• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام یحیی بن سعید القطان کاامام ابوحنیفہ سے اخذ واستفادہ

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
بزرگوں کی باتیں بڑے گہرے تجربے پر مبنی ہوتی ہیں ان ہی گہرے تجربہ پر مبنی باتوںمیں سے ایک یہ ہے"ایک من علم کیلئے 10/من دماغ یافہم چاہئے"،بات بڑی گہری حقیقت پر مشتمل ہے ،دسترخوان پر کھاناکم وبیش ہوسکتاہے لیکن انسان کوکھانے میں اپنے ہاضمہ کی قوت کا لحاظ کرناہی پڑتاہے،اگرنہ کرے تو ،جوکچھ دسترخوان پر ہے سب کو داخل شکم کرنے کی کوشش کرے تو اس کی حالت کیاہوگی؟یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ٹھیک اسی طرح علم کیلئے گہرے فہم کی بھی ضرورت ہے جو علم کوہضم کرسکے، اگرانسان کے پاس علم کو ہضم کرنے کیلئے درکارمقدار میں فہم نہیں ہے تواس کا حال بھی براہوتاہے، یہی وجہ ہے کہ ہم کتب تاریخ وتراجم میں بعض بزرگوں کے ترجمہ میں پاتے ہیں علمہ اکبر من عقلہ یاعلمہ اکثرمن عقلہ وغیرہ ۔

رضامیاں کے ایک مضمون پر ماقبل میں تنقید کی جاچکی ہے،یہ ان کا دوسرامضمون ہے اوراس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ امام جرح وتعدیل یحیی بن سعید القطان حنفی نہیں تھے۔

رضامیاں نے تاریخ بغداد سے ایک روایت پیش کی ہے، اس کی سند کو ضعیف بتایاہے، پھر ابن معین کا ایک قول پیش کیاہے اوراس کی روشنی میں کہاہے کہ سابقہ روایت مکذوب اورموضوع ہے،ہم ماقبل میں عرض کرچکے ہیں کہ کسی بھی چیز کو صحیح تناظر میں دیکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کی مجموعی ہیئت کو پیش نظررکھاجائے ورنہ اس کی مثال اندھوں کے ہاتھی کو ٹٹول کر دیکھنے کی ہوتی ہے۔

امام یحیی بن سعید القطان امام حدیث تھے، اس میں کوئی شک نہیں، فقہ میں بھی ان کامرتبہ بلند تھا،اس میں بھی کوئی شک نہیں، لیکن اس سے حنفی ہونے سے انکار کیسے لازم آسکتاہے یہ میری سمجھ سے باہر ہے، رضامیاں کہتے ہیں :


کیونکہ کسی سے اس کی گنی چنی چیزیں لینا اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ چیزیں اس شخص کے نزدیک صحیح اور حق ہوں اور اس لئے وہ ان کی تحسین کرتا ہے۔ اور یہ جاننے کے لئے کہ کیا چیز صحیح اور حق ہے اور کیا نہیں، اس کو خود اجتہاد کرنا پڑے گا!!لہٰذا امام ابن القطان اپنے خود کے اجتہاد کی بنا پر ہی جانتے تھے ،تھے کہ ابو حنیفہ کی یہ یہ چیزیں صحیح اور اچھی ہیں اور اسی لئے وہ ان کی تحسین کرتے اور انہیں خود چن لیتے تھے۔

سوال یہ ہے کہ اتناعلم توہرمتبحر عالم کو ہوتاہے، امام نووی،امام قدوری،امام ابواسحاق اسفرائنی،امام ابن دقیق العید، ابن قدامہ حنبلی وغیرہ کو کیایہ علم نہیں تھاکہ ان کے ائمہ کے کون سےا قوال دلائل کی روشنی میں صحیح اورکون سے اقوال غلط ہیں،اگراسی کے جاننے کا نام اجتہاد ہے توپھر مبارک ہو، شافعی اور نووی ایک برابر ہوگئے، ابن دقیق العید مالکی اورامام مالک میں کوئی فرق نہ رہا، امام قدروی کا مرتبہ امام ابوحنیفہ کے برابرہوگیا اور ابن قدامہ حنبلی کا درجہ امام احمد بن حنبل کے مساوی ہوگیا،اگرمحض اخذ وانتخاب کا نام اجتہاد ہوتاتو پھر احناف میں اصحاب ترجیح علماء سارے کے سارے امام ابوحنیفہ کے مقام ومرتبہ کے ہوتے، شوافع میں اصحاب وجوہ سارے کے سارے امام شافعی کے مرتبہ کے ہوتے۔

رضامیاں نے تاریخ بغداد سے یہ قول نقل کیاہے

لا نكذب الله، ما سمعنا أحسن من رأي أبي حنيفة، وقد أخذنا بأكثر أقواله. قال يحيى بن معين: وكان يحيى بن سعيد يذهب في الفتوى إلى قول الكوفيين، ويختار قوله من أقوالهم


اس کی سند پر ان کا اعتراض یہ ہے

اس سند میں پہلی وجہ ضعف ہے"عبد الرحمن بن عمر بن نصر بن محمد الدمشقی الشیبانی"اور یہ شخص متہم (بالکذب والاعتزال ہے۔(دیکھیں، لسان المیزان: ج 5 ص 116)


ہم نے لسان المیزان بھی دیکھا، میزان الاعتدال بھی دیکھااورتاریخ دمشق کی جانب بھی مراجعت کی ،لیکن سب میں ہمیں یہ قول بصیغہ مجہول ہی ملاکہ ان پر معتزلہ ہونے کی تہمت لگائی گئی ہے اور ابن اسحاق کے لقاء کے سلسلےمیں ان کومتہم کیاگیاہے۔پہلی بات تو یہ ہےکہ اعتزال ہویاقدریاخارجی ہونا،عدالت وضبط میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اس کے علاوہ نہ جانے کتنے محدث ثابت شدہ قدری تھے، کتنے مرجی تھے، کتنے خارجی تھے ،کتنے ناصبی تھے وغیرذلک لیکن اختلاف عقائد کی وجہ سے کسی کی حدیث رد نہیں کی گئی بلکہ اصول حدیث میں یہ بات طے پاگئی کہ اختلاف مسلک وعقیدہ کی وجہ سے راوی کو ترک نہیں کیاجائے گا،اس کے علاوہ ان پر یہ دونوں الزام بصیغہ مجہول منقول ہیں اوریہ معلوم بات ہے کہ مجہول صیغہ سے کسی قول کا ذکر کیاجاناعمومی طورپراس قول کے ضعف کی طرف اشارہ کرتاہے ۔تیسرے ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ان پر یہ الزام لگانے والے کون ہیں،معلمی نے تنکیل میں تکلموا فیہ کی جرح اس بنیاد پر رد کردی کہ معلوم نہیں کہ جرح کرنے والے کون ہیں اوریہ جرح جرح مبہم ہے توپھر اس جرح کو یہاں کیسے قبول کیاجاسکتاہے؟

«تكلموا فيه» .أقول: كذا قال ابن يونس ولم يبين من المتكلم ولا ما هو الكلام،(التنکیل2/579)


اس کے بجائے اگررضامیاں یہ اعتراض کرتے کہ ان کی تعدیل کسی سےمنقول نہیں تو شاید یہ کسی درجہ میں کام کی بات ہوتی ۔یہی حال ان کےوالد کاہے تو ایسے راوی جن کی تعدیل نہ ملتی ہو،ان کی وجہ سے روایت ضعیف ہوگی ، من گھڑت اورموضوع کب سے ہونے لگی؟
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
رضامیاں کا دعویٰ ہے کہ یہ روایت اصل روایت کے مخالف ہے؟ہم لگے ہاتھوں اس کا بھی جائزہ لیتے چلتے ہیں۔رضامیاں یہ روایت نقل کرتے ہیں ۔

