• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الیکشن سے مربوط مسائل کا شرعی حل

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا بائیسواں فقہی سمینار امروہہ اترپردیش کے تاریخی تعلیمی مرکز جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد میں ۹/ مارچ کا شروع ہوا جس میں الجزائر جنوبی افریقہ اور ترکی کے مندوبین کے علاوہ ہندوستان کے دینی واسلامی اداروں کے تین سو سے زائد مختلف فقہی مکاتب فکرکے علماء نے شرکت کی ۔اس سمینار میں تین اہم موضوع زیر بحث آئے جن میں سب سے پہلے بیع وفاءاور اس کے بعد الیکشن اور پھر صکوک کا موضوع زیر بحث آیا ۔الیکشن سے متعلق میرا مقالہ بھی شامل کیا گیا جو اب اس فورم پر بھی قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہاہوں۔
نوٹ: اس مقالہ کو دو فورم پر پیش کرچکا ہوں وہاں سے پسندیدگی کے بعد یہاں بھی پیش کررہا ہوں اللہ تعالیٰ عافیت کا معاملہ فرمائے
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ​



الیکشن سے مربوط مسائل کا شرعی حل



نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم : اما بعد

عابدالرحمٰن بجنوری مظاہری
بن مفتی عزیزالرحمٰن صاحب بجنوری​


فَاَ عُوْذُبِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۝۰ۭ (پ۱۴۳:۲)
وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم :خیر الامور اوساطھا : اوکما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم صدق اللہ العلی العظیم

اسلام اور انسانی حقوق :
اس تکوینی نظام کو چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے روز ازل سے لیکر آج تک اور آج سے لیکر قیامت تک کے لئے انسان کو خلیفۃ فی الارض بنا کر بھیجا ، انسانوں کی رہنمائی اور دنیاوی نظام کو چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل کو ایک ضابطہ حیات ایک قانون دیکر مبعوث فرمایا تاکہ انسان عدل وانصاف و بھائی چارگی ساتھ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پوری پوری پاسداری کرتے ہوئے آزادانہ زندگی گزاریں ،اور اس کو علم کی دولت سے سرفرازفرمایا تاکہ اچھے برے کی تمیز کرسکے اور کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہو،اور دنیا میں امن سکون رہے کسی کی حق تلفی نہ ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا۔
قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ۝۰ۭ كُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللہِ وَلَا تَعْثَوْا فِى الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ۝۶۰ [٢:٦٠]
اور تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر (کے پانی پی) لیا۔(ہم نے حکم دیا کہ) خدا کی (عطا فرمائی ہوئی) روزی کھاؤ اور پیو، مگر زمین میں فساد نہ کرتے پھرنا
اور دوسری جگہ فرمایا
وَاِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِي الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْہَا وَيُہْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ۝۲۰۵ [٢:٢٠٥]
اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں دوڑتا پھرتا ہے تاکہ اس میں فتنہ انگیزی کرے اور کھیتی کو (برباد) اور (انسانوں اور حیوانوں کی) نسل کو نابود کردے اور خدا فتنہ انگیزی کو پسند نہیں کرتا
اس طرح کی اور بھی آیات شریفہ ہیں جن میں عدم فساد اور باہمی بھائی چارگی اور مساوات کی تعلیم دی گئی ہے۔
انسانیت کی تاریخ کا اگر گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اس دنیا میں حقوق کی آزادی کے لئے بڑے بڑے انقلابات رونما ہوئے ،اور حقوق کی ادائیگی و حفاظت کے لئے بڑی بڑی جنگیں ہوئیں بے شمار بغاوتیں ہوئیں لیکن ہر جنگ وجدل کے بعد بھی حقوق انسانی کا وہی حشر ہوا جو اس سے پہلے تھا بلکہ اس سے بھی بدتر ہوگئے۔
بیشک اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد پیدا کیا لیکن اس کی آزادی کو ایک شریعت وقانونمربوط کردیاہے تاکہ انسان اپنی آزادی کی خاطر دوسروں کے حقوق کو پامال نہ کرسکے۔ یہ اسلامی دستور وقانون انسانی فطرت کے عین مطابق ہے ،اس دستور میں اس بات کا پورا پورا خیال رکھا گیا کہ انسان کے فطری حقوق کی پامالی نہ ہو ۔ یہ دستور اسلامی اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ حقوق ا نسانی ،دنیا کے ہر فرد و شخص کے تمام گوشہ ہاے زندگی کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ

اسلام ا یک مکمل ضابطہ حیات ہے ،اسلام میں تمام قسم کے حقوق حقوق انسانی کے دائرہ کار میں آتے ہیں ،اسلام نے مذہب ودین ،ر نگ و نسل ، خاندان ونسب ،رشتہ وقرابت ،علاقہ وملک،غرض کہ تمام گوشہ ہائے زندگی کو اور تمام دوسری بنیادی ضرورتوں کو انسان کی حقوق کی تشکیل میں سامنے رکھا ہے۔
