ سویا کرو بلکہ سنت کے مطابق دائیں کروٹ سویا کرو۔
4۔کسی مسلمان کو خوش کردینا یہ اللہ کو پسند ہے:
میرے دوستو!اللہ کے نزدیک محبوب اعمال میں سے ایک محبوب عمل یہ بھی ہے کہ کوئی مسلمان کسی مسلمان کے مرجھائے ہوئے اور غمزدہ چہرے پر مسکراہٹ لادےیا پھر کسی غمزدہ اور پریشان حال انسان کا دل بہلادے ،جیسا کہ جناب محمدعربیﷺ نے اس بات کی جانکاری دیتے ہوئے فرمایا ’’ أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ سُرُورٌ تُدْخِلُهُ عَلَى مُسْلِمٍ أَوْ تَكْشِفُ عَنْهُ كُرْبَةً أَوْ تَقْضِي عَنْهُ دَيْنًا أَوْ تَطْرُدُ عَنْهُ جُوعًا ‘‘کہ اللہ رب العزت کے نزدیک محبوب اعمال میں سے یہ عمل بہت ہی زیادہ محبوب وپسندیدہ ہے کہ تم کسی مسلمان بھائی کے چہرے پرخوشی لا دو،یااس سے کسی غم وپریشانی اور دکھ ودرد کو دور کردو،یا پھر اس کا کوئی قرضہ ہی ادا کردو، یا پھرکسی مسلمان کے بھوک کو دورکردو۔(طبرانی:861،صحیح الجامع للألبانیؒ:176،الصحیحۃ:906) سبحان اللہ۔۔ سنا آپ نے میرے بھائیو اور بہنو کہ رسولِ خداﷺ نے کیسے کیسے چھوٹے چھوٹے اعمال کو رب کی رضا وخوشنودی حاصل کرنے والا کام قرار دیا ہے،مگر دیکھا یہ جاتاہے کہ لوگوں کو کسی کےہنستے اور مسکراتے چہرے پرغم والم داخل کرنے میں مزہ آتاہے،سماج ومعاشرے کے اندر لوگ بلاوجہ میں صرف اور صرف حسد وجلن کی وجہ سےکسی کی خوشیوں سے بھری ہنستی کھیلتی زندگی کو تلخیوں میں بدل دیتے ہیں ،کچھ لوگوں کو تو کسی کی خوشحالی بلکہ اپنے خاص بھائی کی خوشحالی دیکھی نہیں جاتی ہے ،جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ اس کو غم والم سے دوچار کرنے کے لئے طرح طرح کے حیلے وہتھکنڈے اپناتاہے تاکہ اس کا بھائی پریشانی سے دوچارہوجائے،تو جولوگ بھی دوسروں کی ہنسیوں کو اجاڑدیتے ہیں وہ لوگ یہ سن لیں کہ وہ دوسروں کی خوشی کو چھین کر خود خوش نہیں رہ سکتے ہیں ،آج جیسا وہ کریں گے کل ان کے ساتھ بھی ویسا ہی ہوگاکیونکہ قدرت کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے ’’ كَمَا تَدِينُ تُدَانُ ‘‘ کہ جیسا بوؤگے ویسا کاٹوگے۔یعنی کہ آج جو کسی کو رلائے گا کل اسے کوئی رلائے گا ،اسے کوئی دوسرا کیا بلکہ خوداس کی اولاد اس کو رلائے گی،اور سماج ومعاشرے کے اندر تو کچھ لوگوں کو دوسروں کو تکلیف میں مبتلاکرنے میں تو بہت مزہ آتاہے تو جولوگ بھی اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں وہ یہ جان لیں اور سن لیں کہ جو دوسروں کے لئے گڑھاکھودتاہے وہ ایک نہ ایک دن خود اسی گڑھے میں گر جاتاہے،اس لئے میرے بھائیو اور بہنو!