"لا نكذب اللهربمارأيناالشيءمن رأى أبي حنيفة فاستحسناه فقلنا به"
"ہم اللہ کی تکذیب نہیں کرتے، ہمکبھی کبھارابو حنیفہ کی رائے میں سےکچھ (اچھا) دیکھتے ہیں تو ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اور اس کے مطابق کہتے ہیں۔"(تاریخ ابن معین ج 3 ص 517)


اس پر تبصرہ کرتے ہوئے رضامیاں لکھتے ہیں:

اس روایت میں امام القطان کا یہ قول کہ"ہم ابو حنیفہ کے اکثر اقوال لیتے ہیں" بھی مذکور نہیں ہے، بلکہ الٹا یہ کہا گیا ہے کہ ہم صرف کبھی کبھار ان کے کچھ اچھے اقوال لیتے ہیں۔اور نہ ہی اس روایت کے آخر میں امام ابن معین کا تبصرہ شامل ہے۔


رضامیاں کااصل استدلال اس قول کے بنیادی کلمہ "ربما"پرٹکاہے کہ ربماتقلیل کیلئے آتاہے اوراسی مناسبت سے انہوں نے اس کا ترجمہ کبھی کبھار کیاہے اوراسی بنیاد پر وہ مزید یہ کہتے ہیں

مزید یہ کہ اس روایت میں امام ابن القطان فرما رہے ہیں کہ اگر "کبھی کبھار" وہ ابو حنیفہ کی رائے میں دلائل کے موافق کوئی اچھی چیز دیکھتے ہیں تو وہ اس کی تحسین کرتے ہیں، نہ کہ یہ کہ وہ ان کےاکثراقواللیتے ہیں۔


توذراہم ربما پر بھی بحث کرلیتے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ ربما ہمیشہ تقلیل کےمعنی میں آتاہے یاوہ تکثیر کامعنی بھی دیتاہے۔

ایک نحوی بحث


کلام عرب بلکہ اردو ،ہندی اوردیگرزبانوںمیں بھی یہ اسلوب رائج ہےکہ بسااوقات کوئی بات یقینی ہوتی ہے لیکن اس کو کلمہ شک کے ساتھ ذکر کیاجاتاہے ۔مثلاایک لڑکا پڑھائی نہیں کرتاآوارہ گردی کرتاہے آپ اس سے کہتے ہیں "اگرتم ایساہی کرتے رہے تو شاید تمہیں ایک دن پچھتاناپرے گا"ہرایک کو معلوم ہے کہ جو پڑھائی کی جگہ آوارہ گردی کرے گا وہ ضرور پچھتائے گا،لیکن اسلوب کلام کی وجہ سے اس کو شاید سے ذکر کیاگیاہے،اس سے کوئی یہ نہیں سمجھتاکہ جوپڑھائی کی جگہ آوارہ گردی کرے گااس کو"شاید" پچھتاناپڑے۔

عربی زبان میں رب اورربماکازیادہ تر استعمال تقلیل کےمعنوںمیں ہوتاہے لیکن اسے تکثیر کے معنوں میں بھی استعمال کیاجاتارہاہے،قرآن کریم خود اس پر شاہد عدل ہے،ربمایود الذین کفروا،کیاکوئی بھی کہہ سکتاہے کہ ربماکا استعمال یہاں پر تقلیل اورکبھی کبھار کا معنی میں کیاگیاہے؟دیگرماہرین نحو نے بھی اس پر تنبیہ کی ہے کہ رب اورربما تقلیل کے علاوہ تکثیر کیلئے بھی استعمال کیاجاتارہاہے۔

وقد تدخل عليها (ما) فتكفّها عن العمل، فتأتي بعدها المعرِفة، كقولك: (رُبّما زَيْدٌ قائم) .

ويأتي بعدها الفعل، كقولك: ( [رُبَّما] 1 يقوم زيد) ، قال اللهُ تعالى: {رُبَّمَا2 يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ} 3.وقد تدلّ على التّكثير4، كقول أبي عَطَاءٍ السِّنديّ5:

اللمحۃ فی شرح الملحۃ1/259


واختلف النحويون، في معنى رب، على أقوال: الأول: أنها للتقليل. وهو مذهب أكثر النحويين. ونسبه صاحب البسيط،إلى سيبويه. والثاني: أنها للتكثير. نقله صاحب الإفصاح عن صاحب العين، وابن درستويه، وجماعة.

الجنی الدانی فی حروف المعانی1/440


اتنی گذارش سے یہ بات واضح ہوگئی کہ رب تقلیل کیلئے تکثیر یعنی کثرت کامعنی بتانے کیلئے بھی استعمال کیاجاتاہے،سوال یہ ہے کہ یحیی بن سعید القطان کے کلام میں "ربما"سے تقلیل مراد ہے یاتکثیر مراد ہے؟

ابن سعید القطان کے ربما سے تقلیل مراد ہے یاتکثیر مراد ہے؟


یحیی بن سعید القطان سےجب امام ابوحنیفہ کے تعلق سے پوچھاگیاتوانہوں نے امام ابوحنیفہ کی مخالفت کی فضاعام ہونے کے باوجود اوربصرہ وکوفہ کی علمی چپقلش مشہور ہونے کے باوجود خداکی قسم کھاکر اعتراف کیاکہ ان کو جب کبھی امام ابوحنیفہ کاکوئی قول پسند آتاہے تواسے اختیار کرنے میں دیرنہیں لگاتے۔

رَجُلا سَأَلَ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ فَمَا تَزَيَّنَ عِنْد من كَانَ عِنْده أَن يذكرهُ بغيرما هُوَ عَلَيْهِ وَقَالَ وَالله إِنَّا اذا استحسنا من قَوْله الشئ أَخَذْنَاهُ

خداکی قسم جب ہم اس کےکسی قول کو پسند کرتے ہیں تواس کو اختیار کرتے ہیں

رجُلا سَأَلَ يَحْيَى بن سعيد الْقطَّان عَن أَبى حنيفَة قَالَ مَا نَتَزَيَّنُ عِنْدَ اللَّهِ بِغَيْرِ مَا يَعْلَمُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَإِنَّا وَاللَّهِ إِذَا اسْتَحْسَنَّا من قَوْله الشئ أَخَذْنَا بِهِ


(الانتقاء لابن عبدالبرص132اسنادہ حسن)

ان دورایات سے اتنامعلوم ہواکہ امام ابن قطان کو جب امام ابوحنیفہ کی کوئی بات اچھی لگتی تو اسے اختیار کرلیتے تھے ،ایک دوسری معتبر روایت سے معلوم ہوتاہے کہ ابن قطان کے نزدیک امام ابوحنیفہ کی محض ایک بات معیوب تھی اوران کے بعض اقوال پران کو انکار تھا۔

حافظ ابن عبدالبر بسند حسن روایت کرتے ہیں۔

قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ أريتم إِنْ عِبْنَا عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ شَيْئًا وَأَنْكَرْنَا بَعْضَ قَوْلِهِ أَتُرِيدُونَ أَنْ نَتْرُكَ مَا نَسْتَحْسِنُ من قَوْله الذى يوافقنا عَلَيْهِ


(الانتقاء لابن عبدالبرص132)

یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں تم کیاسمجھتے ہو ،اگرہم ابوحنیفہ کو ایک چیز میں معیوب ٹھہراتےہیں اوران کے بعض اقوال پر انکار کرتے ہیں توکیاتم یہ چاہتے ہیں کہ ان کے جس قول کو ہم بہترسمجھتےہیں اورجس میں وہ ہماری مواقفت کرتے ہیں اس کو بھی ہم چھوڑدیں۔

اس قول میں یحیی بن سعید القطان صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ ان کو امام ابوحنیفہ کے محض بعض اقوال پر اعتراض ہے بیشتر اقوال پر اعتراض نہیں ہے۔

اب آپ صغری کبری ملاکر نتیجہ مرتب کرلیں امام ابوحنیفہ کی جوبات اچھی لگتی تھی اسے اختیار کرتے تھے ،امام ابوحنیفہ کی محض کچھ باتیں ان کے نزدیک قابل اعتراض تھیں ورنہ بقیہ ساری باتیں ان کے نزدیک اچھی تھیں،نتیجہ یہی نکلاناکہ امام ابوحنیفہ کی بیشتر باتیں اچھی باتیں اوربیشتر باتوں کو وہ اختیار کرتے تھے ۔

ربما کی جگہ" کم" کا لفظ


قرآن کریم کی تفسیر میں سب سے پہلے یہ دیکھاجاتاہے کہ کہیں کسی دوسری آیت میں مزید وضاحت تونہیں ہے،اگرکسی دوسرے مقام پر اللہ نے مزید وضاحت کردی ہے تو اس سے زیادہ معتبر تفسیر کوئی اورنہیں،حتی کہ قران کی وہ قرائتیں کو خبرآحاد سے ثابت ہیں، ان سے بھی تفسیر قرآن کا کام لیاجاتاہے، حدیث کے باب میں بھی یہی دیکھاجاتاہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی ارشاد کی بذات خود توضیح اورتشریح کردی ہے تواس سے معتبر تشریح اورکچھ نہیں،حتی کہ حدیث کی تفسیر میں ضعیف حدیث کو بھی تفسیر وتشریح کیلئے گواراہ کیاجاتاہے کیونکہ بہرحال وہ بھی کسی نہ کسی درجہ میں قیاس آرائی سے بہتر ہے۔

ان نظائر کو ملحوظ رکھتے ہوئےاگرہم یحیی بن سعید القطان کے کلام میں ربما کی تفسیر تقلیل یاتکثیر کے معنوں میں خود ابن قطان کے کلام سے کریں تو شاید اس سے زیادہ بہتر اورکچھ نہ ہوگا۔

اخْبَرَنَا الجوهري، قَالَ: أَخْبَرَنَا عبد العزيز بن جعفر الخرقي، قَالَ: حَدَّثَنَا هيثم بن خلف الدوري، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بن منصور بن سيار، قال: سمعت يحيى بن معين، يقول: سمعت يحيى بن سعيد، يقول: كم من شيء حسن قد قاله أَبُو حنيفة.


(تاریخ بغداد15/473سندہ حسن)

اس روایت میں بھی "کم"کے لفظ کے ساتھ کہاگیاہے کہ امام ابوحنیفہ نے بہت سی اچھی باتیں کہی ہیں۔

الانتقاء میں ایک روایت ہے۔

نا مُحَمَّد بن على السامرى المقرى قَالَ نَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ الرَّمَادِيُّ قَالَ سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ يَقُولُ سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ يَقُولُ لَا نَكْذِبُ اللَّهَ عَزَّ وَجل كم من شئ حسن قَالَه أَبُو حنيفَة وَرُبمَا استحسنا الشئ مِنْ رَأْيِهِ فَأَخَذْنَا بِهِ، قَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَكَانَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ يَذْهَبُ فِي الْفَتْوَى مَذْهَبَ الْكُوفِيِّينَ


کتنی ہی اچھی باتیں ہیں جو ابوحنیفہ نے کہی ہیں اوربسااوقات ہم کو ان کی رائے اچھی لگتی ہے توہم اس کو اختیار کرتے ہیں۔

اس جملہ میں غورکرنے کی بات یہ ہے کہ پہلے لفظ"کم "کااستعمال ہوا،جو تکثیر کامعنی دیتاہے اورپھر فوراًہی بعد ربما کا استعمال ہوا جو اکثرتقلیل کا معنی دیتاہے۔یہاں پر لفظ کم بتارہاہے کہ ان کی اچھی باتیں بہت سی ہیں اور ربما سے اس کے اخذ کرنے کی بات بتارہی ہے کہ ربما بھی یہاں پر تکثیر کے معنی میں ہے تقلیل کے معنی میں نہیں ہے کیونکہ ماقبل میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ جب امام ابوحنیفہ کی کوئی بات ابن قطان کو اچھی لگتی تھی تواسے اختیار کرلیتے تھے لہذا جب ابن قطان کو امام ابوحنیفہ کی بیشتر باتیں اچھی لگی توانہوں نے بیشتر باتوں کو ہی اختیار کیاہوگا۔

یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے اورضعف کی وجہ یہ ہےکہ مجھ کو محمد بن علی السامری المقری کی پہچان نہیں ہوسکی،لیکن اس کی تائید ابن ابی العوام کی فضائل ابی حنیفہ سے ہوتی ہے۔

حدثني محمد بن أحمد بن حماد قالا: ثنا أحمد بن منصور الرمادي قال: سمعت يحيى بن معين قال: سمعت يحيى بن سعيد القطان يقول: لا نكذب الله، كم من شيء حسن قد قاله أبو حنيفة.(فضائل ابی حنیفۃ واخبارہ 1/200)


اسی روایت کو محض تھوڑے سے فرق کے ساتھ ابن عدی بسند حسن روایت کرتےہیں

سمعتُ ابْن حماد، حَدَّثَنا أَحْمَد بْن مَنْصُور الرمادي سَمِعت يَحْيى بن مَعِين يقول: سَمعتُ يَحْيى بْن سَعِيد القطان لا نكذب اللَّه ربما سمعنا الشيء من رأي أبي حنيفة فاستحسناه فأخذنا بِهِ.قال يَحْيى بْن مَعِين وكان يَحْيى بْن سَعِيد يذهب فِي الفتوى إِلَى مذهب الكوفيين.الکامل فی الضعفاء8/240


ان تمام روایات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ لفظ "ربما"کو"کم"کے معنی میں استعمال کیاگیاہے۔اوراسی کے ساتھ ایک مزید قابل غوربات یہ ہے کہ ان تمام روایات میںیحیی بن معین صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ یحیی بن سعید القطان فتوی دینے میں کوفیوں کے مسلک کی پیروی کرتے تھے اوریہ ظاہر سی بات ہے کہ کوفہ کی سب سے بڑی فقہی شخصیت حضرت امام ابوحنیفہ کی تھی۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
ایک اوردلیل


أخبرنَا عمر بن إِبْرَاهِيم قَالَ أنبأ مكرم قَالَ أنبأ عَليّ بن الْحُسَيْن بن حبَان عَن أَبِيه قَالَ سَمِعت يحيى بن معِين قَالَ مَا رَأَيْت أفضل من وَكِيع بن الْجراح قيل لَهُ وَلَا ابْن الْمُبَارك قَالَ قد كَانَ لإبن الْمُبَارك فضل وَلَكِن مَا رَأَيْت أفضل من وَكِيع كَانَ يسْتَقْبل الْقبْلَة ويحفظ حَدِيثه وَيقوم اللَّيْل ويسرد الصَّوْم ويفتي بقول أبي حنيفَة وَكَانَ قد سمع مِنْهُ شَيْئا كثيرا قَالَ يحيى بن معِين وَكَانَ يحيى بن سعيد الْقطَّان يُفْتِي بقول أبي حنيفَة أَيْضا


