• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انگریز کے وفادار اور ایجنٹ کون ؟؟؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
انگریز کے وفادار اور ایجنٹ کون ؟؟؟


16088_643527829077867_7512933287088431502_n.jpg

کہا جاتا ہے کہ جن کے گھر شیشے کے ہوتے ہیں انھیں دوسروں کے گھروں پر پتھر نہیں پھینکنا چاہیے کیونکہ نقصان انہیں کا ہے یہ مثال آج کل ہمارے دو سوتیلے بھائیوں پر آتی ہیں آپ سوچ رہے ہونگے کہ سوتیلے؟ وہ اس لئے کہ دیوبندی اور بریلویوں کے ابّا ایک ہی ہیں یعنی کہ امام ابو حنیفہ رحمہ الله کیونکہ تقلید دونوں ایک ہی امام کی کرتے ہیں یہ دونوں بھائی کتاب و سنت کے ماننے والوں یعنی کہ اہلحدیث پر بے جا الزام تراشیاں کرتے ہیں کہ یہ لوگ انگریز کے ایجنٹ ہیں ملکہ وکٹوریہ کی پیداوار ہیں وغیرہ وغیرہ آیئے ذرا تفصیل سے جانتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے اور کون اصل میں انگریز کا ایجنٹ انکی تنخواہوں پر پلنے والے اور وفادار تھا دونوں بھائیوں کا کالا چٹھا الگ الگ اسی پوسٹ میں ملاحظہ کریں--
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
دیوبندی:-

1- انگریز کی شہادت مدرسہ دیوبند کے متعلق

"جو کام بڑے بڑے کالجوں میں ہزاروں روپیہ کے صرف سے ہوتا ہے وہ یہاں کوڑیوں میں ہورہا ہے۔ جو کام پرنسپل ہزاروں روپیہ ماہانہ تنخواہ لے کر کرتا ہے وہ یہاں ایک مولوی چالیس روپیہ ماہانہ پر کررہا ہے۔ یہ مدرسہ خلافِ سرکار نہیں بلکہ موافق سرکار ممد معاونِ سرکار ہے۔"

(مولانا محمد احسن نانوتوی، ص 217)

2- انگریزوں سے وظیفہ اور پینشنز

(مدرسہ دیوبند کے کارکنوں میں اکثریت) ایسے بزرگوں کی تھی جو گورنمنٹ کے قدیم ملازم اور حال پینشنز تھے جن کے بارے میں گورنمنٹ کو شک و شبہ کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہ تھی۔

(حاشیہ سوانح قاسمی، ج 2، ص 247)

3- دیوبندی علماء رشید گنگوہی کے بارے میں انکشافات جب ان پر بغاوت کا الزام لگایا گیا :-

"شروع 1276ھ، 1858 وہ سال تھا جس میں حضرت امام ربانی پر اپنی سرکار سے باغی ہونے کا الزام لگایا گیا اور مفسدوں میں شریک رہنے کی تہمت باندھی گئی۔"

(تذکرۃالرشید، ج 1، ص 74)

اس سے ظاہر ہوا کہ وہ باغی نہیں تھے بلکہ سرکار کے معاون تھے -

مزید آگے لکھتے ہیں کہ:-

"جن کے سروں پر موت کھیل رہی تھی انہوں نے کمپنی کے امن وعافیت کا زمانہ قدر کی نظروں سے نہ دیکھا اور اپنی رحمدل گورنمنٹ کے سامنے بغاوت کا علم قائم کیا۔"

(تذکرۃالرشید، ج 1، ص 74)

4- دیوبندیوں کا الٹا جہاد جو انہوں نے اپنی "سرکار" کے "باغیوں" یعنی مجاہدینِ تحریک آزادی کے خلاف لڑا:-

"اتنی بات یقینی ہے کہ اس گھبراہٹ کے زمانہ میں جبکہ عام لوگ بند کواڑوں گھر میں بیٹھے ہوئے کانپتے تھے حضرت امام ربانی (رشید گنگوہی) اور دیگر حضرات اپنے کاروبار نہایت اطمینان کے ساتھ انجام دیتے اور جس شغل میں اس سے قبل مصروف تھے بدستور ان کاموں میں مشغول رہتے تھے۔ کبھی ذرہ بھر اضطراب نہیں پیدا ہوا اور کسی وقت چہ برابر تشویش لاحق نہیں ہوئی۔ آپکو اور آپ کے مختصر مجمع کو جب کسی ضرورت کے لئے شاملی کرانہ یا مظفرنگر جانیکی ضرورت ہوئی، غایت درجہ سکون ووقار کے ساتھ گئے اور طمانیت قلبی کے ساتھ واپس ہوئے۔ ان ایام میں آپکو ان مفسدوں سے مقابلہ بھی کرنا پڑا جو غول کے غول پھرتے تھے۔ حفاظت جان کے لئے تلوار البتہ پاس رکھتے تھے اور گولیوں کی بوچھاڑ میں بہادر شیر کی طرح نکلے چلے آتے تھے۔ ایک مرتبہ ایسا بھی اتفاق ہوا کہ حضرت امام ربانی اپنے رفیقِ جانی مولانا قاسم العلوم اور طبیب روحانی اعلیٰحضرت حاجی صاحب و نیز حافظ ضامن صاحب کے ہمراہ تھے کہ بندوقچیوں سے مقابلہ ہوگیا۔ یہ نبرد آزما دلیر جتھا اپنی سرکار کے مخالف باغیوں کے سامنے سے بھاگنے یا ہٹ جانے والا نہ تھا۔ اس لئے اٹل پہاڑ کی طرح پرا جما کر ڈٹ گیا اور سرکار پر جاںثاری کے لئے تیار ہوگیا۔ اللہ رے شجاعت و جوا مردی کے جس ہولناک منظر سے شیر کا پتہ پانی اور بہادر سے بہادر کا زہرہ آب ہو جائے وہاں چند فقیر ہاتھوں میں تلواریں لئے جم غفیر بندوقچیوں کے سامنے ایسے جمے رہے گویا زمین نے پاؤں پکڑ لئے ہیں۔ چناچہ آپ پر فیریں ہوئی اور حضرت ضامن صاحب زیرِ ناف گولی کھا کر شہید بھی ہوئے"

