• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
کتاب (انوارالبدر فی وضع الیدین علی الصدر) سے متعلق کسی کے پاس بھی کوئی ملاحظہ ، استدراک ، نقد وتبصرہ ہو تو یہاں پیش فرمائیں گے۔جزاکم اللہ خیرا۔
  • کوئی غلطی ثابت ہوگئی تو اس کی اصلاح کی جائے گی۔
  • کوئی غلط فہمی سامنے آئی تو اس کی وضاحت کی جائے گی۔
  • کوئی معقول اعتراض آیا تو وقت ملنے پر جواب دیا جائے گا۔
  • لایعنی اور بے کار کی باتوں کو مطلقا نظر انداز کردیا جائے گا۔
 
Last edited:

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
پورا مضمون یہاں نقل کردینا چاہیۓ.
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
ثنا أبو خليفة قال ثنا علي بن المدني قال ثنا عبد الله بن سفيان بن عقبة قال سمعت جدي عقبة بن أبي عائشة يقول رأيت عبد الله بن جابر البياضي صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم يضع إحدى يديه على ذراعه في الصلاة
عقبہ بن ابی عائشہ کہتے ہیں کہ میں نے صحابی رسول عبداللہ بن جابر رضی اللہ عنہ کو دیکھا ،آپ نے نماز میں اپنے ایک ہاتھ کو اپنے بازو پر رکھا ۔[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 5/ 228 ومن طریق ابی خلیفہ اخرجہ الطبرانی کما فی الأحاديث المختارة 9/ 130، ومن طریق الطبرانی اخرجہ ابو نعیم فی معرفة الصحابة لأبي نعيم 3/ 1610 رقم 4054 وقال الامام الھیثمی فی مجمع الزوائد 2/ 105:اسنادہ حسن ]

وضاحت:ـ
اس حدیث میں بھی دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے''ذراع''(یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصہ) پر رکھنے کاعمل منقول ہے ،اب اگر دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے ''ذراع'' (یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصے )پررکھیں گے تودونوں ہاتھ خود بخود سینے پرآجائیں گے ،تجربہ کرکے دیکھ لیجئے،لہٰذا یہ حدیث بھی نمازمیں سینے پرہاتھ باندھنے کی دلیل ہے ، مزید تفصیل کے لئے دیکھئے :انوارالبدر ص 171 تا 174۔
مذکورہ حدیث کی جو وضاحت کی گئی ہے وہ سراسر غلط اور من چاہی ہے۔
حدیث کے جو اہم الفاظ ہیں وہ یہ ہیں؛
یدیہ
ذراعیہ


