• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امیرالمومینن یزید رحمہ اللہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
یزید کی شان میں یہ قصیدہ گوئی اہل سنت ع جماعت اور علماے سلف کے انداز فکر سے میل نہیں کھاتی؛ہمیں اس سے محبت ہے ،نہ نفرت ؛اس کا معاملہ خدا کے سپرد ہے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
یزید کی شان میں یہ قصیدہ گوئی اہل سنت ع جماعت اور علماے سلف کے انداز فکر سے میل نہیں کھاتی؛ہمیں اس سے محبت ہے ،نہ نفرت ؛اس کا معاملہ خدا کے سپرد ہے۔
لگتا ہے آپ نے علماء سلف کے اناز فکر کو صحیح طور پر پڑھا نہیں-
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
یزید کی شان میں یہ قصیدہ گوئی اہل سنت ع جماعت اور علماے سلف کے انداز فکر سے میل نہیں کھاتی؛ہمیں اس سے محبت ہے ،نہ نفرت ؛اس کا معاملہ خدا کے سپرد ہے۔
اس کی ساتھ دلیل بھی دو کے جو شعر لکھے ہیں ہوہ غلط ہیں
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
سلف سے خلف تک’’اہل سنت والجماعت‘‘یزید سے نفرت کرتے آئے ہیں۔۔ہم بھی نفرت کرتے ہیں۔
انتظامیہ سے استدعا ہے کہ’’اس قسم‘‘کے موضوعات کو داخل دفتر مت ہونے دیا کریں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
فی الحال ’‘ الاسلام سوال و جواب ’‘ سے ایک فتوی پیش خدمت ہے ،لائبریری سے دور ہونے کے سبب اس موضوع پر مزید کچھ نہیں لکھ سکتا؛

یزید بن معاویہ کے بارہ میں ہماراموقف
میں نے یذيد بن معاویہ کے بارہ میں سنا ہے کہ وہ کسی زمانے میں مسلمانوں کا خلیفہ رہا ہے ، اوروہ بہت نشئ‏ اوربے کار شخص اورحقیقی مسلمان نہيں تھا ،
توکیا یہ صحیح ہے ؟
آپ سے گزارش ہے کہ آپ مجھے تاریخی حوالہ سے بتائيں ۔

الجواب
الحمد للہ
نام ونسب :
اس کا نام یزید بن معاویہ بن ابوسفیان بن حرب بن امیہ الاموی الدمشقی تھا ۔

امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :

یزید قسطنطنیہ پرحملہ کرنے والے لشکر کا امیر تھا جس میں ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ جیسے صحابی شامل تھے ، اس کے والد امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے ولی عھد بنایا اور اپنے والد کی وفات کے بعد تیس برس کی عمر کے میں رجب ساٹھ ھجری 60 ھ میں زمام اقدار ہاتھ میں لی اورتقریبا چار برس سے کم حکومت کی ۔

اوریزید ایسے لوگوں میں سے ہے جنہیں نہ توہم برا کہتے اورنہ ہی اس سے محبت کرتےہیں ، اس طرح کے کئ ایک خلیفہ اموی اورعباسی دورحکومت میں پاۓ گئےہيں ، اور اسی طرح ارد گرد کے بادشاہ بھی بلکہ کچھ تو ایسے بھی تھے جو يزید سے بد تر تھے ۔

اس کی شان و شوکت عظیم اس لیے ہوگئ کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے انچاس 49 برس بعد حکمران بنا جو کہ عھد قریب ہے اورصحابہ کرام موجود تھے مثلا عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہ جو کہ اس سے اوراس کے باب دادا سے بھی زیادہ اس معاملہ کے مستحق تھے ۔

