• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امت کے اختلاف کا سبب صحابہ کرام کی نظرمیں؟

شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

اما م ابو عبیدہ نے فضائل قرآن میں اور سعید بن منصو ر نے ابراہیم تیمی سے بیان کیا وہ فرماتےہیں امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ بات سوچ رہا تھے اس امت میں اختلاف کیسے واقع ہو سکتا ہے جبکہ ان سب کا نبی ایک ہی ہے پھر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور فرمایا اے عبداللہ ! اس امت کا نبی ایک ، قبلہ ایک ، کتاب ( قرآن )ہے پھر یہ امت اختلاف میں کیسے مبتلا ہو گئی ؟ ( یعنی بظاہر یہ ممکن نہیں )
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے امیر المومنین یہ قرآن ہم میں نازل ہوا اور ہم نے اس کو ( نبی کریم ﷺ سے ) پڑھا اور ہمیں معلوم ہے ( کون سی آیات کس بارے میں ) نازل ہوئیں جبکہ ہمارے بعد کچھ لوگ آئیں گے جو قرآن تو پڑھیں لیکن انہیں یہ معلوم نہیں ہوگا کہ کونسی آٰیت کس بارے میں نازل ہوئی اور وہ خود اس کے بارے میں رائے زنی کریں گےجب وہ اپنی اپنی آراء پر چلیں تو ان میں اختلاف پیدا ہو جائے گا ۔
اسی بنا ء پر امام شاطبی رحمۃ اللہ فرماتےہیں : سیدنا عبداللہ بن عباس کا یہ فرمانا برحق ہے جب آدمی کو علم ہو کہ یہ آیت کس بارے میں نازل ہوئی تو وہ اس کے مأخذ تفسیر اور شریعت کے مقصد کو معلوم کرلیتا ہے اور پھر وہ اس بارے میں کسی زیادتی کا شکار نہیں ہوتا ۔ تو جب کوئی آدمی اپنی نطر سے کئی احتمالات بنانا شروع کر دیتا ہے تو یہ آدمی مرضی کا معنی کر لینا ہے حالانکہ ایسے لوگ کے علم میں پختگی نہیں ہو تی جو ان کی راہ حق کی طرف رہنمائی کر ے اور علمی مشکلات میں ان کیلئے درستگی کا باعث بنے تو ایسے لوگ پھر اپنے گمان وعقل سے ظاہری معنی مفہوم اخذ کر لیتے ہیں جو منہج حق کے مطابق نہیں ہوتا کیونکہ اس کے بارے میں کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہوتی اس طرح وہ لوگ خود بھی گمراہ ہو جاتےہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتےہیں۔ اس کی وضاحت درج واقعہ ہوتی جس کو امام ابن امام بکیر رحمہ اللہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا نافع رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ صحابی رسول عبداللہ بن عمر رضی اللہ کی حروریہ ( خارجی لوگ) کے بارے میں کیا رائے ہے تو انہوں نے فرمایا وہ ان کو اللہ تعالی کی سب سے بد ترین مخلوق سمجھتے ہیں کیونکہ وہ ( خارجی لوگ ) کفار کے بارے میں نازل شدہ آیا ت کو مسلمانوں پر فٹ کر دیتے ہیں ۔
( یہ باے سن کر ) سعید بن جبیر ( تابع ) رحمہ اللہ متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ یہ خارجی لوگ متشابہ آیات ( جو مختلف احتمال رکھتی ہو ں ) کی پیروی کرتے ہیں جیسے اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وہ کہتے ہیں ‘‘ جس نے شریعت سے ہٹ کر فیصلہ کیا اس نے کفر کیا پہلے وہ آیت پڑھتے ہیں اس کے ساتھ دوسری یہ ملا دیتے ہیں ۔ ’’
( الانعام )
پھر وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا وہ اپنے رب کے ساتھ برابر ی کرنے والے ہیں۔
اور نتیجہ یہ نکالتےہیں جس نے کفر کیا اس نے اپنے رب کے ساتھ برابرای کی اور جس نے رب کے ساتھ برابری کی اس نے شرک کیا پس یہ لوگ مشرک ہیں . پس وہ خروج کرتے ہیں ( حکمرانوں کے خلاف بغاوت کر دیتے ہیں ) اور ایسی قتل و غارت شروع کر دیتے ہیں جو آپ دیکھ رہے ہیں ، کیونکہ انہوں اایت کی تفسیر ہی اسے کی ہے یہ ہے وہ مزموم رائے جس پر عبداللہ بن عباس نے تنبیہ کی ہے یہ ( جہالت) اس وقت پیدا ہوئی ہے جب آدمی کو یہ نہیں ہوتا یہ اایت کس بارے میں نازل ہوئی ۔ نافع کہتے ہیں سیدنا عبداللہ بن عمر سے جب حرور ( خارجیوں ) کے بارے سوالی کیا جاتا تو فرماتے یہ وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں اور ان کے اموال اور خون کو حلال قرار دیدیتے ہیں ۔
( الا عتصام للشاطبی 691-692 ، ج 2)
امام شاطبی اپنی کتاب الموافقات میں فرماتے ہیں اور اللہ تعالی کا فرمان :
بھی اسی مفہوم میں ہے باوجود کہ یہ آیت یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی اور قرآن مجید کا سباق و سیاق بھی اسی پر دلالت کرتا ہے ۔ پھر علماء نے اس کے ( الفاظ کے ) عموم کی بنا ء پر مسلمانوں کو بھی اس کے تحت شامل کیا اور فرمایا یہ کہ کفردون کفر ہے یعنی اس سے کبیرہ گناہ مراد ہے ارتداد مراد نہیں ۔
( الموافقات 39، ج4)
 
Top