اس بری حرکت سے باز آ جاؤ اورلوگوں کو خوش کرنا سیکھو ،اللہ تمہاری زندگی کو خوشیوں سے بھردے گا کیونکہ یہ کام رب کو پسند ہے اورجو رب کی پسندیدہ چیزوں کو اپنائے گا تو رب العزت اسے ضرور خوش رکھے گا،جہاں تک ہوسکے اپنی استطاعت بھرلوگوں کو اور بالخصوص اپنے اہل وعیال اور اپنے خاندان والوں کو اپنی ذات سے فائدہ پہنچاؤکیونکہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرتاہے اور ایسے لوگوں کو پسند کرتاہے جو اپنے گھروالوں کو خوش رکھتے ہیں جیسا کہ جناب محمدعربی ﷺ کا یہ فرمان صحیح حدیث میں موجود ہے ’’ أَحَبُّ الْعِبَادِ إِلَى اللهِ أَنْفَعُهُمْ لِعِيَالِهِ ‘‘ کہ اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب اورپیارا وہ شخص ہوتاہے جو اپنے اہل وعیال کو خوش وخرم رکھتاہے۔(صحیح الجامع للألبانیؒ:172) سنا آپ نے کہ دوسروں اور اپنے اہل وعیال کو خوش رکھنے اورفائدہ پہنچانے کی کتنی عظیم فضیلتیں ہیں مگر دیکھا یہ جاتاہے کہ لوگ اپنی ذات سے دوسروں کو تو فائدہ پہنچائیں گے مگر اپنے گھروالوں کو تکلیف میں مبتلا رکھیں گے،سماج ومعاشرے میں یہ بھی دیکھاجاتاہے کہ لوگ دوسروں کو توقرضہ دیں گے اور طرح طرح سے ان کی امداد بھی کریں گےمگر جب اپنے خاص سگے بھائیو اوربہنوں اور رشتے داروں کی مدد کی بات آتی ہے تو پلو جھاڑ لیتےہیں،تو خیر میرے بھائیو اور بہنو! ہم سب ایک دوسرے کو خوش کرنے اور فائدہ پہنچانے والے بنیں اور اللہ کی رضا وخوشنودی کو حاصل کرلیں۔
5۔نصیحت کرنے والوں کو روکنا اورٹوکنا رب کو ناپسند ہے:
میرے دوستو!اللہ رب العزت کا ہمارے لئے حکم یہ ہے کہ ہم وقتاً فوقتاً ایک دوسرے کو نصیحت کرتے رہاکریں ،جیساکہ فرمان باری تعالی ہے ’’ وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ ‘‘اورنصيحت کرتے رہیں یقیناً یہ نصیحت ایمان داروں کو نفع دے گی۔(الذاریات:55)اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نصیحت ایک انسان کو ضروربالضرورفائدہ پہنچاتی ہے،آپ دیکھیں گے کہ نصیحتوں سے مردہ دلوں کو زندگی ملتی ہے،نصیحتوں سے بوسیدہ ایمان بھی تروتازہ ہوجاتاہے،نصیحتوں سے دلوں میں خوف خدا پیداہوتاہے،نصیحتوں سےایک انسان کے اندر تقوی وللہیت پیداہوتی ہے،نصیحتوں سے دلوں میں نرمی پیداہوتی ہے،نصیحتوں سے ایک انسان کے اندر فکرآخرت کی تڑپ ولگن پیداہوتی ہے،باربارنصیحتوں کو سننے سے ایک انسان تادم حیات صراط مستقیم پر گامزن رہتاہے،اسی کے برعکس آپ دیکھیں گے کہ جولوگ وعظ ونصیحت کی محفلوں سےدور بھاگتے ہیں یا پھر نصیحتوں کو سننا پسند نہیں کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کے اندر رتی برابر بھی نہ تودین وایمان ہوتاہے اور نہ ہی ان کے اندر دین وایمان کا پاس ولحاظ ہوتاہے،آپ دیکھیں گے کہ ایسے لوگوں کے اندر نہ تو خوف خداہوتاہے اور نہ ہی فکرآخرت کی تڑپ ولگن، بس ایسے لوگ اپنی دنیاوی زندگی میں مست ومگن رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ان کے دلوں میں ایسی سختی پیداہوجاتی ہے کہ جس سے یہ لوگ اللہ اور یوم آخرت سے کوسوں دور ہوجاتے ہیں،اور یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ اگر آپ ان کو نصیحت کریں تو یہ آگ بگولہ ہوجاتےہیں اور نصیحت کرنے والے پربرس پڑتے ہوئے نصیحت کرنے والوں سے ہی بغض وعداوت شروع کردیتے ہیں،اور کتنے ایسے لوگ ہیں کہ اگر آپ ان کو نصیحت کریں تو یہ فوراً یہ کہتے ہیں جاؤ !