اس نے اپنی حکومت کا آغاز حسین رضي اللہ تعالی عنہ کی شھادت سے اوراس کی حکومت کا اختتام واقعہ حرہ سے ہوا ، تولوگ اسے ناپسند کرنے لگے اس کی عمرمیں برکت نہیں پڑی ، اورحسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد کئ ایک لوگوں نے اس کے خلاف اللہ تعالی کے لیے خروج کیا مثلا اھل مدینہ اور ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ ۔ دیکھیں : سیراعلام النبلاء ( 4 / 38 ) ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے یزيد بن معاویہ کے بارہ میں موقف بیان کرتے ہوۓ کہا ہے :
و
قد بيّن شيخ الإسلام ابن تيمية الموقف من يزيد بن معاوية فقال :
افترق الناس في يزيد بن معاوية بن أبى سفيان ثلاث فرق ، طرفان ووسط .

فأحد الطرفين قالوا : إنه كان كافراً منافقاً ، وأنه سعى في قتل سبط رسول الله تشفِّياً من رسول الله وانتقاما منه ، وأخذاً بثأر جده عتبة وأخي جده شيبة ، وخاله الوليد بن عتبة وغيرهم ممن قتلهم أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم بيد على بن أبى طالب وغيره يوم بدر وغيرها . وأشياء من هذا النمط وهذا القول سهل على الرافضة الذين يكفرون أبا بكر وعمر وعثمان فتكفير يزيد أسهل بكثير .

والطرف الثاني : يظنون أنه كان رجلًا صالحاً وإمام عدل ، وأنه كان من الصحابة الذين ولدوا على عهد النبي وحمله على يديه وبرَّك عليه . وربما فضَّله بعضهم على أبى بكر وعمر ، وربما جعله بعضهم نبيَّا ...

وكلا القولين ظاهر البطلان عند من له أدنى عقل وعلم بالأمور وسِيَر المتقدمين ، ولهذا لا ينسب إلى أحد من أهل العلم المعروفين بالسنة ولا إلى ذي عقل من العقلاء الذين لهم رأى وخبرة

والقول الثالث : أنه كان ملكا من ملوك المسلمين له حسنات وسيئات ولم يولد إلا في خلافة عثمان ، ولم يكن كافرا ، ولكن جرى بسببه ما جرى من مصرع الحسين وفعل ما فعل بأهل الحرة ، ولم يكن صاحبا ولا من أولياء الله الصالحين ، وهذا قول عامة أهل العقل والعلم والسنة والجماعة .

ثم افترقوا ثلاث فرق فرقة لعنته وفرقة أحبته وفرقة لا تسبه ولا تحبه وهذا هو المنصوص عن الإمام أحمد وعليه المقتصدون من أصحابه وغيرهم من جميع المسلمين قال صالح بن أحمد قلت لأبي : إن قوما يقولون : إنهم يحبون يزيد فقال يا بني وهل يحب يزيد أحدٌ يؤمن بالله واليوم الآخر !! فقلت يا أبت فلماذا لا تلعنه ؟ فقال : يا بني ومتى رأيت أباك يلعن أحداً .

وقال أبو محمد المقدسي لما سئل عن يزيد فيما بلغني لا يُسَب ولا يُحَب وقال : وبلغنى أيضا أن جدنا أبا عبد الله بن تيمية سئل عن يزيد فقال : لاننقص فيه ولا نزيد وهذا أعدل الأقوال فيه وفي أمثاله وأحسنها...أهـ

مجموع فتاوى شيخ الإسلام ج/4 ص/481-484 .


