• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انسائیکلو پیڈیا آف اسلام اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
علامہ شیخ محمد عرفہ ممبر جمعیۃ کبارالعلماء نے ازہر یونیورسٹی کے مجلہ''نور الاسلام''کی جلد پنجم میں صفحہ ۶۳۹ پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے متعلق ایک تحقیقی مقالہ سپر د قلم کیا ہے جس میں اس جلیل القدر راوی کا دفاع کیا اور ان اتہامات کا جواب دیا جو انگریزی انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کے مقالہ نگاروں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر باندھے ہیں ہم ذیل میں اس قیمتی مقالہ کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔

مستشرق گولڈ زیھر:


مشہور مستشرق گولڈ زیہر نے انسائیکلو پیڈیا آف اسلام جلد اول عدد ہفتم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر چند اتہامات باندھے ہیں جو کو کسی علمی وتاریخی دلیل پر مبنی نہیں ہیں۔ان اتہامات کا خلاصہ یہ ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیثیں روایت کرنے کے سلسلہ میں امانت ودیانت کا خیال نہیں رکھتے تھے۔گولڈ زیہر کا کہنا ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ زہد وتقویٰ کے بل بوتے پر حدیثیں گھڑلیا کرتے تھے اور جو لوگ براہ راست ان سے حدیثیں رایت کرتے تھے وہ بھی ان کی مرویات پر شک وشبہ کا اظہار کرتے تھے بلکہ بالفاظ صحیح تر وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے ۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ عادت تھی کہ معمولی باتوں کو بھی بڑے دلکش انداز میں بیان کرتے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑے زندہ دل اور ظریف الطبع تھے۔ یہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی خوش مذاقی ہی تھی جو بہت سی دلچسپ کہانیوں کی موجب بنی۔لطف یہ ہے کہ گولڈزیہر اپنی اسلام دشمنی پر پردہ ڈالنے کے لئے ان اتہامات کو اسلامی کتب کی جانب منسوب کرتا ۔اس سے دراصل وہ یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ یہ واقعات بجائےخود درست ہیں ورنہ مسلم مصنفین ان کو بیان نہ کرتے اس کا یہ انداز بڑی گہری اور پر فریب چال پر منبی ہے۔ ہم ان شاء اللہ اس کی بہت اچھی طرح پردہ دری کریں گے۔

اتہام کی حقیقت:


اس میں شبہ نہیں کہ حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ جن کی ذات گرا می پر یہ کیچڑ اچھالا جاتا ہے نہایت جلیل القدر صحابی ہیں اور عبداللہ بن عمر بن العاص کو چھوڑ کر سب صحابہ میں کثیر الروا یۃ مشہور تھے۔ ظاہر ہے کہ احادیث نبویہ کے بحر بیکراں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر جرح و نقد کے یہ معنی ہیں کہ حدیث کے پورے ذخیرہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی تمام مرویات کو مشکوک ٹھرایا جائے تاکہ اس سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جا ئے اور یہ کوئی معمولی درجے کا فساد نہیں اور اگر اس جرح وطعن میں صداقت کا کچھ بھی عنصر شامل ہوتا تو اس کو تسلیم کر لیا جاتا مگر یہ طعن باطل ہے اور حق سے یکسرعاری ہے۔

بقول اما م بخاری حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے آٹھ سو اہل علم نے احادیث روایت کیں ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان پر اعتماد کرتے تھےورنہ ان سے حدیثیں روایت نہ کرتے سب صحابہ اور محدثین ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو ثقہ تسلیم کرتے رہے ہیں حضرت ابن عمر فرماتے ہیں:

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مجھ سے بہتر ہیں اور جو حدیث وہ بیان کرتے ہیں اس کو وہ خوب جانتے ہیں۔

حضرت طلحہ جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں فرماتےہیں:

اس میں شک نہیں ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلیم سے وہ حدیثیں سنیں جو ہم نہ سن سکے۔

امام نسائی ذکر کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت زید بن ثابت کی خدمت میں حاضر ہو کر کوئی مسئلہ پوچھا ،حضرت کہنے لگے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤاور ان سے دریافت کرو ۔امام نسائی نے پوارا واقعہ ذکر کیا۔