جاؤ! بڑا آیا نصیحت کرنے والا،کوئی کہتاہے ابے چپ کر بہت بڑبڑا رہاہے ،کوئی نصیحت کرنے والوں کو برابھلااورگالی دینا شروع کردیتاہےاورکوئی تو منہ پرہی یہ کہہ دیتاہے کہ بھائی بس کریہ دین کے باتیں ،دوسرا کچھ سنا،کوئی کہتا ہے کہ جب دیکھو یہ نصیحت کرتارہتاہے ،اسے کیا کام ،کام کاج کرا تو اسے معلوم ہوگا کہ یہ دنیا کیا ہے؟اورکوئی تو سرعام نصیحت کرنے والوں کی یہ کہہ کربے عزتی کردیتاہے پہلے اپنے گریبان میں جھانک!خود تو عمل کرتانہیں ہے اور آیا بڑا مجھے نصیحت کرنے والا، تو جولوگ بھی اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں وہ لوگ آج یہ سن لیں اور جان لیں کہ نصیحت کرنے پر روکنا اور ٹوکنا یہ رب کو بالکل بھی پسند نہیں ہے بلکہ اللہ رب العزت کو ایسی باتوں اور ایسی حرکتوں اور ایسے لوگوں سے سخت نفرت ہے جو اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں جیسا کہ سیدنا ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ محترم ومکرم جناب محمدعربیﷺ نے فرمایا ’’ وَإِنَّ أَبْغَضَ الْكَلَامِ إِلَى اللهِ أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ اتَّقِ اللهَ فَيَقُولُ عَلَيْكَ نَفْسَكَ ‘‘ کہ اللہ رب العزت کے نزدیک ناپسندیدہ اور قابل نفرت بات وکلام یہ ہے کہ جب کوئی انسان کسی کو نصیحت کرتے ہوئے یہ کہے کہ اللہ سے ڈر تو نصیحت سننے والا یہ کہے کہ پہلے تو اپنی فکرکر۔(الصحیحۃ:2598/2939)سنا آپ نے کہ نصیحت کرنے والے کو ہی الٹا جواب دینا یہ رب کو کتنا سخت ناپسند ہے ،اس لئے میرے بھائیو اور بہنو!نصیحت کرنے والوں کو کبھی بھول سےبھی اس طرح سے طیش میں آکر جواب نہ دیا کرو ،ورنہ رب کی ناراضگی کے شکار ہوجاؤگے ،پھر تو تمہاری دنیا وآخرت تباہ وبرباد ہوجائے گی،اور ہاں آخر میں یہ بات بھی اچھی طرح سے یاد رکھ لو کہ نصیحت کرنے والےاور روک ٹوک کرنے والےعالموں اور اماموں کو غنیمت جانو کیونکہ وہ تمہارے لئے سب سے قیمتی سرمایہ ہیں کیونکہ وہی تو تمہیں دین سکھاتے ہیں ،وہی تو تمہارا نکاح وجنازہ پڑھاتے ہیں ،میں تو یہ کہوں گا کہ جولوگ بھی عالموں،اماموں اور نصیحت کرنے والوں سے نفرت اوربغض وعداوت رکھتے ہیں تو ایسے لوگ یہ وصیت کردیں اور جماعت وجمعیت میں یہ اعلان کرادیں کہ ان کا جنازہ کوئی عالم وامام نہ پڑھائے بلکہ کوئی ان پڑھ،جاہل وگنوار اور بے نمازی ہی پڑھائے،میرے دوستو!عالموں اور اماموں سے محبت رکھو اور ان سے نفرت نہ کرو کیونکہ وہی تو تمہیں اور تمہارے بچوں کو قرآن پڑھنا سکھاتے ہیں ،وہی تو تمہیں حلال وحرام کی تمیز سکھاتے ہیں،وہی تو تمہیں نماز وروزہ کی تلقین کرتے ہیں ،سوچو اگر یہ علماء وامام نہ ہوتے تمہاری حیثیت کیا ہوتی؟