• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام دولابی میزان جرح و تعدیل میں

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
بسم اللہ الرحمن الرحیم

الامام الدولابی فی میزان الجرح والتعدیل

تقریظ:
شیخ ابوالفوزان کفایت اللہ سنابلی الہندی حفظہ اللہ تعالی
امام دولابی رحمہ اللہ اورامام ابن عدی رحمہ اللہ کی جرح

امام دولابی رحمہ اللہ کے ضعیف ہونے سے متعلق کئی اقوال ہیں جن میں سب سے اہم قول امام ابن عدی رحمہ اللہ کا ہے کہ انہوں نے امام دولابی کو متھم قرار دیا ہے۔ اسی قول کے سبب ہماری نظر میں امام دولابی ضعیف ہی معلوم ہورہے تھے ، لیکن حال ہی میں شیخ انور راشدی حفظہ اللہ کا ایک مفصل مضمون نظر سے گذرا جس میں شیخ محترم نے بڑی تفصیل سے امام دولابی سے متعلق تمام اقوال تضعیف کا جواب دیا ہے اسی ضمن میں امام ابن عدی کے کلام پر بھی محققانہ بحث کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ امام ابن عدی کا یہ کلام بھی تضعیف کی دلیل نہیں بن سکتا ۔
یہ مضمون پڑھنے کے بعد ہمارا دل بھی اسی بات پر مطئن ہوگیا ،اس لئے ہماری سابقہ تحریروں میں جہاں بھی امام دولابی کو ضعیف لکھا گیا ہے اسے مرجوع عنہ سمجھا جائے ۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ امام دولابی سے متعلق امام ابن عدی کے کلام کا خلاصہ پیش کردیا جائے ۔
امام ابن عدی کے کلام کا پس منظر یہ ہے کہ امام دولابی نے امام نعیم کے حوالے سے ایک تجریحی بات کہی ہے ، ان کی اس بات کو امام ابن عدی نے اتہام قرار دیا ہے ۔
لیکن امام دولابی کی یہ تجریحی بات دو طرح ہوسکتی ہے:
اول:
امام دولابی کی تجریحی بات ان کی اپنی بات نہیں ہے بلکہ یہ کسی اورکا بے بنیاد کلام ہے جسے امام دولابی نے بغیر حوالہ کے نقل کردیا ہے ۔
اگر یہ بات تسلیم کی جائے تو اس سے امام دولابی پر کوئی حرف نہیں آتا ، کیونکہ وہ تو محض ناقل ہیں ، اس لئے یہ کہا جائے گا کہ امام دولابی نے بغیر حوالہ و سند کے یہ بات نقل کی ہے اس لئے یہ معتبر نہیں ہے۔
دوم:
امام دولابی کی تجریحی بات خود ان کی اپنی بات ہے ۔
ایسی صورت میں یہ امام دولابی کا ایسا اجتہاد یا مبنی برتعصب فیصلہ ہے جس کا دلائل کی روشنی میں غلط ہونا ثابت ہے ۔
اور رواۃ پر حکم لگانے میں اجتہادی غلطی ، یا تعصبانہ فیصلے کے ارتکاب سے کسی کو ضعیف کہنا درست نہیں ہے۔واللہ اعلم۔
تفصیل کے لئے محولہ مضمون کا مطالعہ مفید ہوگا۔
( کفایت اللہ سنابلی)
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم، وبعد.
امام دولابی رحمہ اللہ تعالی جرح وتعدیل کے میزان میں " قارئین کے سامنے ہے، اس میں ــ جیساکہ مضمون کے نام سے ظاہر ہے ـ امام دولابی کی جرح وتعدیل پر مفصلا گفتگو کی گئی ہے،،اور دلائل سے ثابت کیاگیاہے کہ وہ فی الحقیقہ ثقہ، متقن،محدث اور حفاظ حدیث میں سے ہیں، اور ان پر وارد شدہ جروح کچھ اثر نہیں رکھتیں،، مضمون لکھ کر میں نے اپنے قابل قدردوست اور محقق شیخ ابوالفوزان سنابلی الہندی حفظہ اللہ کو ارسال کیا، جسے آپنے غوروتدبر سے پڑھنے کے بعد قیمتی آراء سے مستفید فرمایا، فجزاہ اللہ خیرا واحسن الجزاء.اس پرمستزاد یہ کہ آپنے احقر سے اس معاملہ پر پوری طرح موافقت کرتے ہوئے اپنے سابقہ موقف ( دولابی کی تضعیف) سے رجوع کیا .میں کوئی بڑا دعوی تو نہیں کررہا، لیکن اتنا ضرور کہونگا کہ اس مضمون میں کافی نئی باتیں جگہ لے چکی ہیں جنکی طرف پہلے شاید کسی کی صرف نظر نہ ہوسکی.جس کے لیے خود مضمون کی سطورگواہ ہیں۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ اسے شرف قبولیت دیکر میری حسنات میں اضافہ فرمائے۔
آخر میں میں شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ کا بیحد شکرگذار ہوں کہ میرے کہنے پر مضمون پر تقریظ لکھ کر اسے زینت بخشی...
محترم قارئین سے التماس ہے ان سطور میں بشری سقم کی نشاندہی فرماکر اصلاح کا موقعہ عنایت فرمائیں.

امام ابوبشردولابی کاتعارف

نام، نسب اور کنیت :
الامام المحدث البارع الثقہ الحافظ ابوبشر محمد بن احمد بن حماد بن سعید بن مسلم الانصاری، الدولابی، الرازی، الانصاری، الوراق، الحنفی .
چونکہ آپ کے والد اہل علم میں سے تھے اور بغداد کے علاقہ "دولاب " میں رہائش پذیر تھے، اس لیے اس کی نسبت سے مشہور ہوگئے،، قالہ مسلمہ بن قاسم(اللسان. : ۵/۵۰)
امام سمعانی نے "دَولاب " ری " کے شہر کی کسی بستی کی طرف نسبت کی ہے، اور اسی طرح یہ بھی کہاہے کہ شاید انکے آباؤ واجداد "دولاب " کا پیشہ رکھتے تھے، اس لیے ہوسکتا ہے اس عمل کی وجہ سے اس کی طرف نسبت لگ گئی ہو.
وراق کی نسبت :
آپ نے اپنی عمر کے چھتیسویں سال سن ۲۶۰ ھ میں مصر آکر اس وقت کے مصر کے شیوخ کے لیے نسخ، اور کتابت کا پیشہ اختیار کیا تھا، جسکی وجہ سے "وراق " کی نسبت سے معروف ہوئے،
امام ابن کثیر کہتے ہیں.
( .....ویعرف بالوراق ) البدایہ والنھایہ.: ۱۱/ ۱۵۶)
سن پیدائش :
حسن بن رشیق نے آپ سے نقل کیا کہ آپ( شہر "ری " میں ) سن ۲۲۴ ھ میں پیدا ہوئے۔( السیر.: ۳۰۹)

آپکے بعض اساتذہ کرام :
امام بخاری
امام عبداللہ بن احمد بن حنبل
معاویہ بن صالح
امام احمد بن شعیب نسائی
امام ابوبکر بن ابی الدنیاالحافظ صاحب التصانیف
امام سلیمان بن الاشعث السجستانی
ابوداؤد
عباس الدوری
محمد بن اسماعیل بن علیہ
ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی
حسین بن علی الجعفی
عمران بن ابان الواسطی
ولید بن القاسم الھمدانی
احمد بن أبي شريح الرازي
محمد بن منصور الحواز
محمد بن بشر
هارون بن سعيد الأيلي
موسى بن عامر الدمشقي
زياد بن أيوب وغيرهم
آپکے بعض تلامذہ :
امام ابوحاتم الرازی
امام محمد بن جریر الطبری
علی بن الحسین بن الجنید
امام عبد الرحمن بن أبي حاتم
امام عبد الله بن عدى
امام ابن حبان
الحسن بن رشيق
هشام بن محمد بن مرة
امام الطبراني
محمد بن عبد الله بن حيويه
أبو بكر احمد بن المهندس
أبو بكر بن المقرىء، وغیرھم.
