• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انسانی زندگی میں دعا کی اہمیت

tanveer ahmad awan

مبتدی
شمولیت
اگست 23، 2016
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
7
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انسانی زندگی میں دعا کی اہمیت
مولانا تنویر احمد اعوان
دنیا ئے رنگ و بو میں انسان کوزندگی کےنشیب و فرازکا سامنا کرنا پڑتا ہے،کہیں یہ انسان خوشی کے لمحات کو یادگار بنانے کی کوشش کرتا ہے تو کہیں غم و الم کے تلخ گھڑیاں بھی اس کی زندگی کا حصہ ہوتی ہیں ،اگر کبھی کامیابیاں اس کی دہلیز پر دستک دی رہی ہوتی ہیں تو کبھی پے در پے ناکامیوں سے بھی اس کا پالا پڑتا ہے،غرض کہ موت وحیات،عزت و ذلت،تخت و تختہ کی دھوپ چھاؤں سے گزرنے والا یہ انسان ہمیشہ ہی سکون کا متلاشی رہا ہے،کسی ایسے سہارے کی تمنا ہمیشہ آدم زاد کےمطمع نظر رہی ہے جو ہر حال میں اس کے ساتھ ہو ۔
پیغمبر اسلام ﷺ نے انسانی زندگی میں پیش آنے والے تمام مسائل کا حل امت کو عطا فرمایا ہے،زندگی کا کوئی ایک پہلو ایسا نہیں جوتشنہ ہو ، آپ نے امت کو جو اعمال دئیے ہیں ان میں اہم اور بنیادی عمل دعا ہے۔دعا کے لغوی معنی پکارنا،بلانا ،مانگنا اور سوال کرنا ہیں،شرعی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں استغاثہ اور عرض و معروض کرنا دعا کہلاتا ہے۔دعا کا عمل اپنے اندر دو خوبصورت پہلو رکھتا ہے،ایک طرف تو انسان اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی عبودیت ،بندگی،احتیاجی،عاجزی اور ضعف وذلت کا اظہار کرتاہےتو دعا کا دوسرا پہلو اللہ تعالیٰ کی الوہیت،ربوبیت،قدرت،رحمت،عظمت اور جلال کا فعلا ً اور قولاً اقرار کرنا ہے۔د عا کے مبارک عمل سے ہمارے مسائل حل ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ کا تقرب بھی ہمیں حاصل ہوتا ہے۔قرآن پاک میں ارشادباری تعالیٰ ہے اور جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں ،تو (آپ کہہ دیجیئے )میں اتنا قریب ہوں کہ جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والی کی پکار سنتا ہوں ۔(البقرۃ۔186)اللہ کریم وہ ذات ہے جو مانگنے والے سے خوش ہوتا ہے اور جو اس سے نہ مانگے وہ اس سے ناراض ہوتا ہے۔اور تمھارے رب نے کہا مجھے پکارو میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا، بیشک جو لوگ تکبر کی بنا پر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں وہ ذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے۔(المؤمن ،60)نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو اللہ تعالیٰ سے نہیں مانگتےاللہ ان پر ناراض ہوتے ہیں۔(ترمذی،2/175)جو اللہ تعالیٰ سے مناجات کرتا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنا مقرب بنا لیتے ہیں،قرآن پاک میں ارشاد ہے تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔(البقرۃ ۔152)اللہ تعالیٰ کی ایک صفت منان ہے یعنی ایسا احسان کرنے والا کہ احسان کرنے کے بعد جتلاتا بھی نہیں ہے،اللہ تعالی ٰ کو اس بات سے حیا آتی ہے کہ بندہ مانگنے کا حق ادا کر رہا ہو اور وہ اسے خالی ہاتھ لوٹا دے۔
اللہ تعالیٰ کا تقرب جس کو حاصل ہو جاتا ہے وہ کبھی مایوس نہیں ہوتا ،اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید ایمان کی علامت ہے اور ناامیدی تو کافروں کا شیوا ہے،ارشاد باری ہےاور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید نہ ہو،یقین جانو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامیدوہی لوگ ہوتے ہیں جو کافر ہیں۔(یوسف،86)اللہ تعالیٰ کو بندوں کا دعا مانگنا پسند ہے ،دعا ایک کیفیت کا نام ہےجس کا تعلق دل کے ساتھ ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہےوہ ذات جو بے قرارآدمی کی سنتا ہے جب وہ اس کوپکارتا ہے۔(النمل،64) دعا ایک مستقل عبادت ہے اور دعا مانگنے والا کبھی ناکام نہیں ہوتا ہے۔
صحیح بخاری شریف میں حدیث قدسی ہے کہ میں اپنے بندے کےساتھ اس کے گمان کے مطابق برتاو کرتا ہوں۔ دعا مانگتے ہوئے پورے اخلاص اور یکسوئی کے ساتھ بارگاہ الہی میں ہاتھ بلند کرنے چاہیں، دعا میں جب یقین اور اعتماد کی یہ کیفیت ہوگی کہ میں جس رب سے مانگ رہا ہوں اور جو کچھ مانگ رہا ہوں،وہ ذات یہ سب کچھ عطا کرنے پر قادر ہے،مجھے میری مطلوبہ چیز صرف اسی بارگاہ سے عطا ہو گی۔کچھ چیزیں ایسی ہیں جن سے احتیاط ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے تاکہ رحمت باری تعالیٰ سے وافر حصہ اس کے نصیب میں آئے،رزق حلال دعاؤں کی قبولیت میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے،حضرت سعد ابی وقاص سے روایت ہے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا میں دعا مانگتا ہوں مگر قبول نہیں ہوتی،آپ ﷺ نے فرمایا اے سعد!حرام سے بچو، بے شک جس نے حرام کا ایک لقمہ بھی کھا لیا اس کی چالیس دن تک کوئی دعا قبول نہیں ہو گی۔اللہ تعالیٰ اس شخص کی دعا کو بھی شرف قبولیت عطا فرماتے ہیں جو گناہ پر قدرت رکھنے کے باوجود،کوئی رکاوٹ بھی نہیں اورمستقبل میں بدنامی اور شرمندگی کا کوئی سبب اور اندیشہ بھی نہیں،اور یہ صرف خشیت الہی کی وجہ سےگناہ سے باز آ جاتا ہے،اس گھڑی یہ جو دعا مانگے گا، ضرور قبول ہوگی اور ایمان کی حلاوت اسے نصیب ہو گی۔
موجودہ حالات میں جب ہر کوئی مسائل کی کثرت اور وسائل کی کمی کا رونا رو رہا ہے،ہرایک انسان مشکلات اور تنگی حال سےدو چار ہے،اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان اپنے رب کی قدرت و طاقت پر کامل یقین رکھتے ہوئے صرف اسی کے سامنے اپنی حاجات اور مسائل کو رکھے ،اللہ کریم سے مانگنے کو ہی اپنا مشغلہ بنائیں،اگر انسان ایک خالق کائنات کے سامنے عاجزی و انکساری اور نیاز جبین کو جھکانا سیکھ لے تو اللہ اسے در در پے جھکنے سے محفوظ فرما لیتا ہے۔
 
Top