• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امت کی سب سے بڑی فقیہہ

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
عطاء بن ابی رباح رح فرماتے ہیں کانت عایشۃ رضی اللہ تعالی عنہا افقہ الناس واعلم الناس ( الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ج ٢ صفحہ نمبر ١٠٨ ترجمہ حضرت عایشہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ فقیہ اور سب بڑی عالمہ تھی
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
عطاء بن ابی رباح رح فرماتے ہیں کانت عایشۃ رضی اللہ تعالی عنہا افقہ الناس واعلم الناس ( الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ج ٢ صفحہ نمبر ١٠٨ ترجمہ حضرت عایشہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ فقیہ اور سب بڑی عالمہ تھی
جزاکم اللہ خیرا '
اس میں کوئی شک ہی نہیں ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَكُمْ
موضوع کے متعلق بہت ساری باتیں ذہن میں ہیں جن کے بیان کےلیے مناسب ترتیب کی تلاش ہے ۔ فی الحال ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی کی فقاہت پر سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی یہ تحریر ملاحظہ فرمائیں

روایت کے ساتھ درایت​

لیکن محض روایت کی کثرت ، ان کی فضیلت اور مزیت کا باعث نہیں ہے، اصل چیز دقّت رسی اور نکتہ فہمی ہے اس مخصوص فضیلت میں حضرت عائشہؓ کے ساتھ صرف عبد اللہ بن عباس شریک ہیں جو روایت کی کثرت کے ساتھ تفقہ ، اجتہاد ، فکر اور قوّتِ استنباط میں بھی ممتاز تھے۔
روایت کی کثرت کے ساتھ اور قوّت استنباط کے علاوہ عائشہؓ کی روایتوں کی ایک خاص خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ جن احکام اور واقعات کو نقل کرتی ہیں ، اکثر ان کے علل و اسباب بھی بیان کرتی ہیں ، وہ خاص حکم جن مصلحتوں پر مبنی رہتا ہے ان کی تشریح کرتی ہیں ۔ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ، حضرت سعید خدریؓ اور حضرت عائشہ تینوں سے پہلو بہ پہلو روایتیں ہیں کہ جمعہ کے دن غسل کرنا چاہئے، اب تینوں بزرگوں کی روایتوں کے الفاظ کو پڑھو، اس سے حضرت عائشہؓ کی امتیازی حیثیت واضح ہو گی۔
سمعت رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) یقول ’’من جاء منکم الجمعۃ فلیغتسل‘‘ 
میں نے آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) کو فر ما تے ہوئے سنا کہ جو جمعہ میں آئے وہ غسل کرے۔ 
حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں :
ان رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) قال ’’غسل یوم الجمعۃ واجب علی کل محتلم‘‘
آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جمعہ کا غسل ہر بالغ پر فرض ہے۔
اسی مسئلہ کو حضرت عائشہؓ ان الفاظ میں بیان فرماتی ہیں :
قالت کان الناس ینتابون الجمعۃ من منازلھم والعوالی فیاتون فی الغبار یصیبھم الغبار والعرق فیخرج منھم العرق فاتی رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) انسان منھم و ھو عندی فقال النبی(صلی اللہ علیہ وسلم) لو انکم تطہر تم لیومکم ھٰذا (کتاب الجمۃ)
۔’’لوگ اپنے اپنے گھروں سے اور مدینہ کے باہر کی آبادیوں سے جمعہ کے روز آتے تھے ،وہ غبار اور پسینہ میں شرابور ہوتے تھے، ان کے بد ن سے پسینہ نکلتا رہتا تھا ۔ ایک دفعہ ایک صاحب ان میں سے آپ کے پاس آئے اور آپ میرے پاس بیٹھے تھے، آپؐ نے فرمایا بہتر ہوتا، اگر تم اس دن غسل کر لیا کرتے۔‘‘
ابو داؤد کے سوا صحاح کی تمام کتابوں میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپؐ کو دست کا گوشت بہت پسند تھا، لیکن حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ دست کا گوشت آپ کو بہت پسند نہ تھا، بلکہ چونکہ گوشت کم میسر تھا اور دست کا گوشت جلد پک جاتا تھا ، اس لئے آپ اسی کو کھاتے تھے۔ (ترمذی)
احادیث میں مذکور ہے کہ آپؐ ہر سال ایک آدمی خیبر بھیجتے تھے، وہ پیداوار کو جا کر دیکھتا اور تخمینہ لگاتا تھا، دوسرے راوی اس واقعہ کو صرف اس قدر بیان کر کے رہ جاتے ہیں ، لیکن حضرت عائشہؓ جب اس روایت کو بیان کرتی ہیں ، تو فرماتی ہیں ۔
وانما کان امر النبی(صلی اللہ علیہ وسلم) بالخرص لکی یحصی الزکوہ قبل ان توکل التمرۃ وتفرق۔
آپ نے تخمینہ لگانے کا اس لئے حکم دیا کہ پھل کھانے اور اس کی تقسیم سے پہلے زکوٰۃ کا اندازہ کر لیا جائے
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
مزید ملاحظہ فرمائیں :