یزيد بن معاویہ بن ابی سفیان کے بارہ میں لوگوں کے تین گروہ ہيں : ایک توحد سے بڑھا ہوا اوردوسرے بالکل ہی نیچے گرا ہوا اورایک گروہ درمیان میں ہے ۔

جولوگ توافراط اورتفریط سے کام لینے والے دو گروہ ہیں ان میں سے ایک تو کہتا ہے کہ یزید بن معاویہ کافر اورمنافق ہے ، اس نے نواسہ رسول حسین رضي اللہ تعالی عنہ کو قتل کرکے اپنے بڑوں عتبہ اورشیبہ اور ولید بن عتبہ وغیرہ جنہیں جنگ بدر میں علی بن ابی طالب اور دوسرے صحابہ نے قتل کیا تھا ان کا انتقام اور بدلہ لیا ہے ۔

تواس طرح کی باتیں اوریہ قول رافضیوں اورشیعہ کی ہیں جو ابوبکر و عمر اور عثمان رضي اللہ تعالی عنہم کو کافر کہتے ہیں توان کے ہاں یزید کو کافرقرار دینا تواس سے بھی زيادہ اسان کام ہے ۔

اور اس کے مقابلہ میں دوسرا گروہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ ایک نیک اورصالح شخص اورعادل حکمران تھا ، اور وہ ان صحابہ کرام میں سے تھا جونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پیدا ہوۓ اوراسے اپنے ھاتھوں میں اٹھایااور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کےلیے برکت کی دعا فرمائ ، اوربعض اوقات تووہ اسے ابوبکر ، عمر رضي اللہ تعالی عنہما سے سے افضل قرار دیتے ہیں ، اورلگتا ہے کہ بعض تو اسے نبی ہی بنا ڈاليں ۔

تو یہ دونوں گروہ اور ان کےقول صحیح نہیں اورہراس شخص کے لیے اس کا باطل ہونا نظرآتا ہے جسے تھوڑی سی بھی عقل ہے اور وہ تھوڑ ابہت تاريخ کو جانتا ہے وہ اسے باطل ہی کہے گا ، تواسی لیے معروف اہل علم جو کہ سنت پرعمل کرنے والے ہیں کسی سے بھی یہ قول مروی نہیں اور نہ ہی کسی کی طرف منسوب ہی کیا جاتا ہے ، اوراسی طرح عقل وشعور رکھنے والوں کی طرف بھی یہ قول منسوب نہيں ۔

اورتیسرا قول یا گروہ یہ ہے کہ :

یزید مسلمان حکمرانوں میں سے ایک حکمران تھا اس کی برائیاں اور اچھایاں دونوں ہيں ، اور اس کی ولادت بھی عثمان رضي اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں ہوئ ہے ، اور وہ کافر نہيں ، لیکن اسی کے (دور میں )اور موقف کے سبب سیدنا حسین رضي اللہ تعالی عنہ کے ساتھ جوکچھ ہوا اوروہ شھید ہوۓ ، اس نے اہل حرہ کے ساتھ جو کیا سو کیا ، اوروہ نہ توصحابی تھا اور نہ ہی اللہ تعالی کا ولی ، یہ قول ہی عام اہل علم و عقل اوراھل سنت والجماعت کا ہے ۔

لوگ تین فرقوں میں بٹے گۓ ہیں ایک گروہ تواس پرسب وشتم اور لعنت کرتا اور دوسرا اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے اورتیسرا نہ تواس سے محبت اورنہ ہی اس پر سب وشتم کرتا ہے ، امام احمد رحمہ اللہ تعالی اوراس کے اصحاب وغیرہ سے یہی منقول ہے ۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی کے بیٹے صالح بن احمد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے کہا کہ : کچھ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ ہم یزید سے محبت کرتے ہیں ، توانہوں نے جواب دیا کہ اے بیٹے کیا یزید کسی سے بھی جو اللہ تعالی اوریوم آخرت پرایمان لایا ہو سے محبت کرتا ہے !!

