حافظ محمد عمر
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 427
- ری ایکشن اسکور
- 1,542
- پوائنٹ
- 109
امام بیہقی رحمہ اللہ کے علمی اسفار
امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنے علمی رحال پر روانہ ہونے کے لیے صدر مقام کا درجہ بیہق کو دیا۔ ان مبارک اسفار کا امام بیہقی رحمہ اللہ کی علمی پختگی میں ایک اہم حصہ ہے اور علوم دینیہ پر اس کا ایک اثر نظر آتا ہے خصوصاً روایات حدیثیہ جو کہ اصول شریعت کا مقام رکھتی ہیں اور انہیں پر ہی اکثر احکام شریعہ کی بنیاد پر ان اسفار کا ایک خاص اثر نمایاں ہوا۔ ان میں سے چند شہروں کے نام درج ذیل ہیں:
1.نیشاپور
نیشاپور عالم اسلام کے عظیم ترین شہروں میں سے ایک تھا جوعالم اسلام میں ممتاز تھا۔ یہ شہر فضلاء کی کان اور علماء کے چشمہ کے طور پر عالم اسلام میں معروف ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ اپنی علمی زندگی کے ابتداء میں ہی نیشاپور تشریف لے گئے ۔ یہ پانچویں ہجری کے شروع کے ایام ہیں جس کی تائید اس بات سے مزید واضح ہو جاتی ہے کہ آپ نے امام حاکم رحمہ اللہ سے بھی سماعت حدیث کا شرف حاصل کیا جو کہ 405ھ میں تقریباً اسی سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے ۔
آپ نے ان سے دس ہزار احادیث اخذ کیں اور ان کا بڑا حصہ بالمشافہ سنا بلکہ بعض روایات تو کئی مرتبہ تکرار کے ساتھ سماعت فرمائیں ۔ یہ چیزآپ کے طویل قیام اور شیخ سے دائمہ ملازمت کا تقاضا کرتی ہے ۔ شیخ حاکم کی عمرکے آخری حصہ میں جس میں شائقین علوم کاکبار محدثین کے پاس عالی اسناد کے حصول کے لیے اژدحام رہتا تھا۔ جس سے یہ اندازہ کرنا آسان ہے کہ شیخ کی تدریسی سرگرمیاں کس قدر زیادہ ہوں گی۔ ان حالات میں اس قدر زیادہ احادیث کا سماع یقینا ایک لمبے وقت کا متقاضی ہے جو کہ کئی سالوں پر مشتمل ہے ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے امام حاکم رحمہ اللہ کی مسموعات کا ایک کثیر حصہ اپنی کتاب ’السنن الکبری‘ میں جمع کر دیا ہے جن کی تعداد ان روایات 84910بنتی ہے ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے امام حاکم رحمہ اللہ سے دیگر کئی کتب کا سماع فرمایا۔
نیشاپور میں جن شیوخ سے سماع کیا ان میں سے چند شیوخ یہ ہیں:
•امام ابو سعید یحییٰ بن محمد بن یحییٰ مہرجانی۔
•امام ابو سہل بن نصرویہ مروزی۔
•امام ابو محمد عبداللہ بن یوسف اصبہانی۔
•امام ابو علی حسین بن محمد بن محمد روذباری ان سے امام بیہقی رحمہ اللہ نے طوس اور خراسان میں سماعت کی سعادت حاصل کی۔ (السنن الكبرى لأحمد بن حسين البيهقي :5/ 247)
مکہ مکرمہ
پھر آپ نے حجاز کی طرف فریضه حج کی ادائیگی کے لیے سفر کیا اور اس فرصت کو غنیمت جانا کہ یہاں ہر موسم میں حفاظ حدیث اور مشہور علمائے کرام کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ اس کے علاوہ بہت سارے محدثین کرام ایسے بھی تھے جو مستقل یہاں مقیم تھے تو امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس سفر میں کثیر علماء سے سماع فرمایا۔