افتاء

افتا ء یعنی فتویٰ دینے میں حضرت عائشہؓ کا نام سرِ فہرست اور طبقۂ اول میں ہے،حضرت عائشہؓ نے آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) کی وفات کے بعد ہی اپنے پدر بزرگوار کی زندگی ہی میں مرجعیتِ عام اور منصب افتاء حاصل کر لیا تھا اور آخر زمانہ تک بقیہ خلفائے راشدینؓ کے زمانوں میں بھی وہ ہمیشہ اس منصب پر ممتاز رہیں ۔ حضرت قاسم جو صحابہ کے بعد مدینہ کے سات ۷ مشہور تابعیوں میں شمار ہوتے تھے۔ فرماتے ہیں :
’’حضرت عائشہ، حضرت ابو بکرؓ کے عہد خلافت ہی میں مستقل طور سے افتاء کا منصب حاصل کر چکی تھیں ، حضرت عمرؓ ،حضرت عثمانؓ اور ان کے بعد آخری زندگی تک وہ برابر فتوے دیتی رہیں ۔
حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں مخصوص صحابہ کبار کے علاوہ اور لوگوں کو افتاء کی اجازت نہ تھی، اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت عمرؓ کو حضرت عائشہؓ کے علم اور واقفیت پر کس درجہ اعتماد تھا،ابن سعد میں ہے:
یسئلھا الاکابر من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
’’ان سے بڑے بڑے صحابہ کرام آ کر مسائل دریافت کیا کرتے تھے۔‘‘
ایک مجلس میں حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت ابن عباس دونوں بزرگ تشریف فرما تھے، مسئلہ یہ پیش ہوا کہ اگر کوئی حاملہ عورت بیوہ ہو گئی اور چند روز کے بعد اس کو وضع حمل ہوا تو اس کی عدت کا زمانہ کس قدر ہو گا، قرآن مجید میں دونوں کے الگ احکام مذکور ہیں بیوگی کے لئے چار مہینہ دس دن اور حاملہ کیلئے تا زمانہ وضعِ حمل حضرت ابن عباسؓ نے کہا ان دونوں میں جو سب سے زیادہ مدت ہو گی ، وہ زمانۂ عدّت ہو گا، حضرت ابو ہریرہؓ نے کہا کہ وضعِ حمل تک عدّت کا زمانہ ہے، دونوں میں فیصلہ نہ ہوا تو لوگوں نے حضرت عائشہؓ اور حضرت امّ سلمیؓ کے پاس آدمی بھیجا، انہوں نے وضعِ حمل تک بتایا اور دلیل میں سبیعہ کا واقعہ پیش کیا، جن کی
کے تیسرے ہی دن ولادت ہوئی، اور اسی وقت ان کو دوسرے نکاح کی اجازت مل گئی ، یہ فیصلہ اس قدر مدلل تھا کہ اسی پر جمہور کا عمل ہے۔
ابو سلمہؓ ، حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کے صاحبزادے تھے۔ ایک زمین کی نسبت چند لوگوں کو ان سے نزاع تھی، حضرت عائشہؓ کو معلوم ہوا تو انہوں نے ابو سلمہؓ کو بلا کر سمجھایا کہ اے ابو سلمہ! اس زمین سے باز آؤ ، آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ بالشت بھر زمین کے لئے بھی اگر کوئی ظلم کرے گا، تو ساتوں طبقے اس کے گلے میں ڈالے جائیں گے۔