اسلام دین فطرت ہے:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
فَاَقِمْ وَجْہَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا۝۰ۭ فِطْرَتَ اللہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْہَا۝۰ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللہِ۝۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ۝۰ۤۙ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۳۰ۤۙ (روم:۳۰)
ترجمہ: تو تم ایک طرف کے ہوکر دین (خدا کے رستے) پر سیدھا منہ کئے چلے جاؤ (اور) خدا کی فطرت کو جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (اختیار کئے رہو) خدا کی بنائی ہوئی (فطرت) میں تغیر وتبدل نہیں ہو سکتا۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لئے اس میں تمام جسمانی مادی ضروریات کے پہلو بہ پہلو روحانی واخلاقی ضروریات کابھی خیال رکھا گیا ہے ،اور یہ ایسی ضروریات ہیں جن کے عدم توازن کی وجہ سے انسانی شخصیت میں بھی توازن برقرار نہیں رہتا ،تو اس طرح جب افراد واشخاص کی فطرت متاثر ہوگی تو پورا سماج ہی متاثر ہوگا ۔چنانچہ اسلام انسانی حقوق کی پاسداری میں سب سے آگے ہے ۔اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ آفاقی بھی ہے اور ابدی بھی اگر ازلی بھی کہا جائے تو کوئی مضائقہ اور مبالغہ نہ ہوگا، یہی وجہ ہے کہ جب سے انسان کا وجود اس دنیا میں آیا ہے ،اسلام نے اس کو تما م حقوق بلا مطالبہ دائمی طور پر عطا کردئے۔ اسلام تمام انسانوں کو ان کی انسانیت کےرشتہ وتعلق سے انسانی حقوق عطا کرتا ہے ۔وہ مسلم غیر مسلم ،علاقہ وطن ،رنگ نسل ،غرض کہ کسی قسم کی تفریق نہیں کرتا۔
اسلام کے برعکس مغربی کلچر وتہذیب وتمدن نے انسان سے انسانیت چھین لی ۔آپس میں نفرت تعصب ،بد تہذیبی علاقائیت ،غرض کہ انسان کو انسان ہی کی نگاہ میں ذلیل و رسوا کردیا۔ انسان کا روحانی سکون ختم کردیا ،آج مغربی انسانیت روحانی سکون کے لئے دردر بھٹک رہی ہے ۔ جب ان مستشرقین کو روحانی سکون نہیں ملا تو انہوں نےپوری انسانیت کو اپنا جیسا اور ہم خیال بنانے کے لئے شیطانی چالیں چلنی شروع کردیں اور سیدھا اسلام اور مسلمان کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔اور انسان کو انسان سے حیوان بنادیا۔
اسلام اور جمہوریت :
اسلام واحد ایسا دین ومذہب ہے جو انسانی فطرت وعین عقل کے مطابق ہے ۔اسلام کی اس خوبی اور ہماگیریت کی وجہ سے مستشرقین پریشان ہوگئے اور انہوں نے یک زبان ویک ذہن ہوکر اسلامی تعلیمات کے خلاف یلغار کردی ،اور انہوں نے سب سے پہلا حملہ مسلمانوں کے اقتدار پر کیا ،جن کو جنگ کے ذریعہ جیت سکتے تھے ان کو جنگ کے ذریعہ حاصل کیا اور جو ان کے قبضہ میں نہ آسکے وہاں کی عوام میں بغاوت کے بیچ بوکر جمہوریت کا سبز باغ دکھا کر وہاں جمہوری نظام نافذ کرادیا ،چنانچہ اس وقت تقریباًپوری دنیا میں جمہوری نظام نافذ ہے اور جہاں جمہوری نظام نہیں ہے لیکن جمہوری نظام سے متاثرضرور ہیں ،اس طرح سے آج جمہوریت زمانہ کی مجبوری اور ضرورت بن گئی ہے۔
مستشرقین کےزعم باطل کےمطابق یہ ان کی ایک بڑی کامیابی ہے ،لیکن یہاں بھی ان کو منہ کی کھانی پڑی ،اسلام کیونکہ انفرادیت کی تعلیم نہیں دیتاتا سب کو ساتھ لیکر چلنے کی دعوت دیتاہے ، زمانہ کی ضرورت بن جانا واقعی یہ اسلام کا ایک اہم پہلو اور تقاضا ہے ۔مگر اس کے یہ معنیٰ ہرگز نہیں کہ اسلامی تعلیمات کو بھلا دیا جائے ،اسلامی عقائد اور اساسی حقائق کو گئے گزرے دور کا موضوع بنا دیا جائے،اللہ اور بندے کے درمیان ایک دیوار
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ
کھڑی کردی جائے۔اور اللہ تعالیٰ کو حاکم اعلیٰ نہ مان کر بندوں کو ہی وہ مقام دیدیا جائے ،اسلام میں ایسے خداؤں کی کوئی گنجائش نہیں۔
اسلام کہتا ہے اللہ ہی رب العالمین ہے اورمحمدﷺ رحمۃ اللعالمین ہیں،اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو ’’کافۃ للناس ‘‘کہہ کریہ ثابت کردیا کہ آپ کو تمام انسانوں کے لئے مبعوث فرمایا ہے،اور قرآن پاک کو ’’بلاغ للناس ‘‘اور بصائر للناس ،یعنی تمام دنیا کے لئے پیغام ہدایت بنایا، اور ’’ بیت اللہ‘‘ شریف کو’’مثابۃ للناس ‘‘ کہہ کر خطاب کیا یعنی تمام دنیا کے لئے مرکز ہدایت ،اور امت مسلمہ کو’’ اخرجت للناس‘‘ اور ’’ شھداء علی الناس‘‘ کے خطاب سے نوازا یعنی مسلمانوں کو پوری انسانیت کا نگران مقرر فرمایا ۔اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام کو کسی خطہ خاص یا طبقہ خاص تک محدود نہیں رکھا ۔بلکہ اسلام سب کی رہنمائی کرتا ہے اور سب کو اپنے دامن عافیت میں جگہ دیتا ہے ،اسلام تمام افکاروں تمام قوموں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے،اسلام محکوم نہیںبلکہ حاکم ہے،اسلام کسی کا پابند نہیں سب کو اپنا بند بنایاتا ہے اور سب کوساتھ لیکر چلنے کا قائل ہے۔
