• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انگوٹھی پہننے کے احکام

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
176
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71



تحقیق: محمد سعید عمران
برائے رابطہ : 0336-1519659
Saeedimranx2@gmail.com

موضوعات
سونےکی انگوٹھی کا استعمال
چاندی کی انگوٹھی کا استعمال
سونے چاندی کے علاوہ دوسری دھات کی انگوٹھی پہننا
انگوٹھی پہننے کا مقام
انگوٹھی میں نقش اور نگینہ کا استعمال


عورتوں کے لیے سونے کی انگوٹھی پہننا جائز ہے اور مردوں کے لئے حرام ہے


1- حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن يزيد بن أبي حبيب، عن أبي أفلح الهمداني، عن عبد الله بن زرير يعني الغافقي، أنه سمع علي بن أبي طالب رضي الله عنه، يقول: إن نبي الله صلى الله عليه وسلم: أخذ حريرا فجعله في يمينه، وأخذ ذهبا فجعله في شماله ثم قال: «إن هذين حرام على ذكور أمتي»
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے ریشم لیا اور اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا اور سونا لیا اور اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑا اور پھر فرمایا:"بلاشُبہ یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں"[1]۔
تحکیم :حسن، اس کی سند میں تمام تمام راوی ثقہ ہیں، سوائے ابو افلح الہمدانی کے جو صدوق حسن الحدیث ہیں۔ حافظ زبیر علی زئی نے اسے حسن ، شعیب ارنؤوط نے اسے صحیح الغیرہ کہا ہے، شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
2- حدثنا إسحاق بن منصور، قال: حدثنا عبد الله بن نمير، قال: حدثنا عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن سعيد بن أبي هند، عن أبي موسى الأشعري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: حرم لباس الحرير والذهب على ذكور أمتي وأحل لإناثهم
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
"سونا اور ریشم میری امت کی عورتوں کے لئے حلال جبکہ مردوں کے لئے حرام ہے"[2]۔

تحکیم: منقطع ،سعید بن ابی ہند اسے ابو موسیٰ الاشعری سے روایت کررہا ہے جبکہ محدثین کے نزدیک اس کی ابو موسیٰ الاشعری سے روایت مرسل ہے،امام دارقطنی نے علل میں کہا ہے کہ قوی بات یہ ہے کہ یہ روایت سعید بن ابی ہند نے ایک شخص کے حوالے سے ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت کی ہے۔البتہ کثیر تعداد میں صحیح و حسن متابعات ہو شواہد کی بنیاد یہ روایت صحیح ہے، شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔ شعیب ارنؤوط نے اسے شواہد کی بنیاد پر صحیح کہا ہے۔
3- حدثني محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن النضر بن أنس، عن بشير بن نهيك، عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه «نهى عن خاتم الذهب»
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا تھا[3]۔
یہ روایت عمرو نے بھی شعبہ سے روایت کی ہے جس کی سماع کی صراحت موجود ہے ۔

حاصل تحقیق
ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ مردوں کے لئے سونے کا زیور اور انگوٹھی وغیرہ پہننا حرام ہے۔ لہذا جو لوگ سونا پہنتے ہیں، فخرو غرور کے ساتھ اس کا اظہار کرتے ہیں اور شادی بیاہ کے موقع پر دولہے کو سونے کی انگوٹھی پہناتے ہیں انہیں یہ یاد رکھنے چاہئیے کہ یہ عمل حرام اور نبیﷺ کے احکام کی صریح خلاف ورزی ہے۔
نابالغ بچے کا سونے کی انگوٹھی پہننا
نابالغ بچہ اگر سونے کی انگوٹھی پہنے تو اس میں فقہاء کا اختلاف ہے:
مالکیہ: بچہ کے لیے سونے کی انگوٹھی پہننا مکروہ ہے، اور کراہت پہنانے والے کے لئے ہے یااس کے ولی کے لئے، مالکیہ یہاں راجح کے مقابلہ میں حرمت کا قول ہے ۔
حنابلہ: حنابلہ نے صراحت کی ہے کہ بچے کو سونے کی کوئی چیز پہنانا حرام ہے جس میں انگوٹھی بھی داخل ہے، مالکیہ کا ایک قول مرجوح بھی یہی ہے۔
حنفیہ: حنفیہ نے اس کو علی الاطلاق مکروہ تحریمی قرار دیا ہے، اور استدلال حضرت جابرؓ کی اس حدیث سے کیا ہے:
4- حدثنا نصر بن علي، حدثنا أبو أحمد يعني الزبيري، حدثنا مسعر، عن عبد الملك بن ميسرة، عن عمرو بن دينار، عن جابر، قال: «كنا ننزعه عن الغلمان، ونتركه على الجواري»
حضرت جابر ؓسے روایت ہے کہ:
"ہم بچوں سے اسے اتار لیتے تھے اور بچیوں پر چھوڑ دیتے تھے۔"[4]

