• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام احمدؒ بن حنبل کا جوتا اور ایک جن

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
ذاتی پیغام میں ایک بھائی کا سوال اور اس کا جواب :

السلامُ و علیکم
شیخِ محترم اس روایت کا جائزہ چاہیے تھا
امام احمد بن حنبل کے جوتے سے جن بھاگ گیا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ـــــــــــــــــــــــــ
یہ واقعہ امام ابویعلیٰ حنبلیؒ کی "طبقات الحنابلہ " میں درج ہے ؛
طبقات الحنابلة
المؤلف: أبو الحسين ابن أبي يعلى، محمد بن محمد (المتوفى: 526 ھ)
عَلِيّ بْن المكري المعبراني روى عَنْ إمامنا أَحْمَد أشياء:
منها ما سمعته من أَحْمَد بْن عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: سمعت أبا الحسن عَلِيّ بْن أَحْمَدَ بن علي بن المكري المعبراني قدم علينا فِي ذي القعدة من سنة اثنتين وخمسين قَالَ حَدَّثَنِي أبي عَنْ جدي قَالَ: كنت فِي مسجد أبي عبد اللَّه أحمد بن محمد بْنِ حنبل فأنفذ إليه المتوكل بصاحب له يعلمه أن له جارية بها صرع وسأله أن يدعو اللَّه لها بالعافية فأخرج له أَحْمَد نعل خشب بشراك خوص للوضوء فدفعه إلى صاحب له وقال له تمضي إلى دار أمير المؤمنين وتجلس عند رأس الجارية وتقول له يقول لك أَحْمَد أيما أحب إليك تخرج من هذه الجارية أو أصفع الآخر بهذه النعل فمضى إليه وقال له مثل ما قَالَ: أَحْمَد فقال: المارد عَلَى لسان الجارية السمع والطاعة لو أمرنا أحمد أن لا نقيم فِي العراق ما أقمنا به إنه أطاع اللَّه ومن أطاع اللَّه أطاعه كل شيء وخرج من الجارية وهدأت وزوجت ورزقت أولادًا فلما مات أَحْمَد عاودها المارد فأنفذ المتوكل إلى صاحبه أبي بكر المروذي وعرفه الحال فأخذ المروذي النعل ومضى إلى الجارية فكلمه العفريت عَلَى لسانها لا أخرج من هذه الجارية ولا أطيعك ولا أقبل منك أَحْمَد بن حنبل أطاع اللَّه فأمرنا بطاعته.
وبه قَالَ: خرجت أنا والصبيان ولي سبع سنين أو ثمان سنين نبصر أحمد ابن حنبل كيف يضرب (طبقات الحنابلة 1/233 )