بقول اہل علم وثقات محدثین ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حد درجہ حافظ اور ضابط تھے۔ امام شافعی فرمایا کرتے تھے کہ ابو ہریرہ تمام راویان حدیث سے بڑھ کر حافظ ہے۔اعمش ابو صالح سے ذکر کرتے ہیں کہ ابو ہریرہ تمام اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر حافظ تھے۔ مروان کا کاتب ابو زعیزعہ ذکر کرتا ہے کہ مروان نے ابو ہریرہ کو بلایا اور وہ حدیثیں بیان کرنے لگے ،میں ایک چار پائی کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا اور لکھتا جا رہا تھا جب ایک سال گزرا تو مروان نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو بلا کر ان احادیث کے بارے میں پوچھا اور مجھے تحریر کردہ احادیث کو دیکھتے رہنے کا حکم دیا ،ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے من عن وہ حدیثیں سنا دیں اور ایک حرف کو بھی تبدیل نہ کیا ۔

یہ ہیں ابویرہ رضی اللہ عنہ کے بارے جلیل القدر محدثین کے نظریات۔ان کی رائے سند کا درجہ رکھتی ہے۔جس کو یہ ثقہ قرار دیں اس کو کوئی مجروح نہیں ٹھہرا سکتا ۔ اور جس کو نقدو جرح کے تیروں سے گھائل کر دیں کھوٹے سکے کی طرح کوئی اس کی توثیق نہیں کرسکتا۔ بھلا جو شخص ان اکا بر کی مدح وتوصیف سے بہرہ ور ہو چکا ہو اس کو کسی کی مذمت کی کیا پروا ۔

ان مختصر تمہیدی سطور کے بعد اب ہم ان اعتراضات کی اصل حقیقت ب نقاب کرتے ہیں:

۱۔
مستشرق مذکور کا یہ قول کہ کثرت روایت کی بناء پر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے شک وشبہ کا اظہار کرنے لگے تھے۔اور اس کی دلیل بخاری کی وہ روایت ہے جو بخاری کتاب فضائل الاصحاب حدیث نمبر ۱۱ میں مذکور ہے ،اس میں درج ہے کہ ''لوگ کہتے ہیں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ زیادہ حدیثیں بیان کرتا ہے۔بات یہ ہے کہ میں اپنا پیٹ بھر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ رہا کرتا تھا نہ لذیذ کھانے مجھے نصیب تھے نہ عمدہ کپڑا،نہ میرا کوئی خادم اور نوکر تھا،جب بھوک ستاتی تو میں پیٹ کے بل کنکریوں پر الٹا لیٹ جایا کرتا تھا۔''

ایک با انصاف آدمی مذکورہ صدر روایت سے سمجھ سکتا ہے کہ بعض لوگوں نے کثرت حفظ و روایت پر تعجب کیا تھا ،ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کی وجہ یہ بیان کی کہ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ رہا کرتے تھے۔انہیں مال متاع جمع کرنے کے بجائے صرف حدیثیں جمع کرنے کا شوق تھا جب بھوک ستاتی تو وہ کنکریوں پر لیٹ جاتے تجارت ہو یا زراعت ،انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے باز نہ رکھ سکی اس لئے انہوں نے دوسروں سے زیادہ احادیث یاد کر لیں اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ استفادہ کیا جس سےدیگر صحابہ قاصر رہے۔جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ وجہ بیان کردی تو اعتراض کرنے والے خاموش ہوگئے

اگر ہم مستشرق مذکور کی یہ بات تسلیم کر بھی لیں کہ وہ لوگ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر تعجب نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے بارے میں شکوک شبہات کا اظہار کرتے تھے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیثیں اخذ کرنا ترک کیوں نہ کیا ؟حالانکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس کے بعد پچاس سال بقید حیات رہےمعلوم ہوتا ہے کہ وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ وجہ سے مطمئن ہو گئے تھےاور ان کے شکوک شبہات زائل ہوگئے تھے اگر ان کی مرویات میں انہیں کچھ شبہ ہوتا تو وہ ان کے اخذ کر نے سے باز رہتے ،حالانکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے محافظ اور ان میں تدلیس وکذب کی آمیزش کو روکنے والے تھے۔