تحکیم: حسن
البتہ اس روایت میں سونے کا ذکر نہیں ہے۔یہ روایت امام ابو داود نے لی ہے اور جس باب کے تحت یہ روایت ہے اس کا نام " عورتوں کے لیے ریشم پہننا جائز ہے"۔ اس لیے اس روایت کے راجح معنی بچوں کے حوالے سے سونا پہننے کے قطعاً نہیں ہو سکتے ، البتہ ریشم کے حوالے سے یہ قابل قبول ہے۔
شافعیہ: شافعیہ کا معتمد قول جس کو بعض لوگوں نے "اصح" سے تعبیر کیا ہے ، یہ کہ نابالغ بچے کے لئے سونے کی انگوٹھی عورتوں کی طرح جائز ہے، ولی اپنے چھوٹے بچوں کو سونے چاندی کے زیورات سے آراستہ کرسکتا ہے، اس میں عید کے دن کی تخصیص نہیں ہے۔

چاندی کی انگوٹھی استعمال کرنا


5- حدثنا عبد الله حدثني أبي حدثنا قتيبة بن سعيد قال حدثنا عبد العزيز بن محمد عن أسيد بن أبي أسيد عن نافع بن عباس مولى عقيلة بنت طلق الغفارية عن أبي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : من أحب ان يحلق حبيبه حلقة من نار فليجعل له حلقة من ذهب ومن أحب ان يطوق حبيبه طوقا من نار فليطوقه طوقا من ذهب ومن أحب ان يسور حبيبه سوارا من نار فليسوره سوارا من ذهب ولكن عليكم بالفضة فالعبوا بها۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے راویت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
"جو شخص اپنے کسی دوست کو آگ کا چھلا پہنانا چاہے ، وہ اسے سونے کا چھلا پہنا دے، البتہ چاندی استعمال کر لیا کرو، اور اس کے ذریعے ہی دل بہلا لیا کرو، اور جو شخص اپنے دوست کو جہنم کی آگ کا طوق پہنانا چاہے، وہ اسے سونے کا ہار پہنا دے اور جو اسے آگ کے کنگن پہنانا چاہے وہ اسے سونے کے کنگن پہنا دے"[5]۔

تحکیم: صحیح۔
6-
حدثنا يوسف بن موسى، حدثنا أبو أسامة، حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم اتخذ خاتما من ذهب أو فضة، وجعل فصه مما يلي كفه، ونقش فيه: محمد رسول الله، فاتخذ الناس مثله، فلما رآهم قد اتخذوها رمى به وقال: «لا ألبسه أبدا» . ثم اتخذ خاتما من فضة، فاتخذ الناس خواتيم الفضة قال ابن عمر: فلبس الخاتم بعد النبي صلى الله عليه وسلم أبو بكر، ثم عمر، ثم عثمان، حتى وقع من عثمان في بئر أريس
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے سونے یا چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھا اور اس پر "محمد رسول اللہ" کے الفاظ کندہ کرائے ۔ دوسرے لوگوں نے بھی اسی طرح کی انگوٹھیاں بنوالیں ۔ جب آپﷺ نے دیکھا کہ لوگوں نے بھی اسی طرح کی انگوٹھیاں بنوالی ہیں تو آپﷺ نے انگوٹھی کو اتار کر پھینکا اور فرمایا: اب میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا۔پھر آپﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی تو دوسرے لوگوں نے بھی چاندی کی انگوٹھیاں بنوا لیں، حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کہ نبیﷺ کے بعد اس انگوٹھی کو حضرت ابو بکرؓ نے پہنا، پھر حضرت عمرؓ اور پھر حضرت عثمانؓ نے اسے پہنا ، پھر حضرت عثمان ؓ سے وہ انگوٹھی اریس کے کنویں میں گر گئی[6]۔
تحکیم: صحیح۔
7- حدثنا محمد بن يحيى قال: حدثنا إسماعيل بن أبي أويس قال: حدثني سليمان بن بلال، عن يونس بن يزيد الأيلي، عن ابن شهاب، عن أنس بن مالك، «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لبس خاتم فضة فيه فص حبشي كان يجعل فصه في بطن كفه»