مدینہ میں جب بچے پیدا ہوتے تو پہلے تبرکاً وہ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں لائے جاتے ، وہ ان کو دعائیں دیتیں ، ایک بچہ آیا، تو اس کے سر تلے ایک لوہے کا استرہ نظر آیا، پوچھا یہ کیا ہے، لوگوں نے کہا اس سے بھوت بھاگتے ہیں یہ حضرت عائشہؓ نے استرہ اٹھا کر پھینک دیا اور بولیں کہ حضور انور(صلی اللہ علیہ وسلم) نے شگون سے منع کیا ہے، ایسا نہ کیا کرو۔
عجم کے فتح ہونے کے بعد عرب شراب کے جدید اقسام اور اس کے نئے ناموں سے آشنا ہو گئے ، جن میں سے ’’بادق‘‘ تھا، یعنی بادہ، عربی میں لغۃً خمر کا اطلاق شراب کی خاص قسموں پر ہوتا ہے، اس بناء پر لوگوں کو شبہ ہوا کہ ان نئی شرابوں کا کیا حکم ہے، حضرت عائشہؓ نے اپنی مجلس میں بالاعلان کہہ دیا کہ شراب کے برتنوں میں چھوہارے تک نہ بھگوئے جائیں ، پھر مخصوص عورتوں کی طرف خطاب کر کے فرمایا،اگر تمہارے خمر کے پانی سے نشہ پیدا ہو تو وہ بھی حرام ہے، کیونکہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہر نشہ آور چیز کو منع فرمایا ہے۔

