• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امير محمد بن إسماعيل الصنعانيؒ

شمولیت
اپریل 05، 2020
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
45
محدث الأمير محمد بن إسماعيل الصنعانيؒ

1099ھ تا 1182ھ

1 نام ونسب
محمد بن إسماعيل بن صلاح بن محمد بن علي بن حفظ الدين بن شرف الدين بن صلاح بن الحسن بن المهدي بن محمد بن إدريس بن علي بن محمد بن أحمد بن يحي بن حمزة بن سليمان بن حمزة بن الحسن بن عبد الرحمن بن يحي بن عبد الله بن الحسين بن القاسم بن إبراهيم بن إسماعيل بن الحسن بن الحسن بن علي بن أبي طالبؓ . الكحلاني ثم الصنعاني۔ المعروف بالأمير. الإمام الكبير ۔ المجتهد المطلق۔

2 ولادت اور وطن
جمرات نصف جمادي الآخرة سنة 1099ھ بمطابق 1687ء میں ”كحلان یمن“ میں پیدا ہوئے ۔ پھر سنة 1107ھ میں اپنے والد کے پاس ”صنعاء“ جو یمن کا دارالحکومت ہے منتقل ہو گئے۔

3 اساتذہ وشیوخ
1۔ والد إسماعيل بن صلاح الأمير صنعانی۔ م 1146ھ ، ان سے علم النحو ۔ الفقه ۔ علم الفرائض پڑھا۔
2۔ الشيخ المقرئ الحسن بن حسين شاجور، الصنعاني۔
3۔ زيد بن محمد الحسن۔ م 1123ھ۔
4۔ سالم بن عبد الله بن سالم البصري۔ م 1134ھ۔ ”علماء الحرمين“ ۔ان سے یہ کتب پڑھی ”مسند أحمد“۔ “صحيح مسلم“ اور ”إحياء علوم الدين“۔
5۔ صلاح بن الحسين الأخفشي۔ م 1142ھ۔
6۔ أبو طاهر إبراهيم بن حسن الكردي المدني۔ م 1101ھ۔
7۔ عبد الله بن علي الوزير۔ م 1147ھ۔
8۔ عبد الرحمن بن أسلم. علماء الحرمين الصنعاني۔
9۔ عبد الرحمن بن أبي الغيث ”خطيب المسجد النبوي“۔ ان سے الصحيحين وغيرهما پڑھ کر إجازة لی۔
10۔ عبد الخالق بن زيد المزجاجي ۔ صعناء۔ م 1152ھ۔
11۔ علي بن محمد العني۔ م 1139ھ. ان سے النحو ۔ المنطق ۔ الفقه پڑھی۔
12۔ الحافظ أبو الحسن محمد بن عبد الهادي السندھي ، ”المدينة المنورة“۔ م 1138ھ۔
13۔ شيخ علامة محمد بن أحمد الأسدي۔
14۔ هاشم بن يحىى الشامي۔ م 1158ھ۔
15۔ محدث محمد حیات السندھی ثم مدنی۔ م1163ھ۔

4 معاصرین علماء
مندرجہ ذیل معاصر علماء السید محمد بن اسماعیل الصنعانیؒ کے استاذ محدث محمد حیات السندھیؒ کے شاگرد بھی تھے۔”1۔ شیخ محمد فاخر زائر الہٰ آبادیؒ سلفی۔ م 1164ھ۔ 2۔ شیخ محمد بن عبدالوہابؒ۔ م 1206ھ۔ 3۔ سید غلام علی آزاد بلگرامیؒ۔ م 1200ھ۔“ نیز ۔ 4۔ شاہ ولی اللہ دہلویؒ. م 1172ھ۔

5 تلامذه
1۔ العلامة عبد القادر الناصر۔ م 1199ھ۔ ”شيخ الشوكاني ، الإمام المحدث الحافظ ۔ المسند المجتهد المطلق"۔
2۔ القاضي العلامة أحمد بن محمد قاطن۔ م 1199ھ۔
3۔ القاضي العلامة أحمد بن صالح بن أبي الرجال۔ م 1092ھ۔
4۔ العلامة الحسن بن إسحاق المهدي۔ م 1160ھ۔
5۔ العلامة محمد بن إسحاق المحدي۔ م 1167ھ۔
6۔ إبراهيم بن محمد بن إسماعيل۔ م 1213ھ۔
7۔ عبد الله بن محمد بن إسماعيل۔ م 1142ھ۔
8۔ القاسم بن محمد بن إسماعيل۔ م 1246ھ۔