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے چاندی کی انگوٹھی پہنی جس میں حبشی نگینہ لگا ہوا تھا، آپﷺ اس نگینے کو اپنی ہتھیلی کی جانب رکھتے تھے[7]۔
تحکیم: صحیح۔
8- حدثنا محمد بن سليمان لوين، عن إبراهيم بن سعد، عن ابن شهاب، عن أنس بن مالك، «أنه رأى في يد النبي صلى الله عليه وسلم خاتما من ورق يوما واحدا، فصنع الناس، فلبسوا، وطرح النبي صلى الله عليه وسلم، فطرح الناس»

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ کے ہاتھ میں صرف ایک دن چاندی کی انگوٹھی دیکھی ، تو لوگوں نے بھی بنوا کر پہن لیں نبیﷺ نے وہ اتار پھینکیں تو لوگوں نے بھی اتار پھینکیں[8]۔
تحکیم: صحیح
ان تمام روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چاندی کی انگوٹھی خواتین کے علاوہ مرد حضرات بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ البتہ حضرت انسؓ کی بیان کردہ روایت (8) ایک منفرد روایت ہے، اس کا حکم منسوخ سمجھا جائے گا، کیونکہ نبیﷺ کی استعمال کردہ مہر والی چاندی کی انگوٹھی، حضرت ابو بکرؓ ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے استعمال میں رہی ہے۔
فقہاء کی بحث
عورت کے لئے چاندی کی انگوٹھی کے جواز پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے البتہ مرد کے سلسلے میں اختلاف ہے۔
حنفیہ: حنفیہ کا خیال یہ ہے کہ مرد کے لئے چاندی کی انگوٹھی جائز ہے ۔ اس جواز کے لئے احناف وہ روایت پیش کرتے ہیں جس میں یہ ذکر ہے کہ نبیﷺ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی تھی جسے آپﷺ بطور مہر بھی استعمال کرتے تھے۔ احناف کہتے ہیں کہ انگوٹھی کے حاجت مند کے لئے چاندی کی انگوٹھی پہننا مسنون ہے ، جیسے سلطان اور قاضی اور جو لوگ ان کی طرح منصب دار ہوں، ان کے علاوہ جس کو انگوٹھی کی ضرورت نہ ہو، اس کے لئے ترک ہی افضل ہے۔
مالکیہ: مالکیہ کا خیال یہ ہے کہ چاندی کی انگوٹھی میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اس لئے انگوٹھی بنوانا جائز ہے ، اور اگر مقصود نبیﷺ کی اتباع ہو تو مستحب ہے، عجب و غرور مقصود ہو تو جائز نہ ہو گا ۔
شافعیہ: ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مرد کے لئے چاندی کی انگوٹھی حلال ہے خواہ اس کو کوئی عہدہ حاصل ہو یا نہ ہو ، ہر شخص لئے اس کا پہننا جائز بلکہ مسنون ہے۔
حنابلہ : ان کا مسلک یہ ہے کہ مرد کے لئے چاندی کی انگوٹھی مباح ہے، اس لئے کہ نبیﷺ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی تھی۔ امام احمد کہتے ہیں کہ مرد کے لئے چاندی کی انگوٹھی میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اور استدلال کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓکے پاس بھی ایک انگوٹھی تھی۔ امام احمد سے منقول روایات سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اس میں کوئی فضیلت نہیں ہے۔
فقہاء کے نزدیک بچے کے لئے چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے۔