۲۔
جہاں تک گولڈ زیہر کے اس زعم باطل کا تعلق ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ایک ظریف طبع آدمی تھے اور وہ معمولی معمولی باتوں کو بڑے دلکش انداز میں بیان کرنے کےعادی تھے یہی وجہ ہے کہ بہت سی کہانیاں ان کے بارے میں مشہور ہوگئیں ،ابن قتیبہ نے یہ دلچسپ واقعات بیان کئے ہیں۔یہ بیان حد درجہ مبہم و مجمل اور گمراہ کن ہے۔ہم نہیں جانتے وہ کہانیاں کیا ہیں؟مستشرق مذکور کو چاہیئے تھا کہ وہ کہانیاں بیان کرتا،تاکہ ہم ان پر غور وفکر کر سکتے ۔اس نے یہ بھی نہیں بتایا کہ ابن قتیبہ نے یہ واقعات اپنی کس کتاب میں ذکر کئے ہیں،ابن قتیبہ ایک کثیر التصانیف عالم ہیں اور ان کی متعدد تصانیف زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں ۔اگر مستشرق مذکور امانت ودیانت سے کام لے کر ابن قتیبہ کی کتاب کا نام ذکر کردیتا تو ہم اسے بتا تے کہ وہ ابن قتیبہ کی بات سمجھنے سے قاصر رہا۔

۳۔
منکرین حدیث نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ڈاکٹر اسپرنگر کا جو قول نقل کیا ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ورع وتقویٰ کے پیش نظر احادیث وضع کیا کرتے تھے ہم اسپرنگر وغیرہ کے مزعومات باطلہ کو تسلیم نہیں کر سکتے ۔یہ لوگ تو خود صحابہ پر بہتان طرازی میں حد سے بڑہے ہوئے ہیں ۔ان کا مقصد وحید ملسمانوں کو گمراہ کرنا ،دین میں انتشار پیدا کرنا ،حقیقت کو مسخ کرنا ،اور اصلیت پر پردہ ڈالنا ہے،اسپرنگر کےاس طعن کے لئے کوئی جواز نہیں اور یہ بلا دلیل وبرہان ہے۔

اسپرنگرکا یہ کہنا کہ ''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ زہد وتقوی کی بناء پر حدیثیں وضع کیا کرتے تھے۔''ایک لایعنی گفتگو ہے۔ جس کا کوئی مطلب مفہوم نہیں ۔اس لئے کہ زہد وتقوی تو لوگوں پر جھوٹ باندھنے سے بھی روکتا ہے۔چہ جائے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراء پردازی کی جائے ۔ابو ہریرہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ کیسے باندھ سکتے تھے جب کہ وہ خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث روایت کرتے تھے کہ جس نے مجھ پر دانستہ جھوٹ باندھا وہ اپنا گھر دوزخ میں بنا لے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جب حدیث روایت کرنے لگتے تو اس حدیث سے آغاز کرتے ظاہر ہے کہ جس شخص نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ،اسے اچھی طرح یاد رکھا دوسروں تک پہنچایا بلکہ دوسروں کو یاد دلایا اور ہر مرتبہ روایت حدیث سے قبل وہ حدیث دوسروں کو سنائی اس کے ساتھ ساتھ وہ مومن بھی ہواور زہد وتقوی سے بھی متصف ہو عادۃً محال ہے کہ ایسا شخص رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھے ۔دروغ گوئی میں مبالغہ آمیزی اور اس کو ایک دینی کام خیال کرنا تو بڑی بات ہے۔مستشرقین کا یہ قول کہ ''اکثر احادیث جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب ہیں ،پچھلے تاریخی ادوار میں گھڑ کر ان کی جانب منسوب کی گئی ہیں'' ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بہت سی حدیثیں وضع کر کے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جیسے عظیم ترین محدث کی جانب منسوب کر دی گئی تھیں مگر نقاد حدیث نے ان میں سے ایک ایک موضوع حدیث کو چھانٹا اور کھوٹی کھری احادیث کو ممیز وممتاز کردیا اور اس طرح انہوں نے واضعین کے سب راستے مسدود کردئے ۔اب سوال یہ ہے کہ انسائکلوپیڈیا کے مصنفین نے یہ کانامہ کس لئے انجام دیا تھا؟اگر ان کا مقصد یہ تھا کہ علوم اسلامیہ کو ان کی اصل شکل وصورت میں لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے تو افسوس ہے کہ یہ مقصد بالکل پوارا نہیں ہوا۔اور اگر اس محنت و کا وش کی غرض وغایت یہ تھی کہ اہل مغرب کے سامنے مسلمانوں کی تصویر قابل مذمت حال میں کھینچی جائے ،مسلمانوں کے عقائد میں انتشار پیدا کیا جائے ،ملسم نوجوانوں کو دین سے برگشتہ کیا جائے تو اس میں شبہ نہیں کہ یہ مجموعہ بڑی حدی تک اس غرض کو پورا کرتا ہے۔