6 علمی مقام
امیر محمد بن اسماعیل صنعانیؒ محدث ۔ اسما الرجال کے ماہر ۔ فقیہ اور اسلامی شاعر تھے ۔ مجدین اسلام اور داعوین میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔ آپ نے یمن کے علماء اور اصحاب علوم و فنون سے اپنا جیب داماں بھر لیا ۔ پھر مکہ اور مدینہ منورہ میں علمی رحلت فرمائی اور وہاں کے اکابر علماء سے فن حدیث میں درک حاصل کیا یہاں تک کہ اپنے معاصرین سے ہر اعتبار سے فائق ہو گئے اور صنعاء میں ان کے علم فضل کا سکہ رواں ہو گیا اللّٰه تعالیٰ نے علوم دین میں انہیں مجتہدانہ بصیرت عطا فرمائی ۔ وہ کتاب و سنت کے دلائل سے قائل ہوتے اور کتاب و سنت کے دلائل سے مخاطب کو قائل کرتے۔ تقلید سے سخت متنفر تھے قرآن و حدیث کے بغیر فقہاء کی کسی بات کو تسلیم نہ کرتے۔

7 شاعر اسلام
امیر محمد بن اسماعیل صنعانیؒ سخن ور اور سخن شناس تھے ان کا ادبی ذوق قابلِ رشک تھا وہ عمدہ شعر کہہ لیتے تھے وہ علمی مباحث اور مذاکرے میں معاصرین پر برتر مقام رکھتے تھے ۔ آپ نے شیخ محمد بن عبدالوہابؒ کی دعوت پر ایک وجد آفرین قصیدہ لکھا تھا۔

8 ابتلاء و آزمائش
امیر محمد بن اسماعیل صنعانیؒ کو تقلید اور شخصیت پرشتی سے بغاوت کی وجہ سے اپنے زمانہِ میں بہت سی تکالیف اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ مخالفین نے اس سلسلہ میں ان کے خلاف حکومت کے باب عالی پر دستک دی انہیں گرفتار کرایا لیکن وہ ایک پر عزم ۔ بااعتماد اور پر یقین داعی کی طرح زمانے کی ظلمت و تاریکی میں قرآن حدیث کی شمع فروزاں رکھتے رہے۔ اللّٰه تعالیٰ نے مخالفین کے شر سے انہیں ہمیشہ محفوظ رکھا۔

9 جامع صنعاء میں خطابت
یمن کے حکمران ”امام منصور“ نے امیر سید محمد بن اسماعیلؒ کو صنعاء کی جامع مسجد میں خطیب مقرر کیا وہاں آپ تقریر ۔ تدریس ۔ افتاء اور تصانیف کے ذریعے قرآن حدیث کی تعلیمات پھلاتے رہے اور حقائق حق اور ابطال باطل میں کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے ان کے اخلاص کا یہ عالم تھا کہ دین کے سلسلہ میں اللّٰه کی رضا و خوشنودی ہمیشہ ان کے پیش نظر رہی ۔ لوگوں کی رضا اور عدم رضا کبھی ان پر اثر انداز نہ ہوئی۔

10 دعوت سلفیہ
امیر محمد بن اسماعیل صنعانیؒ ایک عظیم داعی الیٰ اللّٰہ تھے آپ کی وجہ سے اللّٰه تعالیٰ نے مسلک اہل حدیث اور فکر اہل حدیث کو خوب فروغ دیا عقیدہ سلف کی تبلیغ اور فکر اہل حدیث کے فروغ میں ان کا کردار مشالی ہے ۔ رفع الیدین اور دیگر سنتوں کی ادائیگی میں وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے ۔ بے شمار خلق اللّٰه نے ان سے دینی استفادہ کیا اور ان کے فیضان سے مالا مال ہوئے ۔ بے شمار اہل علم نے ان سے کتب پڑھیں اور ان کے اجتہادات کو عملی جامہ پہنایا حالانکہ وہ دور پُر فتن اور شر کا دور تھا. اللّٰه تعالیٰ نے انہیں ہمیشہ کامیابی سے ہمکنار کیا۔

11 توحید و سنت
”امیر محمد بن اسماعیلؒ صنعانی ۔ شیخ محمد بن عبدالوہابؒ سے ان کی توحید و سنت کی اشاعت اور عقیدہ سلف صالحین کے فروغ سے نہ صرف متاثر تھے بلکہ ان کی دعوت اور شان میں بڑا فاضلانہ اور وجد آفرین قصیدہ لکھا جو اہل علم میں بہت مقبول ہوا ۔ اس قصیدہ میں شیخ کی مداح اور بدعات کی برائی اور وحدة الوجود کی پُر زور تردید اور بہت سی مفید باتیں ہیں“ ۔ امیر محمد بن اسماعیل صنعانیؒ کو شیخ کی دعوت سے زیادہ خوشی اس لیے ہوئی کہ وہ اس سے پہلے اپنے کو اس باب میں منفرد خیال کرتے تھے ۔ شیخ کو امیر محمد بن اسماعیل صنعانیؒ کے قصیدے اور تائید سے بڑی تقویت ہوئی بعض رسالوں میں انہوں نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ مسعود عالم ندویؒ لکھتے ہیں ۔ ”شیخ کے پیش رو اور ہم مشرب معاصر امیر محمد بن اسماعیل صنعانیؒ بت پرشتوں ”عباد الصنام“اور قبر پرشتوں ”عباد قبور“ کے درمیان بالکل فرق نہیں کرتے ۔ شوکانی نے ان کا رجوع نقل کیا ہے عباد قبور پر اس تشدد کی سختی سے مخالفت کی ہے ۔ سلیمان بن سحمان نے اس رجوع کی پُر زور تردید کی ہے اور یہی قرین قیاس ہے ۔ شیخ محمد بن عبدالوہابؒ بھی امیر محمد بن اسماعیل صنعانیؒ کے ہم خیال معلوم ہوتے ہیں البتہ اتنا فرق ہے کہ شیخ اتمام حجت شرط قرار دیتے ہیں“۔ محمد بن عبدالوہاب۔