سونا ، چاندی کے علاوہ دوسری دھات کی انگوٹھی پہننا
9- حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا يحيى عن بن عجلان عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه و سلم رأى على بعض أصحابه خاتما من ذهب فأعرض عنه فألقاه واتخذ خاتما من حديد فقال هذا شر هذا حلية أهل النار فألقاه فاتخذ خاتما من ورق فسكت عنه
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبیﷺ نے کسی صحابی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی ، آپﷺ نے اس سے منہ موڑ لیا، اس نے وہ پھینک کر لوہے کی انگوٹھی بنوالی، نبیﷺ نے فرمایا یہ تو اس سے بھی بُری ہے، یہ تو اہل جہنم کا زیور ہے، اس نے وہ پھینک کر چاندی کی انگوٹھی بنوالی، نبیﷺ نے اس پر سکوت فرمایا [9]۔
تحکیم: ضعیف منقطع ۔اس کی سند میں ابن عجلان مدلس ہیں ۔
10- حدثنا الحسن بن علي، ومحمد بن عبد العزيز بن أبي رزمة المعنى، أن زيد بن حباب، أخبرهم عن عبد الله بن مسلم السلمي المروزي أبي طيبة، عن عبد الله بن بريدة، عن أبيه، أن رجلا، جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم وعليه خاتم من شبه، فقال له: «ما لي أجد منك ريح الأصنام» فطرحه، ثم جاء وعليه خاتم من حديد، فقال: «ما لي أرى عليك حلية أهل النار» فطرحه، فقال: يا رسول الله، من أي شيء أتخذه؟ قال: «اتخذه من ورق، ولا تتمه مثقالا»
حضرت بریدہؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبیﷺ کے پاس آیا جب کہ اس نے پیتل کی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی آپﷺ نے اس سے فرمایا: مجھے کیا ہے کہ میں تجھ سے بتوں کی بو پاتا ہوں، تو اس نے وہ انگوٹھی اتار پھینکی، وہ دوبارہ آیا تو لوہے کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا، آپﷺ نے فرمایا : کیا بات ہے کہ میں تجھ پر دوزخیوں کا زیور دیکھتا ہوں ، تو اس نے وہ بھی اتار پھینکی، پھر اس نے کہا اے رسول اللہﷺ ! کس چیز سے انگوٹھی بنواؤں ، آپﷺ نے فرمایا چاندی کی بنواؤ مگر مثقال سے کم رکھنا"[10]۔
تحکیم: ضعیف منکر، اس کی سند میں عبداللہ بن مسلم السلمی صدوق ہے البتہ خطاء کرنے والا ہے، اس کی متابعت کسی اور نے نہیں کی، نسائی نے کہا کہ یہ حدیث منکر ہے[11]۔حافظ زبیر علی زئی نے اسے حسن کہا ہے [12]، اور یہ کہا ہے کہ اسے نسائی نے تخریج کیا ہے اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے ، البتہ حافظ زبیر علی زئی نے ، اس حدیث کے بارے میں امام نسائی کا موقف چھپا لیا اوربیان نہیں کیا، جو کہ علمی خیانت ہے۔
ابن الفوارس نے یہ روایت حضرت علیؓ کے حوالے سے " الفوائد المنتقاة" میں بیان کی ہے[13]، جس میں عبداللہ بن مسلم نے یہ روایت "شُقیر، مولیٰ سعد بن ابی وقاصؓ" کے حوالے سے بیان کی ہے، شقیر مولیٰ سعد بن ابی وقاصؓ ، مجہول راوی ہے۔
فقہاء کی بحث
مالکیہ اور حنابلہ: ان کا مذہب یہ ہے کہ لوہا، تانبہ اور سیسہ کی انگوٹھی مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے مکروہ ہے، اس کے لئے انہوں نے ابو داود کی حدیث نمبر 4223 سے استدلال کیا ہے۔
مالکیہ کہتے ہیں کہ چمڑہ ، مہرہ سرخ، رانگا اور لکڑی کی انگوٹھی مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے جائز ہے۔