چین وعرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہیں ساراجہاں ہمارا​
موجودہ دور میں مذہب خاص کر مذہب اسلام موضوع سخن بنا ہوا ہے ،کہ اسلام اور جہوریت دو جدا گانہ نظام ہیں ،اور اسلام اس جمہوری دور میں عصری تقاضوں کے ہم آہنگ نہیں ہے۔جب کہ ایسا نہیں ہے ۔مذہب ایک قلبی طور پر محسوس ہونے والا ایک حقیقی اور پر اثر احساس ہے ایک ایسی چیز جس کا تعلق زندگی کے تما م پہلوؤں کے ساتھ ہے۔دوسری طرف ایک فلسفیانہ نظام ہے جو انسان کو مذہب بیزاری سکھاتا ہے ،ان کے یہاں سماجی اور معاشی تصور الگ ہیں ۔جس کو یہ جمہوریت کے نام سے پکارتے ہیں ۔اور اسلام کو اینٹی جمہوریت یا جمہوریت مخالف تصور کرتے ہیں ۔ اور اسلا و جمہوریت کا موازنہ کرتے ہیں ۔ جبکہ اسلام کا کسی جمہوریت یا کسی دوسرے سیاسی سماجی معاشی نظام سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا ۔اسلام کا مرکزی نقطہ نظر زندگی کے ناقابل تبدیل پہلوؤں سے ہے ،جبکہ سیاسی اور سماجی اور معاشی نظام کا تعلق زندگی کے تغیر پذیر پہلوؤں سے ہے۔
جمہوریت ایک بتدریج فروغ پانے والا اصلاحی نظام ہے جو مختلف حالات میں حالات کی مناسبت سے تغیر پذیر ہے ،جب کہ اسلام کے اپنے مستقل پائیدار اور جامع اصول ہیں جن کا دائرہ کار انسان کے اعمال عقائد ایمان عبادات اخلاقیات اور معاملات سے ہے ،اور یہ ناقابل تبدیل اصول ہیں ۔
اسلام اور اقتدار اعلیٰ:
اسلام کے سیاسی نظام میں حاکمیتِ مخلوق(عوام) کے بجائے حاکمیت ِخالق (اللہ تعالیٰ )کا تصور بنیادی حیثیت رکھتا ہے کسی کو بھی ’’ارباب من دون اللہ‘‘ بننے کا حق نہیں دیا گیا ہے ۔
اسلامی نقطہ نظر سے اللہ تعالیٰ ہی حاکم اعلیٰ ہے کوئی خاندان کوئی ملت کوئی قوم اپنی حاکمیت کا دعویٰ نہیں کرستی ــ
’’ان الحکم الا للہ‘‘(انعام: ۵۷) (حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں)۔
اللہ تعالیٰ قانون ساز ہے اور اسی کو ردو بدل کا حق ہے اس کے علاوہ کسی اور کو نہیں۔حتیٰ کے انبیا علیہم السلام کو بھی نہیں۔
امیر یا اسلامی حکومت صرف اسی صورت میں قابل قبول ہے جب تک وہ قانون الٰہی کی پابند رہیں گی۔
اسلام میں قانونی اور سیاسی حاکمیت میں کوئی امتیاز نہیں اللہ ہی سیاسی اور قانونی مقتدر اعلیٰ ہے۔
جن لوگوں کے ہاتھوں میں سیاسی نظام کی باگ ڈور ہوتی ہے ان کی حیثیت حاکم کی نہیں بلکہ نگراں اور منتظم اعلیٰ کی ہوتی ہے ان کا فرض منصبی یہ ہے
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ

کہ وہ خود بھی اللہ کے احکام کی پاسداری کریں اور دوسروں کو بھی پابند عمل بنائیں ،اور عدل وانصاف کے ساتھ اللہ کی مخلوق کی دیکھ بھال کریں اور ان کے معاملات کو سلجھائیں ۔
اسلام میں حکومت ایک امانت ہوتی ہے اس لئے اس کا حق وہی ادا کرسکتے ہیں جو امین ہوں ۔
اسلام میں شخصی آزادی یا جمہوریت:
اسلام میں انفرادی اور شخصی آزادی کافی اہمیت کی حامل ہے یہی ایک ایسا پہلو ہے جو تھوڑی بہت جمہوریت سے مما ثلت رکھتی ہے ۔ اسلامی دستور کے مطابق ہرایک شخص کو خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم سب کو ، مذہب ،عقیدہ ،تنظیم ،وغیرہ کی کھلی اجازت دیتا ہے ،بشرطیکہ وہ مفاد عامہ میں ہو ،اور اس سے شر وفساد نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا۝۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ۝۶۴ ( مائدہ ۶۴- )
اور یہ ملک میں فساد کے لیے دوڑے پھرتے ہیں اور خدا فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا
اس لئے اسلام ایک پر امن زندگی کی ضمانت اور حکم دیتا ہے ۔اسلام جمہوریت کے اس پہلو سے بالکل ہم آہنگ ہے بلکہ جمہوریین نے یہ اصول اسلام سے ہی اخذ کیا ہے۔اسلام مساوات اخووت و بھائی چارگی کی تعلیم دیتا ہے اور یہی جمہوریت کا نعرہ ہے ۔قرآن فرماتاہے:
يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً۝۰ۚ
ترجمہ:لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا (یعنی اول) اس سے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت (پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلا دیئے۔
تو ظاہر ہے جب انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں تو ان سے رنگ ونسل کا امتیاز خود بخود ختم ہوجائیگا ،اور پھر یہ رنگ ونسل کا فرق صرف فروعی حیثیت رکھتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
