• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انڈین ثقافت میں اسلام کا منفی پہلو

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436


انڈو-ویسٹ ایشیائی تعلقات: نہرو دور --- نجمہ ہیپت الله --- صوفی ازم کے مواد کے ذریعے انڈین

ثقافت میں اسلام کا منفی پہلو/جہیز کی رسم انڈین تصور ہے

بھارتی جنتہ پارٹی کی سابق وائس صدر نجمہ ہیپت الله اپنی کتاب "انڈو-ویسٹ ایشیائی تعلقات: نہرو دور" میں فیضی (آصف علی اصغر فیضی 1899 - 1981) کا حوالہ دیتی ہوئی لکھتی ہیں کہ:

جہیز کی رسم انڈین تصور ہے..........اور منصور بن حلاج کی وحدت الوجود آئینہ ہے ویدانتی (قدیم ہندو فلسفہ) عقائد کی اور ان (منصور بن حلاج) کا عقیدۂ فنا (فی الله) بدھ مت کے عقیدۂ نروانہ (مراقبوں کے ذریعے دنیاوی چیزوں سے روح کی آزادی) سے قریبی تعلق رکھتا ہے


جہیز کی لعنت نے جہاں سماجی زندگی کو متاثر کیا ہے وہیں اجتماعی و انفرادی زندگی کے پرسکون نظام کو بھی درہم برہم کر دیا ہے - اگر لڑکی اپنے ساتھ اپنی حیثیت سے زیادہ جہیز لاتی ہے تو اس کے والدین مقروض ہو جاتے ہیں ، پھر وہ قرض سے سبکدوش ہونے کے لیے دن رات ایک کر کے اپنا چین و سکون برباد کر دیتے ہیں ، اور اگر لڑکی اپنی حیثیت کے مطابق جہیز نہیں لاتی ہے یا وہ لڑکے والوں کے حسب منشا نہیں ہوتا تو پھر وہ لوگ کم جہیز لانے کی وجہ سے اس کو بے جا تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور اس پر طعن و تشنیع کی بوچھار کر کے اس کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں - پھر یہیں سے نکلتی ہیں خانہ تباہی کی بھیانک راہیں - یا تو خود عورت گھر میں آئے دن جھگڑا ، تکرار ، مار ، گالی اور لعن طعن سے تنگ آ کر اس بے رحم سماج سے نجات حاصل کرنے کے لیے خودکشی کا راستہ اختیار کر لیتی ہے یا پھر مطالبہ پورا نہ کرنے کی وجہ سے لڑکے والے اسے اپنے سنگ دل ہاتھوں سے اس کے وجود کو موت سے ہم آغوش کر دیتے ہیں ، جب کہ دونوں طریقے نہایت مذموم اور ظالمانہ ہونے کے ساتھ ساتھ الله کی ناراضگی کا سخت باعث ہیں - اگر لڑکی والے طاقت ور ہیں تو پھر ایسا گھناؤنا جرم کرنے والوں کے خلاف ان کا نوٹس لینا ایک فطری امر ہے - پھر شروع ہوتا ہے مقدمہ بازی کا ایک لامحدود سلسلہ جہاں مدعی حضرات مجرم کو تختہ دار پر چڑھانے کے لیے اپنا سب کچھ لٹانے پر تل جاتے ہیں اور ملزم خود کو قانون کے چنگل سے بچنے کے لیے رشوت کے طور پر لاکھوں روپے پانی کی طرح بہا دیتا ہے - اگر لڑکی والے کمزور ہیں تو پھر ان کے پاس اپنی لاڈلی کے غم میں آنسو بہانے اور دامن صبر کے مضبوطی سے تھامنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ملتا -

یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ شادی جو ایک پاکیزہ رسم ہے ، جس کا مقصد دو اجنبی خاندانوں کے درمیان الفت ومحبت کے رشتے استوار کرنا اور مہذب طریقے سے ایک اجتماعی زندگی کا آغاز کرنا تھا ، رسم جہیز نے اس خانہ آبادی کو خانہ بربادی اور آپسی نفرت وعداوت میں تبدیل کر دیا - ایک شخص اپنے نازوں کی پلی لاڈلی کو ایک اجنبی کے حوالے یہ سوچ کر یہ کہ دونوں مل کر زندگی کی ایک نئی صبح کا آغاز کریں گے مگر چند سکوں کے بدلے اس کے ارمانوں پر پانی پھیر دینا انسانیت کا کون سا تقاضا ہے؟

لیکن آج شادی کا بوجھ اتنا بھاری ہو گیا ہے کہ اس کے تلے وقت کے بڑے بڑے سورما بھی اپنی نام نہاد عزت و وقار کے ساتھ دبے ہوئے ہیں - آج کے کچھ نئے ترقی یافتہ بے غیرت لوگوں نے لڑکی والوں سے جہیز حاصل کرنے کا ایک نیا طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے - وہ یہ ہے کہ اگر لڑکی کے گھر والے بار بار دباؤ کے باوجود مطالبہ پورا نہیں کرتے تو وہ آخر کار دلہن کو ہی اس کے باپ کے گھر بٹھا دیتے ہیں اور عہد کر لیتے ہیں کہ جب تک ہمیں مقررہ رقم نہیں مل جاتی ہم لڑکی کو اپنے گھر نہیں بلائیں گے ، اس طرح سے دلہن سمیت ان کے گھر والوں کو بھی ذہنی و جسمانی تناؤ میں مبتلا کر دیتے ہیں -

لڑکیوں کے لئے وبالِ جان بنتا جا رہا ہے
جہیز جاں بچانے کا سامان بنتا جا رہا ہے

رکھ دیں اس نے تہذیب کی دھجیاں بکھیر کر
نکاح نا پید ہے زنا آسان بنتا جا رہا ہے

جہاں صوفی ازم نے اسلام کی دھجیاں اڑائیں وہیں سماج میں اسلام کے اجنبی بننے سے مردود قسم کی رسمیں ایجاد ہوتی گئیں اور نام نہاد مسلمان انہیں سینے سے لگاتے رہے اور آج اس امت کی تباہی و بربادی سب کے سامنے ہے

 
Top