• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امیر المومنین سیدنا یزید رحمہ اللہ کی شخصیت اور رافضیوں کی سازش

شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
امیر المومنین سیدنا یزید رحمہ اللہ کی شخصیت اور رافضیوں کی سازش
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


شیعہ کفار اور نیم رافضیوں کی جانب سے صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم اجمعین بالخصوص بنو امیہ سے عوام کو بدظن کرنے کے ٖلئے جھوٹی کہانیاں گھڑ کر حضرت یزید رحمہ اللہ کی شخصیت کو بہت ہی زیادہ بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یزید رحمہ اللہ کو بہت ظالم اور اہل بیت کا دشمن ہونے کے الزام لگائے جاتے ہیں ان پر لعنت بھیجی جاتی ہے یزید رحمہ اللہ کے تعلق سے حسن ظن رکھنے والوں کو بھی ناصبی ہونے کے الزامات نیم رافضی لگاتے ہیں۔

جب اہل السنہ کی جانب سے دلائل سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ یزید رحمہ اللہ نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو شہید نہیں کیا یہ کام اہل کوفہ کا تھا اور یزید رحمہ اللہ نیک اور صالح امیر المؤمنین تھے اور اہل بیت کا احترام کرنے والے تھے۔ تو نیم رافضی جزباتی باتے کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ قیامت کے دن ہمارا حشر حسین کے ساتھ ہو اور تمہارا یزید کے ساتھ ہو یزید حہنمی ہیں وغیرہ جبکہ شیعہ کفار اور نیم رافضیوں کی یہ سب باتیں فرمانے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل خلاف ہے۔ حدیث سے تو ہمیں حضرت یزید رحمہ اللہ کے مغفور ہونے کی بشارت ملتی ہیں۔

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ الْأَسْوَدِ الْعَنْسِيَّ ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ أَتَى عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ وَهُوَ نَازِلٌ فِي سَاحَلِ حِمْصَ وَهُوَ فِي بِنَاءٍ لَهُ وَمَعَهُ أُمُّ حَرَامٍ ، قَالَ عُمَيْرٌ : فَحَدَّثَتْنَا أُمُّ حَرَامٍ أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ الْبَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا ، قَالَتْ : أُمُّ حَرَامٍ ، قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا فِيهِمْ ، قَالَ : أَنْتِ فِيهِمْ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ ، فَقُلْتُ : أَنَا فِيهِمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : لَا

"حضرت عمیر بن اسود عنسی نے بیان کیا کہ وہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کا قیام ساحل حمص پر اپنے ہی ایک مکان میں تھا اور آپ کے ساتھ ( آپ کی بیوی ) ام حرام رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ عمیر نے بیان کیا کہ ہم سے ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میری امت کا سب سے پہلا لشکر جو دریائی سفر کر کے جہاد کے لیے جائے گا، اس نے ( اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت ) واجب کر لی۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے کہا تھا یا رسول اللہ! کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، تم بھی ان کے ساتھ ہو گی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلا لشکر میری امت کا جو قیصر (رومیوں کے بادشاہ ) کے شہر (قسطنطنیہ ) پر چڑھائی کرے گا ان کی مغفرت ہو گی۔ میں نے کہا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔"

[‌صحيح البخاري، كتاب الجهاد والسير، باب ما قيل في قتال الروم، حدیث:۲۹۲۴]

امام ذہبی رحمہ اللہ امیر یزید رحمہ اللہ تعالی کے متعلق فرماتے ہیں:

وكان أمير ذلك الجيش في غزو القسطنطينية وفيهم مثل أبي أيوب الأنصاري عقد له أبوه بولاية العهد من بعده فتسلم الملك عند موت أبيه في رجب سنة ستين وله ثلاث وثلاثون سنة فكانت دولته أقل من أربع سنين

"اور (یزید رحمہ اللہ) قسطنطنیہ پرحملہ کرنے والے لشکر کے امیر تھے جس میں ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ جیسے صحابی شامل تھے ، ان کے والد امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں ولی عھد بنایا اور اپنے والد کی وفات کے بعد تیس برس کی عمر میں رجب ساٹھ ھجری ٦۰ ھ میں زمام اقدار ہاتھ میں لی اورتقریبا چالیس برس سے کم حکومت کی۔"

[سير أعلام النبلاء ج/ ۴ ص/ ۳۸]

عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ أَنَّ یَزِیدَ بْنَ مُعَاوِیَۃَ کَانَ أَمِیرًا عَلَی الْجَیْشِ الَّذِی غَزَا فِیہِ أَبُو أَیُّوبَ، فَدَخَلَ عَلَیْہِ عِنْدَ الْمَوْتِ، فَقَالَ لَہُ أَبُو أَیُّوبَ: إِذَا مِتُّ فَاقْرَئُ وْا عَلَی النَّاسِ مِنِّی السَّلَامَ، فَأَخْبِرُوہُمْ أَنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنْ مَاتَ لَا یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْئًا جَعَلَہُ اللّٰہُ فِی الْجَنَّۃِ۔)) وَلْیَنْطَلِقُوْا بِیْ فَلْیَبْعُدُوْا بِی فِی أَرْضِ الرُّومِ مَا اسْتَطَاعُوْا، فَحَدَّثَ النَّاسُ لَمَّا مَاتَ أَبُو أَیُّوبَ فَاسْتَلْأَمَ النَّاسُ وَانْطَلَقُوْا بِجِنَازَتِہِ۔

"عاصم نے مکہ کے ایک باشندے سے روایت کیا ہے کہ یزید بن معاویہ اس لشکر کے امیر تھے جس میں سیدنا ابو ایوب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شریک تھے، ان کی وفات کے وقت یزید ان کے پاس آیے تو انہوں نے ان سے کہا: میری وفات ہو تو میری طرف سے لوگوں کو سلام کہنا اور انہیں بتلا دینا کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جو کوئی اس حال میں فوت ہوا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا تھا، اللہ اسے جنت عطا فرمائے گا۔ اس کے بعد یہ لوگ میری میت کو اٹھا کر روم کی حدود میں جہاں تک ممکن ہو دورلے جائیں، پس جب سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا انتقال ہوا تویزید نے لوگوں کو ان کے انتقال کی خبر دی،لوگوں نے اپنے ہتھیار زیب تن کر لیے اور ان کی میت کو لے کر چل پڑے۔"

[مسند امام احمد، حدیث: ۱۱۹۰۱]

حدیث سے واضح دلیل ملتی ہے کہ سیدنا یزید رحمہ اللہ تعالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمان کی روشنی میں مغفرت کی بشارت پا چکے ہیں اب اس کے بعد بھی کوئی شیعہ کافر یا نیم رافضی یہ کہے کہ یزید رحمہ اللہ جہمنی ہیں یا ایسی جاہلانہ دعا کرے کہ میرا حشر حسین کے ساتھ ہو تمہارا یزید کے ساتھ ! تو یہ نیری جہالت ہے اور اللہ کے رسول کے فرمان اور بشارت کی تکذیب ہے صحیح حدیث کو جھوٹلانا ہے۔ کیوں کہ حسین رضی اللہ عنہ اور یزید رحمہ اللہ دونوں ہی جنتی ہیں۔

شیخ حافظ عبد الجبار شاکر فک الله اسرہ کا فرمان ہے:

"ہم آنکهیں بند کر کے محبت کے انداز میں کوشش یہ کرتے ہیں کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور یزید کو مد مقابل کهڑا کر دیا جائے، ایک طرف حسین رضی اللہ عنہ کا لشکر ترتیب دیتے ہیں دوسری طرف یزید کا لشکر ترتیب دیتے ہیں! ایسا نہیں ہے دونوں ایک صف میں ہیں-"

[حافظ عبد الجبار شاکر حفظہ اللہ کا بیان بعنوان "واقعہ کربلا" ۱۴:۰۸ - ۱۴:۳۰]

اس کے علاوہ شیعہ کفار اور نیم رافضیوں کی جانب سے امیر المؤمنین سیدنا یزید رحمہ اللہ پر دشمن اہل بیت ہونے اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا قتل کروانے اور حسین رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ پر ظلم و ستم کرنے کے جھوٹے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فرمان ہے:

وَكَانَ فِيهِ شَجَاعَةٌ وَكَرَمٌ ، وَلَمْ يَكُنْ مُظْهِرًا لِلْفَوَاحِشِ كَمَا يَحْكِي عَنْهُ خُصُومُهُ ، وَجَرَتْ فِي إمَارَتِهِ أُمُورٌ عَظِيمَةٌ: - أَحَدُهَا مَقْتَلُ الْحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ لَمْ يَأْمُرْ بِقَتْلِ الْحُسَيْنِ ، وَلَا أَظْهَرَ الْفَرَحَ بِقَتْلِهِ ؛ وَلَا نَكَّتَ بِالْقَضِيبِ عَلَى ثَنَايَاهُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، وَلَا حَمَلَ رَأْسَ الْحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إلَى الشَّامِ