عَنْ اَبِی نَضْرَةَ قَالَ حَدَّثَنِی اَو حَدَّثَنَا مَنْ شَہِدَ خُطَبَ رَسُولِ اللّٰہِ بمِنٰی فِی وَسَطِ اَیَّامِ التَّشْرِیْقِ وَہُوَ عَلٰی بَعِیْرٍ فَقَالَ یٰایُّہَا النَّاسُ أَلاَ اِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وأنَّ اَبَاکُمْ وَاحِدٌ أَلاَ لاَ فَضْلَ لِعَرَبِیّ عَلٰی عَجَمِیّ وَلاَ عَجَمِیِّ عَلٰی عَرَبِیّ وَلاَ لِأسْوَدَ علٰی اَحْمَرَ وَلاَ لِاَحْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ اِلاَّ بِالتَّقْوٰی أَلاَ ہَلْ بَلَّغْتُ قَالُوْا نَعَمْ قَالَ لِیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَائِب
ابونضرة ؓفرماتے ہیں کہ مجھ سے اس شخص نے بیان کیا جو مقام منی میں ایامِ تشریق کے درمیان میں حضور صلى الله عليه وسلم کے خطبوں میں حاضر تھا دران حالیکہ آپ اونٹ پر سوار تھے آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا اے لوگو خبردار تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ (آدم) ایک ہے خبردار کسی عربی آدمی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر نہ کسی کالے وسیاہ آدمی کو کسی سرخ پر اور نہ کسی سرخ کو کسی سیاہ آدمی پر کوئی فضیلت ہے ہاں تقویٰ فضیلت کا مدار ہے پھر آپﷺ نے صحابہ ؓسے مخاطب ہوکر فرمایا کیا میں نے پیغام الٰہی امت تک پہنچادیا؟ صحابہؓ نے جواب دیا جی ہاں آپ(ﷺ) نے پہنچادیا آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا جو یہاں موجود ہے وہ اس تک پہنچا دے جو موجود نہیں ہے۔ (روح المعانی ۸/۱۶۴ من روایت البیہقی والمردویہ، تفسیر قرطبی ۸/۶۰۵)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
یٰاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (القرآن)
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ
ترجمہ: اے لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت (آدم وحوا) سے بنایا اور تم کو مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا (محض اس لئے کیا) تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے بڑا شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا اور پوری خبر رکھنے والا ہے۔
اس طرح اسلام مساوات کی تعلیم دیتا ہے ،اسلام یہ بات بھی تسلیم کرتا ہے کہ افراد اور گروہوں کو بعض بنیادی حقوق شہری آزادیاں ہونی چاہئیں اس بنیادی بات کی حد تک اسلامی تصور اور موجودہ جمہوریت باہم متفق ہیں ۔جہاں تک اسلام اورجمہوری نظام کا تعلق ہے ،وہ درج ذیل ہے ۔
حرمت جان یا جینے کا حق ،عزت آبرو کی حفاظت ،خصوصاً ناموس خواتین کی حفاظت ، بنیادی ضروریات زندگی کی حفاظت و ضمانت،عدل و انصاف کے حصول کا حق ،نیکی میں تعاون اور بدی میں عدم تعاون کا حق،مساوات کا حق ،ظالم کی اطاعت سے انکار معصیت سے اجتناب ، شخصی آزادی،نجی زندگی کا تحفظ،اخلاقی حقوق کی پاسداری، اظہاررائےکی آزادی ،مذہبی آزادی ،مسلک کی آزادی ۔عبادات کی آزادی وغیرہ یہ سب وہ اصل ہیں جو جمہوریت کے اصول ہیں ،یہاں تک اسلام اور جمہوریت میں کوئی فرق نہیں۔
اسلام کا شورائی (جمہوری)نظام:
نظام کی اہمیت اور تقدس کا یہ عالم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب مقدس قرآن مجید کی ایک مکمل سورت کا نام ہی ”سورة الشوریٰ“ ہے اور اس میں مسلمانوں کے شورائی (جمہوری) طرزِ حکمرانی کو عبادات اور اخلاق جیسے اوصافِ مومنانہ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ کسی کی رائے سے اختلاف رکھنے والے کو مکمل طور پر برداشت کرنا‘ اس کی بات پر توجہ دینا‘ یعنی حزب اختلاف (اپوزیشن) کو مطمئن کرنا اور اکثریت کے فیصلے کا پورا پورا احترام کرنا اور از روئے قران و سنت اور آثارِ صحابہ واجب ہے۔ جبکہ سورة آلِ عمران کی(۱۵۹)نمبر آیت میں مشورہ لینے کے حکم کے ساتھ عزم اور توکل کے حکم میں بھی دراصل اشارہ اسی بات کا ہے کہ اکثریت کی رائے سے جو فیصلہ طے ہو جائے اسے عزم بالجزم کے ساتھ نافذ کر دیا جائے اور نتائج کے سلسلے میں اللہ کی ذات پر توکل اور بھروسہ کیا جائے اور یہی اسلامی جمہوریت کا امتیاز اور مطلوب و مقصود بھی ہے۔ اگر اسلام کا منشا قیام حکومت یا سیاسی نظام نہ ہوتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے خلفائے راشدین ایک منفرد حکومت قائم کر کے دنیا بھر کی فتوحات اور تسخیر کے لیے قافلہ در قافلہ نہ نکلتے اور بادشاہانِ وقت کے ساتھ خارجی روابط اور دعوتِ اسلام کے لیے سُفراءاور رسائل نہ ارسال کرتے اور نہ ہی امت کو بالخصوص اصولِ حکمرانی تلقین فرمائے جاتے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام جن سیاسی قدروں اور جس طرزِ حکمرانی کا علمبردار ہے وہ نہ صرف جمہوری اقدار اور جمہوری طرز کی حکمرانی ہے بلکہ وہ عصرِ حاضر کی صدارتی و پارلیمانی جمہوریت سے افضل اور انسانیت کے لیے زیادہ نفع بخش بھی ہے۔ اسلام کی جمہوری قدریں دراصل عادلانہ قدروں سے عبارت ہیں اور یہ عدل کو تقویٰ سے وابستہ کرتا ہے۔ عدل دراصل احترامِ آدمیت مساوات اور خدمت انسانیت کی زندہ و نمائندہ علامت ہے اسی لیے اسلام جن جمہوری اقدار کو پروان چڑھانا چاہتا ہے ان میں عدل و انصاف کو اولیت حاصل ہے۔ چنانچہ اسلام کی (قرآن میں) اس ضمن میں کچھ خاصی اصطلاحات ہیں جنہیں ہم اسلامی اصطلاحاتِ جمہوریت کا نام دے سکتے ہیں۔ ان اصطلاحات میں (علماءکونسل) ایتمار (باہمی مشورہ)،خلیفہ (جائز نمائندہ) ، استفتاء(استصوابِ رائے یا ریفرنڈم)، مبایعت (عوامی تائید) شوریٰ (قومی اسمبلی) وغیرہ۔