اسی بارے میں امام حسن بصریؒ نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ ’’ لَوْلا الْعُلَمَاءُ لَصَارَ النَّاسُ مِثْلَ الْبَهَائِمِ ‘‘ اگر اس روئے زمین پرعلماء نہ رہیں تولوگ جانوروں کی مانند ہوجائیں گے۔ (ٍصیدالخاطر:193)کیونکہ یہی علماء ہی تو ہیں جو لوگوں کو جانورسے انسان بناتے ہیں،اور امام یحی بن معاذؒ نے کہا کہ یہ علماء امت محمدﷺ کے لوگوں پر ان کے ماؤں اور باپوں سے کہیں بڑھ کر مہربان ہیں ،کہا گیا کہ وہ کیسے؟ تو آپ نے کہا کہ وہ اس طرح سے کہ ماں اور باپ تو بس لوگوں کو ان کی دنیا بناتے ہیں اور علماء یہ تولوگوں کو جہنم کی آگ سے بچاتے ہیں۔(وبل الغمامۃ فی شرح عمدۃ الفقہ لابن قدامہ:1/4)اسی طرح سے امام میمون بن مہران تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ یہ علماء شہر کے اس میٹھے پانی کے چشمے کی طرح ہیں جن سے پورا شہر فائدہ اٹھاتاہے وہ کہتے ہیں کہ ’’ إِنَّ مَثَلَ الْعَالِمِ فِي الْبَلَدِ كَمَثَلِ عَيْنٍ عَذْبَةٍ فِي الْبَلَدِ ‘‘شہر میں علماء کی مثال شہر میں میٹھے پانی کے چشمے کی طرح ہے۔(جامع بیان العلم وفضلہ:1/237)اور امام عبداللہ بن مبارکؒ فرماتےہیں کہ ایک عقلمند شخص کبھی بھی تین طرح کے آدمیوں کی ناقدری نہیں کرتاہے ،نمبر ایک علماء کی،نمبر دو حکمرانوں کی اور نمبر تین اپنے مسلمان بھائی کی،اب جو شخص بھی علماء کی ناقدری کرے گا تو وہ اخروی زندگی سے محروم رہے گا،اوراگر حکمرانوں کے خلاف جائے گا تو وہ دنیوی زندگی سے محروم ہوجائے گا اور جو شخص اپنے بھائیوں کی ناقدری کرے گا تو وہ اچھے اخلاق وکردار سے محروم رہے گا۔(سیراعلام النبلاء للذھبی:17/251)صرف یہی نہیں کہ جو علماء کی ناقدری کرے گا وہ اخروی زندگی سے محروم ہوگا بلکہ جو علماء اوراماموں سے نفرت کرے گا وہ دنیا وآخرت میں ہلاک وبرباد ہوگاجیسا کہ سیدنا ابودرداءؓ کہتے ہیں کہ ’’ كُنْ عَالِمًا أَوْ مُتَعلِّمًا أو مُحِبًا أو مُتَّبِعًا ‘‘تم عالم بنو یا پھر علم سیکھنے والے بنو ،تم علماء سے محبت کرنے والے بنو یاپھر علماء کی پیروی کرنے اور ان کی بات سننے اور ماننے والے بنو ،(اورہاں ایک بات یادرکھنا)’’ وَلَا تَكُنِ الْخَامِسَ فَتَهْلَكَ ‘‘پانچواں شخص نہ بننا ورنہ ہلاک وبرباد ہوجاؤگے ،امام ابن عبدالبر نے کہا کہ پانچواں یہ علماء سے بغض وعداوت اور دشمنی کرنا ہے۔(تخریج احادیث احیاء علوم الدین:1/63،دروس للشیخ سعید بن مسفر:84/23)اور یقیناً ایساہی ہواہے اور ہوتاہے کہ جو انسان بھی علماء سے دشمنی اور بغض وعداوت رکھتاہے وہ خود ہلاک وبرباد ہوتاہے،اور تاریخ گواہ ہے کہ جس جس نے بھی علماء سے بغض وعداوت اور نفرت کی تو اس کی نسل میں کوئی حافظ وعالم نہ بن سکا،اس لئے میرے بھائیو اوربہنو!