حنابلہ: یہ کہتے ہیں کہ مرد اور عورت دونوں کے لئے جوہر، زمرد، زبرجد، یاقوت، فیروز اور موتی کا زیور پہننا چائز ہے، رہا عقیق تو ایک قول میں اس کی انگوٹھی پہننا مرد و عورت دونوں کے لئے مستحب ہے ۔مہنا نے امام احمد سے پوچھا کہ انگوٹھی کے بارے میں سنت کیا ہے تو جواب دیا کہ قوم (یعنی جماعت صحابہ) کی انگوٹھیاں صرف چاندی کی ہوتی تھیں۔
حنفیہ: سونا چاندی اور دوسری دھات کی انگوٹھی کے بارے میں حنفیہ کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ ابن عابدین کے مطابق حاصل بحث یہ ہے کہ حدیث کی بنا پر چاندی کی انگوٹھی مردوں کے لئے حلال ہے، اور سونا لوہا اور پیتل کی انگوٹھی حرام اور پتھر کی انگوٹھی شمس الآئمہ اور قاضی خان کے مطابق حلال ہے، استدلال نبیﷺ کے قول و فعل سے کیا گیا ہے، اس لئے کہ جب ایک پتھر عقیق کی حلت نبیﷺکے قول فعل سے ثابت ہے تو دوسرے پتھروں کی حلت بھی اسی ضمن میں ثابت ہوگی ، کیونکہ پتھر ہونے میں دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، البتہ صاحب الہدایہ اور صاحب الکافی نے جو مسلک اختیار کیا ہے کہ پتھر کی انگوٹھی مردوں کے لئے حرام ہے، ان حضرات نے "الجامع الصغیر" کی اس عبارت سے استدلال کیا ہے:
انگوٹھی صرف چاندی کی پہنی جائے ۔

شافعیہ کے یہاں بھی اس سلسلے میں اختلاف ہے، المجموع میں اس اختلاف کا ایک حصہ آیا ہے جو یہ ہے کہ صاحب الابانہ کہتے ہیں کہ لوہے اور پیتل کی انگوٹھی پہننا مکروہ ہے۔ صاحب البیان نے ان کی تائید کرتے ہوئے اس میں سیسہ کی انگوٹھی کا اضافہ کیا ہے، صاحب التتمۃکہتے ہیں کہ لوہا یا سیسہ کی انگوٹھی مکروہ نہیں ہے، اپنے آپ کو نکاح کے لئے پیش کرنے والی عورت سے متعلق حدیث کی بناء پر جس میں آپﷺ نے اس سے نکاح کا ارادہ کرنے والے شخص سے فرمایا تھا کہ : دیکھو لوہے کی انگوٹھی ہی مل جائے۔
حاشیۃ القلیوبی میں ہے کہ چاندی کے علاوہ تانبہ وغیرہ کی انگوٹھی میں حرج نہیں۔

11- حدثنا ابن المثنى، وزياد بن يحيى، والحسن بن علي، قالوا: حدثنا سهل بن حماد أبو عتاب، حدثنا أبو مكين نوح بن ربيعة، حدثني إياس بن الحارث بن المعيقيب، وجده من قبل أمه أبو ذباب، عن جده، قال: «كان خاتم النبي صلى الله عليه وسلم من حديد ملوي عليه فضة» ، قال: فربما كان في يده، قال: «وكان المعيقيب على خاتم النبي صلى الله عليه وسلم»
حضرت معقیب ؓسے روایات ہے کہ نبیﷺ کی انگوٹھی لوہے کی تھی جس پر چاندی کا ملمع کیا گیا تھا، کہا کہ بسا اوقات وہ میرے ہاتھ میں ہوتی تھی، راوی نے کہا کہ حضرت معقیبؓ نبیﷺ کی انگوٹھی کے محافظ تھے[14]۔
تحکیم: ضعیف، اس کی سند میں ایاس بن الحارث مجہول الحال ہیں ان کو صرف ابن حبان نے اپنی الثقات میں ذکر کیا ہے۔