الغرض ہر ملک کے جمہوری نظام کی مختلف ضروریات اور کیفیات ہوتی ہیں ۔جن کو باہمی مشورے سے طے کیا جاتا ہے۔
ہندوستان اور جمہوریت:
ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری نظام ہے جس میں مختلف رنگ ونسل کے اور مختلف زبانوں کے بولنے والے،مختلف مذاہب والے ،اور
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ
مختلف المسلک افراد رہتے ہیں ۔یہاں کے دستوری آئین کے مطابق سب کو ہرطرح کی آزادی ہے خصوصاً مذہبی آزادی ،اس ملک کی یہ خاص صفت اور خوبی ہے کہ یہاں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو مکمل مذہبی آزادی ہے ،ان کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہے ،حتیٰ کے ان کی مذہبی عدالتیں بھی ہیں، جیسا کہ مسلمانوں کی شرعی عدالتیں ،اور جگہ جگہ شرعی دارالافتاء ہیں ،حکومت ان میں کوئی مداخلت نہیں کرتی،غرض کہ ہر انسان خصوصاً مسلمان مسلم ممالک کی بنسبت ،ہندوستان میں زیادہ پر امن اور آزاد ہے۔اور یہاں کا باعزت شہری ہے ، اس ملک کے صدور بھی مسلمان ہوئے ہیں ۔اس اعتبار سے مسلمانوں کا اس ملک کے قوانین سے ہم آہنگ ہوجانے میں کوئی قباحت نہیں۔
ووٹ کی شرعی حیثیت:
ووٹ : انتخابات میں ووٹ، ووٹر اور امیدوار کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے جس کے ذریعہ سے ایک ووٹر الیکشن میں کھڑے ہوئے امیدوار کے بارے میں گواہی دیتا ہے کہ میرے نزدیک یہ امید وار قوم و ملت کا سچا خادم اور ہمدردہے اور ملک کا بہی خواہ ہے ،اور میری دانست کے مطابق یہ امیداوار ایماندار او دیانت دار ہے ،اس لئے میں اس کو ووٹ دے رہا ہوں، یعنی اس کے حق میں گواہی دے رہا ہوں کہ یہ معتمد ہے۔
ووٹ کی شرعی حیثیت اور اکابر علماء کرام:
ہمارے اکا برین علماء کرام میں والدی حضرت مفتی عزیزالرحمٰن صاحب بجنوری نوراللہ مرقدہ ، حضرت مفتی کفایت اللہ صاحبؒ،حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ اور حضرت مفتی شفیع صاحب ؒ اور عصری علماء کبار میں حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ اور حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مد ظلہ العالی نے الیکشن میں کسی امیدوار کوووٹ دینے کی جو حیثیا ت قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
ووٹ بحیثیت مشورہ: ووٹ کی ایک حیثیت مشورہ کی ہے جسکے ذریعہ ایک ووٹر سے یہ مشورہ لیا جاتا ہے کہ یہ امیدوار جو ملکی اقتدار میں شامل ہونے کا خواہش مند ہے کیا اس کا انتخاب ملک قوم وملت کے حق میں مفید رہے گا یا نہیں۔ شریعت کی رو سے جس سے مشورہ لیا جاتا ہے اس کی حیثیت امین کی ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۝۰ۙ ( النساء :۸۵)
خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’الْمُسْتَشَارُ مُؤتَمَن‘‘ (الحدیث) أخرجه أبو داود والترمذي وحسنه وابن ماجه وإسناده صحيح
جس سے مشورہ طلب کیا جائےوہ اس کا امین ہوتا ہے
اس کا مطلب یہ ہےکہ مشورہ دینےوالے کو مشورہ اپنی یا کسی دوسرے کی غرض کو شامل کئے بغیر دینا چاہئے اور اس مشورہ کو بطور امانت اپنے پاس محفوظ رکھنا چاہئے اور ہر کسی پر اس کا اظہار نہیں کرنا چاہئے۔
وو ٹ بحیثیت وکالت: ووٹ کی شرعی حیثیت وکالت کی ہے ،جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس امیدوار کو میں ووٹ دے رہا ہوں میرےکے نزدیک اس امید وار میں وکالت کی اہلیت ہے اور قابل اعتماد اور با صلاحیت ہےاس لئے میں اس کو اپنی جانب سےو کیل اور نمائندہ منتخب کرتا ہوں ،لیکن یہ وکالت صرف اس کےشخصی حق کے ساتھ متعلق نہیں ہے ،اور اس کا نفع نقصان صرف ووٹر کی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورے ملک وقوم کےمفادات اس سے وابستہ ہو تے ہیں اگر کسی وجہ سے یہ منتخب نمائندہ خائن ہوجائے یا نا اہل ثابت ہوجائے تو اس حق تلفی کرنے کا
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ
نمائندے کو ہوگا وہیں اس ووٹر کو بھی ہوگا۔
وو ٹ بحیثیت شہادت وگواہی:
ووٹ کی ایک حیثیت گواہی اور شہادت کی بھی ہے گویا ووٹر یہ گواہی دے رہا کہ جس امیدوار کے حق میں میں ووٹ دے رہا ہوں وہ اس کا اہل ہے ،اور علم ودانش میں یہ شخص دیانت دار محنتی اور ایماندار ہے ملک وقوم کی خدمت دیانت داری سے کریگا۔اس لئے میرے نزدیک یہ شخص ملک کا نمائندہ بننے کا اہل ہے۔