وہ محدثین جن سے مکہ میں سماع فرمایا درج ذیل ہیں :
•امام ابو الحسن علی بن حسن بن علی۔
•امام ابو العباس محمد بن علی بن حسن کسائی۔ان سے امام بیہقی رحمہ اللہ نے مسجدالحرام میں سماع کیا۔
•امام ابو اسامہ محمد بن أحمد بن محمد مقری۔
•امام ابو بکر محمد بن أبی سعید بن سخنویہ السفرایینی۔
•امام ابو عبداللہ محمد بن فضل بن لطیف مصری۔
•امام ابو عبداللہ احمد بن محمد بن مہتدی باللہ عبسی۔
•امام ابو محمد الحسن بن أحمد بن ابراہیم بن فراس مالکی۔
•امام أبو العباس احمد بن علی براز مصری۔ (السنن الكبرى لأحمد بن حسين البيهقي :10/ 98)
•امام أبو سعید احمد بن محمد بن زیاد بصری۔ (إثبات عذاب القبر للبيهقي :ص 74)
•امام علی بن محمد بن بندار قزوینی۔ (الزاهد الكبير للبيهقي : رقم 148)
امام بیہقی رحمہ اللہ کی توثیق میں آئمہ کے اقوال اور علمی مقام
امام بیہقی رحمہ اللہ کو اللہ رب العزت نے اپنی وفات سے بیس برس قبل ہی بہت بڑا علمی مقام عطا کر دیا تھا۔ آپ کو امام المحدثین اور رئیس الحفاظ شمار کیا جاتا تھا۔
’’وأحد زمانه فی الحفظ، وفرد أقرانه فی الإتقان والضبط‘‘ (سير النبلاء لذهبي :18/ 167)
’’آپ اپنے زمانے میں حفظ میں یکتا اور اپنے معاصرین میں حفظ و اتقان میں منفرد تھے ۔ ‘‘
ابن عسا کررحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’وہ وزیر الکندری کے فتنہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ اس وقت امام بیہقی رحمہ اللہ بیہق میں تھے جب آپ تک خبر پہنچی توآپ پر بہت گراں گزرا۔ آپ اپنے زمانہ کے محدث اور اپنے وقت کے شیخ تھے ۔(طبقات الشافعية الكبرى لسبكي:2/ 395)
امام ابو المعالی الجوینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’مامن فقيه شافعی إلا وللشافعی عليه منة، إلا أبابکر البيهقي فإن المنة له علی الشافعی لتصانیفة فی نصرة منهبه ‘‘ (تبيين كذب المفتري لإبن عساكر :ص266)
’’کوئی بھی شافعی فقیہ نہیں ہے جس پر امام شافعی رحمہ اللہ کے احسانات ہیں سوائے ابو بکر بیہقی کے ان کے امام شافعی رحمہ اللہ پر احسانات ہیں کہ انہوں نے اپنی تصانیف کے ذریعے ان کے مذہب کی مدد کی۔ ‘‘
امام ذہبی رحمہ اللہ،امام جوینی رحمہ اللہ کے اس مقالہ کے بعد فرماتے ہیں :
’’ولو شاء البيهقي أن یعمل لنفسه مذهبا یجتهد فيه لكان قادرا على ذلك، لسعة علومه، ومعرفته بالإختلاف ‘‘ (سير النبلاء لذهبي :18/ 169)
’’اگر امام بیہقی رحمہ اللہ چاہتے تو خود وسعتی اوراطلاع اختلاف کی بنیاد پر اپنا ایک اجتہادی مذہب بنانے پر قادر تھے ۔ ‘‘
