ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 378
- ری ایکشن اسکور
- 116
- پوائنٹ
- 53
امیر المؤمنین سیدنا معاویہ رضي الله عنه امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضي الله عنه کی نظر میں
سیدنا معاویہ رضي الله عنه کی فضیلت کے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضي الله عنه نے انہیں گورنر (امیر ) مقرر فرمایا:
امام ذہبی رحمه الله فرماتے ہیں:
«حَسْبُكَ بِمَنْ يُؤَمِّرُهُ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ عَلَى إِقْلِيْمٍ - وَهُوَ ثَغْرٌ - فَيَضْبِطُهُ، وَيَقُوْمُ بِهِ أَتَمَّ قِيَامٍ، وَيُرْضِي النَّاسَ بِسَخَائِهِ وَحِلْمِهِ»
’’معاویہ رضي الله عنه کی فضیلت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ان کو حضرت عمر رضي الله عنه اور پھر حضرت عثمان رضي الله عنه نے ایک علاقے کا امیر مقرر کیا اور وہ اُس وقت اتنا تجربہ نہیں رکھتے تھے، لیکن انہوں نے اس علاقے کو سنبھالا اور اس کا مکمل اعتبار سے خیال کیا اور اپنی سخاوت اور بردباری کے ساتھ لوگوں کو راضی رکھا۔‘‘
[ سير أعلام النبلاء - ط الرسالة، ۱۳۲/۳ ]
حضرت عمر رضي الله عنه امیر مقرر کرنے کے حوالے سے بڑے ہی ذہین اور عادل ترین انسان تھے ، جیسا کہ ان کا فرمان ہے:
«اللَّهُمَّ إِنِّي أُشْهِدُكَ عَلَى أُمَرَاءِ الْأَمْصَارِ، وَإِنِّي إِنَّمَا بَعَثْتُهُمْ عَلَيْهِمْ لِيَعْدِلُوا عَلَيْهِمْ وَلِيُعَلِّمُوا النَّاسَ دِينَهُمْ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَقْسِمُوا فِيهِمْ فَيْئَهُمْ، وَيَرْفَعُوا إِلَيَّ مَا أَشْكَلَ عَلَيْهِمْ مِنْ أَمْرِهِمْ»
’’اے الله! میں شہروں کے گورنرون کے بارے میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ میں نے لوگوں پر انھیں صرف اس لیے مقرر کر کے بھیجا کہ وہ ان سے انصاف کریں اور لوگوں کو ان کے دین اور ان کے نبی ﷺ کی سنت کی تعلیم دیں اور ان کے اموال فئ ان میں تقسیم کریں اور اگر لوگوں کے معاملات میں انھیں کوئی مشکل پیش آئے تو اسے میرے سامنے پیش کریں۔‘‘
[ صحيح مسلم، ص:۲۵٤، رقم الحدیث: ۵٦٧ (۱۵۵۷)، كِتَابُ الصَّلَاةِ، بَابُ نَهْيِ مَنْ أَكَلَ ثُومًا أَوْ بَصَلًا أَوْ كُرَّاثًا أَوْ نَحْوَهَا ]
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضي الله نے اپنے امراء کو چھان بین اور تحقیق کاملہ کے بعد ہی گورنر مقرر فرماتے اور جن افراد کو لائق سمجھتے تھے انہی کو مقرر فرماتے۔
شيخ الإسلام امام ابن تیمیہ رحمه الله فرماتے ہیں:
«وَعُمَرُ مِنْ أَعْلَمِ النَّاسِ بِأَحْوَالِ الرِّجَالِ، وَأَحْذَقِهِمْ فِي السِّيَاسَةِ، وَأَبْعَدِ النَّاسِ عَنِ الْهَوَى، لَمْ يُولِّ فِي خِلَافَتِهِ أَحَدًا مِنْ أَقَارِبِهِ، وَإِنَّمَا كَانَ يَخْتَارُ لِلْوِلَايَةِ مَنْ يَرَاهُ أَصْلَحَ لَهَا ; فَلَمْ يُوَلِّ مُعَاوِيَةَ إِلَّا وَهُوَ عِنْدُهُ مِمَّنْ يَصْلُحُ لِلْإِمَارَةِ»
’’عمر رضي الله عنه لوگوں کے حالات کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے اور سیاسی امور میں سب سے زیادہ ذہین تھے اور خواہشات نفسانی سے سب سے زیادہ دور تھے اپنے دورِ خلافت میں کسی بھی اپنے قریبی رشتہ دار کو والی مقرر نہیں کیا، یقیناً وہ تو والی (امیر یا گورنر ) صرف اسی کو مقرر کرتے تھے، جس کو وہ لائق سمجھتے تھے، امیر معاویہ رضي الله عنه کو بھی اسی وجہ سے انہوں نے امیر مقرر کیا کہ وہ انہیں لائق سمجھتے تھے۔‘‘
[ منهاج السنة النبوية، ١٤٢/٨ ]
خلافتِ سیدنا معاویہ رضی اللہ علیہ کے بارے میں امام محدث محمد بن مسلم بن عبيد الله بن شهاب الزهري رحمه الله (المتوفی ١٢٤ ھ) فرماتے ہیں:
«عمل معاوية بسيرة عمر بن الخطاب سنين لا يخرم منها شيئا»
’’حضرت معاویہ رضي الله عنه کئی سالوں تک (حکومت کے معاملے میں) عمر بن خطاب رضي الله عنه کی سیرت کے مطابق عمل کر رہے تھے، اس مسئلے میں ذرہ برابر کوتاہی نہیں کی۔‘‘
[ السنة لأبي بكر بن الخلال، ٤٤٤/٢، رقم: ٦٨٣، قال المحقق: الدكتور عطية الزهراني: إسناده صحيح ]