• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امریکا کا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا اعلان

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
آج مجھے واٹس ایپ پر ایک مضمون ملا. سوچا کہ آپ حضرات کے ساتھ بھی شئیر کر دوں.
دروغ بر گردن راوی!

یروشلم ۔۔۔۔ انٹر نیشنل لاء کیا کہتا ہے؟
امریکہ نے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ تو کر لیا لیکن سوال یہ ہے کہ جب بین الاقومی قوانین کے تحت یروشلم اسرائیل کا شہر ہی نہیں ہے تو سفارت خانہ وہاں منتقل کیسے ہو سکتا ہے؟یہ سوال بہت ہی اہم ہے۔چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جو ممالک اسرائیل کے ناجائز وجود کو بطور ریاست تسلیم کر چکے ہیں وہ بھی اس اقدام کی حمایت نہیں کر پا رہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس اقدام کی کوئی توجیح پیش نہیں کی جا سکتی۔

اسرائیل کے ناجائز قیام کی بحث کو ایک طرف رکھ دیجیے اور اسی بیانیے میں معاملے کو دیکھ لیجیے جس بیانیے میں اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔برطانیہ اور اقوام متحدہ کی سرپرستی میں جب اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا تو یہ بات طے کر دی گئی کہ یروشلم کا شہر اسرائیل کاحصہ نہیں ہو گا۔

29 نومبر 1947 کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد نمبر 181 کے تحت یہ قرار دیا کہ یروشلم کی حیثیت "Corpus Separatum" کی ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ شہر اب کسی ایک ریاست کا حصہ نہیں ۔اس کی الگ اور جداگانہ حیثیت ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا کہ چونکہ اس شہر کی مذہبی حیثیت ایسی ہے کہ یہ تینوں مذاہب کے لیے محترم ہے اسے لیے اس علاقے میں اسرائیل اور فلسطین نام سے دو ریاستیں تو وجود میں آ رہی ہیں لیکن یروشلم کا شہر "Corpus Separatum" ہو گا اورا س کا انتظام اقوام متحدہ چلائے گی۔ یہی بات جنرل اسمبلی نے گیارہ ستمبر 1948 کی اپنی قرارداد نمبر194 میں کہی اور اسی بات کا اعادہ فلسطین پر اقوام متحدہ کے کمیشن (UNCCP) نے1949 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر لاؤزین میں اس کانفرنس میں کیا جو 27 اپریل سے 12ستمبر تک جاری رہی۔

اسرائیل نے 1949 میں مصر، اردن ، شام اور لبنان سے معاہدے کیے جنہیں "Armistice Agreement" یعنی صلح کے معاہدے کہا جاتا ہے، ان میں بھی یروشلم شہر کی یہ حیثیت برقرار رکھی گئی۔چنانچہ ایک انتظام کے تحت مشرقی یروشلم اردن کے پاس چلا گیا۔یاد رہے کہ مسجد اقصی ، قبۃ الصخرا، مغربی دیوار ،اور چرچ آف دی ہولی سپیلکر یعنی کنیسہ القیامہ اسی مشرقی یروشلم میں واقع ہیں۔1967تک یہ مقامات مسلمانوں کے پاس رہے اور اردن ہی ان کے انتظامی معاملات کو یکھتا رہا۔

1967کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا لیکن دنیا نے اس قبضے کو آج تک تسلیم نہیں کیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق مشرقی یروشلم ’’مقبوضہ فلسطین ‘‘ ہے اور اسے اسرائیل نہیں کہا جا سکتا۔سلامتی کونسل نے 22نومبر 1967 کو قرارداد نمبر 242 کے ذریعے اسرائیل کے قبضے کو ناجائز قرار دیا اور اسے مشرقی یروشلم سے نکل جانے کوکہا۔ اس قرارداد کو امریکہ سمیت 15ممالک کے ووٹ ملے، نہ کوئی ملک غیر حاضر رہا نہ کسی نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 4جولائی 1967 کو قرارداد نمبر2253 کے ذریعے اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی اور ناجائز قرار دیا۔اس میں کہا گیا کہ اسرائیل ہر ایسے اقدام سے باز رہے جو یروشلم شہر کی طے شدہ حیثیت کو تبدیل کر تا ہو۔99ممالک نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور کسی ایک ملک نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی۔