(تذکرۃ الرشید، ج 1، ص 74-75)

یہ ہے دیوبندیوں کا الٹا جہاد جو انہوں نے اپنی "سرکار" کے "باغیوں" یعنی مجاہدینِ تحریک آزادی کے خلاف لڑا۔ خود عاشق الہٰی میرٹھی مصنف تذکرۃالرشید کو اعتراف ہے کہ جس زمانے میں عوام انگریز کے مظالم کے خوف سے گھروں میں چھپی رہتی تھی اس زمانے میں بھی یہ دیوبندی حضرات بڑے اطمینان سے اپنے معمولات کی تکمیل کرتے تھے۔ اور کیوں نہ کرتے کہ انگریز جن کی سرکار ہو، جن کے مدارس "معاونِ سرکار" ہوں انہیں کیا خوف-

اس کیفیت کا کھل کر اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

"ہر چند کہ یہ حضرات حقیقتہً بےگناہ تھے مگر دشمنوں کی یاوہ گوئی نے انکو باغی و مفسد اور مجرم وسرکاری خطاوار ٹہرا رکھا تھا اس لئے گرفتاری کی تلاش تھی۔ مگر حق تعالیٰ کی حفاظت برسر تھی اسلئے کوئی آنچ نہ آئی اور جیسا کہ آپ حضرات اپنی مہربان سرکار کے دلی خیرخواہ تھے، تازیست خیر خواہ ہی ثابت رہے۔"

(تذکرۃ الرشید، ج 1، ص 81)


5- دیوبندی اکابر مولوی رشید احمد گنگوہی صاحب فرماتے ہیں کہ میں رشید سرکار (انگریز) کا فرمانبردار ہوں تو جھوٹے الزام سے میرا بال بھی بیکا نہیں ہوگا اور مارا گیا تو سرکار (انگریز) مالک ہے اسے اختیار ہے جو چاہے کرے-

(از کتاب: تذکرۃ الرشید صفحہ نمبر 80 مطبوعہ ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور پاکستان)

6- مولوی اشرف علی تھانوی صاحب کو سرکار برطانیہ (انگریز) سے چھ سو روپے ماہوار ملا کرتے تھے-

(مکالمۃ الصدرین صفحہ نمبر 9 دارالاشاعت دیوبند ضلع سہانپور)

7- تبلیغی جماعت کے بانی مولوی الیاس کاندھلوی کو سرکار برطانیہ (انگریز) سے بذریعہ لیٹر پیسے ملتے تھے –

(از کتاب: مکالمۃ الصدرین صفحہ نمبر 8 دارالاشاعت دیوبند ضلع سہارنپور)

8- جمعیت علمائے اسلام کو حکومت برطانیہ (انگریز) نے قائم کیا اور ان کی امداد کی-

(مکالمۃ الصدرین صفحہ نمبر 7‘ دارالاشاعت دیوبند ضلع سہارنپور)

9- انگریزوں کے مقابلے میں جو لوگ لڑ رہے تھے ان میں حضرت مولانا فضل الرحمن شاہ گنج مراد آبادی بھی تھے اچانک ایک دن مولانا کو گیا کہ خود بھاگے جا رہے ہیں اور کسی چودہری کا نام لے کر جو باغیوں کی فوج کی افسری کر رھے تھے کہتے جاتے تھے لڑنے کا کیا فاءدہ؟ خضر کو تو میں انگریزوں کی صف میں پا رہا ھوں-

(حاشیہ سوانح قاسمی ج 2 ص 103 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور )

10- انگریزوں کی صف میں حضرت خضر کی موجودگی اتفاقا نہیں پیش کی گئی بلکہ وہ نصرت حق کی علامت بن کر انگریزی فوج کے ساتھ ایک بار اور دیکھے گئے تھے جیسا کہ فرماتے ہیں عذر کے بعد جب گنج مرادآباد کی ویران مسجد میں حضرت مولانا(شاہ فضل الرحمان صاحب ) مقیم ہوئے تو اتفاقا اسی راستے سے جس کے کنارے مسجد ہے کسی وجہ سے انگریزی فوج گزر رہی تھی مولانا مسجد سے دیکھ رہے تھے اچانک مسجد کی سیڑھیوں سے اتر کر دیکھا گیا کہ انگریزی فوج کے ایک سائیں سے جو باگ دوڑ کھونٹے وغیرہ گھوڑے کیلئے ہوئے تھے اس سے باتیں کرکے مسجد واپس آگئے اب یاد نہیں رہا کہ پوچھنے پر یا خود بخود فرمانے لگے سائیں جس سے میں نے گفتگو کی یہ خضر تھے میں نے پوچھا یہ کیا حال ہے؟ تو جواب میں کہا کہ حکم یہی ہوا ہے ۔

( حاشیہ سوانح قاسمی ج 2 ص 103 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور )
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بریلوی:-

1- بریلوی مولویوں کی انگریزوں سے وفاداری:

بریلوی مولویوں کی انگریزوں سے وافاداری اور حمایت کے متعلق ڈاکٹر مسعود احمد بریلوی نے لکھا ہے:

جب انگریزوں نے مسلمانوں کے خون سے بے دریغ ہاتھ رنگنا شروع کئے تو سر سید احمد خان نے ’’اسبابِ بغاوت ہند‘‘ رسالہ لکھ کر انگریز کی آتشِ انتقام کو فرو (ٹھنڈا) کیا اور قدرے اطمینان نصیب ہوا، غالباً اس دور کا سیاسی تقاضا تھا کہ عالم و عامی سب ہی نے من حیث القوم وافاداری کا یقین دلایا بلکہ شیعہ حضرات نے بقول ہنٹر فارسی میں ایک رسالہ لکھ کر جہاد کی شدید مخالفت کی، علمائے احناف (بریلوی مولویوں) نے بھی انگریزوں کی حمایت میں بہت سے فتوے شائع کئے، دو قسم کے علمائے تھے، ایک وہ جو ہندوستان کو دار الحرب کہتے تھے ....... دوسرے وہ جو ہندوستان کو دار الاسلام کہتے تھے، اس لئے جہاد کے عدم جواز کے فتوے دیتے تھے، بہر کیف ماسوائے چند علماء کے مصلحتِ وقت کے تحت سب ہی نے انگریزوں کی حمایت میں عافیت سمجھی۔

(فاضل بریلوی اور ترک موالات:۳۵)

قارئین حضرات! ڈاکٹر مسعود احمد بریلوی کو بھی اعتراف ہے کہ بریلوی مولویوں نے انگریزوں سے وفاداری اور ان کی حمایت کی اور انگریزوں کی حمایت میں فتوے شائع کئے، جب انگریزوں سے وفاداری اور ان کی حمایت کی تو پھر بریلوی انگریز نواز ہوئے۔

2- ملکہ برطانیہ میری کی درگاہ خواجہ غریب نواز پر حاضری:-

اس کے بعد ملکہ برطانیہ ’’میری‘‘ حضرت خواجہ معین الدین خواجہ غریب نواز کی درگاہ معلیّٰ پر رونق افروز ہوئیں، خواجہ صاحب ایک پاکیزہ نفس بزرگ و عابد تھے جو بارہویں صدی عیسوی کے ابتداء میں غور سے یہاں تشریف لائے اور اپنے فیض صحبت سے اجمیر میں ترقئ اسلام کا باعث ہوئے، آپ کی درگاہ مرجع خواش و عوام ہے، جہاں ہندوستان کے ہر حصہ سے زائرین آتے ہیں، درگاہ مذکور میں وہ ڈھول و شمع دان اب تک موجود ہیں جو شہنشاہ اکبر فتح چتور کے وقت اپنے ہمراہ لائے تھے، داخلہ خانقاہ کے وقت لفٹننٹ کرنل ڈبلیو آر سٹریسٹن، کمشنر پریزیڈنٹ و ممبران درگاہ کمیٹی نے استقبال کیا اور یہیں ممبران درگاہ کمیٹی کی طرف سے سنہری و نقروی تاروں کا ایک گلدستہ پیش ہوا جسے ہر میجسٹی نے بخوشی قبول فرمایا، اس کے بعد درگاہ شریف میں تشریف لیجاکر پورے احترام و دلچسپی سے اس کا معائنہ فرمایا اور چلتے ہوئے یہاں بھی ایک سو پونڈ یعنی پندرہ سو روپئے بطور نذر دیا۔

(یادگار دربار:۱/۵۶۹۔۱۹۱۱ء)

3- بریلوی مولویوں نے ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت کو مضبوط کیا:-

جب انگریز ہندوستان میں آئے تو ان کی انگریزی حکومت مضبوط کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کس طرح انگریزی حکومت کو مضبوط کیا جاسکتا ہے، تو انہوں نے تجویز سوچی کہ یہاں کے بڑے بڑے مولویوں کو انگریزی حکومت میں بڑے بڑے عہدے دیدئے جائیں تاکہ ان مولویوں کے ذریعہ انگریزی حکومت کو مضبوط کیا جاسکے، انگریز ان بریلوی مولویوں کے ذریہ اپنی حکومت کو مضبوط کرنے میں کامیاب ہوگیا، کیونکہ ان مولویوں نے انگریزی حکومت کا پورا پورا ساتھ دیا اور بڑے بڑے عہدے انگریزوں سے حاصل کرلئے اور انگریزی حکومت کو خوب مضبوط کیا۔

مفتی انتظام اللہ شہانی اکبرآبادی کی زبانی سنئے، لکھتے ہیں:-

انگریزووں کو اس بات کی بڑی خواہش و جستجو رہتی تھی کہ مسلمانوں کے خاندان اور ذی وجاہت اشخاص افتاء صدارت کے مناصب قبول کرلیں تاکہ شمالی ہند میں انگریزی حکومت عوام میں مقبول ہوسکے، ہندوستانیوں کے لئے بڑے سے بڑا عہدہ صدر الصدور عدالت کا تھا، اس لئے اکابر و افاضل کو یہی پیش کیا جاسکتا تھا، دہلی چونکہ قدیم دار السلطنت اور اسلامی تہذیب کا مرکز تھا اس لئے یہاں کی صدارت کے لئے خصوصیت سے اہتمام کیا جاتا تھا، چنانچہ فضل حق کے والد مولانا فضل امام صدر الصدور بنائے گئے، ان کے بعد ان کے شاگرد مفتی صدر الدین خان آزردہ صدر الصدور دہلی مقرر ہوئے، ان کے متعلق ریزیڈنٹ بادشاہ اکثر ثانی سے بھی مشورہ لیا کرتے تھے، ایسے ہی سررشتہ داری پر مولانا فضل حق مقرر کئے گئے تھے، آخر میں یہ بھی لکھنو میں حکومت (انگریزی) کی طرف سے صدر الصدور کردئے گئے۔