علماء سے محبت کرو اور ان کی دیکھ ریکھ کیا کرو،ان کا خیال رکھا کرو اور وقتاًفوقتاً ان کی مالی مدد کرتے رہا کرو یعنی کہ ان کے اوپر اپنامال خرچ کرتے رہاکرو،ورنہ ان علماء کا علم روزی روٹی کی تلاش میں ضائع وبرباد ہوجائے گا،امام عبداللہ بن مبارک مروزی ؒ کے بارے میں آتاہے کہ وہ علماء پر بہت زیادہ خرچ کیا کرتے تھے تو لوگوں نے انہیں اس سے روکا اورٹوکاکہ تم کیوں ان علماء کے پیچھے اپنے مال کو ضائع و برباد کررہے ہو،ان کی مالی تعاون مت کرو تو انہوں نے ایک تاریخی جملہ کہتے ہوئے فرمایا کہ ’’ فَإِنْ تَرَكْنَاهُمْ ضَاعَ عَلْمُهُمْ وَإِنْ أَغْنَيْنَاهُمْ بَثُّوا الْعِلْمَ لَأُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا أَعْلَمُ بَعْدَ النُّبُوَّةِ دَرَجَةً أَفْضَلَ مِنْ بَثِّ الْعِلْمِ ‘‘اگر میں ان کو چھوڑ دوں تو ان کا علم ضائع وبرباد ہوجائے گا،اور اگر ہم انہیں روزی روٹی تلاش کرنے سے بے نیاز کردیں تو یہ امت محمدیہ کے لئے علم پھیلائیں گے،(اورسن لو!) میرے نزدیک نبوت کے بعد علم پھیلانے سے زیادہ کوئی افضل کام نہیں ہے۔(شعب الایمان للبیہقیؒ:1626)
6۔اللہ رب العزت کو تین نام بہت پسند ہیں:
میرے دوستو!اللہ رب العزت کو تین نام بہت پسند ہیں جیسا کہ خادم رسول سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدالکونین وخاتم النبیین محمدعربیﷺ نے فرمایا کہ ’’ أَحَبُّ الْأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ عَبْدُ اللَّهِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ وَالْحَارِثُ ‘‘اللہ رب العزت کو تمام ناموں میں سے تین نام بہت ہی محبوب ہیں،نمبر ایک عبداللہ،نمبر دو عبدالرحمن اور نمبر تین حارث ہے۔(الصحیحۃ:904،صحیح الجامع للألبانیؒ:62،مسلم:2132)اورایک دوسری روایت کے اندر یہ اضافہ ہے کہ’’ وَأَصْدَقُهَا حَارِثٌ وَهَمَّامٌ وَأَقْبَحُهَا حَرْبٌ وَمُرَّةُ ‘‘ اورتمام ناموں میں سے زیادہ صداقت وسچائی کااظہارکرنے والے دونام اوربھی ہیں،نمبر ایک حارث(کمائی کرنے والا)اورنمبر دو ھمام(سوچ وبچار میں مشغول رہنے والا) اور سب سے قبیح ترین اوربدترین نام یہ حرب(جنگ) اور مرۃ(کڑوا) ہے۔(صحیح الادب المفردللألبانیؒ:629)سنا آپ نے کہ عبداللہ اور عبدالرحمن اور حارث یہ تینوں نام اللہ رب العزت کو بہت ہی محبوب ہیں مگر آپ دیکھیں گے کہ لوگ یہ تینوں نام رکھنا ناپسند کرتے ہیں،اور کہتے ہیں کہ یہ تو پرانا نام ہے،کوئی کہتاہے کہ یہ تو بہت نام ہے،اورآج کل تو ایک عجیب ہی تماشہ لوگوں نے بنارکھا ہے کہ ہرکوئی یہ بولتاہے کہ مولانا ذرے ایسے نام بولو جو گاؤں وشہر اورپورے محلے میں کسی کا نام نہ ہو،لوگ اسمائے باری تعالی ،نبیوں اور رسولوں کے نام،صحابۂ کرام اور صحابیات عظام، اولیائے کرام اوراسلاف کرام،تابعین عظام اور محدثین کرام کے ناموں کورکھنے سے کتراتے ہیں اوررکھتے بھی نہیں ہیں ،اس کی جگہ پر مسٹرگوگل اور جناب یوٹیوب سے سرچ کرکے غلط سلط اور بالکل ہی واہیات وخرافات اور بے معنی نام رکھتے ہیں ،لوگ انبیاء ورسل کے نام پر نام نہیں رکھتے ہیں بلکہ شرم وعارمحسوس کرتے ہیں اوراس کی جگہ پر کفارومشرکین ،فساق وفجار،بدکارہیرواورہیروئن کے نام پر نام رکھنے میں فخرمحسوس کرتے ہیں،لوگوں کو اچھے اچھے نام پسند نہیں آتے مگر انہیں ٹونی،سونی،پپو،جپو،بنٹی ،سنٹی،کرشمہ،وغیرہ یہ سب رکھنے میں فخرمحسوس کرتے ہیں ،میں بیان نہیں کرسکتا کہ لوگ کیسے کیسے عجیب وغریب نام اپنی اولاد کا رکھتے ہیں ،ارے میرے بھائیو اوربہنو!