عصر حاضر میں نام نہاد اہل علم اور بد اخلاق لوگوں کی ایک جماعت اٹھی ہے جنہوں نے سابقہ ادوار کے تمام عیوب ومطاعن کا کوڑا کرکٹ حضرات صحابہ پر بالعموم حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر بالخصوص ڈالنے کی کوشش کی ہے ان کا مقصد یہ ہے کہ دین اسلام کے اسد بلند پایہ ستو ن کو مسمار کر دیا جائے،وہ عظیم ستون رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث وسنت ہے۔چنانچہ انہوں نے سابقہ الذکر اتہامات پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس پر جھوٹ کا طومار باندھنے کی کوشش کی ہے ۔چنانچہ ہم ان اعتراضات کا ذکر کر کے ان کا مختصر جواب پیش کرتے ہیں

۱۔
مستشرق اور ان کے جاہل تلامذہ کا دعوی ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو دین سے کوئٰی دلچسپی نہ تھی وہ صرف دنیا کی خاطر مشرف باسلام ہوئے ،حالانکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقر وفاقہ کی زندگی بسر کرتے تھے اور سب کاموں کو چھوڑ کر انہوں نے اپنی زندگی علم وعبادت ،جہاد فی سبیل اللہ اور دین کی تبلیغ و دعوت کے لئے وقف کر رکھی تھی اس سے ان کے دعوے کی تکذیب ہوتی ہے،

۲۔
ان کا دعوی ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو علم فقہ میں چنداں مہارت حاصل نہ تھی یہ تاریخ اسلام پر ایک عظیم دھبہ ہے اس لئے کہ واقعہ اس کے خلاف ہے ابن سعد طبقات میں لکھتے ہیں کہ حضرات صحابہ مثلاً ابن عباس ،ابن عمر ،ابو سعید خدری،ابو ہریرہ، عبداللہ بن عمرو بن العاص ،جابر رافع بن خدیج،سلمہ بن اکوع،ابو واقد لیثی اور عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہم حضرت عثمان کی شہادت سے لے کر اپنی وفات تک مدینہ منورہ میں حدیثیں روایت کرتے اور فتوی دیتے رہےاس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ اکابر صحابہ وتابعین کی موجودگی میں تیئس سال تک مدینہ میں فتوی دیتے رہے۔(طبقات ابن سعد)

امام ابن قیم نے مفتی صحابہ کا ذکر کیا اور بتایا ہے کہ ان میں زیادہ فتوی دینے والے بھی تھے اور کم فتوی دینے والے بھی۔بعض صحابہ فتوی دینے می متوسط درجہ کے تھے ،حضرت ابو ہریرہ کو انہوں نے متوسط فتوی دینے والوں اور حضرت ابو بکر و عثمان و ابو سعید خدری وام سلمہ وابوموسی اشعری ومعاذ بن جبل وسعد بن ابی وقاص وجابر رضی اللہ عنہم کے زمرہ میں شامل کیا ہے جو شخص کہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ نہ تھےوہ خود فقہ سے عاری ہے۔(اعلام الموقعین ج۱ص۹)

۳۔
مستشرقین کا قول ہے کہ حضرت عمر نے ابو ہریرہ کو بحرین کا عامل مقرر کیا پھر آپ کو پتہ چلا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے خیانت کی ہے چنانچہ آپ نے ان کو معزول کر دیا ان کے پاس جو مال تھا وہ لے لیا اور ان کو اس قدر پیٹا کہ خون بہنےلگا ۔یہ اس شخص کا قول ہے جو مؤرخین کے سچے جھوٹے اقوال جمع کرنے کا عادی ہو اور حق وباطل میں تمیز کرنے سے اسے کوئی سروکار نہ ہو اصل واقعہ صرف اتنا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو بحرین سے طلب کر کے پوچھا کہ یہ مال آپ نے کہاں سے حاصل کیا ؟حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا میرے پاس کچھ گھوڑیا تھیں ان کی نسل میں افزئش ہوئی اس کے ساتھ ساتھ کچھ تنخواہیں جمع ہوگئیں،باقی ماندہ مال میرے غلام کی کمائی کا ہے۔تحقیق کرنے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے درست پایا پھر آپ نے دوبارہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو بحال کرنا چاہا مگر وہ نہ مانے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ''ملازمت تو اس سے بہتر شخص (حضرت یوسف )نے بھی طلب کی تھی ''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے وہ تو حضرت یوسف علیہ السلام تھے جو خود نبی بھی تھے اور نبی زادہ بھی تھےاور میں امیمہ کا بیٹا ابو ہریرہ ہوں۔''

