بزرگوں کی باتیں بڑے گہرے تجربے پر مبنی ہوتی ہیں ان ہی گہرے تجربہ پر مبنی باتوںمیں سے ایک یہ ہے"ایک من علم کیلئے 10/من دماغ یافہم چاہئے"،بات بڑی گہری حقیقت پر مشتمل ہے ،دسترخوان پر کھاناکم وبیش ہوسکتاہے لیکن انسان کوکھانے میں اپنے ہاضمہ کی قوت کا لحاظ کرناہی پڑتاہے،اگرنہ کرے تو ،جوکچھ دسترخوان پر ہے سب کو داخل شکم کرنے کی کوشش کرے تو اس کی حالت کیاہوگی؟یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ٹھیک اسی طرح علم کیلئے گہرے فہم کی بھی ضرورت ہے جو علم کوہضم کرسکے، اگرانسان کے پاس علم کو ہضم کرنے کیلئے درکارمقدار میں فہم نہیں ہے تواس کا حال بھی براہوتاہے، یہی وجہ ہے کہ ہم کتب تاریخ وتراجم میں بعض بزرگوں کے ترجمہ میں پاتے ہیں علمہ اکبر من عقلہ یاعلمہ اکثرمن عقلہ وغیرہ ۔
رضامیاں کے ایک مضمون پر ماقبل میں تنقید کی جاچکی ہے،یہ ان کا دوسرامضمون ہے اوراس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ امام جرح وتعدیل یحیی بن سعید القطان حنفی نہیں تھے۔
رضامیاں نے تاریخ بغداد سے ایک روایت پیش کی ہے، اس کی سند کو ضعیف بتایاہے، پھر ابن معین کا ایک قول پیش کیاہے اوراس کی روشنی میں کہاہے کہ سابقہ روایت مکذوب اورموضوع ہے،ہم ماقبل میں عرض کرچکے ہیں کہ کسی بھی چیز کو صحیح تناظر میں دیکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کی مجموعی ہیئت کو پیش نظررکھاجائے ورنہ اس کی مثال اندھوں کے ہاتھی کو ٹٹول کر دیکھنے کی ہوتی ہے۔
امام یحیی بن سعید القطان امام حدیث تھے، اس میں کوئی شک نہیں، فقہ میں بھی ان کامرتبہ بلند تھا،اس میں بھی کوئی شک نہیں، لیکن اس سے حنفی ہونے سے انکار کیسے لازم آسکتاہے یہ میری سمجھ سے باہر ہے، رضامیاں کہتے ہیں :
کیونکہ کسی سے اس کی گنی چنی چیزیں لینا اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ چیزیں اس شخص کے نزدیک صحیح اور حق ہوں اور اس لئے وہ ان کی تحسین کرتا ہے۔ اور یہ جاننے کے لئے کہ کیا چیز صحیح اور حق ہے اور کیا نہیں، اس کو خود اجتہاد کرنا پڑے گا!!لہٰذا امام ابن القطان اپنے خود کے اجتہاد کی بنا پر ہی جانتے تھے ،تھے کہ ابو حنیفہ کی یہ یہ چیزیں صحیح اور اچھی ہیں اور اسی لئے وہ ان کی تحسین کرتے اور انہیں خود چن لیتے تھے۔
سوال یہ ہے کہ اتناعلم توہرمتبحر عالم کو ہوتاہے، امام نووی،امام قدوری،امام ابواسحاق اسفرائنی،امام ابن دقیق العید، ابن قدامہ حنبلی وغیرہ کو کیایہ علم نہیں تھاکہ ان کے ائمہ کے کون سےا قوال دلائل کی روشنی میں صحیح اورکون سے اقوال غلط ہیں،اگراسی کے جاننے کا نام اجتہاد ہے توپھر مبارک ہو، شافعی اور نووی ایک برابر ہوگئے، ابن دقیق العید مالکی اورامام مالک میں کوئی فرق نہ رہا، امام قدروی کا مرتبہ امام ابوحنیفہ کے برابرہوگیا اور ابن قدامہ حنبلی کا درجہ امام احمد بن حنبل کے مساوی ہوگیا،اگرمحض اخذ وانتخاب کا نام اجتہاد ہوتاتو پھر احناف میں اصحاب ترجیح علماء سارے کے سارے امام ابوحنیفہ کے مقام ومرتبہ کے ہوتے، شوافع میں اصحاب وجوہ سارے کے سارے امام شافعی کے مرتبہ کے ہوتے۔
رضامیاں نے تاریخ بغداد سے یہ قول نقل کیاہے
