• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"انشاء اللہ " اور "ان شا ء اللہ " کی وضاحت اور دلیل

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم و ر حمتہ اللہ و بر کاتہ ،

لفظ " ان شا ء اللہ " ( اگر اللہ چاہے) ہم اپنی گفتگو میں اکثر استعمال کرتے ہیں ، میں یہ تو جانتی ہوں کہ لفظ "ان شا ء اللہ " اور انشاء اللہ " ادا کرنے میں مفہوم میں فرق آ جاتا ہے ۔لیکن پھر بھی اس کی مکمل و ضاحت چاہتی ہوں تا کہ مجھ سمیت دیگر بھی اس فرق کو سمجھ سکیں اور میرے ساتھ ان کی بھی رہنمائی ہو سکے۔اس پر معلومات ضرور فراہم کریں۔

جزاک اللہ

والسلام
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
پہلے بندہ خود ( ان شاء اللہ) کو (انشاء اللہ) کی صورت میں لکھا کرتا تھا۔ لیکن جب سے معلوم ہوا کہ املائی طور پر ایسا لکھنا غلط ہے تو ایسا لکھنا چھوڑ دیا ۔۔۔ در اصل (ان) کو ملاکر لکھنے سے معنی بدل جاتا ہے۔ انشاء کے معنی غالبا اردو میں ’’تحریر ‘‘ کرنے کے آتے ہیں۔ جو کہ مقصود نہیں۔ بلکہ ہمارا مقصد (ان شاء اللہ) کہنے سے ( اگر اللہ نے چاہا ) ہوتا ہے۔۔۔۔ اور عربی زبان میں (انشاء) کے معنی ( بلڈنگ بنانے) میں آتا ہے مثال کے طور پر مندرجہ ذیل عربی مثال اور اس کا ترجمہ ملاحظہ ہو
انشانا مصنعًا للملابس۔ ہم نے کپڑے بنانے کی فیکٹری تعمیر کی۔
ھذا الانشاء جمیل۔ یہ بلڈنگ خوبصورت ہے۔ بلڈنگ کو ’’عمارہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
امید ہے آئندہ تمام احباب اس بات کا خیال رکھیں گے۔

یہ تو (ان شاء اللہ) لکھنے کا علمی روپ تھا۔ اب دیکھتے ہیں کہ (ان شاء اللہ ) کی کس طرح ہم انسان ’’درگت ‘‘ بناتے ہیں۔
1۔ ایک تو (ان شاء اللہ) وہ ہوتا ہے جو انسان کسی بات پر دل سے کہتا ہے کہ واقعتا (اگر اللہ نے چاہا) تو یہ کام ضرور ہوگا یا یہ کام ضرور کروں گا۔ ایسے لوگ خود دار اور با اعتماد ہوتے ہیں۔
2۔ دوسری قسم (ان شاء اللہ) کی وہ ہے جو ہم بالعموم کسی کو ’’ٹرخانے‘‘ کے لئےاس بابرکت لفظ کا سہارا لیتے ہیں۔ کئی دفعہ دوست احباب آپس میں کسی بات پر اتفاق کرنے کے بعد یہ کہتے ہیں۔ انداز تکلم سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کس قسم کا (ان شاء اللہ) بول رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر کسی لا یعنی شخص یعنی جو خومخواہ تنگ کرنے کا عادی ہو اور ہمیں چکرانے کی حد پر اتر آئے تو اسے کہتے ہیں: ( ان شاء اللہ) (ان شاء اللہ) خدا نے چاہا تو ضرور بضرور کچھ ہوگا۔ پھر واقعتا اسباب مہیا کئے بغیر خدا پر ڈوری ڈال دی جاتی ہے۔ اور جس کے لئے کام کرنا ہو تو اسکو (ان شاء اللہ) ایک دفعہ سناکر خوشخبری کے انتظار کا کہا جاتا ہے۔
3۔ یہ ایک ایسا ( ان شاء اللہ) ہے جو غیر ارادی طور پر منہ سے نکل پڑتا ہے۔ اس کا مقصد اگلے کو رد کرنا نہ اس کا کام کرنا مقصد ہوتا ہے۔ ایسے لوگ کہہ کر بھول جاتے ہیں بلکہ یاد ہی کہاں رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔

نقل
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
لفظ ان شاءاللہ کے اردو میں معنی بنتا ہے اگر اللہ نے چاہا اور جب کہ انشاء عربی میں کسی چیز کو بنانے کو کہتے ہیں