ایک دفعہ شام کی عورتیں زیارت کو آئیں ، وہاں حمام میں جا کر عورتیں برہنہ غسل کرتی تھیں ، فرمایا کہ تم ہی وہ عورتیں ہو جو حماموں میں جاتی ہو، آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ ’’جو عورت اپنے گھر سے باہر اپنے کپڑے اتارتی ہے ، وہ اپنے میں اور خدا میں پردہ دری کرتی ہے۔‘‘
موسم حج میں حضرت عائشہؓ کو عورتیں چاروں طرف سے گھیر لیتیں وہ امامت کی صورت میں آگے آگے اور تمام عورتیں ان کے پیچھے چلتیں ، اسی درمیان میں ارشاد و ہدایت کے فرائض بھی انجام پاتے جاتے۔ ایک دفعہ ایک عورت کو دیکھا، جس کی چادر میں صلیب کے نقش و نگار بنے تھے، دیکھنے کے ساتھ ڈانٹا کہ یہ چادر اتار دو ، اتار دو، آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) ایسے کپڑوں کو دیکھتے تو پھاڑ ڈالتے۔
عورتوں کو ایسا زیور پہننا جس سے آواز پیدا ہو ممنوع ہے، نیز گھنٹے وغیرہ کی آواز منع ہے، ایک دفعہ ایک لڑکی گھنگھرو پہن کر حضرت عائشہؓ کے پاس آئی، فرمایا گھنگھرو پہنا کر میرے پاس نہ لایا کرو ، اس کے گھنگھرو کاٹ ڈالو، ایک عورت نے اس کا سبب دریافت کیا، بولیں کہ آپؐ نے فرمایا ہے کہ جس گھر میں اور جس قافلہ میں گھنٹا بجتا ہو ، وہاں فرشتے نہیں آتے ۔
حفصہؓ بنت عبد الرحمن آپ کی بھتیجی تھیں وہ ایک دن باریک دوپٹہ اوڑھ کر پھوپھی کے پاس آئیں ، دیکھنے کے ساتھ ان کو دوپٹہ کو غصہ سے چاک کر ڈالا پھر فرمایا ’’تم نہیں جانتی کہ سورہ نور میں خدا نے کیا احکام نازل کئے ہیں ‘‘ اس کے بعد دوسرا گاڑھے کا دوپٹہ منگوا کر اڑھایا۔
ایک دفعہ ایک عورت نے آ کر عرض کی کہ میری ایک بیٹی دلھن بنی ہے، بیماری سے اس کے بال جھڑ گئے ہیں ، کیا بال جوڑ دوں ، فرمایا کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) نے بال جوڑنے والیوں اور جڑوانے والیوں پر لعنت بھیجی ہے۔
ایک شخص نے آ کر پوچھا ، اے ام المومنین! بعض لوگ ایک شب میں قرآن دو دو تین تین بار پڑھ ڈالتے ہیں ، فرمایا کہ ان کا پڑھنا اور نہ پڑھنا برابر ہے، آنحضرت تمام تمام رات نماز میں کھڑے رہتے تھے ، لیکن سورہ بقرہ، آل عمران اور نساء سے آگے نہیں بڑھتے تھے، یعنی اطمینان سے سمجھ سمجھ کر پڑھتے۔
( سیرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا)
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
یقول معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ما رایت احدا بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابلغ من عایشۃ رضی اللہ تعالی عنھا
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ھیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعد اماں عایشہ رضی اللہ تعالی عنھا سے زیادہ بلیغ کوی انسان نہی دیکھا !!!!! اصول اعتقاد اھل السنہ والجماعہ صفحہ ٤٦٧ج ٥
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
وعن مسروق قال رایت مشیخۃ من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یسءلون عن عایشۃ عن الفراٰیض ( شرح اعتقاد اصول اھل السنہ للالکایی
صفحہ ٣٣٧ ج ١
مسروق کو کہ مشھور تابعی ھے فرماتے ہیں میں بڑے بڑے بزرگ صحابہ کرام دیکھے ہیں جو صدیقہ کاینات سے فرایض کی مسایل پوچھا کرتے تھے فرایض کا مقصد ہیں عام فرایض بھی ھے اور میراث کی مسایل بھی ہے کو کہ مفتیان کرام اور فقھاء کو ھی آتے ہیں یھی مسایل صحابہ فقیہہ اماں جی کو ھی سمجتھے تھے اس لیے تو ان کی پاس جاتے تھے
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
مزید ملاحظہ فرمائیں :