(اخبارابی حنیفۃ واصحابہ 155)

یہاں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ "یفتی "عام ہے،یعنی عام حالات وواقعات میں امام ابوحنیفہ کے قول پر یحیی بن سعید القطان فتویٰ دیاکرتے تھے جس سے مزید اس بات کی تائید ہوتی ہےکہ یحیی بن سعید القطان کے اکثراقوال اختیار کرتے تھے اوراس پر فتوی دیتے تھے۔

اس سند پر وکیع والے تھریڈ میں بحث ہوچکی ہے۔اسے دوبارہ نقل کردیتاہوں۔

"مضمون نگار کے قول کے مطابق پوری سند درست ہے محض علی کے والد حسین کے حالات نامعلوم ہیں یادوسرے لفظوں میں مجہول ہیں،اورمضمون نگارکے اعتراف کے مطابق اس شخص کے حالات توملتے ہیں مگر عدل وضبط کے تعلق سے کوئی بات نہیں ملتی ،اگرمضمون نگار تھوڑاغورکرتے توان کو معلوم ہوتا کہ بعض محدثین نے اس سند سے احادیث تک کو قبول کیاہے، کیاابن حبان اورابن خزیمہ کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم کہ وہ ایسے راوی کے روایت قبول کرلیتے ہیں جن کے اوپر اورنیچے ثقہ راوی ہو اگرچہ اس درمیان والے راوی کےحالات نامعلوم ہوں، ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس روایت کی سند ابن حبان اورابن خزیمہ کی شرط کے مطابق درست ہے۔دوسرے انہیں غورکرناچاہئے کہ ایک شخص جتنااپنے والد سے واقف ہوتاہے اتناکوئی دوسرانہیں ہوتا تواگر علی نے جوثقہ ہیں اپنے والد کی روایت کو قبول کیاہے تو اس کی کچھ وجہ ہوگی "۔


مزید تائید


اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ حافظ ذہبی،حافظ ابن کثیر،عبدالرحمن معلمی وغیرہ حنفی نہیں ہیں، احناف کے طرفدار بھی نہیں ہیں،اس کے علاوہ انہوں نے اس روایت کو بلاکسی ردوکد کے ذکر کیاہے۔

حافظ ذہبی نے سیر اعلام النبلاء ،تاریخ الاسلام اور مناقب ابی حنیفہ وصاحبیہ میں یہ روایت نقل کی ہے۔
وقال يحيى بن سعيد القطان: لا نكذب الله، ما سمعنا أحسن من رأي أبي حنيفة، وقد أخذنا بأكثر أقواله.


حافظ ابن کثیرنے یہی روایت امام ابوحنیفہ کےتذکرہ میں التکمیل فی الجرح والتعدیل میں نقل کی ہے،اسی روایت کو خلاصۃ تذہیب تھذیب الکمال کے مصنف نے بھی نقل کیاہے،اسی روایت کو حافظ ابن حجرنے تہذیب التہذیب میں نقل کیاہے،اسی روایت کو علامہ صفدی نے الوافی بالوفیات میں نقل کیاہے،اسی روایت کو امام بخاری کی التاریخ الکبیر کے حاشیہ میں معلمی نے امام بخاری کی جرح کے جواب میں نقل کیاہے۔

ان میں سے کوئی حنفی نہیں ہے، بیشترشافعی ہیں ،حنفیوں اورشافعیوں کی چپقلش علم وقضاء کے باب میں مشہور رہی ہے،اس کے باوجود یہ اکابر علماء شوافع بغیر کسی ذہنی تکدر اورانقباض خاطر یہ روایت امام ابوحنیفہ کے مناقب میں نقل کرتے چلے آئے ہیں، کسی ایک کے بھی ذہن میں وہ سب بے سروپااعتراضات آئے نہیں جو محدث فورم کے نوجوان ممبر رضامیاں کے ذہن میں آئے ہیں۔

معلمی کو کون حنفی یاحنفیوں کا طرفدار کہے گا، کوثری کی مخالفت میں وہ بسااوقات دوسری انتہاء پر چلے گئے ہیں، اس کےباوجود ان کا امام ابوحنیفہ کی جانب سے دفاع کرنا اورامام ابوحنیفہ کی اس روایت کو امام بخاری کی جرح کے تاثر کوزائل کرنے کیلئے حاشیہ میں لکھنا کیاثابت کرتاہے؟

اس مضمون سے اتنی باتیں ثابت ہوگئیں

(1)یحیی بن سعید القطان کو امام ابوحنیفہ کی بیشتر باتیں اچھی لگتی تھی

(2)امام ابوحنیفہ کی جوبات ان کو اچھی لگتی تھی ان کو اختیارکرلیتے تھے

(3)امام ابوحنیفہ کی بیشتر باتوں کواختیار کرتے تھے اوراس پرفتویٰ دیتے تھے


ایک اعتراض کا جواب


ابن ابی حاتم نے ایک روایت ذکر کی ہے۔

امام علی بن عبد اللہ المدینی روایت کرتے ہیں کہا امام یحیی بن سعید القطان نے فرمایا:"مر بي أبو حنيفة وأنا في سوق الكوفة، فلم أسأله عن شيء وكان جاري بالكوفة فما قربته ولا سألته عن شيء"


"ابو حنیفہ میرے پاس سے گزرے جب میں کوفہ کی ایک مارکیٹ میں تھا، تو میں نے ان سے کسی بھی چیز کے بارے میں نہیں پوچھا، وہ کوفہ کی طرف جا رہے تھے تو میں نے نہ ان کا ساتھ دیا اور نہ ہی ان سے کچھ بھی پوچھا۔"(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج 8 ص 450 واسنادہ صحیح)

اس روایت سے ابن ابی حاتم نےیہ تاثر دینے کی کوشش کی ہےکہ یحیی بن سعید القطان نے امام ابوحنیفہ سے کسی طرح کا کوئی علمی غیرعلمی استفادہ نہیں ،حالانکہ یہ بات سرے سے غلط ہے، یحیی بن معین کایہ قول خود رضامیاں برضاورغبت نقل کرچکے ہیں کہ ابن قطان کبھی کبھار امام ابوحنیفہ کے اقوال پسند آنے پر اختیار کرتے تھے

ان صحیح اورحسن روایات سے یہ بات بھی صاف ہوجاتی ہے کہ ابن ابی حاتم کی یہ روایت کہ ابن قطان نے امام ابوحنیفہ سے کوئی استفادہ نہیں کیا،غلط محض ہے۔ابن قطان اپناطرزعمل یہ پیش کررہےہیں کہ جب کبھی ان کو امام ابوحنیفہ کا قول پسند آتاتووہ اسے اختیا رکرنے میں دیر نہ کرتے۔اورامام ابوحنیفہ کی بہت سی باتیں ان کو پسند آئیں ،صرف پسند ہی نہیں آئیں،ان کو اختیار کیااوراس کے مطابق سائلین کو فتویٰ دیا۔

سوال یہ ہےکہ علمی استفادہ اسی کاتونام ہےکہ کسی کے اقوال میں غوروفکر کیاجائے، دلائل کے لحاظ سے اقوال کی جانچ پرکھ کی جائےاورپسندیدہ اقوال کو اختیار کیاجائے، امام محمد بن الحسن اورامام ابویوسف کابھی طرزعمل امام ابوحنیفہ کے اقوال کے ساتھ یہی تھا کہ جوقول پسند آتااسے اختیار کرتے اورجو قول ان کی نگاہ میں دلائل کے لحاظ سے مرجوح ہوتا،اسے اختیار نہ کرتے۔