اس طرح سے خرافاتی نام رکھ کر اپنی اولاد کی دنیا وآخرت تباہ وبرباد نہ کیاکرو بلکہ اپنی اولاد کا نام انبیاء ورسل،صحابہ وصحابیات اورنیک لوگوں کے ناموں پر نام رکھاکرو کیونکہ نام کا بھی اثر ہوتاہے،آئیے اس بارے میں دواحادیث کو سنتے ہیں،سب سے پہلی حدیث ،امام سعید بن مسیبؒ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد محترم (یعنی کہ سعید کے دادا)آپﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے توآپﷺ نے پوچھا کہ ’’ مَا اسْمُكَ ‘‘ تمہارا نام کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میرا نام ’’ اسْمِي حَزْنٌ ‘‘ حزن (یعنی غم وپریشانی) ہے،یہ سن کرآپﷺ نے فرمایا کہ ’’ بَلْ أَنْتَ سَهْلٌ ‘‘ (نہیں یہ نام بدل کر تم )اپنا نام سھل (یعنی کہ نرمی وسہولت )رکھو لو،توسعید کے دادا جان نے کہا کہ ’’ مَا أَنَا بِمُغَيِّرٍ اسْمًا سَمَّانِيهِ أَبِي ‘‘ میں اپنے باپ کا رکھاہوا نام تبدیل نہیں کرسکتا،سعید بن مسیب کا بیان ہے کہ ’’ فَمَا زَالَتْ فِينَا الحُزُونَةُ بَعْدُ ‘‘ اس کے بعد ہمارے گھرانے میں ہمیشہ غم والم ،پریشانی وبےچینی اور قلق واضطراب رہا۔(بخاری:6193)سنا آپ نے نام کا اثر کہ اس نام کی وجہ سے ہمیشہ ان کے گھرانے میں دکھ ودرد اور غم والم رہا ،اب آئیے ایک دوسری حدیث کو سنتے ہیں ،امام یحی بن سعید ؒ کہتے ہیں کہ امیرالمومنین سیدنا عمربن خطابؓ نے ایک آدمی سےپوچھا کہ ’’ مَا اسْمُكَ ‘‘ تیرا نام کیا ہے؟تو اس نے کہا کہ میرا نام ’’ جَمْرَةُ ‘‘ (آگ کا انگارہ) ہے پھرپوچھا کہ’’ابْنُ مَنْ ‘‘ تیرے باپ کا نام کیا ہے؟ تو اس نے کہا کہ ’’ شِهَابٍ ‘‘ (یعنی آگ کا شعلہ)ہے،پھرپوچھا کہ’’ مِمَّنْ ‘‘ تیرے قبیلے کا نام کیا ہے؟ تو اس نے کہا کہ ’’ الْحُرَقَةِ ‘‘ (یعنی آگ کا جلاہوا)ہے،پھرپوچھا کہ ’’ أَيْنَ مَسْكَنُكَ ‘‘ تیری رہائش گاہ کہاں ہے؟ تو اس نے کہا کہ ’’ حَرَّةُ النَّارِ ‘‘( یعنی کہ آگ کا علاقہ )ہے،پھر پوچھا کہ ’’ بِأَيِّهَا ‘‘ تیری رہائش گاہ کس وادی میں قائم ہے؟تو اس نے کہا کہ ’’ ذَاتِ لَظًى ‘‘ (یعنی شعلے والی) ہے،تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ’’ أَدْرِكْ أَهْلَكَ فَقَدِ احْتَرَقُوا ‘‘ پھر توتم فوراًجاؤ اور اپنے اہل وعیال کی فکرکرو کیونکہ آگ نے انہیں جلا کر راکھ کردیا ہے،راویٔ حدیث کہتے ہیں کہ ’’ فَكَانَ كَمَا قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ‘‘جس طرح سے سیدنا عمرؓ نے فرمایاتھا ٹھیک ویسا ہی ان کے ساتھ ہوا کہ ان کا گھروبار اور اہل وعیال سب آگ میں جل کر راکھ کے ڈھیر بن گئے۔