بہر حال امام بیہقی رحمہ اللہ ایک عالم باعمل، علوم شرعیہ کے ماہر اور وسیع اطلاع شخصیت تھے ۔ آپ نے اپنی عمر کا نصف حصہ حصول علم پر باقی حصہ تصنیف و تالیف اور تدریس میں صرف کیا۔ عوام الناس اور علماء کے لیے پچاس کے قریب جلیل القدر تصنیفات رقم فرمائیں ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنے علمی رحال پر روانہ ہونے کے لیے صدر مقام کا درجہ بیہق کو دیا۔ ان مبارک اسفار کا امام بیہقی رحمہ اللہ کی علمی پختگی میں ایک اہم حصہ ہے اور علوم دینیہ پر اس کا ایک اثر نظر آتا ہے خصوصاً روایات حدیثیہ جو کہ اصول شریعت کا مقام رکھتی ہیں اور انہیں پر ہی اکثر احکام شریعہ کی بنیاد پر ان اسفار کا ایک خاص اثر نمایاں ہوا۔ ان میں سے چند شہروں کے نام درج ذیل ہیں:
1.نیشاپور
نیشاپور عالم اسلام کے عظیم ترین شہروں میں سے ایک تھا جوعالم اسلام میں ممتاز تھا۔ یہ شہر فضلاء کی کان اور علماء کے چشمہ کے طور پر عالم اسلام میں معروف ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ اپنی علمی زندگی کے ابتداء میں ہی نیشاپور تشریف لے گئے ۔ یہ پانچویں ہجری کے شروع کے ایام ہیں جس کی تائید اس بات سے مزید واضح ہو جاتی ہے کہ آپ نے امام حاکم رحمہ اللہ سے بھی سماعت حدیث کا شرف حاصل کیا جو کہ 405ھ میں تقریباً اسی سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے ۔
آپ نے ان سے دس ہزار احادیث اخذ کیں اور ان کا بڑا حصہ بالمشافہ سنا بلکہ بعض روایات تو کئی مرتبہ تکرار کے ساتھ سماعت فرمائیں ۔ یہ چیزآپ کے طویل قیام اور شیخ سے دائمہ ملازمت کا تقاضا کرتی ہے ۔ شیخ حاکم کی عمرکے آخری حصہ میں جس میں شائقین علوم کاکبار محدثین کے پاس عالی اسناد کے حصول کے لیے اژدحام رہتا تھا۔ جس سے یہ اندازہ کرنا آسان ہے کہ شیخ کی تدریسی سرگرمیاں کس قدر زیادہ ہوں گی۔ ان حالات میں اس قدر زیادہ احادیث کا سماع یقینا ایک لمبے وقت کا متقاضی ہے جو کہ کئی سالوں پر مشتمل ہے ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے امام حاکم رحمہ اللہ کی مسموعات کا ایک کثیر حصہ اپنی کتاب ’السنن الکبری‘ میں جمع کر دیا ہے جن کی تعداد ان روایات 84910بنتی ہے ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے امام حاکم رحمہ اللہ سے دیگر کئی کتب کا سماع فرمایا۔
نیشاپور میں جن شیوخ سے سماع کیا ان میں سے چند شیوخ یہ ہیں:
•امام ابو سعید یحییٰ بن محمد بن یحییٰ مہرجانی۔
•امام ابو سہل بن نصرویہ مروزی۔
•امام ابو محمد عبداللہ بن یوسف اصبہانی۔
•امام ابو علی حسین بن محمد بن محمد روذباری ان سے امام بیہقی رحمہ اللہ نے طوس اور خراسان میں سماعت کی سعادت حاصل کی۔ (السنن الكبرى لأحمد بن حسين البيهقي :5/ 247)
مکہ مکرمہ
پھر آپ نے حجاز کی طرف فریضه حج کی ادائیگی کے لیے سفر کیا اور اس فرصت کو غنیمت جانا کہ یہاں ہر موسم میں حفاظ حدیث اور مشہور علمائے کرام کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ اس کے علاوہ بہت سارے محدثین کرام ایسے بھی تھے جو مستقل یہاں مقیم تھے تو امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس سفر میں کثیر علماء سے سماع فرمایا۔