علی بن المدینی کا قول اوروضاحت


امام علی بن عبد اللہ المدینی اپنے استاد کا مذہب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"ومن بعد سفيان يحيى بن سعيد القطان كان يذهب مذهب سفيان الثوري وأصحاب عبد الله"


"اور سفیان (الثوری) کے بعد آئے یحیی بن سعید القطان جنہوں نے سفیان الثوری اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اصحاب کے مذہب کی پیروی کی۔"(العلل لابن المدینی: ص 44)

امام یحیی بن سعید القطان کے شاگرد صرف علی بن مدینی نہیں ہیں، بلکہ امام ابن معین بھی ان کے قریبی شاگرد ہیں،اوران کا کہنایہ ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ کے قول پر فتویٰ دیتے تھے ،اورخود اپنے استاد کا قول یہ نقل کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کی اچھی رائے اختیار کرتے تھے،امام ابوحنیفہ کی بہت سی رائے ان کو اچھی لگتی تھی ،امام ابوحنیفہ کے بعض اقوال ہی ان کو اعتراض تھا،ظاہر سی بات ہے کہ علی بن مدینی کے قول کے مقابلہ میں یحیی بن سعید القطان کا اپناقول زیادہ معتبر ہوگا۔


رضامیاں کے تبصرے


رضامیاں کی آتش بیانی ملاحظہ کریں:

بعض مقلدین امام ابو حنیفہ کے عشق میں اتنے اندھے ہو جاتے ہیں کہ ان کے سوا ان کو کوئی نظر نہیں آتا اور باقی سب محدثین اور ائمہ کو وہ ابو حنیفہ کے پیر کی جوتی سمجھتے ہیں چاہے وہ محدث یا امام خود امام ابو حنیفہ سے کئی گنا بڑا عالم ہی کیوں نہ ہو۔ایسا ایک مقلد ہے مجنون ابی حنیفہ زاہد الکوثری الکذاب جس نے حنفی محدثون پر ایک کتاب لکھی ہے اور اس میں ہر دوسرے محدث کو امام ابو حنیفہ کا مقلد یا حنفی قرار دیا ہے عجب یہ کہ اس نے ہر اس شخص کو بھی امام ابو حنیفہ کے مذہب پر قرار دیا جس نے محض ان سے روایت لی ہو، جو کہ اس کی فقاہت کی عظیم نشانی ہے۔


اس میں انہوں نے دیگرغیرمقلدین علماء کی طرح شیخ زاہد الکوثری پر لعن طعن کیاہےاوران پر الزام عائد کیاہے کہ شیخ زاہد الکوثری ؒ نےہردوسرے محدث کو حنفی قراردیاہے،شیخ زاہد الکوثری ؒ کی کتاب فقہ اھل العراق وحدیثھم کی جانب رجوع کیاتو پایاکہ انہوں نے محض 109محدثین کا اس میں تذکرہ کیاہےتوہردوسرے محدث کو حنفی قراردینےکا الزام تواسی صورت میں صحیح ہوسکتاہے جب ہم مان لیں کہ محدثین کی تعداد محض 218 ہے، ورنہ اگرمحدثین کی تعداد اس سے زیادہ ہے تو پھر رضامیاں خود ہی غورکرلیں کہ کذاب کا مشارالیہ کون ہے؟

رضامیاں کی مزید گلفشانی ملاحظہ ہو

"ورنہ تو صحیح چیز اگر کہیں سے بھی مل جائے تو وہ کسی بھی لی جا سکتی ہے چاہے وہ امام ابو حنیفہ کی طرف سے ہو یا ابلیس کی طرف سے۔ یہ ہرگز تقلید نہیں ہے بلکہ امام یحیی بن سیعد القطان کا اجتہاد امام ابو حنیفہ کے اجتہاد سے دلائل کی بنا پر بعض چیزوں پر موافق اور متفق ہوا تھا۔ لہٰذا امام قطان کو حنفی یا مقلد کہنا دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے"۔

بعض احادیث میں یہ توملتاہے کہ شیطان کو پکڑنے پر اس نے ایک صحابی کو صحیح بات بتائی تھی جس کی اللہ کے رسول نے بھی تصدیق فرمائی ،لیکن ابلیس کے تعلق سے یہ بات کہیں نہیں ملتی کہ اس نے کسی کو صحیح بات بتائی ہو،یہ تو رضاصاحب ہی بتاسکتے ہیں کہ ابلیس کی کتنی باتیں ان کے نزدیک صحیح اوردرست ہیں، اورچونکہ ان کا تعلق اہل حدیث گروہ سے ہے جودغارانہ شناسیم کا ورد اورقرآن وحدیث کانعرہ لگاتے رہتے ہیں توظاہر سی بات ہے کہ انہوں نے ضرور بالضرور قرآن وحدیث میں کہیں یہ پایاہوگاکہ ابلیس کی باتیں صحیح اوردرست بھی ہوتی ہیں اور اسے قبول بھی کیاجاسکتاہے؟ہماری گذارش ہےکہ ابلیس کی جوباتیں ان کے نزدیک درست اورصحیح ہوں ان کی مختصر سی وضاحت کردیں تاکہ فورم کے تمام ممبران اس سے استفادہ کرسکیں۔

رضامیاں کہتے ہیں:

ورنہ تو صحیح چیز اگر کہیں سے بھی مل جائے تو وہ کسی بھی لی جا سکتی ہے چاہے وہ امام ابو حنیفہ کی طرف سے ہو یا ابلیس کی طرف سے۔

ہم اس تعبیر کو تھوڑی سی بدل دیتے ہیں اوراورکہتے ہیں

ورنہ تو صحیح چیز اگر کہیں سے بھی مل جائے تو وہ کسی بھی لی جا سکتی ہے چاہے وہ امام بخاری کی طرف سے ہو یا ابلیس کی طرف سے۔

ورنہ تو صحیح چیز اگر کہیں سے بھی مل جائے تو وہ کسی بھی لی جا سکتی ہے چاہے وہ امام ابن تیمیہ کی طرف سے ہو یا ابلیس کی طرف سے۔

ورنہ تو صحیح چیز اگر کہیں سے بھی مل جائے تو وہ کسی بھی لی جا سکتی ہے چاہے وہ البانی کی طرف سے ہو یا ابلیس کی طرف سے۔

ورنہ تو صحیح چیز اگر کہیں سے بھی مل جائے تو وہ کسی بھی لی جا سکتی ہے چاہے وہ رضامیاں کی طرف سے ہو یا ابلیس کی طرف سے۔

ہمیں امید ہے کہ فورم کے اہل حدیث حضرات اس بات پر یقیناخفانہیں ہوں گے کیونکہ صحیح بات کسی سے بھی لی جاسکتی ہے چاہے وہ اہل حدیث کی جانب سے ہو یاابلیس کی جانب سے۔

رضامیاں لکھتے ہیں:

مقلدین کی حنفی محدثین کی لسٹ میں ایک نام ہے امیر المؤمنین فی الحدیث امام الجرح والتعدیل یحیی بن سعید بن فروخ القطان رحمہ اللہ (المتوفی 198 ھ) کا۔مقلدین نے اس عظیم مجتہد امام کو اپنے امام کے نمبر بڑھانے کے لئے حنفی ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور ظلم یہ کہ حنفی قرار دے کر وہ انہیں اپنے جیسا مقلد ثابت کرنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں جو کہ کسی بھی عالم کے حق میں گستاخی ہے، کیونکہ یہ لوگ خود کہتے پھرتے ہیں کہ تقلید صرف جاہل ہی کے لئے ہے اور ان عظیم ائمہ کو مقلد ثابت کر کے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یہ بھی جاہل ہی ہیں نعوذ باللہ۔