تو میں نے کہا تو پھر آپ اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے ؟ توانہوں نےجواب دیا بیٹے تونےاپنے باپ کو کب دیکھا کہ وہ کسی پرلعنت کرتا ہو ۔

اورابومحمد المقدسی سے جب یزيد کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا کہ (پہلے علماء سے) ’‘جو کچھ مجھ تک پہنچا ہے کہ نہ تواسے سب وشتم کیا جاۓ اور نہ ہی اس سے محبت کی جاۓ ،
اورکہنے لگے : مجھے یہ بھی پہنچا ہے کہ کہ ہمارے دادا ابوعبداللہ بن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی سے یزيد کےبارہ میں سوال کیا گیا توانہوں نے جواب دیا :
ہم نہ تواس میں کچھ کمی کرتےہیں اورنہ ہی زيادتی ،۔

اقوال میں سب سے زيادہ عدل والا اوراچھا و بہتر قول یہی ہے ۔ ا ھـ

مجموع الفتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ ( 4 / 481 - 484 ) ۔

واللہ تعالی اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد
 
Last edited:

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
فی الحال ’‘ الاسلام سوال و جواب ’‘ سے ایک فتوی پیش خدمت ہے ،لائبریری سے دور ہونے کے سبب اس موضوع پر مزید کچھ نہیں لکھ سکتا؛

یزید بن معاویہ کے بارہ میں ہماراموقف
میں نے یذيد بن معاویہ کے بارہ میں سنا ہے کہ وہ کسی زمانے میں مسلمانوں کا خلیفہ رہا ہے ، اوروہ بہت نشئ‏ اوربے کار شخص اورحقیقی مسلمان نہيں تھا ،
توکیا یہ صحیح ہے ؟
آپ سے گزارش ہے کہ آپ مجھے تاریخی حوالہ سے بتائيں ۔

الجواب
الحمد للہ
نام ونسب :
اس کا نام یزید بن معاویہ بن ابوسفیان بن حرب بن امیہ الاموی الدمشقی تھا ۔

امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :

یزید قسطنطنیہ پرحملہ کرنے والے لشکر کا امیر تھا جس میں ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ جیسے صحابی شامل تھے ، اس کے والد امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے ولی عھد بنایا اور اپنے والد کی وفات کے بعد تیس برس کی عمر کے میں رجب ساٹھ ھجری 60 ھ میں زمام اقدار ہاتھ میں لی اورتقریبا چار برس سے کم حکومت کی ۔

اوریزید ایسے لوگوں میں سے ہے جنہیں نہ توہم برا کہتے اورنہ ہی اس سے محبت کرتےہیں ، اس طرح کے کئ ایک خلیفہ اموی اورعباسی دورحکومت میں پاۓ گئےہيں ، اور اسی طرح ارد گرد کے بادشاہ بھی بلکہ کچھ تو ایسے بھی تھے جو يزید سے بد تر تھے ۔

اس کی شان و شوکت عظیم اس لیے ہوگئ کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے انچاس 49 برس بعد حکمران بنا جو کہ عھد قریب ہے اورصحابہ کرام موجود تھے مثلا عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہ جو کہ اس سے اوراس کے باب دادا سے بھی زیادہ اس معاملہ کے مستحق تھے ۔

اس نے اپنی حکومت کا آغاز حسین رضي اللہ تعالی عنہ کی شھادت سے اوراس کی حکومت کا اختتام واقعہ حرہ سے ہوا ، تولوگ اسے ناپسند کرنے لگے اس کی عمرمیں برکت نہیں پڑی ، اورحسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد کئ ایک لوگوں نے اس کے خلاف اللہ تعالی کے لیے خروج کیا مثلا اھل مدینہ اور ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ ۔ دیکھیں : سیراعلام النبلاء ( 4 / 38 ) ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے یزيد بن معاویہ کے بارہ میں موقف بیان کرتے ہوۓ کہا ہے :
و
قد بيّن شيخ الإسلام ابن تيمية الموقف من يزيد بن معاوية فقال :
افترق الناس في يزيد بن معاوية بن أبى سفيان ثلاث فرق ، طرفان ووسط .