افتاء

افتا ء یعنی فتویٰ دینے میں حضرت عائشہؓ کا نام سرِ فہرست اور طبقۂ اول میں ہے،حضرت عائشہؓ نے آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) کی وفات کے بعد ہی اپنے پدر بزرگوار کی زندگی ہی میں مرجعیتِ عام اور منصب افتاء حاصل کر لیا تھا اور آخر زمانہ تک بقیہ خلفائے راشدینؓ کے زمانوں میں بھی وہ ہمیشہ اس منصب پر ممتاز رہیں ۔ حضرت قاسم جو صحابہ کے بعد مدینہ کے سات ۷ مشہور تابعیوں میں شمار ہوتے تھے۔ فرماتے ہیں :
’’حضرت عائشہ، حضرت ابو بکرؓ کے عہد خلافت ہی میں مستقل طور سے افتاء کا منصب حاصل کر چکی تھیں ، حضرت عمرؓ ،حضرت عثمانؓ اور ان کے بعد آخری زندگی تک وہ برابر فتوے دیتی رہیں ۔
حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں مخصوص صحابہ کبار کے علاوہ اور لوگوں کو افتاء کی اجازت نہ تھی، اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت عمرؓ کو حضرت عائشہؓ کے علم اور واقفیت پر کس درجہ اعتماد تھا،ابن سعد میں ہے:
یسئلھا الاکابر من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
’’ان سے بڑے بڑے صحابہ کرام آ کر مسائل دریافت کیا کرتے تھے۔‘‘
ایک مجلس میں حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت ابن عباس دونوں بزرگ تشریف فرما تھے، مسئلہ یہ پیش ہوا کہ اگر کوئی حاملہ عورت بیوہ ہو گئی اور چند روز کے بعد اس کو وضع حمل ہوا تو اس کی عدت کا زمانہ کس قدر ہو گا، قرآن مجید میں دونوں کے الگ احکام مذکور ہیں بیوگی کے لئے چار مہینہ دس دن اور حاملہ کیلئے تا زمانہ وضعِ حمل حضرت ابن عباسؓ نے کہا ان دونوں میں جو سب سے زیادہ مدت ہو گی ، وہ زمانۂ عدّت ہو گا، حضرت ابو ہریرہؓ نے کہا کہ وضعِ حمل تک عدّت کا زمانہ ہے، دونوں میں فیصلہ نہ ہوا تو لوگوں نے حضرت عائشہؓ اور حضرت امّ سلمیؓ کے پاس آدمی بھیجا، انہوں نے وضعِ حمل تک بتایا اور دلیل میں سبیعہ کا واقعہ پیش کیا، جن کی
کے تیسرے ہی دن ولادت ہوئی، اور اسی وقت ان کو دوسرے نکاح کی اجازت مل گئی ، یہ فیصلہ اس قدر مدلل تھا کہ اسی پر جمہور کا عمل ہے۔
ابو سلمہؓ ، حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کے صاحبزادے تھے۔ ایک زمین کی نسبت چند لوگوں کو ان سے نزاع تھی، حضرت عائشہؓ کو معلوم ہوا تو انہوں نے ابو سلمہؓ کو بلا کر سمجھایا کہ اے ابو سلمہ! اس زمین سے باز آؤ ، آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ بالشت بھر زمین کے لئے بھی اگر کوئی ظلم کرے گا، تو ساتوں طبقے اس کے گلے میں ڈالے جائیں گے۔

مدینہ میں جب بچے پیدا ہوتے تو پہلے تبرکاً وہ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں لائے جاتے ، وہ ان کو دعائیں دیتیں ، ایک بچہ آیا، تو اس کے سر تلے ایک لوہے کا استرہ نظر آیا، پوچھا یہ کیا ہے، لوگوں نے کہا اس سے بھوت بھاگتے ہیں یہ حضرت عائشہؓ نے استرہ اٹھا کر پھینک دیا اور بولیں کہ حضور انور(صلی اللہ علیہ وسلم) نے شگون سے منع کیا ہے، ایسا نہ کیا کرو۔
عجم کے فتح ہونے کے بعد عرب شراب کے جدید اقسام اور اس کے نئے ناموں سے آشنا ہو گئے ، جن میں سے ’’بادق‘‘ تھا، یعنی بادہ، عربی میں لغۃً خمر کا اطلاق شراب کی خاص قسموں پر ہوتا ہے، اس بناء پر لوگوں کو شبہ ہوا کہ ان نئی شرابوں کا کیا حکم ہے، حضرت عائشہؓ نے اپنی مجلس میں بالاعلان کہہ دیا کہ شراب کے برتنوں میں چھوہارے تک نہ بھگوئے جائیں ، پھر مخصوص عورتوں کی طرف خطاب کر کے فرمایا،اگر تمہارے خمر کے پانی سے نشہ پیدا ہو تو وہ بھی حرام ہے، کیونکہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہر نشہ آور چیز کو منع فرمایا ہے۔