رضامیاں کوئی ایک حوالہ صرف ہمیں دے دیں جس میں کہاگیاہووہ امام ابن سعید القطان کو اپنے جیسامقلد سمجھتے ہیں اوراگر وہ یہ حوالہ پیش نہیں کرسکتے توانہیں اپنی غلط بیانی پر معذرت کرنی چاہئے،کسی بھی حنفی عالم نے یہ نہیں کہاہے کہ وکیع ہوں یاابن القطان وہ ہماری طرح مقلد تھے، ہرایک نے صرف اتناہی کہاہے کہ وہ حنفی تھے،امام ابوحنیفہ سے اخذ واستفادہ کا تعلق تھا اوران کا مقام وہی ہے جوامام ابویوسف اورامام محمد علیہ الرحمہ والرضوان کا ہے،کیاامام ابویوسف اورامام محمد مجتہد نہیں تھے، امام ابوحنیفہ سے اختلاف نہیں کرتے تھے ان سب کے باوجود چونکہ بیشتر امور میں ان کا امام ابوحنیفہ سے اتفاق ہوتاتھا،امام ابوحنیفہ کے قول کی خدمت کرتے تھے،ان کے قول پر فتویٰ دیتے تھے اس بناء پر ان کو فقہ حنفی کی جانب منسوب کیاگیااوریہی معاملہ وکیع اوریحیی بن سعید القطان کے ساتھ تھے۔

یہ کہنابھی انتہائی غلط ہے کہ حنفیوں نے ان کو حنفی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، شوافع محدثین حضرات ان کے ایسے اقوال لکھتے چلے آرہے ہیں جس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ فقہ حنفی سے متاثر تھے لہذا اگرحنفیوں نے بھی اس کو ذکر کردیاتو یہ کون سے آفت آگئی ۔

اسی طرح امام یحیی القطان سے پوچھا گیا کہ"ابو حنیفہ کی حدیث کیسی ہے؟"، تو آپ نے فرمایا:"لم يكن بصاحب الحديث""وہ صاحبِ حدیث نہیں تھے۔"


یہ قول کہ فلاں صاحب حدیث نہیں ہے جرح کب سے ہوگیا،اورکس نے اس قول کو جرح قراردیاہے؟فلاں شخص صاحب حدیث نہیں ہے،یامحدث نہیں ہے اس کوراوی کے عدالت اورحفظ وضبط سے کیاتعلق ہے،رضامیاں ذراواضح کریں تاکہ ہمیں بھی معلوم ہوکہ یہ جرح ہے یامحض ایک بات۔


لہٰذا امام یحیی القطان کو مقلد یا حنفی کہنا بالکل غلط اور بے اصل ہے بلکہ وہ مجتہد امام تھے جنہوں نے زیادہ تر اصحاب عبد اللہ کے طریقے کی پیروی کی کسی امام یا کسی ایک صاحبِ عبد اللہ کو معین کیے بغیر۔ اور کبھی کبھار تو آپ نے اصحاب عبد اللہ کی بھی اپنے اجتہاد کی بنا پر مخالفت کی ہے۔ مثلا امام ابراہیم النخعی اور سفیان الثوری کا مذہب رفع الیدین نہ کرنے کا تھا، جبکہ امام یحیی القطان نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے رفع الیدین کیا (دیکھیں جزء رفع الیدین للبخاری)۔


ہم ماقبل میں عرض کرچکے ہیں کہ ابن القطان اوروکیع کی حیثیت وہی تھی جو امام محمد اورامام ابویوسف وامام زفر کی تھی اوران حضرات نے بھی مسائل میں امام ابوحنیفہ سے اختلاف کیاہے لہذا اگر ابن القطان رفع یدین اوردیگرمسائل میں امام ابوحنیفہ سے اختلاف کرتے ہیں تواس کی وجہ سے یہ کہناکہ وہ حنفی ہی نہیں رہے، غلط اورعلمی اصول کے خلاف ہے۔


بعض مقلدین کسی امام کے فقیہ ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ اس بات سے کرتے ہیں کہ امام ترمذی نے اپنی سنن میں فقہاء کے مذہب بیان کرتے ہوئے ان کا نام لیا ہے یا نہیں! اور اسی بنا پر انہوں نے امام بخاری جو سید الفقہاء ہیں ان کو بھی فقہاء کی لسٹ سے نکالنے کی کوشش کی ہے کیونکہ امام ترمذی نے ان کے اقوال کو بیان نہیں کیا۔ تو عرض ہے کہ امام ترمذی نے سنن الترمذی میں امام یحیی القطان کا نام فقہاء کے درمیان ذکرکیا ہے۔

بعض مقلدین دراصل غیرمقلدین کے پروپیگنڈہ کا جواب دیناچاہتے ہیں اگرامام ابوحنیفہ کی روایت کتب حدیث میں نہیں ہے تو وہ علم حدیث سے نابلد ٹھہرے،اگرامام بخاری کے مسائل کا ذکر خود ان کے شاگرد،دیگرمحدثین اورکتب فقہ پر علماء کی آراء ذکرکرنے والے نہ لکھیں تو اس کو کیاسمجھاجائے؟یہ ہے اصل بات۔


آپ تقصیر الصلاۃ بمنی کے موضوع پر فقہاء کے مذاہب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ،وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ القَطَّانِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ"


اس سے ہمارے موقف پر کوئی اثرنہیں پڑتا کیونکہ ہم پہلے سے یہ بات کہتے چلے آرہے ہیں کہ امام یحیی بن سعید القطان مجتہد تھے، ہم نےکبھی نہیں کہاکہ وہ مقلد تھے،جیسے امام ابویوسف اورامام محمدمجتہد تھے،امام ابوحنیفہ کےمقلد نہیں تھے پھر بھی دنیا ان کو فقہ حنفی سے وابستہ کرتی ہے،ہم بھی فقہ حنفی سے ان کووابستہ تسلیم کرتے ہیں،باوجود اس کے متعدد مسائل میں انکا امام ابوحنیفہ سے اختلاف واضح ہے،اسی طرح وکیع اور یحیی بن سعید القطان کے معاملہ کوبھی سمجھناچاہئے۔

ایک سوال:


دراصل ترمذی کا ذکر کرکے اورامام ترمذی کے ذریعہ مختلف مسائل کے بیان میں ائمہ اہل حدیث وفقہ کی آراء کے بیان کے اہتمام کودیکھ کر ایک سوال کرنے کوجی چاہ رہاہے۔امام ترمذی امام بخاری کے قریبی شاگرد ہیں،ان سے بہت استفادہ کیاہے،جس کو متعدد مقامات پر انہوں نے بیان بھی کیاہے،امام بخاری کی فقاہت سے ان سے زیادہ کون واقف ہوگا،اسی کے ساتھ وہ یہ بھی بخوبی جانتے تھے کہ کس مسئلہ میں امام بخاری کا کیاقول ہے؟ان سب کے باوجود انہوں نے مسائل کے باب میں امام بخاری کاتذکرہ کیوں نہیں کیا؟یہ ایک علمی سوال ہے مسلکی گروہ بندی سے اسے تعلق نہیں،آخر یہ وضاحت توہونی چاہئے ناکہ امام ترمذی اسحاق فرازی کاذکرتے ہیں،یحیی بن سعید القطان کا ذکر کرتے ہیں،سفیان ثوری کا ذکر کرتے ہیں، اہل کوفہ کے عنوان سے امام ابوحنیفہ کا ذکر کرتے ہیں،امام وکیع کا ذکر کرتے ہیں اوردیگر محدثین کا بھی ذکر کرتے ہیں بس ذکر نہیں کرتے ہیں تو امام بخاری کا ،وجہ کیاہے۔