علی بن عبداللہ سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں نے علی بن احمد المکری سے سنا جب وہ ہمارے پاس تشریف لائے ،وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں اور انکے والد انکے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ :
میں ایک مرتبہ میں مسجد میں امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ خلیفہ متوکل نے اپنا ایک وزیر بھیجا ۔ وزیر نے خلیفہ کا پیغام دیا کہ ہماری ایک لڑکی کو مرگی کا دورہ پڑتا ہے اس کے لیے دعا کریں کہ اللہ اسے صحت دے ، امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ اٹھے اور وضو کرکے اپنا لکڑی کا جوتا وزیر کو دیا اور فرمایا بادشاہ کے گھر اس لڑکی کے پاس یہ جوتا لے جاؤ اور اس جن کو میرا پیغام دو کہ اس لڑکی کی جان چھوڑتے ہو یا اس جوتے سے تمہاری مرمت کروں ؟
وزیر جوتا لے کر لڑکی کے پاس گیا اور امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کا پیغام دیا ،
سرکش جن نے جواب دیا کہ ہم امام احمد کا حکم ضرور مانیں گے اگر وہ ہمیں عراق چھوڑنے کا بھی حکم کریں تو ہم عراق چھوڑ جائیں گے کیونکہ امام احمد اللہ کے فرمانبردار ہیں اور جو اللہ کا فرمانبردار ہوتا ہے ساری مخلوق اسکی فرمانبرداری کرتی ہیں اس لیے ہم بھی انکی فرمابرداری کریں گے ۔ یہ کہہ کر جن اس لڑکی سے نکل گیا اور وہ لڑکی بالکل ٹھیک ہوگئی اور اس سے اولاد بھی ہوئی ،
عرصہ بعد جب امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کا انتقال ہوا تو وہ جن پھر اس لڑکی پر آگیا ۔ لڑکی کے گھر والوں نے امام احمد کے ایک شاگرد ابوبکر المروزیؒ کے پاس پیغام بھیجا اور اسے امام صاحب کا سارا واقعہ بھی سنایا ۔ وہ شاگرد بھی اپنا جوتا لے کر جن سے کلام کرنے لگے (کہ چلے جاؤاس لڑکی کو چھوڑ دو)
جن نے جواب دیا کہ میں ہرگز اس لڑکی کو نہیں چھوڑوں گا اور نہ ہی تمہاری بات مانوں گا ۔ امام احمد بن حنبل تو اللہ کے فرمانبردار تھے اور انکی اس فرمانبرداری کی وجہ سے میں نے انکا حکم مانا تھا ۔
ــــــــــــــــــــــــــــ
اس قصہ اور واقعہ کی اسناد صحیح نہیں ،کیونکہ
عَلِيّ بْن أَحْمَدَ اور اس کے والد اور دادا کے حالات کا ہمیں علم نہیں ہوسکا ،
میں اس واقعہ کو اوپن فورم پر پیش کر رہا ہوں ،ہوسکتا ہے کسی اور صاحب علم کو ان رواۃ کے حالات کاعلم ہو ؛
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
جزک اللہ خیر شیخِ محترم ایک اور واقعہ ہے جو امام ابن قیمؒ نے امام ابن تیمیہ کے حوالے سے کہا ہے کہ انہوں نے ایک سخص کو ڈنڈے سے مار کے جن بھگایا
علامہ ابن قیمؒ نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ :
وَشَاهَدْتُ شَيْخَنَا يُرْسِلُ إِلَى الْمَصْرُوعِ مَنْ يُخَاطِبُ الرُّوحَ الَّتِي فِيهِ، وَيَقُولُ: قَالَ لَكِ الشَّيْخُ: اخْرُجِي، فَإِنَّ هَذَا لَا يَحِلُّ لَكِ، فَيُفِيقُ الْمَصْرُوعُ، وَرُبَّمَا خَاطَبَهَا بِنَفْسِهِ، وَرُبَّمَا كَانَتِ الرُّوحُ مَارِدَةً فَيُخْرِجُهَا بِالضَّرْبِ فَيُفِيقُ الْمَصْرُوعُ وَلَا يَحُسُّ بِأَلَمٍ، وَقَدْ شَاهَدْنَا نَحْنُ وَغَيْرُنَا مِنْهُ ذَلِكَ مِرَارًا.
وَكَانَ كَثِيرًا مَا يَقْرَأُ فِي أُذُنِ الْمَصْرُوعِ: {أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ} [المؤمنون: 115] [الْمُؤْمِنُونَ: 115] .

یعنی : ہم نے اکثر اپنے استاد امام ابن تیمیہ ؒ کو دیکھا کہ وہ جن زدہ کے پاس کسی کوبھیجتے ،
وہ جاکر اس روح کو مخاطب کرکے کہتا : امام ابن تیمیہؒ نے تجھے نکل جانے کا حکم دیا ہے ، تیرے لیئے اس شخص کو ستانا جائز نہیں لہذا اس کی جان چھوڑدے ،تو اس طرح مریض درست ہوجاتا ،
اور کبھی خود جن سے مخاطب ہوتے ،اور کبھی جن سرکش ہوتا تو اسے مار کر نکالتے ،اور مار کے بعد مریض افاقہ پاتا ،اورمریض کو اس مار کا احساس بھی نہ ہوتا ، اور مار سے جن نکالنے کا مشاہدہ ہم نے کئی دفعہ کیا ،
اور امام صاحب اکثر مریض کے کان میں سورہ المومنون کی آخری آیات پڑھتے تھے ،
(زادالمعاد 4: 63 )
ــــــــــــــــــــ
اور جن زدہ آدمی کو مار کرجن نکالنے کے متعلق امام ابن تیمیہؒ خود بھی اپنے فتاوی میں بیان کیا ہے ؛
مثلاً ایک جگہ لکھتے ہیں :
قد يحتاج في إبراء المصروع ودفع الجن عنه إلى الضرب فيضرب ضربا كثيرا جدا والضرب إنما يقع على الجني ولا يحس به المصروع حتى يفيق المصروع ويخبر أنه لم يحس بشيء من ذلك ولا يؤثر في بدنه ويكون قد ضرب بعصا قوية على رجليه نحو ثلاثمائة أو أربعمائة ضربة وأكثر وأقل بحيث لو كان على الإنسي لقتله وإنما هو على الجني والجني يصيح ويصرخ ويحدث الحاضرين بأمور متعددة كما قد فعلنا نحن هذا وجربناه مرات كثيرة يطول وصفها بحضرة خلق كثيرين ))
(مجموع الفتاویٰ 19۔60 )
 
Top