وو ٹ بحیثیت سفارش و شفاعت:
شرعی نقطہ نظر سےووٹ کی ایک حیثیت شفاعت وسفارش کی بھی ہے ،گویا ایک ووٹر یہ سفارش کررہاہے کہ جس امیدوار کو میں ووٹ دے رہا ہوں یہ اس ووٹ سچاحق دار ہے اور اس عہدہ کاصحیح اہل ہے اس لئے اس کو ملک وقوم کی خدمت کا موقع دیا جائے۔
تنبیہ: واضح رہے کہ جس آدمی کے بارے میںسفارش کی جارہی ہے اس کے بارے میں پہلے اچھی طرح تحقیق کرلی جائے کہ وہ اس عہدہ کا اہل بھی کہ نہیں اس وجہ سے اگر وہ نا اہل نکل گیا تو اس کی ذمہ داری شرعاً ووٹر کی بھی ہوگی اور ووٹر برابر کا گناہ میں معاون مانا جائیگا ۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
مَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَـنَۃً يَّكُنْ لَّہٗ نَصِيْبٌ مِّنْھَا۝۰ۚ وَمَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَيِّئَۃً يَّكُنْ لَّہٗ كِفْلٌ مِّنْھَا۝۰ۭ وَكَانَ اللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيْتًا۝۸۵ [٤:٨٥]
ترجمہ: جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس (کے ثواب) میں سے حصہ ملے گا اور جو بری بات کی سفارش کرے اس کو اس (کے عذاب) میں سے حصہ ملے گا اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
اور دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے فرمایا ہے
وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۝۰۠ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۲ [٥:٢]
ترجمہ : اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے
بالکل واضح طور پر اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمادی دیکھو نیک کاموں میں تو ایک دوسرے کی مدد کردیا کرو لیکن گناہ والے کاموں شرکت مت کرنا اگر ایساکروگے تو اس کا گناہ تمہارے ذمہ بھی ہوگا اور یاد رکھو اللہ سخت عذاب والا ہے۔ اس لئے ووٹر کے لئے ضروری ہے کسی امیدوار کی حمایت کرتے ہوئےیہ پہلو سامنے رہنا چاہئے۔اور امید وار کے بارے میں اچھی طرح سے تصدیق کر لینی چاہئے۔
ووٹ ایک شرعی حق ہے :
علماء اور فقہاء نے فرمایا ہے’’ ووٹ دینا ایک شرعی ذمہ داری ہے اور اس کا پورا کرنا واجب ہےکیونکہ ووٹ کی حیثیت گواہی کی ہے اور گواہی سے بچنا گناہ ہے‘‘ (مفتی عزیزالرحمٰن ؒبجنوری)
انتخابات میں ووٹ، ووٹر اور امیدوار کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے۔ جس کا چھپانا بھی حرام ہے اور جھوٹ بولنابھی حرام ہے، اس میں محض ایک سیاسی ہارجیت اور دنیا کا کھیل سمجھنابہت بڑی غلطی ہے، آپ جس امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں شرعاً آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریے، علم و عمل اور دیانتداری کی روح سے اس کام کا اہل اور دوسرے اُمیدواروں سے بہتر ہے۔ جس کام کیلیے یہ انتخابات ہو رہے ہیں۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیں تو اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں۔(مفتی شفیع صاحبؒ)
مستدلات:
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلَا تَكْتُمُوا الشَّہَادَۃَ۝۰ۭ وَمَنْ يَّكْتُمْہَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ۝۰ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ۝۲۸۳ۧ [٢:٢٨٣]
ترجمہ: (دیکھنا) شہادت کو مت چھپانا۔ جو اس کو چھپائے گا وہ دل کا گنہگار ہوگا۔ اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے
قرآن پاک میں جہاں شہادت کو چھپانے کی ممانعت ہے اور گناہ ہے ، وہیں سچی گواہی اور شہادت کی تاکید بھی فرمائی ہے۔
چنانچہ اللہ رب العزت نے فرمایا:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلہِ شُہَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ۝۰ۡوَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۝۰ۭ اِعْدِلُوْا۝۰ۣ ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۝۰ۡوَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۝۸ [٥:٨]
ترجمہ : اے ایمان والوں! خدا کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے
عدل وانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کو بنا کسی افراط وتفریط کے حق کی آواز بلند کرنی چا ہئےاور حق بات کہنے میں اس کو جھجک اور خوف نہیں ہونا چاہئے،اس بارے میں علامہ شبیر عثمانی صاحبؒ فرماتے ہیں کہ ’’عدل وانصاف کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کے ساتھ بنا کسی افراط تفریط کےوہ معاملہ کرنا جس کا وہ واقعی مستحق ہے ،عدل وانصاف کی ترازو ایسی صحیح اور برابر ہونی چاہئے کہ عمیق سے عمیق محبت اور شدید سے شدید عدوات بھی اس کے دونوں پلوں میں سے کوئی پلہ نہ جھکا سکے (تفسیر عثمانی ص:۱۴۴)