(حیات علامہ فضل حق خیرآبادی اور ان کے سیاسی کارنامے:۱۷)

4- ڈاکٹر مختار الدین احمد کی زبانی سنئے، لکھتے ہیں:-

جب انگریز نے اپنی سلطنت کا استحکام چاہا تو اس نے تجویز سوچی کہ یہاں کے اہل وجاہت اور با اثر و رسوخ اصحاب کو انتظامِ حکومت میں شامل کرنا چاہئے تاکہ لوگوں کی وحشت دور ہور اور ان کی نظروں میں اس کا وقار بڑھے، چنانچہ شخصی مقدمات فیصل کرنے کے لئے علماء اور پنڈتوں کی خدمات حاصل کی گئیں، اس منصوبہ کے تحت مفتی (صدر الدین) صاحب بھی انگریزوں کے ملازم ہوئے، ان کے (انگریز افسر) جرنیل سرڈیوڈ اختر لونی کے ساتھ بہت دوستانہ تعلقات تھے اور اسے ان پر کامل اعتماد تھا، اس کی سفارش اور وساطت سے یہ انگریزی ملازمت میں داخل ہوئے، ابتدائی زمانہ ملازمت میں بہت دن تک اختر لونی کے ساتھ ہی اجمیر اور نمیچ چھاؤنی اور جے پور میں مقیم رہے، ان دنوں یہ چار سو روپئے ماہانہ مشاہرہ پاتے تھے، اس کے بعد انہیں ۱۵/جون ۱۸۴۴ء کو دہلی میں صدر الصدور مقرر کیا گیا۔

(تذکرہ آزردہ: مولفہ مفتی صدر الدین آزردہ،، مرتبہ ڈاکٹر مختار الدین احمد:۶)

5-سید محمد ہاشمی میاں بریلوی ایک محقق کے حوالہ سے لکھتے ہیں:-

مولانا فضل امام خیرآبادی صدر الصدور دہلی مفتی صدر الصدور آزردہ مفتی عنایت احمد کاکوری مصنف صدر امین کول و بریلی، مولانا فضل رسول بدایونی سررشتہ دار کلکٹری صدر دفتر سہسوان، مفتی عنایت اللہ گوپاموی قاضی دہلی و سرکاری وکیل الہ آباد، مولانا مفتی لطف اللہ علیگڑھی سررشتہ دار امین بریلی، علامہ فضل حق خیرآبادی سررشتہ دار ریزیڈنس دہلی صدر الصدور لکھنو، مہتم حضور تحصیل اودھ مولوی غلام قادر گوپاموی ناظر سررشتہ دار عدالت دیوانی و تحصیل دار گوڑگاؤں، مولوی قاضی فیض اللہ کشمیری سررشتہ دار صدر الصدور دہلی وغیرہ، یہ سب اپنے وقت کے بے نظیر و عدیم المثال اکبر علماء تھے، (انگریزی) حکومت کی باگ ڈور انہی کے ہاتھ میں تھی۔

(انوارِ رضا:۴۳۶)

قارئین حضرات یہ تھے بریلوی اکابر علماء انگریزی حکومت کی باگ ڈور انہیں کے ہاتھ میں تھی، اس لئے توانہوں نے انگریزوں کی حکومت کو مضبوط کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

6- بریلوی مولویوں کو انگریزوں سے ملازمتیں ملیں:-

پروفیسر محمد ایوب قادری بریلوی لکھتے ہیں:-

جس وقت اللہ کے یہ فرمانبردار بندے (سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل) دین و ملت کی خاطر میدانِ جہاد میں اپنی جانیں نچھاور کررہے تھے اس زمانہ میں اس تحریک کے سب سے زیادہ مخالف مولانا فضل حق خیرآبادی ف۱۲۷۸ھ ۱۸۶۱ء ایجنٹ دہلی کے محکمہ میں سررشتہ دار اور مولانا فضل رسول بدایونی ف ۱۲۸۹ھ۔۱۸۷۲ء کلکٹری بدایوں (سہسوان) میں سررشتہ دار تھے، حکومت برطانیہ کی دور اندیشی اور پالیسی ملاحظہ ہو کہ اس نے مسلمانوں کے ذہین اور صاحب علم و فضل طبقہ کو سرکاری خدمات کے لئے حاصل کرلیا، دہلی میں دبیر الدولہ فرید الدین (ف۱۲۴۴ھ،۱۸۲۸ء)، منشی زین العابدین (ف۱۲۷۳ھ،۱۸۵۶ء)، مفتی صدر الدین آزردہ (ف۱۲۸۵ھ،۱۸۶۸ء)، مولوی فضل امام خیرآبادی (ف۱۲۴۴ھ،۱۸۲۹ء)، مولوی محمد صالح خیرآبادی برادر فضل امام خیرآبادی، منشی فضل عظیم خیرآبادی فرزند اکبر فضل امام خیرآبادی، مولوی فضل حق خیرآبادی (ف۱۲۷۸ھ،۱۸۶۱ء)، بدایوں میں مولوی فضل رسول (ف۱۲۸۹ھ،۱۸۷۲ء)، مولوی علی بحش صدر الصدور (ف۱۳۰۳ھ،۱۸۸۵ء)، مرادآباد میں مولوی عبد القادر چیف رام پوری (ف۱۲۶۵ھ،۱۸۴۹ء)، الٰہ آباد میں مفتی اسد الدین (ف۱۳۰۰ھ،۱۸۸۲ء) و قاضی عطا رسول چریاکوٹی، کلکتہ میں قاضی نجم الدین خان کاکوری (ف۱۲۲۹ھ،۱۸۱۳ء)، اور ان کے صاحبزادگان: قاضی سعید الدین (ف۱۲۶۲ھ،۱۸۴۶ء)، مولوی حکیم الدین (ف۱۲۶۹ھ،۱۸۵۴ء) اور قاضی علیم الدین (ف۱۲۵۷ھ،۱۸۴۱ء) وغیرہ مدارس میں قاجی ارتضاء علی گوپاموی (ف۱۲۷۰ھ،۱۸۵۳ء) اور ناسک میں خان بہادر مولوی عبد الفتاح مفتی وغیرہ برصغیر پاک و ہند کے وہ اعاظم و افاضل ہیں، جنہوں نے مناصب افتاء و قضاء اور صدر الصدوری کے ذریعہ سرکار کمپنی کے انتظام و اقتدار حکوت کو بحال اور مضبوط کیا۔

(جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء: حاشیہ صفحہ:۵۵،۵۶)

7- یہاں بریلوی اکابر فضل امام خیرآبادی کے خاندان کے سرکاری ملازموں کے نام بھی ملاحظہ فرمائیں جنہوں نے انگریزی حکومت کو مضبوط سے مضبوط تر کیا۔

پروفیسر ایوب قادری بریلوی لکھتے ہیں:-

دوسرا خاندان مولوی فضل امام خیرآبادی (بریلوی) کا ہے انہوں نے اور ان کے صاحبزادگان اور دوسرے اعزہ نے سرکاری خدمات باحسن وجوہ انجام دیں، جیسا کہ ذیل کی فہرست سے ظاہر ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
1۔ مولانا فضل امام بن شیخ محمد ارشد فاروقی خیرآبادی (ف۱۲۴۴ھ،۱۸۲۹ء)

دہلی میں مفتی عدالت او بعد ازاں صدر الصدور ہوئے، رشوت کے الزام میں ملازمت سے برطرف ہوئے، کچھ دنوں ریاست پٹیالہ سے وابستہ رہے۔

مولوی فضل امام کی رشوت کی بناء پر معطلی

مولوی فضل امام رشوت لینے پر ملازمت سے معطل کئے گئے تھے، مولوی عبد القادر نے لکھا ہے:
مولوی برکت اللہ دہلوی شاہجہاں آباد کے صدر دفتر کے محافظ تھے، چونکہ گونڈس صاحب بہادر کے وارد ہوتے ہی رشوت کی بناء پر مولوی فضل امام (خیرآبادی) ملازمت سے معطل ہوگئے۔

(علم و عمل:۲/۱۹۹)

2۔ مولوی محمد صالح بن شیخ محمد ارشد الدین خیرآبادی:

مولانا فضل امام کے چھوٹے بھائی، سرکاری اخبار نویس، اکثر راجپوتانہ میں فرائض منصبی ادا کئے۔

3۔ مولانا فضل الرحمن بن مولانا فضل امام خیرآبادی:

ریاست پٹیالہ میں اعلیٰ منصب پر فائز رہے، ان کے دو بیٹے مولوی فضل حکیم اور فضل علیم تھے، فضل حکیم کے بیٹے خان بہادر فضل متین سیشن جج پٹیالہ تھے۔

4۔ مولوی منشی فضل عظیم بن مولانا فضل امام خیرآبادی:

ولیم فریزر کے خاص معتمد و منشی رہے، اس لئے منشی فضل عظیم مشہور ہوئے، جنگ گورکھاں میں خدمات انجام دیں، تحصیل دار ڈپٹی کلکٹر کے عہدوں پر فائز ہوئے۔

5۔ مولانا فضل حق بن مولانا فضل امام خیرآبادی:

سررشتہ دار عدالت دیوانی (ریزیڈنسی دہلی)

6۔ منشی کرم احمد بن فضل احمد بن احمد حسین (برادر مولانا فضل امام خیرآبادی)

جنرل آکڑلونی کے منشی اور سرکاری اخبار نویس رہے، بعد ازاں امجد علی شاہ (اودھ) کے وزیر نواب شرف الدولہ ولد محمد ابراہیم خان کے میر منشی رہے۔

7۔ برکت علی خان، مولانا فضل امام خیرآبادی کے حقیقی بھانجے:

جنرل آکڑلونی کے میر منشی مختلف خدمات پر مامور رہے۔

8۔ الٰہی بخش نازش ولد محمد صالح (ف۱۲۸۹ھ)

وکیل ریاست ٹونک (دراجمیسر ایجنسی و میواڑ)۔

9۔ تفصیل حسین بن محفوظ علی خان:

مولانا فضل امام خیرآبادی کی بھانجی کے فرزند (ف۱۲۷۰ھ)، جنرل آکٹرلونی کے یہاں بحیثیت وکیل ریاست ٹونک رہے۔

10۔ احمد بخش خیر آبادی: اخبار نویس کشن گڑھ من جانب سرکار۔
(رشتہ دار فضل امام)

11۔ مولوی قادر بخش خیرآبادی: عدالت فوجداری پٹیالہ میں صدر الصدور تھے۔
(رشتہ دار فضل امام)

12۔ مولوی غلام قادر گوپاموی: ناظر سررشتہ دار عدالت دیوانی و تحصیلدار گوڑگاؤں۔

(سبط فضل امام)

8- مولانا فضل امام خیرآبادی کے ارکانِ خاندان اور اعزہ مختلف سرکاری (انگریزی حکومت کے) عہدوں پر فائز رہے جس کی بدولت ان کو عزت و ناموری اور مرفہ الحالی اور فارغ البالی حاصل ہوئی، انگریزی حکومت کو بھی اس کا احساس تھا، چنانچہ مولانا فضل حق خیرآبادی کے مقدمہ میں اسپیشل کمشنر نے اپنے فیصلہ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔

’’وہ (مولانا فضل حق) اودھ کا باشندہ ہے اور ایک ایسے خاندان کا فرد ہے جو انگریز حکومت کا ساختہ پرداختہ ہے، بلکہ ایک زمانہ میں وہ خود بھی سرکاری ملازمت میں اچھے بڑے عہدہ پر متمکن تھا، لیکن گذشتہ کئی برس سے ملازمت ترک کرکے اودھ، رامپور وغیرہ کے متعدد دیسی ریاستوں میں معقول عہدوں پر ممتاز رہا ہے، اس کی ہمیشہ بہت شہرت رہی ہے‘‘۔

مولانا فضل حق خیرآبادی نے اس کی تائید کی ہے، چنانچہ وہ اپنی درخواست بنام وزیر ہند (جنوری ۱۸۶۰ء) میں لکھتے ہیں:

’’جیسا کہ اسپیشل کمشنر نے بھی اپنے فیصلہ میں ذکر کیا ہے کہ میرا خاندان اپنی دنیوی حیثیت کے لئے بہت حد تک سرکار انگریز کا مرہون منت ہے، ایک زمانہ میں خود بھی انگریزی ملامت می بہت اچھے عہدے پر متمکن تھا‘‘۔

(مولانا فضل حق خیرآبادی، مجموعہ مقالات از افضل حق قرشی:۱۶۔۲۰)

9- مولانا احمد رضا نے تحریک خلافت و تحریک ترک موالات کی مخالفت کرکے انگریز کو فائدہ پہنچایا:-

تحریک خلافت اور تحریک مولانا یہ دونوں تحریکیں انگریز کے خلاف چلائی گئی تھیں، خود بریلویوں کی زبانی سنئے، ڈاکٹر مسعود احمد بریلوی لکھتے ہیں:

پہلی جنگ عظیم کے بعد تقریباً ۱۹۱۹ء میں ترکوں پر انگریزوں کے ظلم و استبداد کے خلاف تحریک خلافت کا آغاز ہوا اور پورے ملک میں انگریز حاکموں کے خلاف ایک شورش برپا ہوگئی۔

(فاضل بریلوی اور ترک موالات:۲۷)

آگے پھر لکھتے ہیں:

تحریک خلافت اور ترک موالات دونوں کی مشترکہ اساس انگریزوں کی مخالفت و مقاطعت تھی۔

(فاضل بریلوی اور ترک موالات:۲۷)

10-پروفیسر محمد صدیق بریلوی لکھتے ہیں:-

بر صغیر میں تحریک خلافت اور تحریک ہجرت کے دوران جب ۱۹۲۰ء میں تحریک ترک موالات نے زور پکڑا تو یہ دور اسلامیہ کالج کی تاریخ کا نہایت نازک اور آزمائش کا دوت تھا، کیونکہ اس تحریک کے پروگرام میں نہ صرف انگریزی عدالتوں، کونسلوں اور انگریزی ملازمتووں سے علاحدگی بلکہ یونیورسٹی سے ملحق تعلیمی درسگاہوں سے بھی مقاطعہ پر زور دیا گیا تھا، سرکاری خطابات کی واپسی اور سرکاری امداد قبول نہ کرنا بھی اس کی ایک شق تھی۔

(پروفیسر مولوی حاکم علی:۹۷)

قارئین حضرات!

آپ نے ڈاکٹر مسعود احمد اور پروفیسر محمد صدیق کی عبارتیں پڑھ لیں اور آپ یہ سمجھ گئے کہ یہ دونوں تحریکیں بریلویوں کے نزدیک بھی انگریموں کے خلاف چلائی گئی تھیں، مگر مولوی احمد رضا خان نے ان دونوں تحریکوں کے خلاف فتوے بھی دئے جو انگریزوں کی ایماء پر چھپوا کر لاکھوں کی تعداد میں تقسیم کئے گئے اور ان دونوں تحریکوں کی ڈٹ کر مخالفت کی گئی۔

11- ڈاکٹر مسعود احمد بریلوی لکھتے ہیں:-

ترک موالات کا معاملہ اگر صرف انگریز حاکموں اور مسلمان محکوموں کے درمیان ہوتا تو اس کی نوعیت قطعاً مختلف ہوتی، مگر ترک موالات کے نتیجہ میں فوراً ہی بعد اور حصول آزادی کے بعد زندگی کے ہر شعبہ میں جو عدم توازن متوقع تھا، بحث اس سے تھیاور اسی بناء پر اس (تحریک ترک موالات) کی شدید مخالفت کی گئی، جن متدین علماء نے مخالفت کی ان میں سر فہرست اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی (مولوی احمد رضا) کا نام نامی نظر آتا ہے۔

(فاضل بریلوی اور ترک موالات:۲۷)

12- ڈاکٹر مسعود احمد بریلوی لکھتے ہیں:

۱۹۱۹ء میں مسئلہ خلافت پیش آیا، امام احمد رضا کو شرعی بنیادوں پر اس سے اختلاف تھا، ...... امام رضا نے ایک استفتاء کے جواب میں مسئلہ خلافت پر محققانہ بحث کی اور اپنا موقف پیش کیا، چونکہ اس جواب کی اشاعت سےانگریزوں کو فائدہ پہنچ سکتا تھا اس لئے اس کو شائع نہ کیا، چنانچہ یہ جواب ۱۹۲۲ء میں امام احمد رضا کے انتقال کے بعد منظر عام پر آیا۔