آپکے علمی اسفار:
آپ نے علم حدیث کے لیے "ریَّ " کے علاوہ "حرمین شریفین " مصر " شام "بغداد " اور عراق کے باقی شہروں کے اسفار کیے،
حصول علم کی وجہ سے آپ کا شہرہ ہرسو پھیلنے لگا، اور آپنے مختلف علوم وفنون مثلا.:
حدیث، تاریخ، موالید ووفیات، اسماء الروات، اور مسانید المحدثین پر کتابیں تالیف کیں.آپ ایک اچھے محدث، مؤرخ، اور حافظ، بن گئے کہ مختلف بلاد اسلامیہ سے آپکے پاس تشنگان علم کی جماعت آنے لگی، بلکہ جس شہر میں آپ کو ورود ہوتا وہاں پر علمی مجالس اور حلقات کا انعقاد کیا جاتا، جس سے طلاب علم اسلامی علوم وفنون اور حدیث سے جیسی عظیم چیز کا سماع کرتے، مصر میں آپنے اپنی تمام کتب کا درس دیا، اور آپ سے آپکے مشہور تلامذہ نے یہ تصانیف سن کر انکو روایت کیا،
محدث مصر، امام ابوسعید ابن یونس الصدفي کہتے ہیں « وحدث بمصر عن شيوخ بغداد والبصرة، والشام » کہ آپ نے مصر میں اپنے بغداد، بصرہ اور شام کے شیوخ سے احادیث بیان کیں ( الانساب.: ۲/۵۱۱)
اور اسی طرح آپ نے مکہ مکرمہ ـــ زادھااللہ عزا وشرفاـــ میں بھی حدیث کا درس دیا، جیساکہ خطیب بغدادی رح نے "تاریخ بغداد "(۹/۲۶۲) میں اسکی صراحت کی ہے، آپ مسلسل درس حدیث دیتے رھے، تاآنکہ وہ وقت معین آپکو پنہچا،، وفات سے کچھ عرصہ قبل تک آپ کا یہ مشغلہ قائم رہا، کہ سنـــــــہ ۳۰۹ ھ میں بھی آپ کے طلبہ نے آپ سے "مسند شعبہ بن الحجاج کو روایت کیا ہے، کیونکہ آپکی وفات ۳۱۰ ھ میں ہوئی ہے، جیساکہ "المنتظم " لابن الجوزی اور "تاریخ الاسلام " للذہبی وغیرہ میں ہے،،
آپ ایک بلند پایہ اور اچھے عالم، محدث، مؤرخ، اور قابل قدر مصنف تھے کہ محدثین کرام نے آپ کی تصنیفات وتالیفات کی بیحد تعریف وتوصیف کی ہے،
مثلا. : امام ابن یونس مصری کہتے ہیں. « ..... يحسن التصنيف »
امام ابن الاثیر کہتے ہیں. «... حسن التصنيف»
امام ابن الجوزی کہتے ہیں. « وكان حسن التصنيف»
امام ابن کثیر کہتے ہیں. «وله تصانيف حسنة في التاريخ وغيرذالك »
امام ابن خلکان کہتے ہیں « وكان حسن التصنيف »
ائمہ جہابذہ نے آپکے اقوال اور کتب پر اعتماد کیا ہے، کتب رجال وتاریخ انکے اقوال سے بھری پڑی ہیں، مثلا "الکامل " لابن عدی، "تہذیب الکمال " للمزی اور کتب الامام ابن حجر، وغیرہ،
آپکی تصانیف :
(۱) الکنی والاسماء،
یہ کتاب مطبوع ہے، والحمدللہ.
(۲) الذرية الطاهرة.
یہ کتاب بھی مطبوع ہے
(۳) التاریخ
(۴) الضعفاء
(۵) اخبارالخلفاء
(۶) مناقب مالک
(۷) المولد والوفات
(۸) مسند حدیث شعبہ
(۹) مسند حدیث سفیان الثوری
(۱۰) مسند حدیث سفیان بن عیینہ
(۱۱) عقلاء المجانین
(۱۲) الصحابہ
پہلی دو کے علاوہ باقی تمام کتب مفقود ہیں،، ولعل اللہ یحدث بعد ذالک امرا.
وفات:
آپکی وفات. سنــــــــــہ ۳۱۰ ھ سفر حج کے دوران عرج نامی جگہ پر ہوئی.اناللہ واناالیہ راجعون
جرح و تعدیل کے اعتبار امام دولابی کا مقام

امام ابو بشر الدَولابی اپنے دور کے ثقات اور ائمہ حفاظ میں شمار کیے جاتے تھے، اس حوالے سے محدثین کرام انکی تعریف، توصیف اور تعدیل میں رطب اللسان ہیں.
اولا.: تعریف وتوصیف)
* امام ابن یونس مصری کہتے ہیں « كان من اهل صنعة الحديث۰۰۰ ولہ بالحدیث معرفة »
* امام ابن الاثیر کہتے ہیں « وكان عالما بالحديث »
* امام ابن الجوزی کہتے ہیں«وكانت له معرفة بالحديث وحدث عن اشياخ فيهم كثرة»
* امام مسلمہ بن قاسم کہتے ہیں «خرج ۰۰۰ طالبا للحديث فاكثر الرواية وجالس العلماء وتفقه لابي حنيفة رحمه الله تعالي وجرد له فاكثر، وكان مقدما في العلم، والرواية ومعرف الاخبار» ( اللسان.: ۵/۴۲)
* امام ابن عساکر نے کہتے ہیں: « طاف في طلب الحديث»(تاریخ دمشق، مصور ۱۴/۶۷۸)
ثانیا ( امام دولابی کی تعدیل کا پس منظر)
* امام دارقطنی فرماتے ہیں «تكلموا فيه، ماتبين من أمره إلاخير»
امام دارقطنی کے اس قول کا مطلب ہے کہ اس پر کلام گیا ہے،، لیکن اس کے معاملہ پر غور وتدبر کرنے سے بالآخرہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس پر کیاگیا یہ کلام غیر مضر ہے،،یعنی جنہوں نے ان پر کلام اور جرح کی ہے، وہ ایسی نہیں کہ اسکی وجہ سے دولابی کو ضعیف قرار دیاجاسکے، جبکہ وہ لائق اور قابل اعتماد ہیں، گویا یہ امام دارقطنی کی امام دولابی کے لیےتعدیل وتوثیق ہے،
محترم قارئین. ! مصطلح الحدیث میں ہر جرح قابل قبول نہیں ہوتی، بلکہ اس جرح کا اعتبار کیاجاتا ہے جو واقعی اصول حدیث میں جرح تصور کی جاتی ہو،،اور جس وجہ سے راوی کی تضعیف ہوسکے، امام دارقطنی کے نزدیک جارحین کی جرح اصول حدیث کے مطابق جرح کے قابل نہیں ہوگی، اسی لیے اسے مسترد کرتے ہوئے انہوں نے دولابی کی تعدیل وتوثیق کردی، وھذاھوالمطلوب.