ووٹ نہ دینا خیانت ہے:
جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے وہ ڈالنا یا شرعاً واجب ہے اس طرح ووٹ نہ دینا ایک خیانت اور نا انصافی اور شرعی جرم ہے بعض لوگوں کا یہ گمان ہوتا ہےکہ نا اہل کو ووٹ دینا معصیت اور گناہ ہے بیشک ایسا سوچنے میں وہ برحق ہیں لیکن یہ کیسے معلوم ہو کہ یہ امیدوار نا اہل ہے اور یہ اہل ہے ۔بغیر تحقیق کئے کسی کو نا اہل کہنا مناسب نہیں،البتہ چھان پھٹک کرنا تحقیق کرنا اس ووٹر کی شرعی اور قومی وملی ذمہ داری ہے کہ وہ صحیح امیدوار کا پتہ لگائے ،اس وجہ سے کہ اگر ہماری لا پرواہی کی وجہ سے کوئی غلط آدمی منتخب ہوجائے جو بد دیانت اور خائن فسادی ہو ظالم ہو غیر عادل ہو تو اس کی ذمہ داری بھی اس ووٹ نہ ڈالنے پر بھی عائد ہوگی اور وہ بھی اس ظلم میں برار کا شریک مانا جائیگا، جیساکہ قرآن پاک نے فرمایا:
وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۝۰۠ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۲ [٥:٢]
ترجمہ :اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے ۔
اس لئے نیکی کے کاموں میں مدد کرنی چاہئے اور برائی کے کاموں سے اجتناب کرنا چاہئے۔واضح رہے کہ ووٹ استعمال کا صحیح استعمال نہ کرنا یہ کتمان شہادت ہے اور ووٹ کا غلط استعمال کرنا زُورہے جس شریعت میں شہادت زور حرام ہے اسی طرح کتمان شہادت بھی حرام ہے۔
فرمان رسالت ماٰب ﷺ ہے :
عن ابی بردۃ عن ابیہ عن النبی ﷺ قال من کتم شہادۃ اذا دعی الیھا کمن کان شھدالزور(المعجم الاوسط ج:۴ص:۲۷۰)
ترجمہ: حضرت ابو بردہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ؐنے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو شہادت کے لیے بلایا جائے پھر اسے چھپائے اور شہادت نہ
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ
دے تو وہ ایسا ہے جیسے جھوٹی گواہی دینے والا(گناہوں میں دونوں برابر ہیں )۔
اس لئے ووٹر کو اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چا ہئے اور اہل امیدوار کو ووٹ دینا چاہئے۔
ووٹ دینا ایک سیاسی اور ملی فریضہ ہے:
ووٹ دیناسیاسی اور ملی اعتبار سے بھی نہایت ضروری ہے کیوں کہ اگر مسلمان الیکشن میں حصہ لینا بند کردیں تو قومی اور ملکی سطح پر مسلمانوں کی پوزیشن بہت ڈاؤن ہوجائے گی اور ان کا کوئی پرسان حال بھی نہ رہے گا۔جس کا سیدھا سیدھا فائدہ مسلم مخالف قوتوں کو ہوگا،اور ان کا مقصد بھی یہی ہے کہ مسلمان ملک کی نمائندگی کرنا بند کردیں اور اور مسلمان تیسرے درجہ کے شہری بن جائیں اور ملک میں ان کا وزن اور ان کی اہمیت ختم ہوجائے۔
اور یہ سوچنا کہ اگر ہم نے ایک ووٹ نہ دیا تو ایک ووٹ سے کیا فرق پڑنے والا ہے ؟یہ سوچ انتہائی بچکانہ اور نہ سمجھی کی علامت ہے قوم وملت کے لئے نہایت خطرناک ہے، اس لئے کہ اگر ہر شخص یہی سوچنے لگے تو پھر پورے ملک میں ایک ووٹ کا بھی صحیح استعمال نہ ہوسکے گا ،معلوم رہے ہماراملک ہندوستان واحد ایک ایسی جمہوریہ ہے جہاں ووٹوں کی شماری نہایت امانت ودیانتداری کے ساتھ کی جاتی ہے۔ ایک ووٹ بڑا قیمتی ہوتا ہے پورے ملک کی قسمت کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہےکہ اس میں ایک جاہلانہ غفلت ہے ، ذراسی بھول چوک یا بددیانتی پورے ملک وملت کو تباہی کی طرف لے جا سکتی ہے اس لئےہمارے مروجہ نظام الیکشن میں ہر ووٹ نہایت قیمتی اور ملک کی قسمت کو سنوارنے اور بگاڑنے کے لیے فیصلہ کن ہے لہٰذا ہر فرد کا شرعی ،اخلاقی قومی اور ملی فریضہ ہے کہ اپنے وہ ووٹ کو نہایت تندہی اور ایمانداری سے استعمال کرے اسی میں سب کی بھلائی و عافیت ہے (ملخصاً ازاسلام اور سیاست حاضرہ ص۹ فقہی مقالات ج۲ص۲۹۲)
الیکشن میں از خود امیدوار بننے کا حکم شرعی :
شرعی اعتبار سے از خود کسی منصب یا عہدہ کا طلب کرنا ایک مذموم فعل ہے رسول اکرم ﷺنے از خود عہدہ ومنصب طلب کرنے ،اس کے لئے سفارش کروانے اور دل وجان سے اس کی خواہش کرنے سے منع فرمایا ہے ، قرآن وسنت کا عام حکم بھی یہی ہے کہ از خود کسی سرکاری عہدے اور منصب کو اپنے لیے طلب کرنا جائزنہیں ہے،اور شریعت کی نظر میں ایسا شخص مطلوبہ عہدے کا اہل نہیں ہوتاہےحضور ﷺ کا یہ معمول گرامی تھا اگر کوئی از خود کسی عہدہ یا منصب کی خواہش کا اظہار کرتا ،تو آپﷺ ایسے شخص کو آپ عہدہ دینے سے منع فرمادیتے تھے۔
حدیث شریف میں ہے:
عن أبی موسیٰ قال دخلت علی النبیﷺ أنا ورجلان من بنی عمّی فقال أحد الرجلین یارسول اللہ!أمّرنا علی بعض ما ولاک اللہ عزوجل وقال الاٰخر مثل ذالک فقال: إنا واللہ لانولی علی ہذا العمل أحدا سألہ ولا أحد احرص علیہ۔ (مسلم کتاب الامارۃ باب النہی عن طلب الامارۃ والحرص علیھا (ج۲ص۱۲۰)