انگوٹھی پہننے کا مقام
12- حدثنا أحمد بن صالح، حدثنا ابن وهب، أخبرني سليمان بن بلال، عن شريك بن أبي نمرة، عن إبراهيم بن عبد الله بن حنين، عن أبيه، عن علي رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال شريك: وأخبرني أبو سلمة بن عبد الرحمن، أن النبي صلى الله عليه وسلم: «كان يتختم في يمينه»
حضرت علی ؓ مرفوعاً اور ابو سلمہ بن عبدالرحمان سے مرسلاً روایت ہے کہ نبیﷺ اپنے دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے[15]۔
تحکیم : حسن، شریک بن عبداللہ بن نمر صدوق ہیں ۔
13- حدثنا هناد، عن عبدة، عن عبيد الله، عن نافع، أن ابن عمر، «كان يلبس خاتمه في يده اليسرى»
نافع روایت کرتے ہیں کہ بلاشبہ حضرت ابن عمرؓ اپنے بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے[16]۔
تحکیم : صحیح۔
14- حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة قال: حدثنا عبد الله بن نمير، عن إبراهيم بن الفضل، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن عبد الله بن جعفر، «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يتختم في يمينه»
حضرت عبداللہ بن جعفر ؓفرماتے ہیں کہ نبیﷺ انگوٹھی اپنے دائیں ہاتھ میں پہنتے تھے[17]۔
تحکیم: ضعیف، اس میں ابراہیم بن الفضل المخزومی متروک الحدیث ہے، جب کہ عبداللہ بن محمد بن عقیل ضعیف ہے جس کی روایت صرف اعتبار و شواہد میں قبول کی جانی چاہئیے۔
15- حدثنا مسدد، حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا عاصم بن كليب، عن أبي بردة، عن علي رضي الله عنه، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قل: اللهم اهدني وسددني، واذكر بالهداية هداية الطريق، واذكر بالسداد تسديدك السهم "، قال: ونهاني أن أضع الخاتم في هذه أو في هذه - للسبابة ، والوسطى، شك عاصم -، ونهاني عن القسية، والميثرة، قال أبو بردة: فقلنا لعلي: ما القسية؟ قال: «ثياب تأتينا من الشام، أو من مصر مضلعة، فيها أمثال الأترج» ، قال: " والميثرة: شيء كانت تصنعه النساء لبعولتهن "
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے مجھے اس اور اس یعنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے[18]۔
تحکیم: صحیح۔
16- حدثنا عبد الله بن سعيد، حدثنا يونس بن بكير، عن محمد بن إسحاق، قال: رأيت على الصلت بن عبد الله بن نوفل بن عبد المطلب خاتما في خنصره اليمنى، فقلت: ما هذا؟ قال: رأيت ابن عباس يلبس خاتمه هكذا، وجعل فصه على ظهرها، قال: ولا يخال ابن عباس إلا قد كان يذكر «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يلبس خاتمه كذلك»
محمد بن اسحاق نے روایت کیا کہ میں نے صلت بن عبداللہ بن نوفل بن عبدالمطلب کو دیکھا کہ انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ کی چھنگلیا میں انگوٹھی پہنی ہوئی تھی، میں نے کہا ، یہ کیا ؟ انہوں نے کہا کہ میں حضرت ابن عباس ؓکو دیکھا کہ وہ اپنی انگوٹھی اسی طرح پہنا کرتے تھے، اور اس کا نگینہ باہر کی طرف رکھتے تھے اور حضرت ابن عباسؓ کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ رسول اللہﷺ اپنی انگوٹھی ایسے ہی پہنا کرتے تھے[19]۔
تحکیم: حسن ، اس میں صلت بن عبداللہ مقبول راوی ہے۔
عورت کے لئے انگوٹھی پہننے کی جگہ میں فقہاء کا کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ انگوٹھی اس کے حق میں زینت ہے، اس لئے عورت ہاتھ یا پاؤں کی انگلیوں میں یا جس جگہ چاہے انگوٹھی استعمال کرسکتی ہے۔
البتہ مرد کے محل استعمال میں فقہاء کا اختلاف ہے، بلکہ یہ اختلاف بعض ہم مذہب فقہاء میں بھی پایا جاتا ہے۔

حنفیہ: بعض حنفیہ کا خیال ہے کہ مرد اپنے بائیں ہاتھ کی خنصر (یعنی کنارے کی چھوٹی انگلی) میں انگوٹھی پہنے، بقیہ انگلیوں میں نہیں اور نہ دائیں ہاتھ میں۔ بعض احناف اس طرف گئے ہیں کہ دائیں ہاتھ میں پہن سکتا ہے۔
فقیہ ابو اللیث نے شرح جامع الصغیر میں بیان کیا ہے کہ دائیں اور بائیں میں کوئی فرق نہیں ہے، اس لئے کہ رسول اللہﷺ سے دونوں طرح کی روایات منقول ہیں، بعض حضرات کا یہ خیال کہ دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا اہل بغی (نافرمانوں) کی علامت ہے، اس خیال کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اس لئے کہ رسول اللہﷺ سے منقول صحیح روایات اس کی نفی کرتی ہیں۔