* امام ابن ماکولا امام احمد اور انکے بیٹے عبداللہ کی تعریف کرتے ہوئے انکے ساتھ تیسرے نمبر میں امام دولابی ملاکر کہتے ہیں « والدولابی من المتقنين الحفاظ»
* امام ابن خلکان کہتے ہیں ہیں «كان عالما بالحديث والاخبار والتواريخ، سمع الاحاديث بالعراق والشام، وروي عن محمد بن بشار واحمد بن عبدالجبار العطاردي وخلق كثير، وروي عنه الطبراني وابوحاتم ابن حبان البستي، وله تصانيف مفيدة في التاريخ ومواليد العلماء ووفياتهم، واعتمد عليه ارباب هذاالفن في النقل واخبروا عنه في كتبهم ومصنفاتهم المشهورة، وبالجملةفقد كان من العلماء في هذاالشان وممن يرجع اليه وكان حسن التصنيف » ( وفيات الاعيان.: ۴/۳۵۲)
* حافظ ذہبی "السیر " میں کہتے ہیں.: « الامام، الحافظ، البارع»(۱۴/۳۰۹)
تذکرة الحفاظ " میں کہتے ہیں. « الحافظ السالم» (۲/۷۵۹)
* امام ابن کثیر کہتے ہیں.: « احد الأئمة من حفاظ الحديث، وله تصانيف حسنة في التاريخ وغير ذالك » (البداية والنهاية.: ۱۰/۱۴۵)
* امام ابن عساکر نے "تاریخ دمشق " میں، امام صفدی نے "الوافی بالوفیات "(۲/۳۶) اور امام ابن عبدالھادی نے "طبقات علماء الحدیث " ( ۲/۴۷۶) ان پر "حافظ "کااطلاق کیا ہے.
محترم قارئین.: مذکورہ عبارات میں امام دولابی کو درج ذیل الفاظ کے ساتھ متصف کیاگیا ہے،
(حافظ )
( كان من اهل صنعة الحديث، له بالحديث
معرفة)
(عالما بالحديث...اعتمد علیہ ارباب ہذاالفن فی النقل)
(من المتقنين الحفاظ)
( ماتبين من أمره إلا خير)
ان عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام دولابی ایک عالم، محدث، ثقہ، متقن، معتمد، علم حدیث کی معرفت رکھنے والے اور حدیث کے حفاظ میں سے تھے،، ائمہ کرام ان کی نقل اور کتب پر اعتماد کیا کرتے تھے،،
اصول حدیث میں کسی راوی پر"حافظ " کےاطلاق سے توثیق کا بڑا مرتبہ مراد لیا جاتا ہے،، یعنی اگر ایسا راوی جس پر جرح مفسر نہ ہو، اور اگر جرح مفسر تو ہو، لیکن وہ جرح اصول حدیث میں حقیقی جرح نہ تصور کی جاتی ہو، ایسے راوی پر "حافظ " کےاطلاق سے اسے توثیق کا بڑا رتبہ مل جائیگا، یعنی یہ راوی درجہ اور مقام میں ثقہ سے اوپر ہے،،
امام ابن الصلاح نے "حافظ " کے اطلاق کو توثیق کے اول درجہ میں رکھا ہے، آپ فرماتے ہیں. : وكذااذاقيل في العدل.: « انہ حافظ او ضابط»( علوم الحديث.: ۱۱۰)
اسی طرح حافظ ذہبی رحمہ اللہ تعالی نے بھی "حافظ " کے اطلاق کو توثیق میں شمار کیا ہے، آپ فرماتے ہیں « ويمتاز الثقة بالضبط والاتقان، فاذاانضاف الي ذالك المعرفة والاكثار، فهو حافظ »(الموقظة: ۶۷، ۶۸)
( امام دولابی پر جرح، اور اسکاجائزہ)
سب سے پہلے جرح کے حوالے سے چند باتیں جاننا ضروری ہیں..
۱ - جارح قابل اعتماد ہو،یعنی وہ مجروح
اور ضعیف نہ ہو
۲ - جرح مفسر ہو، غیر مفسر نامقبول
ومردود ہے.
۳ - جرح کو جرح تصور کیاجاتا ہو،یعنی
اگر ایسے الفاظ سے جرح کی گئی کہ جنکو اصول حدیث میں جرح کے قابل نہ سمجھاگیا ہو،تو ایسی جرح بھی غیر معتبر ونامقبول ہے، مثال کے طور پر عقیدہ کے اختلاف کے وجہ سے کسی پر جرح کی جائے، معاصرتی منافرت اور چپقلش ہو،الفاظ میں تصحیف وتحریف کی وجہ سے وہ جرح بن گئے ہوں، وغیرہ،
۴ - جارح سے وہ جرح جید وقوی سند سے ثابت ہو،
ان میں سے اگر ایک بھی شرط کہیں مفقود ہوگئی تو وہ جرح قابل رد ہوگی،
یاد رہے جرح عدالت اور ضبط پر کی جاتی ہے، انکے علاوہ کوئی بھی جرح راوی کو ضعیف نہیں کرسکتی
محترم قارئین.: امام دولابی پر درج ذیل محدثین کرام سے جرح منقول ہے،
(۱) - امام ابن عدی
(۲) - امام ابن یونس مصری،
(۳) - امام دارقطنی
(۴) - حافظ ذہبی
باقی متاخرین اور معاصرین، مثلا علامہ معلمی، علامہ البانی، اور شیخ زبیر رحمہم اللہ تعالی، ، تو انکا بھی انہی مذکورہ ائمہ کی جروح پر اعتماد ہے،یا ان میں سے بعض کی جروح پر.
اول. : امام ابن عدی.، انکے الفاظ ہیں.:
« و ابن حماد متهم في مايقوله في نعيم بن حماد، لصلابته في اهل الرأي»( تاريخ ابن عساكر.: مصور۱۴ /۶۷۸)
یہ عبارت "الکامل " لابن عدی کے مطبوعہ نسخہ اور اکثر مخطوطات سے ساقط ہے، جبکہ "السیر " میزان الاعتدال " اللسان " ہدی الساری " اور حال میں چھپنے والی "الکامل " میں موجود ہے،، اس پر ہمارے فاضل دوست شیخ خبیب حفظہ اللہ اور ان سے قبل دکتور زہیر عثمان علی نور اپنی کتاب "ابن عدی ومنھنجہ " میں تنبیہ کرچکے ہیں.فجزاھما اللہ خیرا.
امام ابن عدی کے ان الفاظ ( وابن حماد يتهم فيمايقول لصلابته في اهل الرأي) کے دو مطلب ہوسکتے ہیں.
أ ـ ابن عدی کی عبارت مُتَّھَم ( تاکے فتح کے ساتھ) صیغہ اسم مفعول ہے، یعنی "ابن حماد دولابی متہم ہے - نعیم پر جو کچھ کہتا ہے ـ کی وجہ سے،کہ وہ اہل الرای پر سخت تھا، یہ مفہوم امام ابن حجر نے "تھذیب التھذیب " میں اور علامہ معلمی نے "التنکیل " میں مراد لیا ہے، .
حافظ ابن حجر امام ابن عدی کے مذکورہ الفاظ "وابن حماد متہم " کو "تھذیب التھذیب " میں نقل کرکے فرماتے ہیں «حاشي الدولابي ان يتهم، وانماالشان في شيخه الذي نقل ذالك عنه، فانه مجهول متهم»
کہ دولابی ایسے نہیں کہ اسے متَّہم قرار دیاجائے، اصل وجہ اس کا وہ شیخ ہے، جس سے وہ ( یہ تہمت) نقل کرتے ہیں،کیونکہ وہ مجہول اور مُتَّھَم ہے. اھ
محترم قارئین: ، ابن حجرنے اس نقل (قال ابن حماد.: وقال غيره: كان يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات عن العلماء في ثلب ابي حنيفة، مزورة كذبا.)میں دولابی کو بری الذمہ قرار دیدیا تھا، لیکن اسکے برعکس علامہ معلمی انہیں اس نقل میں قصوروار کہتے ہیں.،انکے الفاظ ہیں:
« امام دولابی کو اس مشکوک نقل کی تہمت سے برئ الذمہ نہیں کیاجاسکتا، کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ انہوں نے یہ کلمہ کسی معتمد شخص سے سن رکھا ہو، ورنہ وہ ضرور زوردار انداز میں اسکااعلان کرتے، لہذا اگر اس نے یہ کلمہ ایک غیر معتمد شخص سے سن رکھاہے تو اس کے لیے جائز نہیں تھا کہ وہ طرح اسے بیان کریں، بلکہ انکے لیے مناسب تھا کہ وہ قائل کی عدم اہمیت کی وجہ سے اس سے صرف نظر کرتے، یاکم ازکم قائل کا نام بیان کردیتے، اور اگر انہوں نے یہ کلمہ کسی سے نہیں سنا تھا، بلکہ خود ہی اپنی طرف سے اسے گھڑلیاتھا تو یہ کام اور بھی زیادہ براہے،، اور اگر "غیرہ " سے مراد وہ خود ہیں، تو پھر اس طرح معاملہ کچھ ہلکا رہ جاتا ہے، امام دولابی کا امام نعیم پر تعصب معروف ہے، لہذا اسکے حق میں بلادلیل انکی بات نہیں قبول کی جائیگی، باوجودیکہ انہوں نے ان ائمہ حدیث سے شذوذ اختیار کیا ہے، جن میں ان
( دولابی ) کا شمار نہیں( التنکیل. : ۱/۴۹۵)
مذکورہ کلام درج ذیل نکات پر مشتمل ہے.