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن میں اور میرے چچا کی اولاد میں دو شخص نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے ،اور ان میں سے ایک نے کہا یا رسول اللہ!اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو تمام مسلمانوں اور روئے زمین کا حاکم بنایا ہے ،مجھ کو بھی کسی کام یا کسی جگہ کا والی وحاکم مقرر فرمادیجیے، اور دوسرے نے بھی رسول اللہ ؐسے اسی طرح خواہش کا اظہار کیا ہے ،رسول اکرم ؐ نے فرمایا خدا کی قسم ہم اس شخص کو کسی کا والی اور حاکم نہیں بناتے جو اس کا از خود طالب ہوتا ہے اور نہ اس شخص کو کوئی ذمہ داری اور عہدہ دیتے ہیں جو اسکا حرص اور خواہش رکھتا ہو۔
ایک دوسری حدیث پاک میں ہے:
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ

عن أبی ذر قال قلت یارسول اللہ !ألاتسعملنی ؟قال فضرب بیدہ علی منکبی ،ثم قال یا اباذر!انک ضعیف وأنہا امانۃ وانہا یوم القیامۃ خزی وندامۃ إلامن أخذہا بحقہا وادی الذی علیہ فیہا وفی روایۃ یا ابا ذر! إنی اراک ضعیفا وانی احب لک ما احب لنفسی لا تامرن علی اثنین ولاتولین مال یتیم۔
(مسلم الامارۃ باب کراہۃ الامارۃ بغیر ضرورۃ ) ( ج۲ص۱۲۰)

حضرت ابوذر غفاری ؓفرماتے ہیں کہ ایک دن میں رسول کریم ﷺسے عرض کیا یارسول اللہ !آپ مجھے کسی جگہ کا والی اور حاکم کیوں نہیں بنادیتے ؟یہ سن کر آپﷺ نے اپنا دست مبارک ازرہ شفقت ومحبت میرے مونڈھے پر مارا اور فرمایا اے ’’ابو ذر‘‘! تم ناتواںاور کمزورہو اور یہ حکومت وامارت ایک عظیم امانت ہے جس کی ادائیگی نہایت لازم وضروری ہے ورنہ تو یہ حکومت وسیادت قیامت کے دن باعث رسوائی وشرمندگی ہوگی الا یہ کہ اسکا حق پورا ادا کردے ۔ایک اور روایت میں یوں ہے کہ اے ابو ذر! میں تم کو ناتواںدیکھتا ہوں تم حکومت وامارت کے بارگراں کا تحمل نہیں کر سکو گے اور میں تمہارے لئے اس چیز کو پسند کرتا ہوں جو خود اپنے لئےپسند کرتا ہوں لہٰذا تم کسی دو آدمی کاکبھی امیر وحاکم نہ بننا اور نہ کسی یتیم کے ما ل کی نگرانی قبول کرنا ۔
مذکورہ بالا تمام روایات سے معلوم ہوا کہ اپنے آپ کو عہدہ ومنصب کے لئے پیش کرنا ،اور قیادت وسیادت ، حکومت وامارت کی ذمہ داری کےلئے عوام میں خود کو بحیثیت امیدوار پیش کرنا ،انتخابات میں خود امید وار بننا اور عوام کی ذہن سازی کرنا کہ مجھے منتخب کرو ، اور یہ اظہار کرنامیں اس عہدے کا مستحق ہوں ،اس کے واسطےاشتہار بازی کرنا ،اپنی مدح سرائی کرنا ،اور مخالف پارٹی کی برائی کرنا کہ وہ اس کا اہل نہیں ہے میںہی اس کا اہل ہوں ،میں ہی آپ کے ووٹ کا صحیح حق دار اور مستحق ہوں،لہٰذا مجھے ہی ووٹ دو ،یہ طریقہ شریعت کے خلاف ہے، اور قرآن وسنت کے بالکل مخالف ہے۔اس لئے الیکشن میں اپنے آپ کونمائندہ بنا کر پیش کرنا ازروئے شرع درست نہیں ہے۔
مصلحتاً طلب منصب کا حکم:
ازخود طلب منصب ایک مذموم اور نا پسندیدہ عمل ہے لیکن استثنائی صورتوں میں عہدہ اور منصب کی درخواست مباح ہے جہاں اس بات کا اندیشہ ہو کہ اگرکوئی نا اہل الیکشن میں کھڑا ہوگیا تویہ نااہل اور ظالم اس پر قبضہ کرکے لوگوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائےگا ، ملک وملت کو نقصان پہنچائےگا ،اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا اس عہدہ منصب کے لائق واہل بھی نہیں ہے ،تو ایسی صورت میں ازخود عہدے کا طالب ہونا اور قوم وملک کا نمائندہ بن کر کھڑے ہونااور لوگوں سے ووٹ کا مطالبہ کرنا اس کی شرعاً گنجائش ہے ،بشرطیکہ محض اقتدار وکرسی اور جاہ منصب کے حصول کے لئے نہ ہو بلکہ قوم وملت کی خدمت کے جذبے اور سماج ومعاشرہ میں پھیلے ہوئے مفاسد کو ختم کرنے کے ارادے سے ہو ،اور اس کے اندر بھی یہ شرط ہے کہ اپنے حریف پارٹی کی غیبت ،سب وشتم اور عیب کا ذکر اور تشہیر نہ ہو ۔
الغرض مذکورہ حالات میں اگر کوئی شخص از خود عہدہ طلب کرے تو جائز ہے ، اور اس کا ثبوت حضرت یوسف علیہ السلام کے ’’قول اجعلنی علیٰ خزائن الارض إنی حفیظ امین ‘‘سے بھی ہوتا ہے،حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ مصر سے ایسے وقت میں عہدے کا مطالبہ کیا کہ ان کو یقین تھا کہ اگر میں اس منصب کو نہ لوںگا تو کوئی دوسرا نااہل آدمی اس پر مسلط ہو جائیگا اور لوگوں کو تکلیف پہنچائیگا ،اور ملک میں قحط سالی کا دور آنے والا ہے ،بنابریں آپ نے عہدہ کا مطالبہ کیا۔اس سے معلوم ہوا کہ اگر اس منصب کے لائق وفائق آدمی موجود نہ ہواور اس بات کا اندیشہ ہو کہ اگروہ اس منصب پر کنٹرول نہیں کرے گا تو لوگو ں کو انصاف نہیں مل سکے گا ،لوگوں کو تکلیف وپریشانی ہوگی اور لوگ ظلم وستم کے شکار ہوں گے تو ایسے موقع پر خود
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top