تیرہ سال اسی طرح گزر گئے۔1980 میں اسرائیل نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ یروشلم اس کا دارالحکومت ہو گا۔اسرائیل نے دنیا سے کہا کہ وہ اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل کرے۔اس قدم سے اسلامی دنیا میں بھونچال آ گیا اور او آئی سی نے کہا کہ جو ملک اپنا سفارت خانہ یروشلم لے گیا تمام اسلامی ممالک سے اس کے سفارت خانے بند اور سفارتی تعلقات منقطع کر دیے جائیں گے۔اس دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پہلے 30 جون کو قرارداد نمبر 476 اور پھر 20 اگست 1980کو قرارداد نمبر 478 پاس کی اور اسرائیل کے اس قدم کو انٹر نیشنل لاء کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے تمام ممالک سے کہا کہ اقوام متحدہ کے فیصلے کو مانیں اور کوئی ملک بھی اپنا سفارت خانہ یروشلم نہیں لے جائے گا۔اس قرارداد کے حق میں 14 ووٹ آئے جب کہ کسی ایک ملک نے بھی مخالفت نہیں کی۔امریکہ البتہ غیر حاضر رہا۔چنانچہ اس قرارداد کے فورا بعدبولیویا،چلی، کولمبیا، کوسٹا ریکا، پانامہ، یوروگوائے ، وینزیویلا، ایکواڈور ، سالوادور جیسے ممالک نے جو اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل کر چکے تھے واپس تل ابیب لے کر آ گئے۔حتی کہ امریکہ کو بھی یہ ہمت نہ ہو سکی کہ وہ اپنا سفارت خانہ یروشلم لے جائے۔دسمبر 1980میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل کے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔وہ اس سے باز رہے۔

یروشلم کے بارے میں اقوام متحدہ واضح طور پر طے کر چکی ہے کہ یہ اسرائیل کاحصہ نہیں ہے۔جنرل اسمبلی کی چار جولائی 1967 اور چودہ جولائی کی قراردادوں کے علاوہ سلامتی کونسل کی 1968کی قرارداد نمبر252میں بھی اسرائیل سے یہی کہا گیا ہے کہ وہ ناجائز اور غیر قانونی اقدامات کر کے یروشلم شہر کی حیثیت بدل رہا ہے اس سے وہ اجتناب کرے۔

1990میں اسرائیلی کی جانب سے جب مسجد اقصی میں مسلمانوں پر تشدد ہوا تو سلامتی کونسل نے 12اکتوبر کو قرارداد نمبر 672کے ذریعے اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی پامالی کا مرتکب ٹھہرایا اور کہا کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ فلسطین کا علاقہ ہے جو اس وقت مقبوضہ حیثیت میں اسرائیل کے ناجائز قبضے میں ہے۔ اس قرار داد میں اسرائیل سے کہا گیا کہ وہ اس مقبوضہ علاقے میں ان ذمہ داریوں کو ادا کرے جو اقوام متحدہ کے قوانین کے تحت مقبوضہ علاقوں کی بابت طے کر دی گئی ہیں۔

یروشلم کی حیثیت کے تعین کے لیے یہ معاملہ 2004میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے پاس بھی پیش کیا گیا تا کہ اس سے ’’ ایڈ وائزری اوپینین‘‘ لیا جا سکے۔بین الاقوامی عدالت انصاف نے کہا کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے بلکہ اسے مقبوضہ فلسطین کہا جائے گا۔کہا گیا کہ اسرائیل یہاں دیوار تعمیر نہیں کر سکتا کیونکہ یہ علاقہ اس کا نہیں ہے بلکہ مقبوضہ ہے ۔ یہ کام بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔عدالت نے تو یہ بھی کہا کہ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل اس ضمن میں مزید اقدامات کریں۔عالمی عدالت انصاف جس مقبوضہ علاقے میں ایک دیوار تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دے رہی آج امریکہ وہاں پورا سفارت خانہ لے جانا چاہتا ہے۔یہاں ا س غلط فہمی کو بھی دور کر لیا جائے کہ یہ محض ٹرمپ کا فیصلہ ہے۔یاد رہے کہ امریکہ تو 1995ہی میں یروشلم ایمبیسی ایکٹ متعارف کرا چکا ہے۔خواب پرانا ہے ،اس خواب کو تعبیر البتہ ڈونلڈ ٹرمپ دے رہے ہیں۔