لا نكذب الله، ما سمعنا أحسن من رأي أبي حنيفة، وقد أخذنا بأكثر أقواله. قال يحيى بن معين: وكان يحيى بن سعيد يذهب في الفتوى إلى قول الكوفيين، ويختار قوله من أقوالهم
اس کی سند پر ان کا اعتراض یہ ہے
اس سند میں پہلی وجہ ضعف ہے"عبد الرحمن بن عمر بن نصر بن محمد الدمشقی الشیبانی"اور یہ شخص متہم (بالکذب والاعتزال ہے۔(دیکھیں، لسان المیزان: ج 5 ص 116)
ہم نے لسان المیزان بھی دیکھا، میزان الاعتدال بھی دیکھااورتاریخ دمشق کی جانب بھی مراجعت کی ،لیکن سب میں ہمیں یہ قول بصیغہ مجہول ہی ملاکہ ان پر معتزلہ ہونے کی تہمت لگائی گئی ہے اور ابن اسحاق کے لقاء کے سلسلےمیں ان کومتہم کیاگیاہے۔پہلی بات تو یہ ہےکہ اعتزال ہویاقدریاخارجی ہونا،عدالت وضبط میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اس کے علاوہ نہ جانے کتنے محدث ثابت شدہ قدری تھے، کتنے مرجی تھے، کتنے خارجی تھے ،کتنے ناصبی تھے وغیرذلک لیکن اختلاف عقائد کی وجہ سے کسی کی حدیث رد نہیں کی گئی بلکہ اصول حدیث میں یہ بات طے پاگئی کہ اختلاف مسلک وعقیدہ کی وجہ سے راوی کو ترک نہیں کیاجائے گا،اس کے علاوہ ان پر یہ دونوں الزام بصیغہ مجہول منقول ہیں اوریہ معلوم بات ہے کہ مجہول صیغہ سے کسی قول کا ذکر کیاجاناعمومی طورپراس قول کے ضعف کی طرف اشارہ کرتاہے ۔تیسرے ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ان پر یہ الزام لگانے والے کون ہیں،معلمی نے تنکیل میں تکلموا فیہ کی جرح اس بنیاد پر رد کردی کہ معلوم نہیں کہ جرح کرنے والے کون ہیں اوریہ جرح جرح مبہم ہے توپھر اس جرح کو یہاں کیسے قبول کیاجاسکتاہے؟
«تكلموا فيه» .أقول: كذا قال ابن يونس ولم يبين من المتكلم ولا ما هو الكلام،(التنکیل2/579)
اس کے بجائے اگررضامیاں یہ اعتراض کرتے کہ ان کی تعدیل کسی سےمنقول نہیں تو شاید یہ کسی درجہ میں کام کی بات ہوتی ۔یہی حال ان کےوالد کاہے تو ایسے راوی جن کی تعدیل نہ ملتی ہو،ان کی وجہ سے روایت ضعیف ہوگی ، من گھڑت اورموضوع کب سے ہونے لگی؟
رضامیاں کے ایک مضمون پر ماقبل میں تنقید کی جاچکی ہے،یہ ان کا دوسرامضمون ہے اوراس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ امام جرح وتعدیل یحیی بن سعید القطان حنفی نہیں تھے۔
رضامیاں نے تاریخ بغداد سے ایک روایت پیش کی ہے، اس کی سند کو ضعیف بتایاہے، پھر ابن معین کا ایک قول پیش کیاہے اوراس کی روشنی میں کہاہے کہ سابقہ روایت مکذوب اورموضوع ہے،ہم ماقبل میں عرض کرچکے ہیں کہ کسی بھی چیز کو صحیح تناظر میں دیکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کی مجموعی ہیئت کو پیش نظررکھاجائے ورنہ اس کی مثال اندھوں کے ہاتھی کو ٹٹول کر دیکھنے کی ہوتی ہے۔
امام یحیی بن سعید القطان امام حدیث تھے، اس میں کوئی شک نہیں، فقہ میں بھی ان کامرتبہ بلند تھا،اس میں بھی کوئی شک نہیں، لیکن اس سے حنفی ہونے سے انکار کیسے لازم آسکتاہے یہ میری سمجھ سے باہر ہے، رضامیاں کہتے ہیں :