فأحد الطرفين قالوا : إنه كان كافراً منافقاً ، وأنه سعى في قتل سبط رسول الله تشفِّياً من رسول الله وانتقاما منه ، وأخذاً بثأر جده عتبة وأخي جده شيبة ، وخاله الوليد بن عتبة وغيرهم ممن قتلهم أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم بيد على بن أبى طالب وغيره يوم بدر وغيرها . وأشياء من هذا النمط وهذا القول سهل على الرافضة الذين يكفرون أبا بكر وعمر وعثمان فتكفير يزيد أسهل بكثير .

والطرف الثاني : يظنون أنه كان رجلًا صالحاً وإمام عدل ، وأنه كان من الصحابة الذين ولدوا على عهد النبي وحمله على يديه وبرَّك عليه . وربما فضَّله بعضهم على أبى بكر وعمر ، وربما جعله بعضهم نبيَّا ...

وكلا القولين ظاهر البطلان عند من له أدنى عقل وعلم بالأمور وسِيَر المتقدمين ، ولهذا لا ينسب إلى أحد من أهل العلم المعروفين بالسنة ولا إلى ذي عقل من العقلاء الذين لهم رأى وخبرة

والقول الثالث : أنه كان ملكا من ملوك المسلمين له حسنات وسيئات ولم يولد إلا في خلافة عثمان ، ولم يكن كافرا ، ولكن جرى بسببه ما جرى من مصرع الحسين وفعل ما فعل بأهل الحرة ، ولم يكن صاحبا ولا من أولياء الله الصالحين ، وهذا قول عامة أهل العقل والعلم والسنة والجماعة .

ثم افترقوا ثلاث فرق فرقة لعنته وفرقة أحبته وفرقة لا تسبه ولا تحبه وهذا هو المنصوص عن الإمام أحمد وعليه المقتصدون من أصحابه وغيرهم من جميع المسلمين قال صالح بن أحمد قلت لأبي : إن قوما يقولون : إنهم يحبون يزيد فقال يا بني وهل يحب يزيد أحدٌ يؤمن بالله واليوم الآخر !! فقلت يا أبت فلماذا لا تلعنه ؟ فقال : يا بني ومتى رأيت أباك يلعن أحداً .

وقال أبو محمد المقدسي لما سئل عن يزيد فيما بلغني لا يُسَب ولا يُحَب وقال : وبلغنى أيضا أن جدنا أبا عبد الله بن تيمية سئل عن يزيد فقال : لاننقص فيه ولا نزيد وهذا أعدل الأقوال فيه وفي أمثاله وأحسنها...أهـ

مجموع فتاوى شيخ الإسلام ج/4 ص/481-484 .


یزيد بن معاویہ بن ابی سفیان کے بارہ میں لوگوں کے تین گروہ ہيں : ایک توحد سے بڑھا ہوا اوردوسرے بالکل ہی نیچے گرا ہوا اورایک گروہ درمیان میں ہے ۔

جولوگ توافراط اورتفریط سے کام لینے والے دو گروہ ہیں ان میں سے ایک تو کہتا ہے کہ یزید بن معاویہ کافر اورمنافق ہے ، اس نے نواسہ رسول حسین رضي اللہ تعالی عنہ کو قتل کرکے اپنے بڑوں عتبہ اورشیبہ اور ولید بن عتبہ وغیرہ جنہیں جنگ بدر میں علی بن ابی طالب اور دوسرے صحابہ نے قتل کیا تھا ان کا انتقام اور بدلہ لیا ہے ۔

تواس طرح کی باتیں اوریہ قول رافضیوں اورشیعہ کی ہیں جو ابوبکر و عمر اور عثمان رضي اللہ تعالی عنہم کو کافر کہتے ہیں توان کے ہاں یزید کو کافرقرار دینا تواس سے بھی زيادہ اسان کام ہے ۔