اس وقت یروشلم کے معتبر ترین مسیحی رہنما ، گریک آرتھوڈوکس چرچ کے ثیو فیلوس الثالث اور درجن بھر دیگر مسیحی عمائدین نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک احتجاجی خط لکھا ہے جس میں انہیں وارننگ دی ہے کہ سفارت خانہ یروشلم منتقل کر کے آپ ناقانل تلافی نقصان اٹھائیں گے ، اور آپ کے اس اقدام سے یہاں نفرت ، تشدد میں اضافہ ہو گا اور امن اور اتحاد سے ہم مزید دور ہو جائیں گے۔


@فواد صاحب! آپ اس بارے میں کچھ کہنا پسند فرمائیں گے؟
اور یہ بھی بتائیں گے کہ اگر اسرائیل کا یہ عمل واقعی زبردستی اور دہشت گردی ہے تو امریکا نے اس حوالے سے اسرائیل پر کوئی حملہ وغیرہ کر کے اس جگہ کو آزاد کرانے کا سوچا ہے؟ جیسے افغانستان اور عراق پر حملے کیے تھے؟
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
آج مجھے واٹس ایپ پر ایک مضمون ملا. سوچا کہ آپ حضرات کے ساتھ بھی شئیر کر دوں.
دروغ بر گردن راوی!

یروشلم ۔۔۔۔ انٹر نیشنل لاء کیا کہتا ہے؟
امریکہ نے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ تو کر لیا لیکن سوال یہ ہے کہ جب بین الاقومی قوانین کے تحت یروشلم اسرائیل کا شہر ہی نہیں ہے تو سفارت خانہ وہاں منتقل کیسے ہو سکتا ہے؟یہ سوال بہت ہی اہم ہے۔چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جو ممالک اسرائیل کے ناجائز وجود کو بطور ریاست تسلیم کر چکے ہیں وہ بھی اس اقدام کی حمایت نہیں کر پا رہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس اقدام کی کوئی توجیح پیش نہیں کی جا سکتی۔

اسرائیل کے ناجائز قیام کی بحث کو ایک طرف رکھ دیجیے اور اسی بیانیے میں معاملے کو دیکھ لیجیے جس بیانیے میں اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔برطانیہ اور اقوام متحدہ کی سرپرستی میں جب اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا تو یہ بات طے کر دی گئی کہ یروشلم کا شہر اسرائیل کاحصہ نہیں ہو گا۔

29 نومبر 1947 کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد نمبر 181 کے تحت یہ قرار دیا کہ یروشلم کی حیثیت "Corpus Separatum" کی ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ شہر اب کسی ایک ریاست کا حصہ نہیں ۔اس کی الگ اور جداگانہ حیثیت ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا کہ چونکہ اس شہر کی مذہبی حیثیت ایسی ہے کہ یہ تینوں مذاہب کے لیے محترم ہے اسے لیے اس علاقے میں اسرائیل اور فلسطین نام سے دو ریاستیں تو وجود میں آ رہی ہیں لیکن یروشلم کا شہر "Corpus Separatum" ہو گا اورا س کا انتظام اقوام متحدہ چلائے گی۔ یہی بات جنرل اسمبلی نے گیارہ ستمبر 1948 کی اپنی قرارداد نمبر194 میں کہی اور اسی بات کا اعادہ فلسطین پر اقوام متحدہ کے کمیشن (UNCCP) نے1949 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر لاؤزین میں اس کانفرنس میں کیا جو 27 اپریل سے 12ستمبر تک جاری رہی۔

اسرائیل نے 1949 میں مصر، اردن ، شام اور لبنان سے معاہدے کیے جنہیں "Armistice Agreement" یعنی صلح کے معاہدے کہا جاتا ہے، ان میں بھی یروشلم شہر کی یہ حیثیت برقرار رکھی گئی۔چنانچہ ایک انتظام کے تحت مشرقی یروشلم اردن کے پاس چلا گیا۔یاد رہے کہ مسجد اقصی ، قبۃ الصخرا، مغربی دیوار ،اور چرچ آف دی ہولی سپیلکر یعنی کنیسہ القیامہ اسی مشرقی یروشلم میں واقع ہیں۔1967تک یہ مقامات مسلمانوں کے پاس رہے اور اردن ہی ان کے انتظامی معاملات کو یکھتا رہا۔