گذارش ہے کہ اگراس باب میں اہل علم کے یہاں وضاحت نہ ملے تو ابلیس سے رجوع کرلیجئے گا،اوراگر ابلیس سے کچھ صحیح باتیں مل جائیں تووہ بھی نقل کردیجئے گاکہ کیونکہ آپ کا فرمان ذیشان ہے کہ صحیح قول کسی سے بھی لیاجاسکتاہے خواہ وہ ..................................................................
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
بزرگوں کی باتیں بڑے گہرے تجربے پر مبنی ہوتی ہیں ان ہی گہرے تجربہ پر مبنی باتوںمیں سے ایک یہ ہے"ایک من علم کیلئے 10/من دماغ یافہم چاہئے"،بات بڑی گہری حقیقت پر مشتمل ہے ،دسترخوان پر کھاناکم وبیش ہوسکتاہے لیکن انسان کوکھانے میں اپنے ہاضمہ کی قوت کا لحاظ کرناہی پڑتاہے،اگرنہ کرے تو ،جوکچھ دسترخوان پر ہے سب کو داخل شکم کرنے کی کوشش کرے تو اس کی حالت کیاہوگی؟یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ٹھیک اسی طرح علم کیلئے گہرے فہم کی بھی ضرورت ہے جو علم کوہضم کرسکے، اگرانسان کے پاس علم کو ہضم کرنے کیلئے درکارمقدار میں فہم نہیں ہے تواس کا حال بھی براہوتاہے، یہی وجہ ہے کہ ہم کتب تاریخ وتراجم میں بعض بزرگوں کے ترجمہ میں پاتے ہیں علمہ اکبر من عقلہ یاعلمہ اکثرمن عقلہ وغیرہ ۔
متفق

امام یحیی بن سعید القطان امام حدیث تھے، اس میں کوئی شک نہیں، فقہ میں بھی ان کامرتبہ بلند تھا،اس میں بھی کوئی شک نہیں، لیکن اس سے حنفی ہونے سے انکار کیسے لازم آسکتاہے یہ میری سمجھ سے باہر ہے
دراصل بہت سارے مقلدین انہی چھوٹی چھوٹی چیزوں کی بنا پر ابن القطان وغیرہ کو "مقلد" ہی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلکہ کچھ دیر پہلے تو یو کے کے چند دیوبندی "علماء" نے ایک پوری لیکچر سیریز نکالی ہے بنام، "ماضی کے عظیم مقلدین" اور اس میں انہوں نے ایسے بہت سے لطیفے چھوڑے ہیں، لیکن الحمد للہ کم از کم آپ تو انہیں مقلد تسلیم نہیں کرتے، یہی کافی ہے!

رضامیاں نے تاریخ بغداد سے یہ قول نقل کیاہے

لا نكذب الله، ما سمعنا أحسن من رأي أبي حنيفة، وقد أخذنا بأكثر أقواله. قال يحيى بن معين: وكان يحيى بن سعيد يذهب في الفتوى إلى قول الكوفيين، ويختار قوله من أقوالهم


اس کی سند پر ان کا اعتراض یہ ہے

اس سند میں پہلی وجہ ضعف ہے"عبد الرحمن بن عمر بن نصر بن محمد الدمشقی الشیبانی"اور یہ شخص متہم (بالکذب والاعتزال ہے۔(دیکھیں، لسان المیزان: ج 5 ص 116)
چلیں آپ کے کہنے پر شیبانی کو ثقہ تسلیم کر لیتے ہیں۔ اب دیکھیں ان سب اقوال کو ملا کر امام یحیی کا مذہب کیا بنتا ہے:
امام قطان کو "جب بھی" امام ابو حنیفہ کو قول اچھا لگتا تو اسے اختیار کر لیتے اور اگر جو قول قرآن و سنت کے خلاف ہوتا اسے رد کر دیتے۔ جبکہ دوسری طرف علی المدینی فرماتے ہیں کہ وہ سفیان الثوری کے مذہب کی پیروی کرتے، اور امام یحیی بن معین بھی فرماتے ہیں کہ وہ اہل کوفہ کے مذہب کی پیروی کرتے۔

یعنی اس میں امام ابو حنیفہ کوئی خاص نہیں ہیں، آپ اہل کوفہ کے مذہب پر تھے۔ اس لئے انہیں خاص حنفی کہنا غلط ہے۔ اور چونکہ امام ابو حنیفہ اور ثوری بھی اہل کوفہ سے ہیں اس لئے ان کی طرف نسبت سے مراد بھی یہی ہے کہ وہ اہل کوفہ کے فقہاء کی پیروی کرتے تھے۔

آخر میں جو آپ نے سوال کیا ہے کہ امام ترمذی نے امام بخاری کے اقوال کیوں نہیں نقل کیے تو آپ کو بتا دوں کہ یہ الزامی جواب میں نے جس مضمون سے نقل کیا ہے اسی میں اس کا جواب ہے جس کا نام ہے: امام بخاری کا فقہی مذہب۔ لنک دیکھیں