12 وفات اور تدفین
علم کا یہ نیر تاباں تحقیق و دانش کا یہ پہاڑ اور توحید سنت کا یہ بحر بے کنار شبعان 1182ھ بمطابق 1768ء میں ”صنعاء یمن“ میں وفات پا گیا ۔ امیر محمد بن اسماعیل صنعانی کی وفات کے وقت عمر 83 سال تھی۔

13 کیٹلاگ
1۔ ”سبل السلام شرح بلوغ المرام“۔ اس شرح میں الأمير محمد بن إسماعيل الصنعاني نے احادیث کو ایک فقہی قانون کی حیثیت سے پیش کیا۔ یہ مصر سے چار جلدوں میں شائع ہو چکی ہے ۔ نیز اس کا اردو ترجمہ چھپ چکا ہے۔
2۔ منحة الغفار جعلها حاشية على ضوء النهارللحسن بن أحمد الجلال۔
3۔ العدة جعلها حاشية على شرح العمدة لابن دقيق العيد۔
4۔ شرح الجامع الصغير للسيوطي في أربعة مجلدات شرحه قبل أن يقف على شرح المناوي۔
5۔ شرح التنقيح في علوم الحديث للسيد الإمام محمد بن إبراهيم الوزير وسماه التوضيح۔
6۔ منظومة الكافل لابن مهران في الأصول وشرحها شرحا مفيدا۔
7۔ تطهير الاعتقاد من أدران الإلحاد۔
8۔ لفحات الوجد من فعلات أهل نجد۔
9۔ الروض النادي في سيرة الإمام الهادي۔
10۔توضيح الأفكار لمعاني تنقيح الأنظار لصاحب الأصل محمد بن إبراهيم الوزير۔
11۔ بغية الآمل نظم الكافل في أصول الفقه مخطوطة۔
12۔ إجابة السائل شرح بغية الآمل في أصول الفقه۔

14 حوالہ جات
1۔سبل السلام شرح بلوغ المرام مترجم۔
2۔ محمد بن عبدالوہاب ۔ مسعود عالم ندوی۔
3۔ لمسلمون الشيخ / محمد بن اسماعيل الأمير الصنعاني۔
4۔ تاریخ حدیث و محدثین ۔ پروفیسر محمد ابوھو، ازہری ۔ پروفیسر حریری۔
5۔ تاریخ اہلِ حدیث ۔ ڈاکٹر سلمان اظہر۔
6۔ تحریک اہلِ حدیث تاریخ کے آئینے میں۔ قاضی اسلم سیف۔
7۔ الأعلام خیر الدین للزركلي ۔ ادرالعلم للملایین بروت۔
8۔ موقع المكتبة الشاملة نسخة محفوظة30 سبتمبر 2017 على موقع واي باك مشين۔
9۔ موقع السنة: الوهّابية..محمد بن عبد الوهّاب تاريخ الوصول 22 ديسمبر 2009.[وصلة مكسورة] نسخة محفوظة 16 فبراير 2017 على موقع واي باك مشين۔
10۔ منظومة بغية الآمل لابن الأمير الصنعاني۔
11۔ إجابة السائل شرح بغية الآمل، محمد بن إسماعيل الأمير الصنعاني ج1 ص22 مؤسسة الرسالة بيروت. الطبعة الأولى، 1986 تحقيق: القاضي حسين بن أحمد السياغي والدكتور حسن محمد مقبولي الأهدل نسخة محفوظة 11 فبراير 2017 على موقع واي باك مشين۔
 
شمولیت
اپریل 05، 2020
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
45
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔
1۔ ”دستاویز تذکرةالمحدثین“
2۔ ”تذکرہ علمائے اسلام عرب و عجم ، قدیم و جدید“
از ملک سکندر حیات نسوآنہ۔

ان کتب کا لنک محدث فورم پر موجود ہے۔
 
Top