"اور ان (یزید رحمہ اللہ) میں بہادری اور سخاوت کے اوصاف پائے جاتے تھے، اعلانیہ طور پر گناہوں کا رسیا نہیں تھے جیسے کہ اس کے بارے میں ان کے مخالفین کہتے ہیں۔ نیز انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم نہیں دیا، اور نہ ہی حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر اظہارِ خوشی کیا ، نہ ہی حسین رضی اللہ عنہ کے دندان کو چھڑی سے کریدا، نہ ہی حسین رضی اللہ عنہ کا سر شام ان کے پاس لے جایا گیا۔"

[مجموع فتاوىٰ شيخ الإسلام ابن تيمية ۳/ ۴۱۰]

امام ابن کثیر رحمہ اللہ کا فرمان ہے:

وَأَكْرَمَ آلَ بَيْتِ الْحُسَيْنِ ، وَرَدَّ عَلَيْهِمْ جَمِيعَ مَا فُقِدَ لَهُمْ ، وَأَضْعَافَهُ ، وَرَدَّهُمْ إِلَى الْمَدِينَةِ فِي تَجَمُّلٍ وَأُبَّهَةٍ عَظِيمَةٍ ، وَقَدْ نَاحَ أَهْلُهُ فِي مَنْزِلِهِ عَلَى الْحُسَيْنِ مَعَ آلِهِ ـ حِينَ كَانُوا عِنْدَهُمْ ـ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ

"اور (یزید رحمہ اللہ نے) حسین رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ کا احترام کیا اور ان سے چھینا گیا سب مال سمیت بہت کچھ انہیں دیا اور انہیں بڑے تزک و احتشام کے ساتھ مکمل شایانِ شان انداز میں مدینہ واپس بھیج دیا ، اور جس دوران حسین رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ یزید کے اہل خانہ کے گھر میں تھے تو یزید کے گھر والوں نے ان کے ساتھ تین دن تک سوگ بھی کیا۔"

[البداية والنهاية ۱۱/
٦۵۰]

امیر المؤمنین یزید رحمہ اللہ کو بدنام کرنے کے پیچھے شیعہ کفار و نیم رافضیوں کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ یزید رحمہ اللہ کے زریعہ سے صحابی رسول و کاتب وحی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور یزید رحمہ اللہ کی حمایت کرنے والے اور ان کی بیعت کرنے والے صحابہ کو نشانہ بنایا جائے۔ کیوں کہ اگر نیم رافضی ڈایریکٹ صحابہ رضی اللہ عنہم کو برا کہیں گے یا لعن طعن کریں گے تو عوام نیم رافضیوں کی حقیقت اور اسلام دشمنی سمجھ جائے گی اور ان کی یہ چالیں کام نہ کریں گی اسلئے پہلے یزید رحمہ اللہ کی شخصیت کو زریعہ بنا کر صحابہ تک پہنچا جاتا ہے اور ان کے تعلق سے گندی زبان استعمال کی جاتی ہیں۔

شیخ حافظ عبد الجبار شاکر فک الله اسرہ کا فرمان ہے:

"آج جو یزید پر انگلی اٹهاتا ہے ہمیں یزید سے لینا دینا نہیں مگر سوچوں اگر یزید پر کیچڑ پهینکو گے تو یہ کیچڑ صحابہ پر جائے گا کیا صحابہ نے فاسق وفاجر کی بیعت کی تهی! کیا صحابہ نے شرابی کبابی کی بیعت کی تهی! کیا صحابہ نے اہل بیت کے دشمن کی بیعت کی تهی! ایسا ممکن نہیں ہے- میرے صحابہ نے غلطی نہیں کی-"

[حافظ عبد الجبار شاکر حفظہ اللہ کا بیان بعنوان "واقعہ کربلا" ۱۸:۳۷ - ۱۹:۰۴]

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے سیدنا محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وقد حضرته وأقمت عنده فرأيته مواضبا على الصلاة متحريا للخير يسأل عن الفقه ملازما للسنة "میں خود (امیر یزید رحمہ اللہ) کے پاس گیا اور ان کے یہاں رہا ہوں میں نے انہیں ہمیشہ پابند نماز، خیر کا متلاشی، فقہ کے مسائل اور سنت کا متبع پایا ہے۔"
[البداية والنهاية: ۸/ ۲۳۳]

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں یزید رحمہ اللہ پر لگائے جانے والے جھوٹے الزامات کو بغیر دلیل تسلیم کرنے کی بجائے ان کے تعلق سے عدل و انصاف سے کام لیتے ہوئے حق بیانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 
Last edited:
Top