۱ ـ یہ حکایت اگرامام دولابی نے ایکغیرمعتمد شخص سے نقل کی ہے، تو انہیں یاتو اسکا نام ذکرکرنا چاہیے تھا، یااس حکایت سے سرے سے ہی اعراض کرلیتے. یعنی اسے نہ ذکرکرتے.
۲ ـ انہوں نے کسی سے یہ کلمہ نہیں سناتھابلکہ اپنی طرف سے ہی اسے گھڑکے"غیرہ " کی طرف منسوب کردیا.تویہ انکے حق میں زیادہ برا ہے، کہانہوں نے امام نعیم پر تہمت لگادی.
۳ ـ "غیرہ " سےاشارہ و کنایہ کرتے ہوئےخود کومراد لیا ہے، اور اس طرح یہ
معاملہ انکے حق میں کچھ نرمی پیدا کریگا .
محترم قارئین.: دوسری شق سرے سے ہی نامقبول ہے،، کیونکہ امام دولابی ائمہ نقد کے یہاں عادل، معتمد اور قابل حجت ہیں،، لہذا انکے حق میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ خود ایک بات کوگھڑکر امام نعیم پر تہمت لگادینگے..ایک عادل شخص کو ایسی تہمت سے متصف نہیں کیاجاسکتا .لہذاعلامہ معلمی کی اس بات میں نظر قوی ہے.
تیسری شق.، کا مفہوم دوسری شق والاہیہے، کہ اس کو تہمت کا مختلق قرار دیا، لہذا دوسری شق کو نرم اور تیسری کو سخت کہکر ان کے درمیان کس وجہ سے فرق کیاجاسکتا ہے، اور اس تیسری شق کا بھی جواب دوسری شق والا ہی ہے، کہ دولابی پر کذب کی تہمت نہیں کہ اسے اسکا مختلق قراردیاجائے.
باقی رہی پہلی شق،، تو بات یہ ہے کہ کسی نامعلوم ومجہول شخص سے حکایت بیان کرنے کو اچھا نہیں تصور کیاجاتا تو یاد رہے اسکو محدثین کرام جرح بھی تسلیم نہیں کرتے.،، ویسے بھی امام دولابی.، امام نعیم سے مذہبی چپقلش رکھتے تھے، تو لازمی بات ہے ان پر اس جرح کے نقل میں بھی مذہبی تعصب کا پہلو غالب آئیگا،، یہ تو جرح کی نقل ہے،، محدثین کرام سے تو معاصرتی چپقلش اور مسائل وعقیدہ میں اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے پر بہت سخت جروح وارد ہیں..مثلا امام مالک کا امام محمدبن اسحاق بن یسار کو غصہ کی وجہ سے "دجال "کہنا، امام ابن مندہ اور امام ابونعیم الاصبہانی کی معاصرتی چپقلش معروف ہے،، اور ایک دوسرے پر وہ جرح کرتے نظر آتے ہیں،، تفصیل "السیر "تذکرة الحفاظ " ميزان الاعتدال " للذهبي اور "اللسان "لابن حجر میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے..تو جب انکا ایک دوسرے پر اس طرح جروح کرنا انکو مجروح نہیں کرسکتا تو پھر امام دولابی کو محض نقل سے کیسے مجروح کیاجاسکتا ہے،،، ؟؟؟؟
لہذا علامہ معلمی کی اس بات میں بھی نظر قوی ہے۔
ب ـ یہ عبارت "مَتَّہِم " ( تاکے کسرہ کے ساتھ) صیغہ اسم مفعول ہے، جسکا مفہوم یہ ہوگا کہ ابن حماد دولابی نے نعیم پر تہمت لگارہا ہے، امام ابن عدی، اورامام مزی، اور ھافظ ذہبی کے صنیع سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ تیسرا مطلب ہی مراد لیاہے.
* ـ امام ابن عدی کا صنیع اس طرح کہ
انہوں نے ابھی نعیم بن حماد پر امام دولابی کی جرح نقل ہی نہیں کی، اوپر والی وضع حدیث کی جرح کے وہ ( دولابی) محض ناقل ہیں، تو جب متَّھِم( جارح) کوئی اور ہے، اور دولابی محض ناقل ہیں، تو پھر وہ ان پر جرح کیسے کرسکتے ہیں ۰۰۰۰؟؟؟ حالانکہ جرح تو "غیرہ " پر کرنی چاہیے تھی، نہ کہ دولابی پر،
اصل بات یہ ہے کہ چونکہ امام ابن عدی نعیم پر جروح نقل کررہے ہیں،پہلے ابن حماد سے امام نسائی کی "ضعیف "والی جرح نقل کی، پھر اس کے بعد "غیرہ " سے "وضع حدیث " کی جرح نقل کی، اسکے بعد چونکہ دولابی نے بھی نعیم وضع حدیث کی "تہمت لگائی ہے ــ جیساکہ آگے وہ ذکرہوگی ـــ اسکے متعلق انہوں نے اشارہ کیا کہ، دولابی اس پر تہمت لگاتا ہے،اور اس جرح کو "واو " عاطفہ سے ذکرکیا، ورنہ اگر وہ دولابی پر جرح کررہے ہوتے، تو انہیں واو عاطفہ ذکرکرنے کی ضرورت نہ تھی، کیونکہ کلام کی ابتداء ہورہی ہے.
محترم قارئین! یہاں دو باتیں پیش خدمت ہیں .
۱ ـ امام ابن عدی نے مذکورہ الفاظ( ابن حماد مُتَّھِم) بطور خبر کے ذکرکیے ہیں، کہ دولابی نے بھی نعیم پر وضع حدیث کا اتہام باندھا ہے،
۲ ـ یا پھر انہوں نے دولابی کی اس جرح کو محض تہمت کہکر اسکے رد کی طرف اشارہ کیا ہے، کہ یہ جرح دولابی کی محض تہمت ہے، جسے قبول نہیں کیاجائیگا،گویا امام ابن عدی دولابی کی جرح. "اتہام " کا یہاں نقض کررہے ہیں،
مجھے پہلی بات مناسب معلوم ہوتی ہے کہ ابن عدی دولابی کی اس جرح کو بطور خبر بیان کررہے ہیں، اس لیے کہ وہ اس جگہ جروح کا ہی تذکرہ کررہے ہیں، اس جرح کو قبول یا رد کا نہیں کہرھے. واللہ اعلم بالصواب.