(دوام العیش فی الائمۃ القریش، افتتاحیہ:۲۳، ۲۴)

قارئین حضرات! جب مولوی احمد رضا نے فتویٰ دیا تو یہ فتویٰ انگریزوں کے موافق تھا، اس لئے ان کو فائدہ ہوا جس نے فتویٰ لیا تھا، اس نے لے لیا، چھپوانا یا نہ چھپوانا ضروری نہ تھا، کیونکہ فتویٰ لینے سے پتہ تو چل گیا کہ یہ فتویٰ انگریزوں کے فائدہ کا ہے، ڈاکٹر مسعود احمد کو بھی اعتراف ہے کہ ان تحریکوں کی مخالفت کی وجہ سے انگریزوں کو فائدہ پہنچ سکتا تھا اور فائدہ پہنچا، تب ہی تو فتوے انگریزوں کی ایماء پر چھپوا کر تقسیم ہوئے۔

13- مولانا احمد رضا کے نزدیک انگریزوں سے مدرسوں کے لئے امداد لینا جائز ہے:-
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
(1) سوال:

۱۰/محرم ۱۳۳۹ھ کو بنارس، کچی باغ سے سوال آیا: مدرسہ عربیہ اسلامیہ جس میں پچیس سال سے گورنمنٹ (انگریزی) سے امداد ماہوار ایک سو روپئے مقرر ہے، جس میں کتب فقہ و احادیث و قرآن کی تعلیم ہوتی ہے ، ممبران خلافت کمپنی نے تجویز کیا کہ امداد نہ لینا چاہئے، پس استفسار ہے کہ یہ امداد لینا جائز ہے یا نہیں؟ مدرسہ ھٰذا میں سوا تعلیم دینیات کے ایک حرف کسی غیر ملت و غیر زبان کی تعلیم نہیں ہوتی۔

جواب: -

اس کا جواب مطلق جواز ہوتا، مگر احتیاط شکل شرط میں دیا گیا کہ جبکہ وہ مدرسہ صرف دینیات کا ہے اور امداد کی بناء پر انگریزی وغیرہ اس میں داخل نہ کی گئی تو اس کے لینے میں شرعاً کوئی حرج نہیں، تعلیم دینیات کو مدد پہنچتی تھی، اس کا بند کرنا محض بے وجہ ہے۔

(2) ایک سوال کا جواب:

لکھتے ہیں: جو مدارس ہر طرح سے خالص اسلامی ہوں اوران میں وہابیت نیچریت وغیرہما کا دخل نہ ہو ان کا جاری رکھنا موجب اجر عظیم ہے، ایسے مدارس کے لئے (انگریزی) گورنمنٹ اگر اپنے پاس سے امداد کرتی ہے لینا جائز تھا، نہ کہ جب وہ امداد بھی رعایا ہی کے مال سے ہو۔ (المحجۃ المؤتمنۃ فی اٰیۃ الممتحنۃ:۹۲، شامل رسائل رضویہ جلد:۲)

(3) ایک اور تحریر:

لکھتے ہیں: اور تعلیم دین کے لئے گورنمنٹ (انگریزی) سے امداد قبول کرنا جو نہ مخالفت شرع سے مشروط نہ اس کی طرف منجر ہو یہ تو نفع بے غائلہ ہے۔ (المحجۃ المؤتمنۃ فی اٰیۃ الممتحنۃ:۹۷)

مولانا معین الدین اجمیری لکھتے ہیں:

ظاہر ہے کہ گورنمنٹ سے امداد لینا اس کو اپنا بنانا ہے اور یہ انسان کا فطری جذبہ ہے کہ محسن کے ساتھ محبت پیداہوجاتی ہے۔


(کلمۃ الحق بحوالہ اوراقِ گم گشتہ:۵۶۵)

مولوی احمد رضا نے ایک کتاب المحجۃ المؤتمنۃ تحریک ترک موالات کے خلاف لکھی ہے۔

مولوی احمد رضا نے تحریک ترک موالات کی مخالفت کرکے انگریزوں کو فائدہ پہنچایا، ڈاکٹر مسعود احمد بریلوی، محمد ہاشمی میاں بریلوی اور پروفیسر محمد صدیق بریلوی نے لکھا ہے کہ یہ تحریک انگریزوں کے خلاف تھی، جب یہ تحریک انگریزوں کے خلاف تھی اس کی مخالفت کرنا یقیناً انگریزوں کو فائدہ پہنچانا اور اپنے آپ کو انگریزوں کا حمایتی ظاہر کرنے کے برابر تھا۔

ڈاکٹر مسعود احمد بریلوی لکھتے ہیں:

فاضل بریلوی نے ترک موالات کے نتیجہ میں ہندو مسلم اتحاد کو وطنیت پرستی اور دین سے بے خبری پر مبنی تھا، سخت مخالفت فرمائی یہ وہ زمانہ تھا جب ترک موالات کے خلاف آواز اٹھانا خود کو انگریز حاکموں کا حمایتی ظاہر کرنے کے مترادف (برابر) تھا۔
(فاضل بریلوی اور ترک موالات:۴۱)

انگریز مؤرخ فرانسس رابنسن نے بھی مولانا احمد رضا کو انگریزوں کا حمایتی بتایا ہے

انگریز مؤرخ اپنی کتاب Separatism – Among Indian Muslims میں لکھتا ہے:

آپ (مولوی احمد رضا) کا عام موقف سلطنت برطانیہ کی حمایت کرنا تھا اور آپ نے جنگ عظیم اول (۱۹۱۴تا۱۹۱۹ء) کے دوران سلطنت برطانیہ کے طرفدار رہے، آپ نے تحریک خلافت کی مخالفت کی اور ۱۹۱۲ء میں تحریک ترک موالات کے خلاف علماء کی ایک کانفرنس بلائی، آپ کا عام لوگوں پر اچھا خاصا اثر تھا، لیکن تعلیم یافتہ طبقہ آپ کو پسند نہیں کرتا تھا۔
(سپریٹ ازم اَمونگ انڈین مسلمز:۴۲۲)

بابر خان لکھتے ہیں:-

۱۹۱۴ء میں جنگ عظیم اول کی ابتداء کے بعد ترکی نے مغربی یورپ کی مسلسل بدعہدیوں اور نا انصافیوں سے عاجز آکر جرمنی کے ساتھ اتحاد کرلیا تھا، برطانیہ (انگریزی حکومت) نے اس سلسلہ میں اہل ہند کے بعض علماء سے جن میں مولانااحمد رضا بریلوی خاص طور پر شامل ہیں ترکی کے خلاف فتاویٰ بھی حاصل کرلئے تھے۔
(برصغیر پاک و ہند کی سیاست میں علماء کا کردار:۱۳۶)

پیام شاہجہاں پوری لکھتے ہیں:-

یہ ہیں احکام اور فقیہانِ اسلام کے فتاویٰ جن کی بنیاد پر مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی نے فتویٰ دیا کہ مفلس پر اعانت مال نہیں، بے دست و پا پر اعانت اعمال نہیں بلکہ مسلمانانِ ہند پر حکم جہاد و قتال نہیں۔
(دوام العیش:۴۶)

’’۱۸۵۷ء کا جہاد‘‘ کے مصنف لکھتے ہیں:

اعلی حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی اپنے مریدین باصفا اور بریلوی مکتبہ فکر کے اکابر و عوام کو جو فکر و نظر عطا کرگئے اور جس راستہ کی طرف راہنمائی کرگئے ان کی مریدین و متبعین نے اس سے سر مو انحراف نہ کیا، پیرانِ طریقت نے ان کی نصیحت کو گرہ میں باندھ لیا کہ امام اہل سنت کی نصیحت تھی اور اس کی بنیاد فقہ اسلامیہ کی مستند کتب تھی، جس کی رُو سے ایک پر امن حکومت کے خلاف خواہ وہ مسلم ہی کیوں نہ ہو فتنہ و فساد حرام ہے، چنانچہ ۱۹۱۹ء کی جنگ عظیم اول ہو یا ترک موالات و مسئلہ خلافت ہو یا جلیانوالہ باغ کا سانحہ اہل طریقت نے ہر موقع پر حکومت سے تعاون کیا، فتنہ و فساد سے اجتناب کیا اور سرکار برطانیہ سے وفاداری کا اظہار کیا۔
(۱۸۵۷کا جہاد:۱۴۳)

محمد فاروق قریشی لکھتے ہیں:

اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان کے مریدوں اور مقلدوں نے ان کے حکم و ارشاد کے مطابق عمل کیا اور بریلوی مکتب فکر کے علماء و اکابرین نے بحیثیت جماعت آزادی کی تحریکوں سے کنارہ کشی اختیار کئے رکھی، اس کی شدید مخالفت کی اور انگریزوں کے ساتھ تعاون کیا۔

پھر آگے لکھتے ہیں:

جلیانوالہ باغ، تحریک خلاف اور ترک موالات میں ان کا تعاون برطانوی سرکار کو حاصل رہا، انہوں نے برطانوری سرکار سے یکجہتی کے اظہار کے لئے فتوے جاری کئے کئی کتب تصانیف کیں، جن میں اپنے مریدوں کو ان میں حصہ لینے سے روکا گیا تھا، ان تحریکوں کو فتنہ و فساد قرار دیا یا قومی تحریکوں اور جد و جہد کے بارے میں ان کا رویہ مستحسن قرار نہیں دیا جاسکتا۔

(ولی خان اور قرارداد پاکستان:۳۰۹)

مولوی عبد الحکیم شرف قادری بریلوی ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی شکست کے متعلق لکھتا ہے:
سوءِ اتفاق کہ منظم تیاری نہ ہونے اور اپنوں کی غداری اور غفلت کی وجہ سے انگریز دہلی پر مسلط ہوگئے۔

(باغی ہندوستان، حرفِ آغاز:۲۰)

قارئین حضرت! مولوی عبد الحکیم شرف قادری بریلوی کے اپنے کون تھے، جنہوں نے مسلمانوں سے غداری کی؟ ان کے اپنے بریلوی ہی تھی جنہوں نے مسلمانوں سے غداری کی، جس کا اعتراف مولوی عبد الحکیم شرف قادری بریلوی کو ہے۔

حکیم محمود احمد برکاتی بریلوی لکھتا ہے:-

دہلی کے مسلمانوں میں سے ایک گروہ انگریزوں کا مخالف اور دشمن ہے، مگر دوسرا گروہ انگریزوں کی محبت میں اتنا بڑھا ہوا ہے کہ وہ باغی لشکر کو نقصان دینے اور مجاہدین کو ذلیل و رسواء کرنے میں کوئی کسر اٹھا کے نہیں رکھتا اور ان میں باہم پھوٹ ڈالنے میں مصروف ہے۔

(فضل حق خیرآبادی اور سنہ ستّاون:۳۴)

اتنے واشگاف الفاظ میں انگریز کو اپنی "مہربان سرکار" ماننے والے اور ان سے وفاداری کرنے والے آج علماء اہلحدیث پر انگلیاں اٹھائیں تو ہم سوائے آپ کے بےشرمی پر افسوس کرنے کے اور کیا کرسکتے ہیں-
 
Top