• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کے نور ہونے کا عقیدہ

شمولیت
دسمبر 31، 2017
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
23
السلام علیکم!

اللہ پاک پیدا نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ سے موجود ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
قرآن میں ہے کہ اللہ نور ہے۔
اللہ زمین و آسمان کا نور ہے۔

جبکہ سورہ الانعام میں ہے کہ اللہ نے نور کو پیدا کیا۔

تمام تعریفیں اللہ ہی کے ﻻئق ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور نور کو بنایا پھر بھی کافر لوگ (غیر اللہ کو) اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں (الانعام :1)

تو اس کا کیا مطلب ہے؟

اللہ ہدایت کی طرف رہنمائی فرمائے۔( آمین )

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم!
اللہ پاک پیدا نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ سے موجود ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
قرآن میں ہے کہ اللہ نور ہے۔
اللہ زمین و آسمان کا نور ہے۔
جبکہ سورہ الانعام میں ہے کہ اللہ نے نور کو پیدا کیا۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
علامہ عبد العزيز بن عبد الله بن باز (المتوفى: 1420ھ)
سے سورہ نور کی اس آیت کی تفسیر کا سوال کیا تو ان کا جواب تھا :

سؤال: أريد من سماحتكم تفسير قوله تعالى: {اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ} (1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب: معنى الآية الكريمة عند العلماء أن الله سبحانه منورها، فجميع النور الذي في السماوات والأرض ويوم القيامة كل من نوره سبحانه.
والنور نوران: نور مخلوق وهو ما يوجد في الدنيا والآخرة وفي الجنة وبين الناس الآن من نور القمر والشمس والنجوم. وهكذا نور الكهرباء والنار كله مخلوق وهو من خلقه سبحانه وتعالى.
أما النور الثاني: فهو غير مخلوق بل هو من صفاته سبحانه وتعالى. والله سبحانه وبحمده بجميع صفاته هو الخالق وما سواه مخلوق، فنور وجهه عز وجل، ونور ذاته سبحانه وتعالى، كلاهما غير مخلوق، بل هما صفة من صفاته جل وعلا.
وهذا النور العظيم وصف له سبحانه وليس مخلوقا بل هو صفة من صفاته كسمعه وبصره ويده وقدمه وغير ذلك من صفاته العظيمة سبحانه وتعالى. وهذا هو الحق الذي درج عليه أهل السنة والجماعة
(مجموع فتاوى ومقالات الشيخ ابن باز 6/54)

سائل نے (اللہ نور السماوات والارض ) کی تفسیر پوچھی ،

شیخ رحمہ اللہ نے جواب دیا
: شیخ فرماتے ہیں کہ : اس آیت کریمہ کا معنی و مفہوم اہل علم نے یہ بتایا ہے کہ (اللہ تعالی ہی زمین و آسمانوں کو منور کرنے والا ہے ) تمام نور جو زمین و آسمان میں اب ہے ، اور روز قیامت میں ہوگا اسی کا ہے ،
اور نور دو قسم کا ہے ، ایک مخلوق نور ہے (یعنی جسے اللہ تعالی نے پیدا کیا ہے ) جو دنیا و آخرت میں ، جنت میں اور بندوں کے درمیان پایا جاتا ہے ،سورج ،چاند ،ستاروں ، اور بجلی وغیرہ کا نور سب مخلوق نور ہے جسے اللہ نے تخلیق فرمایا۔
اور دوسرا نور :
جو غیر مخلوق ہے ،اور اللہ کی صفت میں سے ایک صفت ہے ، اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنی تمام صفات کے ساتھ خالق ہے ، جب کہ اس کے سوا جو کچھ ہے وہ مخلوق ہے ، تو اس کے چہرے کا نور اور اس کی ذات مقدسہ کا نور غیرمخلوق ہے ،بلکہ اس کی صفات میں سے صفت ہیں ،اور مخلوق نہیں ،جیسا کہ سمع و بصر اور "ید و قدم " اس کی صفات عظیمہ میں سے ہیں ، یہی وہ حق ہے جس پر اہل سنت کا عقیدہ و ایمان ہے "
مجموع فتاویٰ شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازؒ
(جلد6، صفحہ 54 )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور امام ابن کثیر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :
قال علي بن أبي طلحة، عن ابن عباس: {الله نور السموات والأرض} يقول: هادي أهل السموات والأرض.
وقال ابن جريج: قال مجاهد وابن عباس في قوله: {الله نور السموات والأرض} يدبر الأمر فيهما، نجومهما وشمسهما وقمرهما.
وقال ابن جرير: حدثنا سليمان بن عمر بن خالد الرقي، حدثنا وهب بن راشد، عن فرقد، عن أنس بن مالك قال: إن إلهي يقول: نوري هداي.
واختار هذا القول ابن جرير، رحمه الله.