* ـ امام مزی کا صنیع اس طرح کہ انہوں نے اولا دولابی سے نعیم پر امام نسائی کی تضعیف، اور "غیرہ " کا اتہام نقل کیا، اور پھر ابن عدی کا یہ قول "وابن حماد متہم فیمایقولہ لصلابتہ فی اھل الرای " نقل کیا، اسکے بعد دولابی نے جو نعیم پر وضع حدیث کی تہمت لگائی ہے، اسے نقل کیا،
الغرض.: امام مزی نے ابن عدی کا قول پہلے جب نقل کیا کہ وہ( دولابی) نعیم پر تہمت لگاتا ہے، تو اسکے بعد پھر امام مزی نے ابن عدی سے ہی ابن حماد کی تہمت والی جرح نقل کردی.گویا پہلے تو محض امام ابن عدی کا اپناکلام تھا کہ دولابی نعیم پر تہمت لگاتا ہے،، اب دولابی نعیم پر کونسی تہمت لگاتا ہے،، اسکی وضاحت کے لیے پھر امام مزی نے ابن عدی سے دولابی کی وضع حدیث والی جرح نقل کردی کہ ابن عدی کی تہمت والے قول کے یہ الفاظ ہیں.امام مزی کے الفاظ ہیں.: « وقال ( ابن عدي)ايضا في حديث نعيم عن عيسي بن يونس، عن حريز بن عثمان، قال لناابن حماد.: وضعه نعيم بن حماد.
( تهذيب الكمال. ۲۹/۱۹۸)
ھذا مافھمتہ من صنیعہ، والعلم عنداللہ سبحانہ.
* ـ حافظ ذہبی کا صنیع اس طرح کہ "
تذکرة الحفاظ "(۲/۷۶۰) میں ابن عدی کے یہ الفاظ "ابن حماد متہم " کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں
« قلت.: قد اقذع في رميه نعيمابالكذب، مع ان نعيما صاحب مناكير»
یعنی دولابی نے نعیم پر تہمت لگاکے براکیا ہے، اگرچہ اس ( نعیم) کے پاس مناکیر ہیں.
گویا حافظ ذہبی ابن عدی کے ان الفاظ میں دولابی کو مُتَّہِم ( تہمت لگانے والا) اسم فاعل سمجھ رھے ہیں، اس وجہ سے اس کی وضاحت کے لیے کہاکہ وہ تہمت یہ ہے کہ اس نے نعیم پر جھوٹ کا بہتان باندھا ہے.اور یہ بہتان باندھ کر اس نے برا کیا،"مع ان نعیما صاحب مناکیر " صیغہ اسم فاعل(مُتَّہِم) "کے ساتھ کس قدر مناسبت رکھتا ہے، یعنی نعیم واقعی مناکیرتو بیان کرتا ہے، لیکن ان مناکیر کی وجہ سے جو دولابی نعیم پر تہمت لگاتا ہے،وہ اچھا نہیں.
اسی طرح " تاریخ الاسلام "(۲۳/۲۷۶) میں بھی انکا یہی اسلوب ہے، کہ ابن عدی سے مذکورہ الفاظ "ابن حماد مُتَِّہم " نقل کرنے کے کے بعد فرماتے ہیں: قلت: رمي نعيمَ بنَ حمادٍ بالکذب " گویا ابن عدی کے الفاظ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دولابی نے نعیم پر جھوٹ کی تہمت لگائی ہے.
"السیر "اور "میزان الاعتدال " میں جس انداز سے ابن عدی کے یہ الفاظ ذکر کیے ہیں تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ انکو ابن عدی کی جرح تصور کرتے ہیں، بلکہ اس سےوہی مراد ہے جو "التاریخ،"اور " تذكرة الحفاظ " میں ہے کہ دولابی نے نعیم پر جھوٹ کی تہمت لگاکر اچھا کام نہیں کیا.باوجودیکہ اسکی مناکیر بھی ہیں، لیکن ان مناکیر کی وجہ سے اس پر جھوٹ کی تہمت نہیں لگائی جاسکتی..لہذا دولابی کا یہ عمل مستحسن نہیں..اور حق بھی یہی ہے کہ دولابی کا نعیم پر جھوٹ کی تہمت لگانا اچھااقدام نہیں۔
بالفرض اگر حافظ ذہبی کو، ابن حجر اور علامہ معملی کے موافق سمجھاجائے تب بھی کوئی حرج نہیں، کیونکہ ان عدی کااپناصنیع ان کے مخالف ہے.
تکمیل. : کیا امام دولابی کا نعیم بن حماد پر وضع حدیث کی تہمت لگانا، اور"وابن حماد متہم " میں "متہم "کواسم مفعول سمجھنا کیادولابی کوساقط، اور غیرمعتمد بناسکتاہے. "؟؟
محترم قارئین.: "مستدرک (۴/۴۳۰) "الکامل "لابن عدی وغیرہ میں ہے « نعيم بن حماد ثناعيسي بن يونس عن حريز بن عثمان عن عبدالرحمن بن جبير بن نفير عن ابيه عن عوف بن مالك رضي الله عنه قال.: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: ستفترق امتي علي بضع وسبعين فرقة اعظمها فرقة قوم يقيسون الامور برأيهم، فيحرمون الحلال، ويحللون الحرام "اھ اللفظ للمستدرک.
امام ابن عدی اس حدیث کو "الکامل " میں ذکرکرنے کے بعد فرماتے ہیں. «قال لناابن حماد.: وضعه نعيم بن حماد »
محترم قارئین.: یہ ہے وہ روایت جسکی وجہ سے امام دولابی نے نعیم پر وضع حدیث کی تہمت لگائی ہے، بعض ائمہ نقد نے بھی اس حدیث کی وجہ سے نعیم پر سخت نکیر کی ہے،
ذیل میں اس حدیث پر ائمہ کرام سے درج ذیل آراء پیش کی جارہی ہیں، انہیں ملاحظہ فرمائیں.
۱ ـ زیر بحث روایت میں نعیم بن حماد منفرد ہے، اور اس روایت کے وجہ ضعف وہی ہیں .
۲ ـ وجہ ضعف نعیم بن حماد نہیں، بلکہ اسکا شیخ عیسی بن یونس ہے،اور نعیم منفرد نہیں
پہلی رائے کے قائلین: امام ابن معین، امام دحیم، امام ابن عدی، حافظ عبدالغنی بن سعید المقدسی،، امام ابوبکرالاسماعیلی، امام بیہقی حافظ محمد بن طاہرالمقدسی وغیرہم ہیں
امام محمد بن علی کہتے ہیں، میں نے یحی بن معین سے اس روایت کے متعلق سوال کیا.، تو آپنے کہا کہ "اسکی کوئی اصل نہیں، تومیں نے آپ سے کہاکہ نعیم کی پوزیشن کیا ہے،، ؟ کہا.؛ ثقہ ہے، میں نے کہاثقہ باطل ( حدیث) کس طرح بیان کرسکتا ہے، ؟؟ کہا «شبہ لہ» ( تاریخ بغداد.: ۱۳/۳۰۹)
یعنی نعیم نے یہ حدیث کسی غیرثقہ سے سن رکھی تھی، لیکن اسے وہم ہوگیا، اور اس نے اسے "عیسی بن یونس "ثقہ راوی سے غلطی میں روایت کردی، علامہ معلمی کا قول بھی اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے، کہ نعیم کی بعض اوقات ضعفاء کی روایات ثقات سے مشتبہ ہوجایاکرتی تھیں، یعنی روایت تو ضعیف راوی سے سن رکھی ہوتی تھی، لیکن غلطی کی وجہ سے اسے وہ ثقہ سے مروی سمجھ بیٹھتے تھے.
* امام دحیم کہتے ہیں «هذاحديث صفوان بن عمرو،وحديث معاوية. »یعنی اسکی سند مقلوب ( تبدیل شدہ) ہے.