وہ محدثین جن سے مکہ میں سماع فرمایا درج ذیل ہیں :
•امام ابو الحسن علی بن حسن بن علی۔
•امام ابو العباس محمد بن علی بن حسن کسائی۔ان سے امام بیہقی رحمہ اللہ نے مسجدالحرام میں سماع کیا۔
•امام ابو اسامہ محمد بن أحمد بن محمد مقری۔
•امام ابو بکر محمد بن أبی سعید بن سخنویہ السفرایینی۔
•امام ابو عبداللہ محمد بن فضل بن لطیف مصری۔
•امام ابو عبداللہ احمد بن محمد بن مہتدی باللہ عبسی۔
•امام ابو محمد الحسن بن أحمد بن ابراہیم بن فراس مالکی۔
•امام أبو العباس احمد بن علی براز مصری۔ (السنن الكبرى لأحمد بن حسين البيهقي :10/ 98)
•امام أبو سعید احمد بن محمد بن زیاد بصری۔ (إثبات عذاب القبر للبيهقي :ص 74)
•امام علی بن محمد بن بندار قزوینی۔ (الزاهد الكبير للبيهقي : رقم 148)
امام بیہقی رحمہ اللہ کی توثیق میں آئمہ کے اقوال اور علمی مقام
امام بیہقی رحمہ اللہ کو اللہ رب العزت نے اپنی وفات سے بیس برس قبل ہی بہت بڑا علمی مقام عطا کر دیا تھا۔ آپ کو امام المحدثین اور رئیس الحفاظ شمار کیا جاتا تھا۔
’’وأحد زمانه فی الحفظ، وفرد أقرانه فی الإتقان والضبط‘‘ (سير النبلاء لذهبي :18/ 167)
’’آپ اپنے زمانے میں حفظ میں یکتا اور اپنے معاصرین میں حفظ و اتقان میں منفرد تھے ۔ ‘‘
ابن عسا کررحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’وہ وزیر الکندری کے فتنہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ اس وقت امام بیہقی رحمہ اللہ بیہق میں تھے جب آپ تک خبر پہنچی توآپ پر بہت گراں گزرا۔ آپ اپنے زمانہ کے محدث اور اپنے وقت کے شیخ تھے ۔(طبقات الشافعية الكبرى لسبكي:2/ 395)
امام ابو المعالی الجوینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’مامن فقيه شافعی إلا وللشافعی عليه منة، إلا أبابکر البيهقي فإن المنة له علی الشافعی لتصانیفة فی نصرة منهبه ‘‘ (تبيين كذب المفتري لإبن عساكر :ص266)
’’کوئی بھی شافعی فقیہ نہیں ہے جس پر امام شافعی رحمہ اللہ کے احسانات ہیں سوائے ابو بکر بیہقی کے ان کے امام شافعی رحمہ اللہ پر احسانات ہیں کہ انہوں نے اپنی تصانیف کے ذریعے ان کے مذہب کی مدد کی۔ ‘‘
امام ذہبی رحمہ اللہ،امام جوینی رحمہ اللہ کے اس مقالہ کے بعد فرماتے ہیں :
’’ولو شاء البيهقي أن یعمل لنفسه مذهبا یجتهد فيه لكان قادرا على ذلك، لسعة علومه، ومعرفته بالإختلاف ‘‘ (سير النبلاء لذهبي :18/ 169)
’’اگر امام بیہقی رحمہ اللہ چاہتے تو خود وسعتی اوراطلاع اختلاف کی بنیاد پر اپنا ایک اجتہادی مذہب بنانے پر قادر تھے ۔ ‘‘
بہر حال امام بیہقی رحمہ اللہ ایک عالم باعمل، علوم شرعیہ کے ماہر اور وسیع اطلاع شخصیت تھے ۔ آپ نے اپنی عمر کا نصف حصہ حصول علم پر باقی حصہ تصنیف و تالیف اور تدریس میں صرف کیا۔ عوام الناس اور علماء کے لیے پچاس کے قریب جلیل القدر تصنیفات رقم فرمائیں ۔