اور اس کے مقابلہ میں دوسرا گروہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ ایک نیک اورصالح شخص اورعادل حکمران تھا ، اور وہ ان صحابہ کرام میں سے تھا جونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پیدا ہوۓ اوراسے اپنے ھاتھوں میں اٹھایااور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کےلیے برکت کی دعا فرمائ ، اوربعض اوقات تووہ اسے ابوبکر ، عمر رضي اللہ تعالی عنہما سے سے افضل قرار دیتے ہیں ، اورلگتا ہے کہ بعض تو اسے نبی ہی بنا ڈاليں ۔

تو یہ دونوں گروہ اور ان کےقول صحیح نہیں اورہراس شخص کے لیے اس کا باطل ہونا نظرآتا ہے جسے تھوڑی سی بھی عقل ہے اور وہ تھوڑ ابہت تاريخ کو جانتا ہے وہ اسے باطل ہی کہے گا ، تواسی لیے معروف اہل علم جو کہ سنت پرعمل کرنے والے ہیں کسی سے بھی یہ قول مروی نہیں اور نہ ہی کسی کی طرف منسوب ہی کیا جاتا ہے ، اوراسی طرح عقل وشعور رکھنے والوں کی طرف بھی یہ قول منسوب نہيں ۔

اورتیسرا قول یا گروہ یہ ہے کہ :

یزید مسلمان حکمرانوں میں سے ایک حکمران تھا اس کی برائیاں اور اچھایاں دونوں ہيں ، اور اس کی ولادت بھی عثمان رضي اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں ہوئ ہے ، اور وہ کافر نہيں ، لیکن اسی کے (دور میں )اور موقف کے سبب سیدنا حسین رضي اللہ تعالی عنہ کے ساتھ جوکچھ ہوا اوروہ شھید ہوۓ ، اس نے اہل حرہ کے ساتھ جو کیا سو کیا ، اوروہ نہ توصحابی تھا اور نہ ہی اللہ تعالی کا ولی ، یہ قول ہی عام اہل علم و عقل اوراھل سنت والجماعت کا ہے ۔

لوگ تین فرقوں میں بٹے گۓ ہیں ایک گروہ تواس پرسب وشتم اور لعنت کرتا اور دوسرا اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے اورتیسرا نہ تواس سے محبت اورنہ ہی اس پر سب وشتم کرتا ہے ، امام احمد رحمہ اللہ تعالی اوراس کے اصحاب وغیرہ سے یہی منقول ہے ۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی کے بیٹے صالح بن احمد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے کہا کہ : کچھ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ ہم یزید سے محبت کرتے ہیں ، توانہوں نے جواب دیا کہ اے بیٹے کیا یزید کسی سے بھی جو اللہ تعالی اوریوم آخرت پرایمان لایا ہو سے محبت کرتا ہے !!

تو میں نے کہا تو پھر آپ اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے ؟ توانہوں نےجواب دیا بیٹے تونےاپنے باپ کو کب دیکھا کہ وہ کسی پرلعنت کرتا ہو ۔

اورابومحمد المقدسی سے جب یزيد کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا کہ (پہلے علماء سے) ’‘جو کچھ مجھ تک پہنچا ہے کہ نہ تواسے سب وشتم کیا جاۓ اور نہ ہی اس سے محبت کی جاۓ ،
اورکہنے لگے : مجھے یہ بھی پہنچا ہے کہ کہ ہمارے دادا ابوعبداللہ بن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی سے یزيد کےبارہ میں سوال کیا گیا توانہوں نے جواب دیا :
ہم نہ تواس میں کچھ کمی کرتےہیں اورنہ ہی زيادتی ،۔

اقوال میں سب سے زيادہ عدل والا اوراچھا و بہتر قول یہی ہے ۔ ا ھـ

مجموع الفتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ ( 4 / 481 - 484 ) ۔

واللہ تعالی اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد
بھائی آپ سے میر ا مطالبہ ہے ۔کہ اس قصیدہ میں کون سی بات غلط ہے ثابت کریں
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top