”ید“ بڑی انگلی کی نوک سے لے کر کندھے تک کو کہتے ہیں۔
”ذراع“ بڑی انگلی کی نوک سے لے کر کہنی تک کو کہتے ہیں۔
مکمل ”ید“ مکمل ”ذراع“ پر رکھنا ممکن نہیں۔
دائیں ہاتھ کی ”ذراع“ (جو کہ ”ید“کا کچھ حصہ ہے) بائیں ہاتھ کی ”ذراع“ پر رکھیں تو آپ کی مجوزہ صورت ہوگی مگر حدیث میں اس کی تصریح نہیں۔ اگر حدیث میں یہ ہوتا کہ ”دائیں ہاتھ کی انگلی بائیں ہاتھ کی کہنی کے قریب رکھیں“ تو آپ کی مذکورہ وضاحت ٹھیک ہوتی مگر ایسا حدیث میں نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ آپ کی مذکورہ وضاحت دوسری صحیح احادیث کے مخالف ہے جس میں سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ کی ”نصف ذراع“ پر رکھنے کا حکم ہے۔
البتہ دائیں ”ید“ کا کچھ حصہ بائیں ”ذراع“ کے کچھ حصہ پر رکھا جائے تو بھی حدیث پر عمل ہوجاتا ہے۔
لہٰذا صحیح یہ ہے کہ سیدھے ہاتھ سے الٹے ہاتھ کو گٹ کے پاس سے پکڑیں اور سیدھے ہاتھ کی کچھ انگلیاں الٹے ہاتھ پر بچھا دیں۔ یہ عمل کسی بھی حدیث کے خلاف نہیں۔ اگر آپ الٹے ہاتھ کو گٹ کے پاس سے پکڑ کر کچھ انگلیاں بچھا دیں تو یہ انگلیاں الٹے ہاتھ کی نصف ذراع تک ہی پہنچتی ہیں۔ آزمائش شرط ہے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اب اگر دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے ''ذراع'' (یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصے )پررکھیں گے تودونوں ہاتھ خود بخود سینے پرآجائیں گے ،تجربہ کرکے دیکھ لیجئے،لہٰذا یہ حدیث بھی نمازمیں سینے پرہاتھ باندھنے کی دلیل ہے ، مزید تفصیل کے لئے دیکھئے :انوارالبدر ص 171 تا 174۔
یہ بھی خلافِ تجربہ ہے کہ دائیں پوری ذراع اگر بائیں پوری ذراع پر ارکھیں تو خود بخود سینہ پر آجاتی ہے۔ ایک نارمل انسان اگر اس طرح ہاتھ رکھے تووہ سینہ پر نہیں آسکتے آزمائش شرط ہے۔ یہ واضح رہے کہ ”سینہ“ کا تعین ضرور کر لیں کہ یہ کہاں سے کہاں تک ہوتا ہے۔
تنبیہ
اگر ایسا ممکن بھی ہوتا تو بھی یہ عمل چونکہ تمام احادیث کا مخالف ہے لہٰذا مردود ہوتا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
ثنا أبو خليفة قال ثنا علي بن المدني قال ثنا عبد الله بن سفيان بن عقبة قال سمعت جدي عقبة بن أبي عائشة يقول رأيت عبد الله بن جابر البياضي صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم يضع إحدى يديه على ذراعه في الصلاة
عقبہ بن ابی عائشہ کہتے ہیں کہ میں نے صحابی رسول عبداللہ بن جابر رضی اللہ عنہ کو دیکھا ،آپ نے نماز میں اپنے ایک ہاتھ کو اپنے بازو پر رکھا ۔[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 5/ 228 ومن طریق ابی خلیفہ اخرجہ الطبرانی کما فی الأحاديث المختارة 9/ 130، ومن طریق الطبرانی اخرجہ ابو نعیم فی معرفة الصحابة لأبي نعيم 3/ 1610 رقم 4054 وقال الامام الھیثمی فی مجمع الزوائد 2/ 105:اسنادہ حسن ]

وضاحت:ـ
اس حدیث میں بھی دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے''ذراع''(یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصہ) پر رکھنے کاعمل منقول ہے ،اب اگر دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے ''ذراع'' (یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصے )پررکھیں گے تودونوں ہاتھ خود بخود سینے پرآجائیں گے ،تجربہ کرکے دیکھ لیجئے،لہٰذا یہ حدیث بھی نمازمیں سینے پرہاتھ باندھنے کی دلیل ہے ، مزید تفصیل کے لئے دیکھئے :انوارالبدر ص 171 تا 174۔
بندہ نے تجربہ کر کے دیکھا تو پیٹ کے اوپری حصے پر تو آگئے لیکن سینے پر نہ آئے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ویسے ایک بات سوچنے کی ہے.
اگر ہاتھ سے مراد اردو کا معروف ہاتھ لیں یعنی ہتھیلیاں اور انگلیاں تو اسے بازو پر رکھنے کا مطلب یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ "مکمل بازو" پر رکھا جائے. کیوں کہ ہاتھ بہر حال بازو سے چھوٹا ہوتا ہے.
اس لیے ہاتھ یا تو بازو کے شروع میں آئے گا یا درمیان میں اور یا آخر میں. صاحب کلام کا یہ قول "کہنی سے بیچ کی انگلی کے پورے حصے تک" کم از کم نارمل انسانی ہاتھ کے بس کی بات تو نہیں ہے.
اگر کسی کا ہاتھ اتنا لمبا ہے کہ اس سارے حصے کو کور کر سکے تو میری اس سے درخواست ہوگی کہ وہ ایک تصویر ضرور بھیج دے.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
یہ تھریڈ شیخ کفایت کا شروع کردہ ہے ، اور ان کی کتاب پر نقد و تبصرہ کے لیے ہے ، جس نے نقد و تبصرہ کرنا ہے ، کرے ، کوئی اور ساتھی جواب دینے کی زحمت نہ کریں ، اس کا جواب اگر وہ مناسب سمجھیں گے تو خود دیں گے ۔
اس موضوع پر اگر عمومی گفتگو کرنی ہے ، تو کئی ایک تھریڈ موجود ہیں ، وہاں کی جاسکتی ہے ۔
شیخ کفایت جن مراسلوں کو لائق جواب نہیں سمجھتے ، رپورٹ کردیں ، حذف کردیا جائے گا ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
  • کوئی غلطی ثابت ہوگئی تو اس کی اصلاح کی جائے گی۔
  • کوئی غلط فہمی سامنے آئی تو اس کی وضاحت کی جائے گی۔
  • کوئی معقول اعتراض آیا تو وقت ملنے پر جواب دیا جائے گا۔
  • لایعنی اور بے کار کی باتوں کو مطلقا نظر انداز کردیا جائے گا۔
مذکورہ حدیث کی جو وضاحت کی گئی ہے وہ سراسر غلط اور من چاہی ہے۔
حدیث کے جو اہم الفاظ ہیں وہ یہ ہیں؛
یدیہ
ذراعیہ