ترجمہ :
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”اللہ ہادی ہے، آسمان والوں اور زمین والوں کا، یعنی ان کو نور ھدایت سے منور کرنے والا ہے ،
وہی ان دونوں میں سورج چاند اور ستاروں کی تدبیر کرتا ہے“۔

جناب انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”اللہ کا نور ہدایت ہے“۔
امام ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو اختیار کرتے ہیں۔(کہ اس آیت میں اللہ نور السماوات والارض کا معنی ہے اللہ کا نور ھدایت ہے​
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
دوسرا اہم سوال جو آپ نے اٹھایا وہ یہ ہے کہ :
ایک طرف کہا گیا کہ (اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے )
اور دوسری جگہ فرمایا کہ (اللہ نے نور کو پیدا کیا ہے ) یعنی نور مخلوق چیز ہے
اللہ پاک پیدا نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ سے موجود ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
جبکہ سورہ الانعام میں ہے کہ اللہ نے نور کو پیدا کیا۔
جواب :
اللہ عزّ و جلّ کی بعض صِفات، اور مخلوق میں کچھ صِفات کے ناموں میں لفظاً مشابہت
پائی جاتی ہے ؛
مثلاً :
"اللہ تعالیٰ بھی سمیع ہے بندہ بھی سمیع ہے،
سورہ الانسان میں ارشاد فرمایا ( إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا ، ترجمہ : ہم نے انسان کو (مرد اور عورت کے) مخلوط نطفہ سے پیدا کیا ، تاکہ ہم اسے آزمائیں، پس ہم نے اسے خوب سننے والا، اچھی طرح دیکھنے والا بنایا ہے )
اوردوسری طرف اسی نام سے یہ صفات خود خالق کریم کی صفات بھی ۔ سورۃ البقرۃ میں فرمایا : إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ۔۔۔یعنی اللہ کریم سمیع اور علیم ہے ،
آسان بات ہے کہ مخلوق کی صفت سمع و علم بھی مخلوق ہے اور خالق کی صفات سے بالکل مختلف قسم کی ہے ،
صرف لفظی طور پر مشترک ہے ، حقیقت میں خالق و مخلوق کی صفات کسی درجہ میں مشابہ و مماثل نہیں ،
کیونکہ انسان کی یہ صفات مخلوق اور فانی ہیں اور خالق کی صفات سمع و علم مخلوق و محدودنہیں ،
کیونکہ اس نے خود واضح کردیا کہ (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُکوئی چیز اس کے مانند نہیں، اور وہ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے،(سورۃ الشوریٰ )
بس بعض صفات کا نام صرف لفظاً ایک جیسا ہے ،یعنی خالق و مخلوق کی بعض صفات لفظی طور پر مشابہ ہیں ،حقیقت میں بالکل مختلف اور جدا ہیں ،
مثلاً اللہ تعالی نے (سورۃ ص ) میں فرمایا کہ میں نے آدم کو اپنے ہاتھوں سے بنایا :(قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ أَسْتَكْبَرْتَ ۔ یعنی اللہ تعالی نے فرمایا، اے ابلیس تجھے کس چیز نے اسے سجدہ کرنے سے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے؟ کیا تو نے اپنے آپ کو بڑا سمجھا ہے ۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ کی ایک صف ’’قدرت اور اختیار رکھنا‘‘ ہے۔ اور معلوم ہے کہ مخلوق کا قدرت اور اختیار رکھنا کسی بھی انداز سے، کسی بھی درجے میں اللہ تعالیٰ کے قدرت رکھنے کی مانند نہیں ہو سکتا۔ نہ معمولی طور پر نہ غیر معمولی طور پر۔ صرف لفظی مُماثلت ہے۔
یہی معاملہ اللہ تعالیٰ کی باقی تمام صفات کا ہے۔ کسی مخلوق کی کوئی صفت کسی بھی درجے میں اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کے جیسے نہیں ہو سکتی۔ کوئی بھی ایک صفت یا خصوصیت اللہ تعالیٰ اوراس کی مخلوق میں کسی بھی طرح مشترک (Common or Similar) نہیں ہے۔ ایک ذرّے کے برابر بھی نہیں۔​
 
Top