(مؤطا امام مالک:25،شرح السنۃ للبغوی:3246)دیکھا اورسنا آپ نے نام کا کیسا اثر ہوتاہے،اسی لئے کہتاہوں کہ اچھے اچھے اورپیارے پیارے نام رکھا کرو،اور ہاں میرے بھائیواور بہنو اگر کسی کا نام غلط ہے تو وہ اب بھی اپنا نام بدل سکتاہے جیسا کہ احادیث کی کتابوں میں صراحت کے ساتھ یہ بات مذکور ہے کہ خود جناب محمدعربیﷺ فوراً ایسے ناموں کو بدل دیا کرتے تھے جس میں کچھ بھی غلط معانی نکلتے ہوں جیساکہ اماں عائشہؓ کہتی ہیں کہ ’’ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُغَيِّرُ الِاسْمَ القَبِيحَ ‘‘نبیٔ اکرم ومکرمﷺ فوراً برے ناموں کو تبدیل کردیا کرتے تھے۔(ترمذی:2839،الصحیحۃ:207)اسی طرح سے سیدنا ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدناعمرؓ کی ایک بیٹی تھی جن کانام عاصیہ(نافرمانی کرنے والی)تھا تو آپﷺ نے ان کا نام بدل کر جمیلہ (خوبصورت)رکھ دیا۔ (مسلم:2139)یہ تو ایک مثال ہے ورنہ ابوداؤد شریف کے اندر تو امام ابوداؤد ؒ نے ایسے کئی نام گنوائے ہیں جن کوآپﷺ نے فورا ًبدل دیا تھا،آپﷺ نےایک آدمی کا نام ’’شِھاب ‘‘ یعنی شعلہ اورچنگاری‘‘ سے بدل کر’’ھِشام ‘‘ سخاوت وفیاضی ‘‘ رکھ دیا،اورایک آدمی کا نام ’’ حَرب ‘‘ یعنی جنگ سے بدل ’’سِلم ‘‘ صلح وسلامتی رکھ دیا،اسی طرح سے ایک عورت کانام ’’عَفِرہ ‘‘ یعنی بنجر زمین تھا توآپﷺ نے اس کا نام ’’ خَضِرہ ‘‘ یعنی سرسبزوشاداب رکھ دیا۔(ابوداؤد:4956)سنا آپ نے کہ ہروہ نام جس کے اندر ذرہ برابربھی غلط معانی تھے تو آپﷺ نے فوراً اسے بدل کردوسرا اوراچھا نام رکھ دیا،اوراِدھر لوگ یونِک اورڈیجیٹل نام رکھنے کے چکر میں بہت سارے غلط سلط نام رکھ رہے ہیں،اورکچھ لوگ تو ایسے ہیں جو اچھے اور پیارے صحابہ وصحابیات کے نام سےبھی براشگون لیتے ہوئے اسے بدل دیتے ہیں،کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ لوگ میرے پاس آئے اور کہا کہ مولانا میں نے اپنی بچی یا بچہ کا یہ نام رکھا ہے مگر بچہ بہت ضد کررہا ہےاسی لئے دوسرا نام بولو،ایک حیرت انگیز واقعہ سنئے ایک بھائی میرے پاس آئے اورکہا کہ میں نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ رکھاتھا مگر وہ ہروقت روتی اور ستاتی ہے،اس لئے سوچ رہاہوں کہ اس کا نام بدل دوں،۔استغفراللہ۔ان کا کہنا یہ تھا کہ جس طرح سے سیدہ فاطمہ ؓ اپنی زندگی میں تکلیف اٹھائی اسی طرح سے ان کی بیٹی بھی تکلیف اٹھائے گی۔نعوذباللہ۔ذرا سوچو کہ یہ سیدہ فاطمہ کون ہیں؟یہ تو جنتی خاتون کی سردار ہیں،مگر اس نام سے لوگ نحوست پکڑتے ہیں،نعوذ باللہ۔اورہیرواور ہیروئن کے ناموں کو سب سے اچھانام سمجھتے ہیں اور انہیں کے نام پر اپنی اولاد کا نام بھی رکھتے ہیں ،جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ان کی اولاد بھی انہیں کی طرح فساق وفجار اورنچنیا نکل جاتی ہے،اس لئے میرے بھائیو ااور بہنو!صحابہ وصحابیات کے نام پراپنی اولاد کے نام رکھا کرواوراللہ کے نزدیک جو بھی پیارے پیارے نام ہیں وہی نام رکھو گرچہ وہ نام پورے محلے اور پورے خاندان میں ہی کیوں نہ ہو!