اس واقعہ سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ دیگر عمال کی طرح حضرت عمر نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا محاسبہ کیا تھا اور تحقیق کرنے پر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر جو الزام تھا وہ غلط ثابت ہوا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو جو دوبارہ بحال کرنا چاہا تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی سیرت بے داغ تھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ پر اعتماد کرتے تھے اور آپ کو امین خیال کر تےتھے۔

۴۔
مستشرقین کا دعوی ہے کہ جب حضرت علی ومعاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان فتنہ بپا ہوا۔ان دنوں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نماز علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ پڑھتے تھے اور کھانا حضرت معاویہ کے ساتھ کھایا کرتے تھے،جب میدان کار زار گرم ہوجاتا تو پہاڑ میں چھپ کر پناہ لیتے۔جب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس کی وجہ پوچھی جاتی تو کہتے علی بہتر عالم ہیں اور معاویہ کے یہاں لذیذ کھانا ملتا ہے۔اور امن سلاتی پہاڑ کے دامن ہی میں حاصل ہوتی ہے۔یہ واقعہ سراسر بہتان اور جھوٹ ہے تاریخ سے ثا بت ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عہ فتنہ کے زمانے میں الگ تھلگ رہے اور مدینہ سے باہر نہ گئے۔

۵۔
منکرین حدیث کا کہنا ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بنو امیہ کے حامی تھے او ر حضرت علی کی مذمت میں حدیثیں وضع کر کے معاوضہ لیا کرتے تھےبخلاف ازیں صحیح تاریخ سے اس امر کا اثبات ہوتا ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضر ت علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت کی مدح میں حدیثیں روایت کیں ہیں۔چنانچہ مسند احمد اور مجمع الزوائد میں یہ احادیث مذکور ہیں ،حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ میں دفن کر نے کا سوال اٹھا تو اس وقت مروان کے ساتھ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو جو واقعہ پیش آیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیت کے ساتھ ان کو کس قدر والہانہ محبت تھی ،مؤرخ ابن کثیر نے یہ واقعہ ذکر کیا ہے۔(البدایہ ج۸ص۱۰۸)

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مذمت میں جو حدیثیں وضع کی تھیں وہ کہاں گئیں اور کن ثقہ راویوں نے ان کو نقل وروایت کیا ؟اس کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ ان احادیث کا وجود ان لوگوں کے دماغ کے سوا اور کہیں نہیں ہے ۔

محدث حاکم وابو ہریرہ رضی اللہ عنہ:


مشہور محدث امام حاکم نے اپنی کتاب ''المستدرک''میں حضرت ابو ہریرہ کی مدح وتوصیف میں ایک نہایت قیمتی فصل منعقد کر کے بکثرت احادیث نقل کی ہیں جن سے ان کی عظمت اور فضیلت ثابت ہوتی ہے،امام حاکم نے اس فصل کو اپنے استاد محترم ابو بکر کے مندرجہ ذیل نظریات پر ختم کیا ہے چنانچہ ابو بکر فرماتے ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی احادیث کو رد کرنے کے لئے وہ شخص گفتگو کرتا ہے جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے اندھا کردیا ہو اور وہ احادیث کا مطلب سمجھنے سے قاصر ہویا تو وہ شخص فرقہ جہمیہ معطلہ میں سے ہوگاجو اپنے نظریے کے خلاف ابو ہریرہ کی مرویات سن کر ان کو گالیاں دیگا اور ادنٰی درجے کے لوگوں کو یہ تاثر دینےکی کوشش کریگا کہ یہ حدیث قابل احتجاج نہیں ہیں۔

یا وہ شخص خارجی ہوگا جس کے نزدیک ساری امت محمدی واجب القتل ہے اور کسی خلیفہ اور امام کی اطاعت ضروری نہیں ایسا شخص جب اپنے گمرہانہ عقائد کے خلاف حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنی کی روایت کردہ احادیث کو دیکھے گا اور کسی دلیل اور برہان سے ان کا جواب نہ دے سکے گا تو فی الفور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے لگے گا۔