1967کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا لیکن دنیا نے اس قبضے کو آج تک تسلیم نہیں کیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق مشرقی یروشلم ’’مقبوضہ فلسطین ‘‘ ہے اور اسے اسرائیل نہیں کہا جا سکتا۔سلامتی کونسل نے 22نومبر 1967 کو قرارداد نمبر 242 کے ذریعے اسرائیل کے قبضے کو ناجائز قرار دیا اور اسے مشرقی یروشلم سے نکل جانے کوکہا۔ اس قرارداد کو امریکہ سمیت 15ممالک کے ووٹ ملے، نہ کوئی ملک غیر حاضر رہا نہ کسی نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 4جولائی 1967 کو قرارداد نمبر2253 کے ذریعے اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی اور ناجائز قرار دیا۔اس میں کہا گیا کہ اسرائیل ہر ایسے اقدام سے باز رہے جو یروشلم شہر کی طے شدہ حیثیت کو تبدیل کر تا ہو۔99ممالک نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور کسی ایک ملک نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی۔

تیرہ سال اسی طرح گزر گئے۔1980 میں اسرائیل نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ یروشلم اس کا دارالحکومت ہو گا۔اسرائیل نے دنیا سے کہا کہ وہ اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل کرے۔اس قدم سے اسلامی دنیا میں بھونچال آ گیا اور او آئی سی نے کہا کہ جو ملک اپنا سفارت خانہ یروشلم لے گیا تمام اسلامی ممالک سے اس کے سفارت خانے بند اور سفارتی تعلقات منقطع کر دیے جائیں گے۔اس دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پہلے 30 جون کو قرارداد نمبر 476 اور پھر 20 اگست 1980کو قرارداد نمبر 478 پاس کی اور اسرائیل کے اس قدم کو انٹر نیشنل لاء کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے تمام ممالک سے کہا کہ اقوام متحدہ کے فیصلے کو مانیں اور کوئی ملک بھی اپنا سفارت خانہ یروشلم نہیں لے جائے گا۔اس قرارداد کے حق میں 14 ووٹ آئے جب کہ کسی ایک ملک نے بھی مخالفت نہیں کی۔امریکہ البتہ غیر حاضر رہا۔چنانچہ اس قرارداد کے فورا بعدبولیویا،چلی، کولمبیا، کوسٹا ریکا، پانامہ، یوروگوائے ، وینزیویلا، ایکواڈور ، سالوادور جیسے ممالک نے جو اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل کر چکے تھے واپس تل ابیب لے کر آ گئے۔حتی کہ امریکہ کو بھی یہ ہمت نہ ہو سکی کہ وہ اپنا سفارت خانہ یروشلم لے جائے۔دسمبر 1980میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل کے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔وہ اس سے باز رہے۔

یروشلم کے بارے میں اقوام متحدہ واضح طور پر طے کر چکی ہے کہ یہ اسرائیل کاحصہ نہیں ہے۔جنرل اسمبلی کی چار جولائی 1967 اور چودہ جولائی کی قراردادوں کے علاوہ سلامتی کونسل کی 1968کی قرارداد نمبر252میں بھی اسرائیل سے یہی کہا گیا ہے کہ وہ ناجائز اور غیر قانونی اقدامات کر کے یروشلم شہر کی حیثیت بدل رہا ہے اس سے وہ اجتناب کرے۔

1990میں اسرائیلی کی جانب سے جب مسجد اقصی میں مسلمانوں پر تشدد ہوا تو سلامتی کونسل نے 12اکتوبر کو قرارداد نمبر 672کے ذریعے اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی پامالی کا مرتکب ٹھہرایا اور کہا کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ فلسطین کا علاقہ ہے جو اس وقت مقبوضہ حیثیت میں اسرائیل کے ناجائز قبضے میں ہے۔ اس قرار داد میں اسرائیل سے کہا گیا کہ وہ اس مقبوضہ علاقے میں ان ذمہ داریوں کو ادا کرے جو اقوام متحدہ کے قوانین کے تحت مقبوضہ علاقوں کی بابت طے کر دی گئی ہیں۔

