ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 378
- ری ایکشن اسکور
- 116
- پوائنٹ
- 53
امام ابو حنیفہ ان کی والدہ اور شاگرد مقلد نہیں تھے
امام ابو حنیفہ کی والدہ محترمہ اور ان کے شاگرد امام صاحب کے مقلد نہیں تھے، اور خود امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا غیر مقلد ہونا تو یقینی ہے، یعنی جو کام کے بندے بندیاں ہیں وہ مقلدین کے نزدیک بھی غیر مقلد ہی تھے۔
سیرت نعمان مولانا شبلی نعمانی حنفی کی کتاب کا سکین آپ کے سامنے ہے، امام ابو حنفیہ کی سیرت پر کتاب لکھی ہے جس میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی والدہ محترمہ کا ایک واقعہ نقل کیا ہے :
"ایک دفعہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی والدہ کو ایک مسئلہ درپیش آیا تو امام صاحب سے پوچھا مجھ کو یہ صورت پیش آئی ہے کیا کرنا چاہیے؟ امام ابوحنیفہ نے جواب بتایا تو والدہ محترمہ نے کہا تمہاری سند ہی نہیں ہے جب زرقہ واعظ اس کی تصدیق کریں گے تو مجھ کو اعتبار آئے گا، امام صاحب والدہ محترمہ کو لے کر زرقہ کے پاس گئے اور مسئلہ کی صورت بتائی، زرقہ نے کہا آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں آپ کیوں نہیں بتا دیتے؟ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : میں نے یہ فتوی دیا تھا، زرقہ نے کہا بالکل صحیح ہے، یہ سن کر والدہ محترمہ کو تسکین ہوئی اور گھر واپس آئیں۔" [سیرت النعمان، ص: ۵۹]
معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی والدہ کو امام صاحب کے فتوے پر اعتماد نہیں تھا۔
دوسرا سکین بھی مقلدین حنفیہ کی کتاب المبسوط کا ہے جس میں امام ابو حنیفہ کے شاگرد محمد بن حسن الشیبانی کا قول درج ہے، ایک مسئلہ میں امام ابوحنیفہ کے قول کو مسترد کرتے ہوئے محمد بن حسن الشیبانی فرماتے ہیں :
وَلَوْ جَازَ التَّقْلِيدُ كَانَ مَنْ مَضَى مِنْ قَبْلِ أَبِي حَنِيفَةَ مِثْلُ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ وَإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ رَحِمَهُمَا اللَّهُ أَحْرَى أَنْ يُقَلَّدُوا
اگر تقلید جائز ہوتی تو جو حضرات امام ابوحنیفہ سے پہلے گزر چکے ہیں، مثلا: حسن بصری اور ابراہیم نخعی وہ زیادہ حق دار ہیں کہ ان کی تقلید کی جائے۔ [كتاب المبسوط للسرخسي، ج: ۱۲، ص: ۲۸]
مذکورہ بالا اپنے دعوی کی تائید میں علامہ شامی حنفی کا بیان پیش کر رہا ہوں، وہ فرماتے ہیں:
"الأئمۃ الشافعیۃ کالقفال والشیخ ابن علی والقاضی حسین رحمہ اللّٰه أنھم کانوا یقولون لسنا مقلدین للشافعی رحمہ اللّٰه بل وافق رأینا رأیہ ویقال مثلہ فی أصحاب أبي حنیفۃ مثل أبی یوسف رحمہ اللّٰه ومحمد رحمہ اللّٰه بالأولی وقد خالفوہ فی کثیر من الفروع۔"
علماء شوافع مثلاً قفال، شیخ ابن علی اور قاضی حسین رحمہ اللہ ان سب کا یہ کہنا ہے کہ ہم امام شافعی کے مقلد نہیں ہیں بلکہ ہماری رائے ان کی رائے کے موافق ہو گئی ہے اور اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے۔ (کہ وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد نہیں تھے) مثلاً ابو یوسف رحمہ اللہ اور محمد رحمہ اللہ کیونکہ انہوں نے اکثر مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مخالفت کی ہے۔ [عقود رسم المفتی، ص: ۲۵]
تیسرا سکین دیوبندیو کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب کے ملفوظات کا ہے، تھانوی صاحب غیر مقلدین کو بشارت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"بعض غیر مقلدین کہتے ہیں کہ ہمیں ان سے نفرت ہے بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے، جبکہ ہم خود ایک غیر مقلد کے معتقد اور مقلد ہیں، کیونکہ امام اعظم ابوحنیفہ کا غیر مقلد ہونا یقینی ہے۔" [ملفوظات حکیم الامت، ج: ۲۴، ص: ۳۳۲]
اول دور کے مجتہد ہوں یا غیر مجتہد امام ابوحنیفہ کے رشتے دار ہوں یا شاگرد غیر مقلد ہی تھے، یہ تقلید کی لعنت بعد میں ہی امت پر پڑی ہے۔