کیونکہ کسی سے اس کی گنی چنی چیزیں لینا اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ چیزیں اس شخص کے نزدیک صحیح اور حق ہوں اور اس لئے وہ ان کی تحسین کرتا ہے۔ اور یہ جاننے کے لئے کہ کیا چیز صحیح اور حق ہے اور کیا نہیں، اس کو خود اجتہاد کرنا پڑے گا!!لہٰذا امام ابن القطان اپنے خود کے اجتہاد کی بنا پر ہی جانتے تھے ،تھے کہ ابو حنیفہ کی یہ یہ چیزیں صحیح اور اچھی ہیں اور اسی لئے وہ ان کی تحسین کرتے اور انہیں خود چن لیتے تھے۔
سوال یہ ہے کہ اتناعلم توہرمتبحر عالم کو ہوتاہے، امام نووی،امام قدوری،امام ابواسحاق اسفرائنی،امام ابن دقیق العید، ابن قدامہ حنبلی وغیرہ کو کیایہ علم نہیں تھاکہ ان کے ائمہ کے کون سےا قوال دلائل کی روشنی میں صحیح اورکون سے اقوال غلط ہیں،اگراسی کے جاننے کا نام اجتہاد ہے توپھر مبارک ہو، شافعی اور نووی ایک برابر ہوگئے، ابن دقیق العید مالکی اورامام مالک میں کوئی فرق نہ رہا، امام قدروی کا مرتبہ امام ابوحنیفہ کے برابرہوگیا اور ابن قدامہ حنبلی کا درجہ امام احمد بن حنبل کے مساوی ہوگیا،اگرمحض اخذ وانتخاب کا نام اجتہاد ہوتاتو پھر احناف میں اصحاب ترجیح علماء سارے کے سارے امام ابوحنیفہ کے مقام ومرتبہ کے ہوتے، شوافع میں اصحاب وجوہ سارے کے سارے امام شافعی کے مرتبہ کے ہوتے۔
رضامیاں نے تاریخ بغداد سے یہ قول نقل کیاہے
لا نكذب الله، ما سمعنا أحسن من رأي أبي حنيفة، وقد أخذنا بأكثر أقواله. قال يحيى بن معين: وكان يحيى بن سعيد يذهب في الفتوى إلى قول الكوفيين، ويختار قوله من أقوالهم
اس کی سند پر ان کا اعتراض یہ ہے
اس سند میں پہلی وجہ ضعف ہے"عبد الرحمن بن عمر بن نصر بن محمد الدمشقی الشیبانی"اور یہ شخص متہم (بالکذب والاعتزال ہے۔(دیکھیں، لسان المیزان: ج 5 ص 116)
ہم نے لسان المیزان بھی دیکھا، میزان الاعتدال بھی دیکھااورتاریخ دمشق کی جانب بھی مراجعت کی ،لیکن سب میں ہمیں یہ قول بصیغہ مجہول ہی ملاکہ ان پر معتزلہ ہونے کی تہمت لگائی گئی ہے اور ابن اسحاق کے لقاء کے سلسلےمیں ان کومتہم کیاگیاہے۔پہلی بات تو یہ ہےکہ اعتزال ہویاقدریاخارجی ہونا،عدالت وضبط میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اس کے علاوہ نہ جانے کتنے محدث ثابت شدہ قدری تھے، کتنے مرجی تھے، کتنے خارجی تھے ،کتنے ناصبی تھے وغیرذلک لیکن اختلاف عقائد کی وجہ سے کسی کی حدیث رد نہیں کی گئی بلکہ اصول حدیث میں یہ بات طے پاگئی کہ اختلاف مسلک وعقیدہ کی وجہ سے راوی کو ترک نہیں کیاجائے گا،اس کے علاوہ ان پر یہ دونوں الزام بصیغہ مجہول منقول ہیں اوریہ معلوم بات ہے کہ مجہول صیغہ سے کسی قول کا ذکر کیاجاناعمومی طورپراس قول کے ضعف کی طرف اشارہ کرتاہے ۔تیسرے ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ان پر یہ الزام لگانے والے کون ہیں،معلمی نے تنکیل میں تکلموا فیہ کی جرح اس بنیاد پر رد کردی کہ معلوم نہیں کہ جرح کرنے والے کون ہیں اوریہ جرح جرح مبہم ہے توپھر اس جرح کو یہاں کیسے قبول کیاجاسکتاہے؟
«تكلموا فيه» .أقول: كذا قال ابن يونس ولم يبين من المتكلم ولا ما هو الكلام،(التنکیل2/579)
اس کے بجائے اگررضامیاں یہ اعتراض کرتے کہ ان کی تعدیل کسی سےمنقول نہیں تو شاید یہ کسی درجہ میں کام کی بات ہوتی ۔یہی حال ان کےوالد کاہے تو ایسے راوی جن کی تعدیل نہ ملتی ہو،ان کی وجہ سے روایت ضعیف ہوگی ، من گھڑت اورموضوع کب سے ہونے لگی؟