* ـ امام ابن عدی کہتے ہیں.هذاانمايعرف بنعيم بن حماد،رواه عن عيسي بن يونس، فتكلم الناس فيه بجراه، ثم رواه رجل من اهل خراسان يقال له الحكم بن المبارك يكني اباصالح يقال له الخواشتي، ويقال: انه لاباس به، ثم سرقه قوم ضعفاء ممن يُّعرَفُونَ بسرقة الحديث، منهم عبدالوهاب بن الضحاك، والنظر بن طاهر، وثالثهم سويد الانباري
( تاریخ بغداد.: ۱۳/۳۱۰)
ابن عدی یہ کہناچاہ رہے ہیں کہ یہ روایت نعیم بن حماد کے طریق سے ہی مشہور ہے، اس سے الحکم بن المبارک الخواشتی نے سنی، پھر اس سے باقی لوگوں نے اسکو چوری کرکے نعیم اور خواشتی کو گراکر عیسی بن یونس سے ڈائریکٹ روایت کردیا،
اسی طرح "الکامل "(۱/۱۸۹) احمدبن عبدالرحمن بن وھب کے ترجمہ میں فرماتے ہیں.: «هذاحديث، رواه نعيم بن حماد، عن عيسي، والحديث له، وانكروه عليه، وسرقه منه جماعة، منهم عبدالوهاب بن الضحاك، وسويد بن سعيد، وابوصالح الخراساني(۱) الخاشني، والحكم بن المبارك. اھ.
سوید اور حکم بن المبارک پر سرقہ کے اتہام پر ابن عدی منفرد ہیں، لہذا ان سے اس بات پر موافقت نہیں کی جاسکتی، البتہ وہم وغیرہ کا کچھ کہاجاسکتا ہے.واللہ اعلم بالصواب
سوید بن سعید، مختلط، بعد الاختلاط کثرت سے تدلیس، اور تلقین قبول کرنے لگ گیا تھا، امام جعفر بن محمد الفریابی نے سوید سے اس روایت پر کافی بحث ومباحثہ کیا، لیکن وہ اسی پر مصررہے کہ اس نے یہ روایت عیسی بن یونس سے ہی سن رکھی ہے،
نضر بن طاہرپر امام ابن عدی نے سخت جرح کی ہے، آپ فرماتے ہیں « ضعيف جدا، يسرق الحديث، ويحدث عمن لم يرهم، ولايحمل سنه ان يراهم ....»مزید فرماتے ہیں.: «والنضر بن طاهر معروف بانه يثب علي حديث الناس، ويسرقه ويروي عمن لم يلحقهم، والضعف علي حديثه بين »( الكامل. ۷/ ۲۴۹۳ / ۲۴۹۴)
یعنی نضر پر امام ابن عدی نے حدیث کے سرقہ کاالزام لگایا ہے، یعنی دوسروں کی احادیث چوری کرکے اپنی طرف سے انہیں بیان کرتے تھے،
عبدالوہاب بن الضحاک، بھی کذاب ووضاع راوی ہے،
امام ابوداؤد کہتے ہیں.: کان يضع الحديث،قد رأیتہ.
امام نسائی کہتے ہیں: لیس بثقة، متروك.
امام عقیلی، دارقطنی، بیہقی کہتے ہیں.: متروک.
امام صالح بن محمد الحافظ کہتے ہیں.: منکرالحدیث، عامة حديثه كذب.
امام ابن حبان کہتے ہیں. کان یسرق الحدیث، لایحل الاحتجاج بہ.
( تھذیب الکمال.: ۱۸/ ۴۹۵ / ۴۹۶)
( تھذیب التھذیب ۶/۳۹۶)
اور بھی محدثین کرام نے اس پر شدید جروح کرتے ہوئے اسے وضاع وکذاب کہا ہے.
مثلا. امام ابوحاتم رازی، امام حاکم، امام ابونعیم. لہذا یہ راوی کذاب، وضاع، اور سارق الحدیث ہے.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) الحکم بن المبارک اور ابوصالح الخراسانی ایک ہی راوی ہے.ابوصالح، حکم کی کنیت ہے( ابوالمحبوب عفااللہ عنہ)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* ـ حافظ عبدالغنی المقدسی کہتے ہیں.: «كل من حدث به عن عيسي بن يونس غير نعيم بن حماد، فانما اخذه من نعيم، وبهذالحديث سقط نعيم بن حماد عند كثير من اهل العلم بالحديث، الاان يحي بن معين لم يكن ينسبه الي الكذب، بل كان ينسبه الي الوهم».(تاریخ بغداد: ۱۳/۳۱۲)
* ـ امام ابوبکرالاسماعیلی کہتے ہیں.:
« في القلب من سويد شئ ...من جهة التدليس، وماذكر عنه في حديث عيسي بن يونس الذي كان يقال تفرد به نعيم بن حماد»
( تاریخ بغداد.: ۹/۲۲۹)
* ـ امام محمد بن طاہر المقدسی نے "ذخيرة الحفاظ "(۳/۱۱۶۲) میں نعیم پر امام ابن عدی مذکورہ کلام ذکرکے اسے برقرار رکھا ہے،
دوسری رائے کے قائل حافظ ذہبی اور علامی معلمی رح وغیرہ ہیں.
نعیم بن حماد کی اس روایت کو عیسی بن یونس سے تین اور روات بھی روایت کرتے ہیں، جنکی روایت خطیب بغدادی نے "التاریخ " ( ۱۳/ ۳۰۹ / ۳۱۰)میں ذکرکی ہے..
۱ ـ سوید بن سعید الحدثانی
۲ ـ عبداللہ بن جعفر الرقی.
۳ ـ الحکم بن المبارک الخواستی.
حافظ ذہبی ان تینوں کی متابعت کو "المیزان " میں ذکرکرکے کہتے ہیں«قلت: هؤلاء الاربعة، لايجوزفي العادة ان يتفقوا علي باطل، فان كان خطا، فمن عيسي بن يونس، والله اعلم.»
کہ عادتا یہ ناجائز ہے کہ یہ چار روات ( نعیم سمیت) کسی باطل پرجمع ہوجائیں، اگر غلطی ہے تو یہ نعیم کے شیخ عیسی بن یونس سے متصور سمجھی جائیگی.اھ
علامہ معلمی رح نے ذہبی کی اس بات کو "التنکیل " (۱/۴۹۷) میں ذکرکرکے اسکا دفاع کیا ہے،
محترم قارئین.: سوید بن سعید،،، مختلط بھی تھے، اور اختلاط کے بعد تدلیس بھی کرنا شروع ہوگئے، اور اسی طرح تلقین کو بھی قبول کرتے رہے...
عبداللہ بن جعفر الرقی، بھی مختلط ہوگئے تھے،
حکم کو ابن مندہ اور ابن السمعانی نے ثقہ کہاہے،،
نتیجہ.: محدثین کی ایک پوری جماعت اس روایت کو نعیم کا ہی تفرد قرار دیتی ہے...انکے یہاں اس روایت کا محور ومرکز محض نعیم ہی ہیں، اور اسی طریق سے ہی وہ اسے جانتے ہیں،،
لیکن یہ جو تین روات نعیم کی متابعت کررہے ہیں، اب یاتو یہ کہاجائے کہ محدثین کرام ان پر مطلع نہ ہوسکے،، یاپھر انہیں وہ محض وہم ہی سمجھتے ہوں،واللہ اعلم بالصواب
لہذا اس اعتبار سے اس روایت میں نعیم کے تفرد کو ہی وجہ ضعف ماناجائیگا، گویا ان کے نزدیک ان متابعات کی کسی طور بھی اہمیت نہیں،،..
متابعات کو تسلیم کرنے سے نعیم اس انکار سے بری ہوجائینگے، اور اگر انہیں رد کردیاجائے تو پھر بات یہاں پر اٹکتی ہے کہ آیا یہ حدیث نعیم نے عمدا اور جان، بوجھ کر گھڑکے روایت کی ہے، یااس سے اس میں غلطی اور وہم ہوگیا ہے..؟؟
* ـ محدثین کرام کی ایک جماعت کے نزدیک نعیم کو اس روایت میں وہم ہوگیا ہے،، اس نے عمدا اسے وضع نہیں کیا.اسی لیے ائمہ حدیث نے اس پر وضع کی تہمت نہیں لگائی، بلکہ اسکے حافظہ پر جرح کی ہے،، تفصیل کے لیے "تھذیب الکمال " للمزی وغیرہ کامراجعہ کیاجائے.