یروشلم کی حیثیت کے تعین کے لیے یہ معاملہ 2004میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے پاس بھی پیش کیا گیا تا کہ اس سے ’’ ایڈ وائزری اوپینین‘‘ لیا جا سکے۔بین الاقوامی عدالت انصاف نے کہا کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے بلکہ اسے مقبوضہ فلسطین کہا جائے گا۔کہا گیا کہ اسرائیل یہاں دیوار تعمیر نہیں کر سکتا کیونکہ یہ علاقہ اس کا نہیں ہے بلکہ مقبوضہ ہے ۔ یہ کام بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔عدالت نے تو یہ بھی کہا کہ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل اس ضمن میں مزید اقدامات کریں۔عالمی عدالت انصاف جس مقبوضہ علاقے میں ایک دیوار تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دے رہی آج امریکہ وہاں پورا سفارت خانہ لے جانا چاہتا ہے۔یہاں ا س غلط فہمی کو بھی دور کر لیا جائے کہ یہ محض ٹرمپ کا فیصلہ ہے۔یاد رہے کہ امریکہ تو 1995ہی میں یروشلم ایمبیسی ایکٹ متعارف کرا چکا ہے۔خواب پرانا ہے ،اس خواب کو تعبیر البتہ ڈونلڈ ٹرمپ دے رہے ہیں۔

اس وقت یروشلم کے معتبر ترین مسیحی رہنما ، گریک آرتھوڈوکس چرچ کے ثیو فیلوس الثالث اور درجن بھر دیگر مسیحی عمائدین نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک احتجاجی خط لکھا ہے جس میں انہیں وارننگ دی ہے کہ سفارت خانہ یروشلم منتقل کر کے آپ ناقانل تلافی نقصان اٹھائیں گے ، اور آپ کے اس اقدام سے یہاں نفرت ، تشدد میں اضافہ ہو گا اور امن اور اتحاد سے ہم مزید دور ہو جائیں گے۔


@فواد صاحب! آپ اس بارے میں کچھ کہنا پسند فرمائیں گے؟
اور یہ بھی بتائیں گے کہ اگر اسرائیل کا یہ عمل واقعی زبردستی اور دہشت گردی ہے تو امریکا نے اس حوالے سے اسرائیل پر کوئی حملہ وغیرہ کر کے اس جگہ کو آزاد کرانے کا سوچا ہے؟ جیسے افغانستان اور عراق پر حملے کیے تھے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم شیخ اشماریہ
یہ تحریر معروف کالم نگار اور وکیل جناب آصف محمود صاحب کی ہے، جو دلیل ڈاٹ پی کے پر شائع ہوئی۔
تحریر کا لنک: https://daleel.pk/2017/12/09/68855
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
اس سلسلے میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ قانون کے چیئرمین محترم ڈاکٹرمحمد مشتاق صاحب کی تحریر بھی بہت اہم ہے۔
ڈاکٹر مشتاق صاحب سیر پر پاکستان میں اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔


یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت کیوں نہیں ہوسکتا؟
----------------------------
سوشلسٹ روس کے زوال کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہمارے کئی دیسی سوشلسٹ مشرف بہ امریکا ہو کر "لبرل" کہلانے لگے۔ دیسی سوشلسٹ کم از کم فلسطینیوں کی آزادی کے حق میں اور اسرائیل و امریکا کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے تھے ۔ تاہم کایاپلٹ کے بعد "شوقیہ لبرل" بننے والے تو خیر و شر کا فرق ہی بھول گئے ہیں ۔ ان شوقیہ لبرلز کی دیکھا دیکھی "اعتدال" اور "داعیانہ اسلوب" کے مدعی مولوی صاحبان بھی اسرائیل اور امریکا کے خلاف بولنے والوں کو کوسنے دینے لگے ہیں ۔ ایک عام مغالطہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ فلسطین اور یروشلیم کی سرزمین یہود کی ہے ، اس لیے یروشلیم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنائے جانے پر اعتراض غلط ہے ۔ یہ دعوی تسلیم کرنے کےلیے دو کام کرنے پڑتے ہیں :
ایک ، اس سرزمین کی ابدی ملکیت کے متعلق یہود کا دعوی تسلیم کیا جائے ؛ اور
دو، معاصر بین الاقوامی قانون کے تمام اصول نظرانداز کیے جائیں ۔
پہلی بات اس وقت قطعی غیرمتعلق ہے ۔ بعض مسلمان اہلِ علم نے یہود کے "حقِ تولیت" کےلیے قرآن وحدیث سے استدلال کی روش بھی اختیار کی ہے۔ اس استدلال کی صحت یا عدمِ صحت پر بحث بھی اس وقت قطعی غیرمتعلق ہے ۔ اصل بحث یہ ہے کہ معاصر بین الاقوامی قانون یہود کا "حقِ ملکیت" تسلیم کرتا ہے یا نہیں ؟
پہلی جنگِ عظیم تک بین الاقوامی قانون کی رو سے کسی سرزمین پر کسی ریاست کا حقِ ملکیت تسلیم کرنے کے جو جائز طریقے تھے ، ان میں ایک طریقہ "فتح" (Conquest) تھا بشرطیکہ اس کے بعد فاتح ریاست اس مفتوحہ علاقے کا الحاق (Annexation) کرلیتی ۔ اسی اصول پر 1857ء کے بعد سے ہندوستان کو برطانوی بادشاہت کا حصہ قرار دیاگیا اور اسے "برطانوی ہند" (British India) کہا جانے لگااور برطانیہ کی ملکہ ہندوستان کی بھی ملکہ ہوگئیں۔ یہ اصول پہلی جنگِ عظیم کے بعد تک بین الاقوامی قانون میں تسلیم کیا گیا ۔ تاہم 1928ء میں امریکا اور فرانس نے آپس میں معاہدہ کرکے یہ اصول طے کیا کہ جنگ کے ذریعے علاقے فتح کرنا ناجائز ہے ۔ کچھ ہی عرصے میں دیگر ریاستوں نے بھی اس معاہدے کو ، اور اس کے ذریعے طے شدہ اصول کو ، تسلیم کرلیا ۔ چنانچہ 1928ء کے معاہدۂ پیرس کے بعد سے "فتح" کے ذریعے کسی علاقے کے "الحاق" کو بین الاقوامی قانون تسلیم نہیں کرتا ۔ اب "فاتح" ریاست کو "قابض طاقت" (Occupying Power) اور مفتوحہ علاقے کو "مقبوضہ علاقہ" (Occupied Territory) کہا جاتا ہے اور اصول یہ طے کیا گیا ہے کہ جب تک قبضہ ختم نہیں ہوجاتا ، حالتِ جنگ برقرار رہتی ہے ۔ اسی وجہ سے یہ اصول بھی مانا گیا ہے کہ قابض طاقت کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ مقبوضہ علاقے کی آبادی یا جغرافیے میں کوئی مستقل اور دوررس تبدیلی لائے کیونکہ جلد یا بدیر اس قابض طاقت کو اس مقبوضہ علاقے سے نکلنا پڑے گا ۔