ایک دفعہ شام کی عورتیں زیارت کو آئیں ، وہاں حمام میں جا کر عورتیں برہنہ غسل کرتی تھیں ، فرمایا کہ تم ہی وہ عورتیں ہو جو حماموں میں جاتی ہو، آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ ’’جو عورت اپنے گھر سے باہر اپنے کپڑے اتارتی ہے ، وہ اپنے میں اور خدا میں پردہ دری کرتی ہے۔‘‘
موسم حج میں حضرت عائشہؓ کو عورتیں چاروں طرف سے گھیر لیتیں وہ امامت کی صورت میں آگے آگے اور تمام عورتیں ان کے پیچھے چلتیں ، اسی درمیان میں ارشاد و ہدایت کے فرائض بھی انجام پاتے جاتے۔ ایک دفعہ ایک عورت کو دیکھا، جس کی چادر میں صلیب کے نقش و نگار بنے تھے، دیکھنے کے ساتھ ڈانٹا کہ یہ چادر اتار دو ، اتار دو، آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) ایسے کپڑوں کو دیکھتے تو پھاڑ ڈالتے۔
عورتوں کو ایسا زیور پہننا جس سے آواز پیدا ہو ممنوع ہے، نیز گھنٹے وغیرہ کی آواز منع ہے، ایک دفعہ ایک لڑکی گھنگھرو پہن کر حضرت عائشہؓ کے پاس آئی، فرمایا گھنگھرو پہنا کر میرے پاس نہ لایا کرو ، اس کے گھنگھرو کاٹ ڈالو، ایک عورت نے اس کا سبب دریافت کیا، بولیں کہ آپؐ نے فرمایا ہے کہ جس گھر میں اور جس قافلہ میں گھنٹا بجتا ہو ، وہاں فرشتے نہیں آتے ۔
حفصہؓ بنت عبد الرحمن آپ کی بھتیجی تھیں وہ ایک دن باریک دوپٹہ اوڑھ کر پھوپھی کے پاس آئیں ، دیکھنے کے ساتھ ان کو دوپٹہ کو غصہ سے چاک کر ڈالا پھر فرمایا ’’تم نہیں جانتی کہ سورہ نور میں خدا نے کیا احکام نازل کئے ہیں ‘‘ اس کے بعد دوسرا گاڑھے کا دوپٹہ منگوا کر اڑھایا۔
ایک دفعہ ایک عورت نے آ کر عرض کی کہ میری ایک بیٹی دلھن بنی ہے، بیماری سے اس کے بال جھڑ گئے ہیں ، کیا بال جوڑ دوں ، فرمایا کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) نے بال جوڑنے والیوں اور جڑوانے والیوں پر لعنت بھیجی ہے۔
ایک شخص نے آ کر پوچھا ، اے ام المومنین! بعض لوگ ایک شب میں قرآن دو دو تین تین بار پڑھ ڈالتے ہیں ، فرمایا کہ ان کا پڑھنا اور نہ پڑھنا برابر ہے، آنحضرت تمام تمام رات نماز میں کھڑے رہتے تھے ، لیکن سورہ بقرہ، آل عمران اور نساء سے آگے نہیں بڑھتے تھے، یعنی اطمینان سے سمجھ سمجھ کر پڑھتے۔
( سیرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا)
جزاک الله خیرا بھائی
 

siddique

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
170
ری ایکشن اسکور
900
پوائنٹ
104
یقول معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ما رایت احدا بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابلغ من عایشۃ رضی اللہ تعالی عنھا
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ھیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعد اماں عایشہ رضی اللہ تعالی عنھا سے زیادہ بلیغ کوی انسان نہی دیکھا !!!!! اصول اعتقاد اھل السنہ والجماعہ صفحہ ٤٦٧ج ٥[/QUOTE
السلام علیکم مفتی صاحب
آپکی اسطرح کی پوسٹ پڑھکر اچھا لگا۔
اللہ حافظ
 
Top