امام ابن معین کا قول پیچھے گذرا ہے کہ اسے اس حدیث کو بیان کرنے میں شبہ لگ گیا ہے،، مطلب کہ اس نے یہ حدیث کسی غیر ثقہ راوی سے سن رکھی ہے، لیکن غلطی سے عیسی بن یونس سے روایت کردیا،، امام عبدالغنی المقدسی نے بھی امام ابن معین کے متعلق ہہی کہاہےکہ "الاان یحی بن معین لم یکن ینسبہ الی الکذب، بل کان ینسبہ الی الوھم ".
کہ ابن معین اسے کذب کی طرف منسوب نہیں کرتے تھے،، بلکہ اسکے وہم کی طرف اشارہ کرتے تھے...
* ـ امام دولابی اور بعض اھل علم نےنعیم پر غلطی اور وہم کی جرح کے بجائے وضع کی تہمت لگائی ہے،،،
اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا دولابی کانعیم پر تہمت لگانا دولابی کواسکی عدالت سے گراسکتا ہے .....؟؟؟
تو اس حوالے سے عرض ہے کہ چونکہ نعیم اھل الرای پر بڑے سخت تھے،،، اب جب اس نے یہ روایت بیان کی تو دولابی پہلے سے ہی نعیم کے مذہبی تعصب کی وجہ سے سخت مخالف تھے، تو جب اس سے مروی یہ روایت دیکھی تو آخر کیوں نہ اس پر مزید مذہبی رنگ غالب آتا،،، ؟؟ مجھے ائمہ کرام سے ایسی کوئی نص نہیں ملی کہ مذہبی تعصب کی وجہ سے جارح علی الاطلاق اپنی عدالت سے ہاتھ دھوبیٹھے،، ہاں وہ وہاں تک اسکی قید لگاتے ہیں جن کے ساتھ اسکا مذہبی تعصب ہوتا ہے،، کہ ایسی صورت میں محض اس جارح کی جرح انکے حق میں نامقبول ومردود ہوگی.اسکے علاوہ وہ عادل بھی رہیگا اور دوسروں کے حق میں اسکی جرح بھی مقبول ہوگی.
ھشام بن عروہ نے امام محمد بن اسحاق پر تہمت لگائی، امام ابن السبکی، اپنے شیخ حافظ ذہبی پر بڑے سخت ناقد ہیں، اور بلاشبہ وہ اس میں غلو سے کام لیتے ہیں،، انکا یہ تشدد بھی محض مسلکی ومذہبی تعصب تھا،، تو کیااس وجہ سے کسی نے انہیں اسکی عدالت میں متہم کیاہے،، ؟؟ انکے اس فعل کوبراضرور سمجھاگیا، لیکن اسے عدالت سے ہی ساقط کردینا،، یہ نہ کسی سے ثابت ہے، اور نہ ہی منہج محدثین ہے...اس قسم کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں.تو پھردولابی اس جرح کی وجہ سے مُتَّھَم کیوں ہوسکتے ہیں..؟؟ اورحافظ ابن عدی کی یہ بات کیسے قابل سماع ہوسکتی ہے،، ؟؟
آگے چلئے.، اگر "وابن حماد متہم ... " میں "متہم "کو صیغہ اسم مفعول ماناجائے، تو متہم کی تعیین کی جائیگی،، چونکہ تہمت مختلف باتوں کی وجہ سے لگائی جاتی ہے،، جھوٹ بولنے کی، چوری کرنے کی، وضع حدیث کی،، وغیرہ وغیرہ...اور ایسی باتوں کی بھی تہمت لگائی جاتی ہے جسکا جرح سے کوئی تعلق نہیں ہوتا...امام ابن عدی کے ان الفاظ متہم میں کونسی تہمت مراد ہے؟؟؟ کیاابن عدی ان پر جھوٹ کی تہمت لگارہے ہیں،، یاکسی ایسی بات کی تہمت لگارہے ہیں جس سے راوی کی عدالت ہی ساقط ہوجائے.....؟؟ نہیں، قطعا نہیں...نہ جھوٹ کی اور نہ ہی کسی ایسی بات کی کہ جس سے وہ اپنی عدالت کھوبیٹھیں، تو پھر ان الفاظ سے آخر کس وجہ سے دولابی کو مجروح وضعیف سمجھاجائے،، ؟؟؟
امام ابن عدی نے صراحت کردی ہے کہ ابن حماد اس وجہ سے متہم ہے جو کچھ بس وہ نعیم کے متعلق کہتا ہے،،
یہاں پر صراحت ہوگئی کہ اسکے متہم ہونے کی وجہ صرف یہی ہے کہ اس نے نعیم پرتہمت لگائی ہے،، اگر ابن عدی کے الفاظ کا یہی مطلب مراد لیاجائے تو انہی میں وضاحت موجود ہے کہ دولابی پر نہ جھوٹ کی تہمت ہے اور نہ ہی کسی ایسی بات کی کہ جسکی وجہ سے وہ مجروح وضعیف ہوجائے..
لہذا جب اتہام ان باتوں کا ہے ہی نہیں تو گویا ابن عدی کی اس اتہام سے مراد محض یہ ہوگی کہ امام دولابی نے یہ اتہام لگاکربراکیا،، جیسا کہ حافظ ذہبی کے کلام میں اوپر مذکور ہوا..ورنہ اگر اس اتہام سے انکی مراد دولابی کی عدالت ساقط ہوتی تو ہھر بتایاجائے انہوں نے اپنی کتاب "الکامل " کوکیوں دولابی کی نقول سے بھردیا ہے اور ان پر اعتماد بھی کیا ہے،، اور اسی طرح امام بخاری کے اقوال بھی انہی سے کیوں روایت کرتے ہیں...اگرانکے نزدیک دولابی واقعی مجروح وضعیف ہوتے تو قطعا ان کی نقل سے حجت نہ پکڑتے اور نہ انکے اقوال سے اپنی "الکامل " کو بھرتے..یہ قرائن بتاتے ہیں کہ متہم سے مراد محض یہ ہے کہ دولابی نے نعیم پر تہمت لگاکراچھا نہیں کیا ۔
خلاصہ کلام یہ ہواکہ دولابی پر ابن عدی کی جرح ثابت نہیں، اور اگر ثابت ہوجائے تو اس سے وہ ضعیف نہیں ہوجائیگا ..بلکہ اس سے مراد محض دولابی کے تہمت والے اس عمل کو براسمجھنا ہے....واللہ اعلم بالصواب۔
امام دولابی پرابن عدی نے مذہبی تعصب میں افراط کا شکار ہونے کا الزام بھی لگایاہے، کہ اس وجہ سے انہوں نے ابوحنیفہ رح کی روایت ( حدیث القہقہة ) میں معبد جہنی تابعی کے بجائے معبد انصاری صحابی کانام ذکر کردیا ہے،، انکے الفاظ ہیں.: « قال لنا ابن حماد: وہو معبد بن هوذة الذي ذكره البخاري في كتابه "تسمية اصحاب النبي صلي الله عليه وسلم، والله اعلم...وهذاالذي ذكره ابن حماد، غلط ، وذالك انہ قبل معبد الجهني، فكيف يكون جهني انصاري، فكيف يكون جهنيا،، ؟؟ .......الاان ابن حماد اعتذر لابي حنيفة، فقال هو معبد بن هوذة لميله الي ابي حنيفة، ولم يقله احد عن معبد في هذاالاسناد الاابوحنيفة»(۳/۱۰۲۷)
یعنی دولابی نے جو معبد جہنی کے بجائے معبد انصاری کا کہا ہے، یہ غلط ہے،،،، اور یہ محض ابوحنیفہ کے عذر میں انکی طرف مائل ہونے کی وجہ سے ایسا کہاہے .
