• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امین صفدر اوکاڑوی کی عبارت: گستاخی یا کاتب کی غلطی [انتظامیہ]

معین

رکن
شمولیت
اپریل 26، 2011
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
145
پوائنٹ
49
وہ آج تک [اہل قرآن والوں کو] جواب نہیں دے سکے کہ یہ امتیاز کہ وہ گدھا نہیں تھا گدھی تھی اور کتا نہیں تھا کتیا تھی کیسے ہوا تھا - جن کی نظر دونوں کی شرمگاہوں پر پڑی ان کی نماز کا کیا حکم ہے ؟
یہ کہاں لکھا ہے کہ نماز کے دوران ہی شرمگاھ پر نظر گئی، نماز سے پہلے یا نماز کے بعد نہیں؟؟؟؟؟؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
اگر کسی صاحب کی بات یا تحریر سے گستاخی یا کفر کا پہلو نکل رہا ہو تو بہتر یہ ہوتا ہے کہ اس صاحب تحریر پر کفر کا فتوی لگانے سے پہلے اس سے اس کی تحریر کے متعلق وضاحت مانگ لی جائے ۔کیوں کہ کئی بار ہوتا یہ ہے صاحب تحریر کسی اور تناظر میں بات کر رہا ہوتا ہے اور قاری کسی اور تناظر میں پڑہ رہا ہوتا ہے ۔
اگر کوئی وضاحت مانگنے پراپنے موقف کی وضاحت کردے تو دیکھا جائے گا اگر اس کا موقف گستاخانہ ہے تو پھر صاحب تحریر کو گستاخ کہا جاسکتا ہے لیکن اگر اس کی وضاحت سے اس کی تحریر کے متعلق غلط فہمی دور ہوجائے تو ہمیں خوامخواہ گستاخ کہنے سے پرہیز کرنا چاہئیے کیوں کہ باطن کا حال صرف اللہ جانتا ہے اور ہم ظاہر کے مکلف ہیں
محترم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح توہین پر مبنی الفاظ کو نیت اور باطن کے پردے میں چھپا دیا جائے تو پھر ہر گستاخ رسول کو آزادی مل جائے گی کہ جو چاہے بکواس کر دے اور پھر اس کی باطل تاویلات پیش کر کے بری الذمہ ہو جائے۔ ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ زبردستی کسی کے گلے گستاخی مڑھ دی جائے اور پھر اس کو اچھالتے پھریں۔
لیکن اس مقام پر بہرحال یہ بات طے ہے کہ اوکاڑوی صاحب صریح گستاخی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ تب ہی تو وہ اسے کاتب کی یا ناشر کی غلطی قرار دے رہے ہیں۔ اگر واقعی یہ الفاظ ان کے اپنے نہیں ، بلکہ اہل قرآن کے نقل کردہ الفاظ ہیں تو گستاخی کا الزام باطل ہے۔

لیکن یہ وضاحت بھی تو کیجئے کہ آخر اہل قرآن میں سے کس شخص نے یہ اعتراض کس کتاب میں یا تقریر میں پیش کیا ہے ، جسے اوکاڑوی صاحب نے فقط نقل کیا ہے؟
اور آخر وہ پورا اقتباس کیوں نہیں پیش کر دیا جاتا، جو اوکاڑوی صاحب نے لکھا تھا اور جس میں کاتب نے تحریف کی تھی؟ تاکہ معلوم ہوتا کہ اصل عبارت کیا تھی اور کاتب نے کہاں غلطی کی تھی؟
اوکاڑوی صاحب نے ناشر کو یہ کیوں کہا کہ وہ صفحہ 198 کی آخری سطر کو حذف کر دیں؟ کیا گستاخی کے بعد ان الفاظ کو حذف کر دینا کافی ہوتا یا اہل قرآن کی اصل عبارت باحوالہ (جو کہ اوکاڑوی صاحب نے ناشر کو دئے جانے والے اصل نسخہ میں لکھی ہوگی) پیش کر دینی چاہئے تھی؟
پھر یہ بھی وضاحت کر دیجئے کہ اہل قرآن صحیح مسلم کی حدیث پر اعتراض کریں تو اس کا جواب فقط اہل حدیث پر ہی کیونکر عائد ہوتا ہے؟ کیا اس کے جواب کی اتنی ہی ذمہ داری اوکاڑوی صاحب پر یا ان کی فکر کے حاملین پر بھی عائد نہیں ہوتی؟
اگر یہ ذمہ داری ان کی بھی بنتی ہے تو اہل حدیث کی تردید میں لکھے جانے والے رسالے میں اہل قرآن کا ایسا اعتراض پیش کرنا، جس کے وہ خود بھی جواب دہ ہیں، کیا عقل میں آنے والی بات ہے؟
درج بالا سوالات کے جواب دینے کی کوشش کر دیکھئے، آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ اوکاڑوی صاحب کی جانب سے بگڑی بات بنانے کی بھونڈی کوشش ہی تھی ورنہ ان کی کتاب میں اس عبارت کے سیاق و سباق میں کہیں بھی اہل قرآن کا ذکر موجود نہیں۔ اصل اسکین ملاحظہ کیجئے:




اب اصل اعتراض، چاہے وہ اوکاڑوی صاحب کا ہو یا اہل قرآن کا ، کے ضمن میں ایک اہم سوال یہ ہے جو اوپر معین صاحب نے پیش کیا ہے کہ آخر یہ کیوں نہیں ہو سکتا کہ نماز کے بعد یا پہلے ہی دیکھا ہو کہ سامنے سے گزرنے والا جانور کون سا تھا؟
ہمارے گاؤں میں جو مویشی وغیرہ نہیں بھی پالتے وہ بھی جانوروں کی شکلیں تک یاد رکھتے ہیں۔ کسی کی گائے دیکھتے ہی بتا دیتے ہیں کہ یہ فلاں صاحب کی ہے۔
کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ سامنے چرنے والی گدھی پالتو ہو، جس کی آواز سے ہی (دوران نماز یا ماقبل و بعد) اسے پہچان لیا گیا ہو؟


یہ تو انتہائی غلیظ اور نیچ ذہنیت والے شخص کا ہی کام ہے (چاہے یہ اوکاڑوی صاحب کی ہو یا نام نہاد اہل قرآن کی) کہ ایک عام فہم سادہ حدیث میں سے اپنی گھٹیا سفلی سوچ کے تحت بے شرمی والے نتائج اخذ کئے جائیں جبکہ اس کی کئی درست یا بہتر تشریحات ممکن ہوں۔