اللہ کا ارشاد ہے کہ
اِنَّآ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَاۗءً 35۝ۙ
ہم نے ان (کی بیویوں کو) خاص طور پر بنایا ہے۔الواقعہ:۳۵

قَالَ اِنَّمَا يَاْتِيْكُمْ بِهِ اللّٰهُ اِنْ شَاۗءَ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ 33
جواب دیا کہ اسے بھی اللہ تعالٰی ہی لائے گا اگر وہ چاہے اور ہاں تم اسے ہرانے والے نہیں ہو۔ھود:٣٣
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
پہلے بندہ خود ( ان شاء اللہ) کو (انشاء اللہ) کی صورت میں لکھا کرتا تھا۔ لیکن جب سے معلوم ہوا کہ املائی طور پر ایسا لکھنا غلط ہے تو ایسا لکھنا چھوڑ دیا ۔۔۔ در اصل (ان) کو ملاکر لکھنے سے معنی بدل جاتا ہے۔ انشاء کے معنی غالبا اردو میں ’’تحریر ‘‘ کرنے کے آتے ہیں۔ جو کہ مقصود نہیں۔ بلکہ ہمارا مقصد (ان شاء اللہ) کہنے سے ( اگر اللہ نے چاہا ) ہوتا ہے۔۔۔۔ اور عربی زبان میں (انشاء) کے معنی ( بلڈنگ بنانے) میں آتا ہے مثال کے طور پر مندرجہ ذیل عربی مثال اور اس کا ترجمہ ملاحظہ ہو
انشانا مصنعًا للملابس۔ ہم نے کپڑے بنانے کی فیکٹری تعمیر کی۔
ھذا الانشاء جمیل۔ یہ بلڈنگ خوبصورت ہے۔ بلڈنگ کو ’’عمارہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
امید ہے آئندہ تمام احباب اس بات کا خیال رکھیں گے۔

یہ تو (ان شاء اللہ) لکھنے کا علمی روپ تھا۔ اب دیکھتے ہیں کہ (ان شاء اللہ ) کی کس طرح ہم انسان ’’درگت ‘‘ بناتے ہیں۔
1۔ ایک تو (ان شاء اللہ) وہ ہوتا ہے جو انسان کسی بات پر دل سے کہتا ہے کہ واقعتا (اگر اللہ نے چاہا) تو یہ کام ضرور ہوگا یا یہ کام ضرور کروں گا۔ ایسے لوگ خود دار اور با اعتماد ہوتے ہیں۔
2۔ دوسری قسم (ان شاء اللہ) کی وہ ہے جو ہم بالعموم کسی کو ’’ٹرخانے‘‘ کے لئےاس بابرکت لفظ کا سہارا لیتے ہیں۔ کئی دفعہ دوست احباب آپس میں کسی بات پر اتفاق کرنے کے بعد یہ کہتے ہیں۔ انداز تکلم سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کس قسم کا (ان شاء اللہ) بول رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر کسی لا یعنی شخص یعنی جو خومخواہ تنگ کرنے کا عادی ہو اور ہمیں چکرانے کی حد پر اتر آئے تو اسے کہتے ہیں: ( ان شاء اللہ) (ان شاء اللہ) خدا نے چاہا تو ضرور بضرور کچھ ہوگا۔ پھر واقعتا اسباب مہیا کئے بغیر خدا پر ڈوری ڈال دی جاتی ہے۔ اور جس کے لئے کام کرنا ہو تو اسکو (ان شاء اللہ) ایک دفعہ سناکر خوشخبری کے انتظار کا کہا جاتا ہے۔
3۔ یہ ایک ایسا ( ان شاء اللہ) ہے جو غیر ارادی طور پر منہ سے نکل پڑتا ہے۔ اس کا مقصد اگلے کو رد کرنا نہ اس کا کام کرنا مقصد ہوتا ہے۔ ایسے لوگ کہہ کر بھول جاتے ہیں بلکہ یاد ہی کہاں رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔

نقل
میراخیال ہےگڈمسلم بھائی نےبہت اچھی صراحت فرمادی ہےتاہم ایک بات اضافہ کرناپسندکروں گا۔ہمارےہاں اس بات کابھی خیال کیاجاتاہےکہ قرآنی رسم الخط کابھی اہتمام کیاجاے۔ چناچہ قرآن میں چونکہ اسی طرح ہے۔لہذایہی خیال رکھاجاتاہےکہ لکھتےوقت اسی طر ح لکھاجائے جیسے قرآن میں ہے۔
 
Top