ثانیا: امام ابن یونس المصری دولابی کے متعلق فرماتے ہیں. وكان يضعف»
(تاریخ دمشق.: ۱۵/۳۱)
یہ جرح دووجوہ کی بناء پر نامقبول ہے،
۱ ـ جارح نامعلوم ہے،، یعنی مجہول ہے، وہ جارح قابل اعتماد بھی ہے یانہیں..
۲ ـ جرح غیر مفسر ہے،، لہذاائمہ کی تعدیل وتوثیق کے مقابلہ میں حجت نہیں.
یہاں یہ نہیں کہاجاسکتا کہ چونکہ امام دولابی مصری تھے، اور امام ابن یونس بھی مصری ہیں، انکا قول مصری روات کے بارے میں دوسروں کی بنسبت راجح ہوگا.جیساکہ محدثین کرام نے امام ابن یونس وغیرہ محدثین کے متعلق اس قسم کی صراحت کررکھی ہے.
مثلا.: حماد بن زيد کہتے ہیں
« أهل بلد الرجل أعرف بالرجل »( الكفاية ۱/ ۳۳۳)
أبو بكر المروذي کہتے ہیں : سألت أحمد بن حنبل عن قطن الذي روى عنه مغيرة ؟ فقال : " لا أعرفه إلا بما روى عنه مغيرة " ، قلت : إن جريراً ذكره بذكر سوء ، قال : " لا أدري ، جرير
( ابن عبدالحمید) أعرف به وببلده " العلل ص ۹۸)
امام أبو زرعة الدمشقي کہتے ہیں : قلت لأبي عبد الله أحمد بن حنبل : يا أبا عبد الله ، ما تقول في سعيد بن بشير( الدمشقی) ؟ قال : " أنتم أعلم به . تاريخ أبي زرعة ( ۱/ ۵۴۰)
امام ابن عدي في "الکامل میں في شقيق الضبي. کے متعلق کہتے ہیں: " كان من قصاص أهل الكوفة ، والغالب عليه القصص ، ولا أعرف له أحاديث مسندة كما لغيره ، وهو مذموم عند أهل بلده ، وهم أعرف به "
امام محمد بن عبد الله بن نمير کوفہ کےنقاد میں سے تھے ، علي بن الحسين بن الجنيد کہتے ہیں : كان أحمد بن حنبل ويحيى بن معين يقولان في شيوخ الكوفيين : " ما يقول ابن نمير فيهم ؟ " الجرح والتعديل ۱ /۳۲۰)
ابن حبان "المجروحین " ( ۲ / ۷۷) میں أبو مسهرالغساني. کے متعلق کہتے ہیں.: كان يقبل كلامه في التعديل والجرح في أهل يلده كما كان يقبل ذلك من أحمد ويحيى بالعراق وكان يحيى بن معين يفخم من أمره
امام ابوعبداللہ محمد بن ابی نصر فتوح بن عبداللہ الازدی الحمیدی"جذوة المقتبس " میں ابن يونس المصري کے متعلق کہتے ہیں «وهو من اهل البحث عن اهل المغرب والاختصاص بمعرفتهم»(۳۴۰)
اولا: یہ جرح اس لیے مردود ہے کہ چونکہ یہ جرح امام ابن یونس کی اپنی نہیں،، بلکہ وہ تو اس جرح کے محض ناقل ہیں.
ثانیا.: یہ جرح بھی غیر مفسر ہے،،، لہذا اس تناظر میں امام ابن یونس کی یہ نقل کردہ جرح نامقبول ہی رہیگی.
تنبیہ.: ابن یونس کی جرح کے مذکورہ الفاظ "وکان یضعف " بعض کتب میں محرف ہوگئے ہیں،
مثلا.: الانساب " کے ایک نسخہ میں "یصنف " ایک نسخہ میں "تصنیف " اور ایک نسخہ میں" یضف "کے الفاظ ہیں.
البدایہ والنہایہ " میں "یصعق "کے الفاظ ہیں، یہ سارے محرف ہیں...درست "یُضَعَّفُ " کے الفاظ ہی ہیں، جو "تاریخ دمشق " "المنتظم " تذکرة الحفاظ " السير " ميزان الاعتدال " اور "اللسان " میں مذکور ہیں.
ثالث.: امام دارقطنی دولابی کے متعلق فرماتے ہیں. «تكلموا فيه، مايتبين من امره إلاخير » ( تاريخ ابن عساكر)
یہ جرح بھی دو وجوہ کی بناء پر مردود ہے،
۱ ـ جارحین نامعلوم ہیں.
۲ ـ جرح غیر مفسر ہے.
دارقطنی نے ان جارحین کو رد کردیا ہے،اسی لیے انہوں نے خود جرح نقل کرنے کے بعد دولابی کے متعلق اچھے تاثرات دیے ہیں..لہذا اس جرح کے ناقل ہی خود اسے اہمیت نہیں دے رہے، تو ہم کیسے اسے قبول کرسکتے ہیں۔
یہ بھی ایک قرینہ ہے دولابی کی تعدیل اور توثیق کے لیے،، کہ اس پر جوجروح کی گئی ہیں، وہ دارقطنی کے نزدیک حقیقتا جروح نہیں.کہ جنکی وجہ سے دولابی ضعیف بن جائیں..ہمارے سامنے صرف ابن عدی کے الفاظ ( اگر انکو واقعی جرح تسلیم کرلیاجائے) اور ابن یونس المصری کی نقل کردہ جرح ہے، بعید نہیں کہ امام دارقطنی کا "تکلموا فیہ " کا اشارہ انہی ائمہ کی طرف ہی ہو،،اس طرح گویا انہوں نے ان کے الفاظ کو جرح نہ تسلیم کرتے ہوئے انہیں مسترد کردیا..واللہ اعلم.
تنبیہ.: "اللسان "(۵، ۴۱، ۴۲) کے مطبوعہ نسخہ میں امام دارقطنی کے مذکورہ الفاظ میں تحریف ہوگئی ہے،، وہاں یہ الفاظ اس طرح ہیں
« تكلموا فيه لماتبين من امره الاخير»
اس کے آخری معاملہ کے واضح ہونے کے بعد اس پر کلام کیاگیا ہے،،
گویا دارقطنی کے یہ نقل کردہ مکمل الفاظ جرح ہیں..انکو اگر درست مان بھی لیاجائے تب بھی یہ غیر مفسر ہونے کی وجہ سے غیرمضر ہیں...لیکن راجح قول میں یہ الفاظ محرف ہیں..درست الفاظ وہی ہیں جو اوپر مذکور ہوئے..مزید تفصیل کے "مقالات اثریہ " کا مراجعہ کیا..
رابع.: حافظ ذہبی ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل " میں فرماتے ہیں "وقد ضُعِّفَ " کہ انہیں ضعیف کہاگیا ہے..
یہ جرح بھی جارح اور جرح دونوں کے غیر مفسر ہونے کی وجہ سے غیر معتبر ہے.
خلاصہ کلام، کہ امام دولابی ایک ثقہ، متقن، محدث، حافظ اور اچھے مصنف تھے، ان پر کی گئی جرح یا تو ثابت نہیں، یا بعد ثبوت وہ جرح غیر معتبر ہیں.اور اسی طرح جرح غیر مفسر ہے.مزید یہ جروح نہ اسکی عدالت پر ہیں اور نہ ضبط ہر .لہذا تعدیل توثیق کے مقابلہ میں نامقبول ومردود ہیں..
ھذا ماعندی، واللہ اعلم بالصواب
 
Last edited:
Top