جلدی میں اتنا ہی لکھ سکتا ہوں۔

والسلام۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
امام قطان کو "جب بھی" امام ابو حنیفہ کو قول اچھا لگتا تو اسے اختیار کر لیتے اور اگر جو قول قرآن و سنت کے خلاف ہوتا اسے رد کر دیتے۔ جبکہ دوسری طرف علی المدینی فرماتے ہیں کہ وہ سفیان الثوری کے مذہب کی پیروی کرتے، اور امام یحیی بن معین بھی فرماتے ہیں کہ وہ اہل کوفہ کے مذہب کی پیروی کرتے۔
امام یحیی بن سعید القطان کو امام ابوحنیفہ کا جوقول بہترلگتا،اسے اختیار کرتے تھے،
امام یحیی بن سعید کو امام بوحنیفہ کی بہت ساری باتیں بہترلگی تھیں
اخْبَرَنَا الجوهري، قَالَ: أَخْبَرَنَا عبد العزيز بن جعفر الخرقي، قَالَ: حَدَّثَنَا هيثم بن خلف الدوري، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بن منصور بن سيار، قال: سمعت يحيى بن معين، يقول: سمعت يحيى بن سعيد، يقول: كم من شيء حسن قد قاله أَبُو حنيفة.
(تاریخ بغداد15/473سندہ حسن)
صغری اورکبری کو ملاکر نتیجہ یہ نکلاکہ یحیی بن سعید القطان نے امام ابوحنیفہ کے بیشتراقوال اختیار کئے تھے اوریہی بات اس ضعیف سند میں بھی ہے وقد اخذ ناباکثراقوالہ
یہ بات ہوئی یحیی بن معین کی جو انہوں نے یحیی بن سعید القطان سے نقل کیاہے اوردوسری بات ہوئی علی بن المدینی کی جو انہوں نے بیان کیاہے،ظاہر سی بات ہے کہ علی بن المدینی کے قول پر ابن سعید القطان کے اپنے قول کو ترجیح دی جائے گی،ویسے بھی کتب فقہ اورمسائل خلافیات کے تتبع سے اندازہ ہوتاہے سفیان ثوری کی اکثروبیشتر رائے وہی ہوتی ہے جو کہ امام ابوحنیفہ کی رائے ہوتی ہے،یہی وجہ ہے کہ امام ابویوسف نے سفیان ثوری کے بارے میں کہاتھاھواکثرمنی متابعۃ لابی حنیفۃوہ مجھ سے زیادہ امام ابوحنیفہ کی پیروی کرتے ہیں،توسفیان ثوری کی پیروی کرکے بھی وہ درحقیقت امام ابوحنیفہ کی ہی پیروی کرتے ہیں۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
صغری اور کبری ملا کر بھی پتہ نہیں کیوں آپ کو علی المدینی کا قول نظر نہیں آتا وہ نہ تو صغری میں ملاتے اور نہ کبری میں! اور پھر یحیی بن معین کا ایک قول بھی اسی کے موافق ہے۔
آپ نے ٹھیک فرمایا کہ امام ثوری اور امام ابو حنیفہ کے اکثر اجتہادات فقہ کوفی سے ہی ملتے ہیں لہٰذا ابو حنیفہ اور ثوری کی "پیروی کر کے بھی وہ در حقیقت فقہ کوفی کی پیروی کرتے ہیں"! اگر امام یحیی کے اپنے قول کی بات کی جائے تو اس میں بھی امام قطان کے کئی اقوال ملتے ہیں جن کی بنا پر کہا جائے کہ ابن القطان کے اپنے کو قول ترجیح دی جائے گی۔ گویا ابن القطان بیک وقت حنفی بھی تھے اور ثوری بھی تھے! اور دونوں کی تقلید بھی نہیں کرتے تھے۔ اس سے بہتر ہے کہ یہ کہا جائے کہ وہ فقہ کوفہ کی اقتداء کرتے تھے!
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
صغری اور کبری ملا کر بھی پتہ نہیں کیوں آپ کو علی المدینی کا قول نظر نہیں آتا وہ نہ تو صغری میں ملاتے اور نہ کبری میں! اور پھر یحیی بن معین کا ایک قول بھی اسی کے موافق ہے۔
صغری اورکبریٰ ملاکر جس نتیجے تک پہنچناچاہئے، اس تک پہنچنے کیلئے آپ آمادہ نہیں ہیں، یہ اصل دقت ہے۔
یحیی بن سعید القطان کااپناقول ہے
(1)جب امام ابوحنیفہ کی کوئی بات اچھی لگتی ہے تواسے اختیار کرتاہوں
(2)امام ابوحنیفہ کی بہت سی باتیں اچھی لگی ہیں
نتیجہ یہ نکلاکہ
یحیی بن سعید القطان نے امام ابوحنیفہ کی بہت سی فقہی آراء کو اختیار کیاہے اوریہی بات اس ضعیف روایت میں تھی وقد اخذناباکثراقوالہجس کی تردید کیلئے آپ نے پورامضمون لکھنے کی زحمت گوارافرمائی لیکن نتیجہ پھر بھی وہی نکلا فرق صرف اتناہے کہ کان کو ہاتھ گھماکر پکڑاگیاہے۔
علی بن مدینی کا قول اس لئے نہیں دکھتاہے کہ ایک بات علی بن مدینی یحیی بن سعید القطان کے متعلق کہیں اورایک بات خود یحیی بن سعید القطان اپنے متعلق کہیں توظاہر سی بات ہے کہ دنیا کاہرشخص یحیی بن سعید القطان کے اپنے متعلق کہی گئی باتوں کو ترجیح دے گا۔
آپ نے ٹھیک فرمایا کہ امام ثوری اور امام ابو حنیفہ کے اکثر اجتہادات فقہ کوفی سے ہی ملتے ہیں لہٰذا ابو حنیفہ اور ثوری کی "پیروی کر کے بھی وہ در حقیقت فقہ کوفی کی پیروی کرتے ہیں"! اگر امام یحیی کے اپنے قول کی بات کی جائے تو اس میں بھی امام قطان کے کئی اقوال ملتے ہیں جن کی بنا پر کہا جائے کہ ابن القطان کے اپنے کو قول ترجیح دی جائے گی۔ گویا ابن القطان بیک وقت حنفی بھی تھے اور ثوری بھی تھے! اور دونوں کی تقلید بھی نہیں کرتے تھے۔ اس سے بہتر ہے کہ یہ کہا جائے کہ وہ فقہ کوفہ کی اقتداء کرتے تھے!
اس قول کی مجھے سمجھ ہی نہیں آئی،وہ زیادہ تراقوال میں فقہ حنفی کی پیروی کرتے تھے لہذا وہ بنیادی طورپر حنفی ہوئے، بعض اقوال جو ان کے نزدیک دلائل کی روسے مرجوح ہوتے تھے اس میں امام سفیان ثوری کی آراء اختیار کرتے تھے اور بعض اوقات ایسابھی ہوتاتھاکہ وہ ان دونوں سے ہٹ کرکوفہ کے دیگرفقہاء کے اقوال اختیار کرتے تھے لیکن اس میں بھی فقہاء کوفہ سے عدول اورتجاوز نہیں کرتے تھے۔
اگراس نظریہ کو تسلیم کرلیاجائے تو امام یحیی بن سعید القطان کے متعلق تمام اقوال میں تطبیق قائم ہوجاتی ہے اورچونکہ وہ وہ زیادہ تر امام ابوحنیفہ کے اقوال اختیار کرتے تھے لہذا ان کو اگرکسی نے حنفیوں میں شمار کیاہے توآپ کاکسی کو اس بناء پر متعصب اورتقلید میں اندھے وغیرہ جیسے الفاظ لکھنانہ صرف غلط بلکہ حقیقت کے بھی برخلاف ہے، امید ہے کہ آپ اپنے الفاظ پر نظرثانی کریں گے یہ تحریر اسی مقصد کیلئے لکھی گئی تھی۔
میں نے سوال کیاتھاکہ امام ترمذی نے اپنی جامع میں مختلف فقہاء کے ذکر کیاہے کہیں بھی بطور فقیہہ امام بخاری کا ذکرنہیں کیا، اس کی کیاوجہ ہے؟آپ نے اس کا جواب دینے کے بجائے ایک ایسالنک پیش کردیا جس میں مختلف حوالوں سے امام بخاری کومجتہد کہاگیاہے،ہم نے ان کے مجتہد ہونے کا انکار کہاں کیاہے، سوال صرف اتناہے کہ امام ترمذی نے بطور مجتہد انکا کہیں ذکر کیوں نہیں کیا؟سوال صرف امام ترمذی سے متعلق ہے؟میں اس سوال کو لگ سے ایک تھریڈ میں بھی ڈال رہاہوں،شاید کوئی جواب ملے؟
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
گزشتہ شب مطالعہ کرتے اس تعلق سے ایک نئی بات نظر سے گزری ،مفید سمجھ کر سوچاکہ اس کو شریک کردیاجائے، امام یحیی بن سعید القطان حنفی تھے ،اس کی وضاحت اوپر گزرچکی ہے اور وہ بھی انہی کے اقوال کے حوالہ سے،لیکن اس سلسلہ میں اسلام کے مایہ نازمورخ اور رجال پر اتھارٹی حافظ ذہبی نے بھی ان کوبھی فروعات میں حنفی قراردیاہے، جو ایک بڑی دلیل ہے اس باب میں۔
حافظ ذہبی اس باب میں لکھتے ہیں:
وكان في الفروع على مذهب أبي حنيفة -فيما بلغنا- إذا لم يجد النص.
سیر اعلام النبلاء7/579،ترجمہ یحیی بن سعید القطان ،مکتبہ دارالحدیث القاہرۃ
 
Top