مجھے دیوبندی علماء اور ان کے آپ جیسے مخلص عوام سے بس یہی شکایت ہے کہ اپنے اکابرین کے دفاع میں اس حد تک غلو اور باطل تاویلات میں پڑ جاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ جو حضرات اشرفعلی رسول اللہ جیسے کلمہ کفر کا باطل تاویلات کے تحت دفاع کر گزرتے ہوں، ان کے نزدیک ایک حدیث واحد کے بارے میں ایک دیوبندی عالم کا گھٹیا تبصرہ بھلا کہاں لائق التفات ہوگا کہ اپنی اصلاح کر سکیں یا ان کی غلطی کو مان سکیں۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
مجھے دیوبندی علماء اور ان کے آپ جیسے مخلص عوام سے بس یہی شکایت ہے کہ اپنے اکابرین کے دفاع میں اس حد تک غلو اور باطل تاویلات میں پڑ جاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ جو حضرات اشرفعلی رسول اللہ جیسے کلمہ کفر کا باطل تاویلات کے تحت دفاع کر گزرتے ہوں، ان کے نزدیک ایک حدیث واحد کے بارے میں ایک دیوبندی عالم کا گھٹیا تبصرہ بھلا کہاں لائق التفات ہوگا کہ اپنی اصلاح کر سکیں یا ان کی غلطی کو مان سکیں۔
مجھے اہل حدیث حضرات کے تعلق سے بس یہی شکایت ہے کہ وہ کسی قول وفعل کو دیکھ کرفوراًاس پر حکم لگاناضروری سمجھتے ہیں اوراس کی زحمت نہیں کرتے تھوڑارک کر غوروفکر کرین جیسے خارجیوں کاحال تھاکہ بس آیت پڑھی اورمسلمانوں پرمنطبق کرناشروع کردیا۔جس پر بعض صحابہ کرام نے نکیر بھی کی ہے۔
زیر بحث مثال میں شاکر صاحب نے دھڑلے سے مولانا اشرف علی تھانوی کاحوالہ دیااورسیاق وسباق سب کو نظرانداز کردیا۔ایک شخص خواب دیکھتاہے کہ وہ محمد رسول اللہ کی جگہ اشرف علی رسول اللہ پڑھ رہاہے اس کو اس سے گرانی ہوتی ہے وہ محمد رسول اللہ پڑھناچاہتاہے لیکن زبان سے اشرف علی رسول اللہ نکل رہاہے۔ جاگنے کے بعد تشویش ہوتی ہے اوراس خواب کی بابت مولانا اشرف علی تھانوی سے پوچھتاہے مولانا اشرف علی تھانوی جواب دیتے ہیں کہ اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ جس سے تم نے بیعت وارادت کاتعلق قائم کیاہے وہ متبع رسول ہے۔
اس خواب اوراس خواب کی تعبیر پر اگرکوئی شخص یہ بات کہے
جو حضرات اشرفعلی رسول اللہ جیسے کلمہ کفر کا باطل تاویلات کے تحت دفاع کر گزرتے ہوں
تواسے عقل اورذہنی طورپرمعذورسمجھناچاہئے ۔شریعت میں معذوروں کیلئے بھی احکام واضح ہیں اوران کے قول وفعل کو شریعت نے لغوقراردیاہے۔
خواب میں انسان کیاسے کیادیکھتاہے اس کی تعبیر کتنی الٹی اوربسااوقات الگ ہوتی ہے کم سے کم سورہ یوسف ہی پڑھ لیں ترجمہ کے ساتھ۔ لیکن آج کے کچھ حضرات ہیں کہ اس پر بھی بیداری کے احکامات نافذ کرناچاہتے ہیں اورکچھ لوگ اگراس کی مناسب اورمقتضائے حال تاویل کرناچاہیں اس کوبہترمعنی پہناناچاہیں تو وہ باطل تاویل لیکن ایک لمحہ کیلئے یہ خیال نہیں گزرتاکہ ہمارے ذہن فاسد نے جوکچھ اخذ کیاہے کہیں وہی باطل اورفضول ہو۔
وکم من عائب قولاصحیحا
وآفتہ من الفہم السقیم​
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
ماشاء اللہ شاکر بھائی، آپ نے امین اوکاڑوی صاحب کی صریح گستاخی پر تاویل کے پردوں کو چاک کرتے ہوئے خوب تبصرہ کیا ہے۔ کتنا عرصہ گزر چکا ہے لیکن مقلدین اوکاڑوی اس صریح گستاخی پر اللہ سے معافی کے خواستگار ہونے کی بجائے نت نئے بہانے تراش رہے ہیں۔ کبھی کاتب کی غلطی کا بہانہ، کبھی اہل قرآن کی عبارت کا بہانہ، کبھی عبارت کے ہی صحیح ہونے پر گھٹیا دلائل۔ سب کچھ ہو رہا ہے اگر نہیں تو صرف یہ کہ اللہ کے سامنے توبہ و استغفار کی جائے، بے شک توبہ کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے اور ہم اس توفیق کے طلبگار ہیں۔