یا وہ شخص قدریہ(منکرین تقدیر)میں سے ہوگا جن کا اسلام اور اہل اسلام سے کچھ تعلق نہیں اور جو تقدیر کا عقیدہ رکھنے والے مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں ایسا شخص جب اثبات تقدیر کے مسئلہ سے متعلق ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث دیکھے گا تو اپنی بر کفر عقیدے کی تائید و حمایت میں اسے کوئی دلیل نہ ملے گی تو وہ کہے گا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات استناد واحتجاج کے قابل نہیں۔

یا وہ شخص جاہل ہوگا جو جہالت کے باوجود فقہ دانی کا مدعی ہے اس شخص نے جس امام کی تقلید کا قلادہ اپنی گردن میں ڈالا ہوا ہے جب اس کے خلاف ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات دیکھے گا تو ان کی تردید کرنے لگے گا اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو مطعون ٹھہرائے گا۔لیکن جب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث اس کے امام کے مسلک سے ہم آہنگ ہونگی تو اس وقت وہ ان کو اپنے مخالفین کی تردید میں استعمال کریگا۔(المستدرک ج۳ص۵۰۶)

اکابر صحابہ جنہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی:


امام حاکم فرماتے ہیں کہ مندرجہ ذیل اکابر صحابہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیثیں روایت کی ہیں۔

زید بن ثابت،ابو ایوب انصاری، ابن عباس،ابن عمر،عبداللہ بن زبیر،ابی بن کعب،جابر ،عائشہ،مسور بن مخرمہ،عقبہ بن حارث،ابو موسٰی اشعری ،انس بن مالک،سائب بن زید،ابو رافع مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،ابو عمامہ بن سہل ،ابو طفیل ،ابو نضرہ غفاری ،ابو رہم غفاری ،شداد بن الہاد،ابو حدرد،عبداللہ بن حدرد اسلمی ،ابو رز ین عقیلی،واثلہ بن اسقع،قبیصہ بن ذویب،عمر وبن الحمق ،حجاج اسلمی ،عبداللہ بن عقیل،الاغرالجہنی،شرید بن سوید رضی اللہ عنہم اجمعین۔

اس سے معلوم ہوا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے صحابہ کی تعداد اٹھائیس تک پہنچ گئی تھی جہاںتک تابعین کا تعلق ہے ان میں کوئی بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے اصحاب وتلامذہ سے بڑھ کر عالم اور مشہور تر نہ تھا ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ان سب کا ذکر طوالت کا موجب ہے ،خداوند کریم ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،ان کے صحابہ ،تابعین اور سب ائمہ دین کی مخالفت سے محفوظ رکھے۔(امام حاکم کا کلام ختم ہوا)

اس پر جس قدر تاسف کا اظہار کیا جائے کم ہے کہ کچھ نوخیز مدعیان اسلام جو علم کے ذوق سے آشنا ہیں اور نہ اسلام کے قدر شناس ،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم کی مذمت کر کے بزعم خویش اسلام کو نقصان پہنچانے کے در پر ہیں ان کا کام صرف دولت جمع کرنا ہے ۔حیرت کی بات تو یہ ہےکہ وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر یہ بہتا ن طرازی کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے معاوضہ لے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مذمت میں حدیثیں وضع کیا کرتے تھے۔

دوسری طرف ان کا اپنا یہ حال ہے کہ عیسائی مشینریوں سے بھاری تنخواہیں وصول کر کے ان کے کاموں میں تعاون کر رہے ہیں ،اوریہ صرف اس بات کا صلہ ہے کہ دین اسلام کو ہدف تنقید بنایا جائے اور علمائے اسلام کی تحقیرو تذلیل کی جائے۔

قرآن عزیز میں فرمایا:


(ومن یکسب خطیئۃ اؤ اثما یرم بہ بریئافقد احتمل بھتانا واثما مبینا)

''اور جو غلطی یا گناہ کا مرتکب ہو پھر کسی بے گناہ کو اس سے متہم کر دے تو اس نے بہتان تراشا اور بڑا بھاری گناہ اٹھایا''۔
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
جزاک اللہ، بہترین تحریر ھے۔۔۔ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کے دفاع میں ڈاکٹر مصطفی سباعی مرحوم کی کتاب "سنت کا تشریعی مقام" یا "السنۃ و المکانتھا فی الاسلام" بھی کافی مفید ہے۔۔۔
 
Top