”ید“ بڑی انگلی کی نوک سے لے کر کندھے تک کو کہتے ہیں۔
”ذراع“ بڑی انگلی کی نوک سے لے کر کہنی تک کو کہتے ہیں۔
مکمل ”ید“ مکمل ”ذراع“ پر رکھنا ممکن نہیں۔
دائیں ہاتھ کی ”ذراع“ (جو کہ ”ید“کا کچھ حصہ ہے) بائیں ہاتھ کی ”ذراع“ پر رکھیں تو آپ کی مجوزہ صورت ہوگی مگر حدیث میں اس کی تصریح نہیں۔ اگر حدیث میں یہ ہوتا کہ ”دائیں ہاتھ کی انگلی بائیں ہاتھ کی کہنی کے قریب رکھیں“ تو آپ کی مذکورہ وضاحت ٹھیک ہوتی مگر ایسا حدیث میں نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ آپ کی مذکورہ وضاحت دوسری صحیح احادیث کے مخالف ہے جس میں سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ کی ”نصف ذراع“ پر رکھنے کا حکم ہے۔
البتہ دائیں ”ید“ کا کچھ حصہ بائیں ”ذراع“ کے کچھ حصہ پر رکھا جائے تو بھی حدیث پر عمل ہوجاتا ہے۔
لہٰذا صحیح یہ ہے کہ سیدھے ہاتھ سے الٹے ہاتھ کو گٹ کے پاس سے پکڑیں اور سیدھے ہاتھ کی کچھ انگلیاں الٹے ہاتھ پر بچھا دیں۔ یہ عمل کسی بھی حدیث کے خلاف نہیں۔ اگر آپ الٹے ہاتھ کو گٹ کے پاس سے پکڑ کر کچھ انگلیاں بچھا دیں تو یہ انگلیاں الٹے ہاتھ کی نصف ذراع تک ہی پہنچتی ہیں۔ آزمائش شرط ہے۔
اب اگر دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے ''ذراع'' (یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصے )پررکھیں گے تودونوں ہاتھ خود بخود سینے پرآجائیں گے ،تجربہ کرکے دیکھ لیجئے،لہٰذا یہ حدیث بھی نمازمیں سینے پرہاتھ باندھنے کی دلیل ہے ، مزید تفصیل کے لئے دیکھئے :انوارالبدر ص 171 تا 174۔
یہ بھی خلافِ تجربہ ہے کہ دائیں پوری ذراع اگر بائیں پوری ذراع پر ارکھیں تو خود بخود سینہ پر آجاتی ہے۔ ایک نارمل انسان اگر اس طرح ہاتھ رکھے تووہ سینہ پر نہیں آسکتے آزمائش شرط ہے۔ یہ واضح رہے کہ ”سینہ“ کا تعین ضرور کر لیں کہ یہ کہاں سے کہاں تک ہوتا ہے۔
تنبیہ
اگر ایسا ممکن بھی ہوتا تو بھی یہ عمل چونکہ تمام احادیث کا مخالف ہے لہٰذا مردود ہوتا۔
وضاحت کا منتظر ۔۔۔۔۔۔۔
 
Top