مجھے اہل حدیث حضرات کے تعلق سے بس یہی شکایت ہے کہ وہ کسی قول وفعل کو دیکھ کرفوراًاس پر حکم لگاناضروری سمجھتے ہیں اوراس کی زحمت نہیں کرتے تھوڑارک کر غوروفکر کرین جیسے خارجیوں کاحال تھاکہ بس آیت پڑھی اورمسلمانوں پرمنطبق کرناشروع کردیا۔جس پر بعض صحابہ کرام نے نکیر بھی کی ہے۔
زیر بحث مثال میں شاکر صاحب نے دھڑلے سے مولانا اشرف علی تھانوی کاحوالہ دیااورسیاق وسباق سب کو نظرانداز کردیا۔ایک شخص خواب دیکھتاہے کہ وہ محمد رسول اللہ کی جگہ اشرف علی رسول اللہ پڑھ رہاہے اس کو اس سے گرانی ہوتی ہے وہ محمد رسول اللہ پڑھناچاہتاہے لیکن زبان سے اشرف علی رسول اللہ نکل رہاہے۔ جاگنے کے بعد تشویش ہوتی ہے اوراس خواب کی بابت مولانا اشرف علی تھانوی سے پوچھتاہے مولانا اشرف علی تھانوی جواب دیتے ہیں کہ اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ جس سے تم نے بیعت وارادت کاتعلق قائم کیاہے وہ متبع رسول ہے۔
خواب میں انسان کیاسے کیادیکھتاہے اس کی تعبیر کتنی الٹی اوربسااوقات الگ ہوتی ہے کم سے کم سورہ یوسف ہی پڑھ لیں ترجمہ کے ساتھ۔ لیکن آج کے کچھ حضرات ہیں کہ اس پر بھی بیداری کے احکامات نافذ کرناچاہتے ہیں اورکچھ لوگ اگراس کی مناسب اورمقتضائے حال تاویل کرناچاہیں اس کوبہترمعنی پہناناچاہیں تو وہ باطل تاویل لیکن ایک لمحہ کیلئے یہ خیال نہیں گزرتاکہ ہمارے ذہن فاسد نے جوکچھ اخذ کیاہے کہیں وہی باطل اورفضول ہو۔
وکم من عائب قولاصحیحا
وآفتہ من الفہم السقیم​
اے کاش کہ حضرت والا یہ بھی غور فرما لیتے کہ تھانوی صاحب کے مرید نے خواب میں ہی تھانوی کلمہ کا ورد جاری نہ رکھا بلکہ بیداری کی حالت میں بھی یہی کیفیت تھی بلکہ بیداری کی حالت میں صریح الفاظ میں درود پڑھتے ہوئے تھانوی صاحب کے نبی ہونے کے الفاظ بھی ادا کئے۔ تھانوی صاحب نے خواب کی تعبیر ہرگز نہیں بتائی بلکہ اس خواب اور بیداری کے تمام واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ "اس واقعہ میں تسلی تھی۔۔۔۔" گویا خواب تو خواب بیداری کی حالت میں بھی صریح کفریہ الفاظ کی ادائیگی ان کے ہاں تسلی اور اپنے متبع سنت ہونے کی دلیل ہے، انا للہ و انا علیہ راجعون۔
ہمارے یہ دوست یہ بات سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ مسئلہ مرید کا نہیں کہ جو اپنا ایک مجبوری کے پردے میں لپٹا مسئلہ پوچھ رہا ہے بلکہ اعتراض تو اس پیر پر ہے جو اپنے مرید کو کفریہ الفاظ پر توبہ و استغفار کا کہنے کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے تسلیاں دے رہا ہے نیز ایسے صریح کفریہ الفاظ کے منہ سے نکلنے کی وضاحت میں خود کو متبع سنت ہونا بتا رہا ہے۔ اللہ ہی سے ہدایت کا سوال ہے۔ والسلام
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
کیا یہ لوگوں کو الله کا ڈر نہیں جو ایسے خبیث کلمات کا بھی اکڈ کر دفاع کرتے ہیں
أعوذ بالله
اللہ کا ڈر ہوتا تو یہ لوگ یہ حرکتیں کرتے؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
ندوی صاحب،
یہ تو بیداری کی ہی بات نکل آئی۔ وہ فضول اور باطل تاویلات جو خواب کے لئے کر چکے ہیں، تو ضائع چلی گئیں۔ بیداری کے لئے کوئی نیا دفاعی ہتھیار لے آئیے۔ کیونکہ اپنے اکابرین کا دفاع تو ہرحال میں کرنا ہی ہے، ہتک نبی پر اہلحدیث کی طرح غیرت کھانا تو ، بلاجواز بھی ہے اور ثانوی معاملہ بھی۔ پھر یہ بھی بتائیے گا کہ امین اوکاڑوی صاحب کی زیر بحث عبارت بھی کتاب میں خواب ہی کی حالت میں لکھی گئی تھی کہ نہیں؟ یا ان صاحب پر بھی مرفوع القلم والی حدیث کی تلاوت کی جائے گی؟
 
Top