تاریخی طور پر مسلم ہے کہ یہود کو رومیوں نے پہلی صدی عیسوی میں فلسطین سے نکال دیا تھااور اس وقت کے بین الاقوامی عرف اور قانون کے مطابق اس سرزمین پر فاتح طاقت ، یعنی رومی سلطنت ، کی ملکیت قائم ہوگئی۔ ساتویں صدی عیسوی میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اس کی ملکیت مسلمانوں کو منتقل ہوئی اور یہ ملکیت بیسویں صدی عیسوی کی ابتدا تک برقرا رہی ۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد اس علاقے پر برطانیہ کا قبضہ ہوا لیکن برطانیہ نے اس پر اپنا حقِ ملکیت قائم نہیں کیا بلکہ اسے "امانت" کے طور پر قبول کیا ۔ جنگ کے بعد وجود میں لائی جانے والی تنظیم "مجلسِ اقوام" (League of Nations) نے اس علاقے کو ترقی دینے اور یہاں کے لوگوں کو اپنی حکومت سنبھالنے کے لائق بنانے ، بہ الفاظِ دیگر "مہذب بنانے" ، کی ذمہ داری (Mandate)برطانیہ کو دے دی ۔ 1948ء تک یہ علاقہ برطانیہ کے پاس امانت کے طور پر ہی رہا اور برطانیہ نے نہ صرف یہ کہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی بلکہ اس امانت میں بھرپور خیانت بھی کی ۔ ٍ1948ء میں برطانیہ نے مجلسِ اقوام کی وارث تنظیم ، یعنی اقوامِ متحدہِ کو کہا کہ وہ مزید اس امانت کا بار نہیں اٹھا سکتا ۔ اقوامِ متحدہ نے یہ علاقہ برطانیہ سے واپس لے کر اسے یہود اور عربوں کے درمیان تقسیم کردیا۔ اقوامِ متحدہ ہ کو اس تقسیم کا ختیار تھا یا نہیں اور کیا یہ تقسیم منصفانہ اور جائز تھی یا نہیں؟ اس پر تفصیلی بحث کی جاسکتی ہے ۔ تاہم اگر اس بحث کو نظرانداز بھی کیا جائے تو یہ دو حقیقتیں بہرحال مسلم ہیں:
ایک یہ کہ 1948ء میں جس سرزمین پر "اسرائیل "کی ریاست قائم ہوئی اس میں یروشلیم شامل نہیں تھا؛
دوسری یہ کہ یروشلیم سمیت جن علاقوں پر اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں قبضہ کیا وہ اسرائیل کا حصہ نہیں ، بلکہ اس کے "مقبوضہ علاقے "ہیں اور 1928ء کے معاہدۂ پیرس کے بعد سے بین الاقوامی قانون مقبوضہ علاقے پر قابض طاقت کا حقِ ملکیت تسلیم نہیں کرتا۔
چنانچہ اسرائیل یروشلیم اور دیگر مقبوضہ علاقوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لاسکتا ؛ نہ وہ وہاں آبادکاری کرسکتا ہے ، نہ ہی وہاں ایسی دیوار تعمیر کرسکتا ہے جو اس علاقے کو مستقل طور پر تقسیم کردے ۔ یہ بات 2003ء میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف (International Court of Justice) نے اپنے فیصلے میں تفصیلی طور پر واضح کی ہے۔ اس وجہ سے بین الاقوامی قانون کی رو سے قطعی طور پر ناجائز ہے کہ یروشلیم یا مقبوضہ علاقے کے کسی بھی حصے کو اسرائیل کا دارالحکومت بنایا جائے۔
کاش "شوقیہ لبرلز " کو کوئی فیض اور جالب کے اشعار ہی یاد دلادے ۔ یہ ٹھیک ہوجائیں تو "داعیانہ اسلوب" کے مدعی مولوی خود بخود سدھر جائیں گے۔
مضمون کا لنک
https://daleel.pk/2017/12/08/68842