محترم سامعین وسامعات:جب اولاد کے ناموں کے بارے میں اتنا سب کچھ آپ نے سن لیا اور جان لیا ہے تو آئیے آخر میں سماج ومعاشرے کی ایک اور خرابی کو اجاگر کرتے ہوئے اپنی بات کو ختم کردیتاہوں کیونکہ یہ خرابی سماج ومعاشرے کے اندر بہت ہی زیادہ رائج ہےاور وہ یہ ہے کہ بہت سارے لوگ اپنی اولاد کا نام غیراللہ کے نام پر رکھتے ہیں ،اولاد تو انہیں اللہ عطاکرتاہے مگر یہ لوگ اپنی اولاد کانام اپنے پیروں اورفقیروں کے نام پر رکھتے ہیں ،رکھتے ہی نہیں بلکہ رکھنے میں فخرمحسوس کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرے بچے کا نام،دادا پیر بخش ہے،غوث پیر ہے،اسی طرح سے بہت سارے لوگ اپنے بچے کانام عبدالغوث، یعنی غوث کا بندہ ،عبدالرسول یعنی رسول کا بندہ وغیرہ رکھتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ سماج ومعاشرے میں غوث،پیر،داتا،محبوب بی،شاہ شاہ ولی،وغیرہ نام بہت زیادہ پائے جاتے ہیں ،حالانکہ اسلام کی تعلیم اور اللہ کا حکم یہ ہے کہ جب اولاداللہ نے عطاکی ہے تو اس کی نسبت بھی اللہ کے طرف ہی ہونی چاہئے،توجولوگ بھی اپنی اولاد کی نسبت اپنے پیروں اورفقیروں کی طرف کرتے ہیں وہ لوگ یہ سن لیں اور جان لیں کہ ایسا کرنا یہ سراسر شرک ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے’’ فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا فَتَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ‘‘سوجب اللہ نے دونوں (میاں بیوی )کو صحیح سالم اولاد دے دی تو اللہ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں (میاں بیوی) اللہ کے شریک قرار دینے لگے،پس اللہ بلندتر ہے اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔(الاعراف:190)سنا آپ نے کہ ایک جوڑا اللہ سے خوب گڑگڑا کراولاد مانگتے ہیں مگر جیسے اللہ رب العزت انہیں اولادعطاکرتاہے تووہ اپنی اولاد کی نسبت کسی غیراللہ کی طرف کردیتے ہیں۔العیاذ باللہ۔اس آیت کی تفسیر میں حافظ صلاح الدین یوسفؒ سماج ومعاشرے کی عکاسی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’شریک قراردینے سے مراد یاتو بچے کانام ایسا رکھانا ہے،مثلاً:امام بخش،پیراں دتہ،عبدشمس،بندہ علی وغیرہ،جس سے یہ اظہار ہوتاہو کہ یہ بچہ فلاں بزرگ ،فلاں پیرکی (نعوذباللہ)نظر کرم کا نتیجہ ہے،یاپھر اپنے اس عقیدے کا اظہارکرے کہ ہم فلاں بزرگ یافلاں قبرپرگئے تھے جس کے نتیجے میں یہ بچہ پیدا ہواہے۔(راقم جس شہر میں رہتاہے وہاں کے لوگوں کا یہ بہت ہی مشہور ومعروف عقیدہ ہے کہ فلاں فلاں درگاہ شریف میں ایک رات سونے یا پھر ایک رات گذارنےسے اولاد ہوجاتی ہے،فلاں پیرصاحب کا گولا لے کر اگر ان کے قبرکا طواف کیا جائے تو اولاد مل جاتی ہے۔نعوذباللہ۔اوران باتوں پر عمل بھی بڑے ہی مان وسمان اور مضبوط عقیدے کے ساتھ کی جاتی ہیں۔)یاکسی مردہ کے نام کی نذرنیاز دے یابچے کو کسی قبرپرلے جاکراس کا ماتھا وہاں ٹکائے کہ ان کے طفیل بچہ ہواہے(ہمارے شہر میں یہ بھی ایک راوج ہے کہ جس درگاہ شریف میں جانے سے بچہ پیداہوتاہے تو لوگ بچے کا نام بھی اسی کے نام پر رکھتے ہیں اور بچے کے بالوں کو خوب بڑاکرکے اسی کے قبرپر حاضری دے کرمونڈواتے ہیں)یہ ساری صورتیں اللہ کا شریک ٹھہرانے کی ہیں جوبدقسمتی سے مسلمان عوام میں بھی عام ہیں۔(تفسیراحسن البیان:394)
اب آخر میں اللہ رب العزت سے دعاگوہوں کہ اے باالہ تو ہم سب کو اپنی محبوب وپسندیدہ کاموں کو کرنے کی ہمیشہ توفیق عطافرمااوراے بارالہ تو ہم سب کو ان تمام حرکات وسکنات سے ہمیشہ محفوظ رکھ جس سے تو ناراض ہوتاہے۔آمین ثم آمین یارب العالمین۔
کتبہ
ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی
ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی
اٹیچمنٹس
-
1 MB مناظر: 3