ڈاکٹر مشتاق صاحب کی فیس بک پروفائل کا لنک
https://www.facebook.com/MMushtaqYusufzai
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
محترم ڈاکٹر مشتاق صاحب نے اس سلسلے میں ایک اور تحریر کے ذریعے کل مزید توضیح فرمائی تھی۔

یروشلم میں امریکی قونصل خانہ : چند اہم قانونی نکات
---------------------------
بعض احباب نے توجہ دلائی ہے کہ چند اہلِ علم کہہ رہے ہیں کہ چونکہ یروشلم میں امریکی قونصل خانہ پہلے ہی سے کام کررہا ہے تو سفارت خانے کی منتقلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ بات کئی وجوہ سے غلط ہے :
پہلے تو یہ نوٹ کریں کہ کسی علاقے میں کوئی ریاست قونصل خانہ اس لیے بناتی ہے کہ وہاں اپنے شہریوں کی مدد کرے اور ان کو پیش آمدہ مسائل کے حل کی کوشش کرے۔ اس مقصد سے قونصل خانہ کسی ایسی جگہ بھی بنایا جاسکتا ہے جو متعلقہ ریاست کا 'مقبوضہ 'ہو ، بالخصوص جب قبضہ 'طویل المدت' (prolonged occupation) ہو اور اس کے فوری خاتمے کا بظاہر امکان نظر نہ آرہا ہو۔ یروشلم پر اسرائیلی قبضے کو پچاس سال سے زائد ہوگئے ہیں۔ اس لیے مقبوضہ علاقے میں قونصل خانے کی موجودگی کا لازماً مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس علاقے پر قابض ریاست کے قبضے کو جائز سمجھا جارہا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یروشلم میں امریکی قونصل خانہ 1844ء میں بنایا گیا ہے ، یعنی اسرائیل کو وجود میں آنے بھی ایک سو چار سال قبل ! 1912ء میں اسے موجودہ عمارت میں منتقل کیا گیا جو مشرقی یروشلم (بیت المقدس) میں نہیں بلکہ مغربی یروشلم میں ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ 1995ء میں امریکی کانگرس نے یروشلم سفارت خانہ ایکٹ منظور کیا جس کی رو سے صدر کو کہا گیا کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت منوانے کےلیے اقدامات اٹھائے اور امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کرے۔ بل کلنٹن، جارج بش جونیئر اور باراک اوباما نے اس قانون کے خلاف "صدارتی تحفظ" (Presidential Waiver)استعمال کیا تھا۔ واضح رہے کہ امریکی قانون کی دفعہ 6447 کی ذیلی دفعہ اے کے تحت امریکی صدر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ 180 تک کسی قانون پر عمل درآمد اس بنیاد پر روک دے کہ اس سے امریکا کے قومی مفادات کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ اس قانون کی ذیلی دفعہ سی کے تحت اس مدت میں اسی بنیاد پر وہ مزید اضافہ بھی کرسکتا ہے۔ اسی قانون کو استعمال کرتے ہوئے 1995ء سے اس قانون پر عمل درآمد نہیں ہوسکا تھا۔ اس سال جون 2017ء میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اس waiver کو ختم کردیا اور اسی کے نتیجے میں اب 6 دسمبر 2017ء کو سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے اور یروشلم کو اسرائیل کا 'غیرمنقسم' دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ چنانچہ اس سے قبل قونصل خانے کی موجودگی کے باوجود امریکا نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم نہیں کیا تھا۔
آخری بات یہ ہے کہ سوال یہ نہیں ہے کہ امریکا یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت مانتا ہے یا نہیں ، بلکہ یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون کی رو سے یروشلم اسرائیل کا حصہ ہے یا نہیں ؟ اور اس سوال کا حتمی جواب بین الاقوامی عدالتِ انصاف (International Court of Justice) نے 2003ء میں دیا ہوا ہے جس کی رو سے اس علاقے پر اسرائیل کی حیثیت قابض طاقت کی ہے اور یہ اسرائیل کا حصہ نہیں ہے۔
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


امريکی وزير خارجہ ريکس ٹلرسن کا بيان


امریکہ دونوں مقدس مقامات کی موجودہ حیثیت برقرار رکھنے پر پختہ یقین رکھتا ہے اور یہ امر مقدس مقامات کے اطرف کے ممالک کے جائز کردار کو بھی تسلیم کرتا ہے۔

اگر فریقین دو ریاستی حل پر رضامندی کیلئے تیار ہیں تو امریکہ بھی اس کا حمایتی ہے۔ امریکی حکومت یروشلم کی حتمی حیثیت کے تعین کا معاملہ دونوں فریقین پر چھوڑتی ہے کہ وہ اسے مذاکرات کے ذریعے طے کر سکتے ہیں۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

https://www.instagram.com/doturdu/

https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

"اسرائیل اور فلسطین دونوں فریقین کیلئے قابل قبول امن معاہدے میں مددگار ہونے کیلئے امریکہ اپنے عزم پر کاربند ہے۔"

صدر امریکہ

https://www.whitehouse.gov/the-press-office/2017/12/06/statement-president-trump-jerusalem

یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ کسی بھی لحاظ سے دیرپا امن معاہدے کیلئے ہماری معاونت کے مضبوط عزم سے انحراف کی عکاسی نہیں کرتا۔ ہم ایک ایسا معاہدہ چاہتے ہیں جو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کے بھرپور مفاد میں ہے

 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
امریکہ دونوں مقدس مقامات کی موجودہ حیثیت برقرار رکھنے پر پختہ یقین رکھتا ہے اور یہ امر مقدس مقامات کے اطرف کے ممالک کے جائز کردار کو بھی تسلیم کرتا ہے
امریکی حکومت یروشلم کی حتمی حیثیت کے تعین کا معاملہ دونوں فریقین پر چھوڑتی ہے
اور
یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ
یہ کس حکیم شریف کی سمجھ میں آسکتا ہے؟
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
سوال گندم اور جواب چنا۔
 
Top