مالکیہ: امام مالک کا قول مختار یہ ہے کہ انگوٹھی بائیں ہاتھ میں پہننا مستحب ہے، بالخصوص خنصر میں، خود امام مالک اپنے بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے۔ ابو بکر ابن العربی "القبس شرح المؤطا" میں لکھا ہے کہ نبیﷺ سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ آپﷺ دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں میں انگوٹھی پہنتے تھے، لیکن اکثر یہ ہے کہ نبیﷺ اپنے بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے، اس لئے دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا مکروہ ہے، بلکہ بائیں ہاتھ کی خنصر میں انگوٹھی پہننی چاہئیے، اس لئے کہ نبیﷺ کی سنت اسی طرح منقول ہے، اور آپﷺ کی اقتداء بہتر ہے، اور اس لئے بھی کہ انگوٹھی بائیں ہاتھ میں ہو تو عجب و غرور کا امکان کم ہوتا ہے۔
شافعیہ: یہ کہتے ہیں کہ مرد کے لئے چاندی کی انگوٹھی دائیں ہاتھ کے خنصر میں پہننا جائز ہے، اور اگر چاہے تو بائیں ہاتھ کے خنصر میں بھی پہن سکتا ہے، دونوں عمل نبیﷺ سے صحیح طور پر ثابت ہیں، لیکن صحیح اور مشہور یہ ہے کہ دائیں ہاتھ میں افضل ہے ، اس لئے کہ یہ زینت اور دایاں ہاتھ شرف والا ہے۔بعض شافعیہ کا خیال ہے کہ بائیں میں افضل ہے، اور سنن ابی داود میں صحیح سند کے ساتھ منقول ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓاپنے بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے، اور سند حسن کے ساتھ یہ بھی منقول ہے کہ حضرت ابن عباسؓ اپنے دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے۔ شافعیہ کے نزدیک درمیان انگلی اور شہادت کی انگلی میں انگوٹھی پہننا ممنو ع ہے، اس لئے کہ حضرت علیؓ سے منقول ہے کہ انہوں نے اپنی بیچ کی انگلی اور اس سے متصل انگلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے مجھے اپنی اس انگلی یا اس انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے۔
حنابلہ: حنابلہ کہتے ہیں کہ دائیں ہاتھ کے بالمقابل بائیں ہاتھ کے خنصر میں انگوٹھی پہننا زیادہ بہتر ہے، اس کی صراحت صالح روایت میں ہے، اور اثرم وغیرہ کی روایت میں دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کو ضعیف قرار دیا گیا ہے، دارقطنی وغیرہ کہتے ہیں کہ محفوظ بات یہ ہے کہ نبیﷺ اپنے بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے اور وہ بھی خنصر میں ، تاکہ بالکل کنارے رہے اور ہاتھ میں لگنے والی چیزوں سے زیادہ ملوث اور خراب نہ ہو، اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ ہاتھ میں کچھ لینے اور پکڑنے میں رکاوٹ نہیں ہو گی۔ حنابلہ کے نزدیک سبابہ اور وسطی انگلی میں انگوٹھی پہننا مکروہ ہے، اس لئے کہ اس سلسلے میں صحیح روایات میں ممعانعت وارد ہو ئی ہے۔ اور ابہام (انگوٹھا) اور بنصر(بیچ کی انگلی اور چھوٹی انگلی کے درمیان والی انگلی) کے بارے میں حنابلہ کے اقوال سے لگتا ہے کہ ان میں انگوٹھی پہننا مکروہ نہیں ہے، اگرچہ خنصر افضل ہے ، اس لئے کہ نص میں اسی کا ذکر ہے۔

انگوٹھی میں نگینہ / نقش وغیرہ استعمال کرنا
17- حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، حدثنا عبد العزيز بن صهيب، عن أنس رضي الله عنه قال: صنع النبي صلى الله عليه وسلم خاتما، قال: «إنا اتخذنا خاتما، ونقشنا فيه نقشا، فلا ينقشن عليه أحد» قال: فإني لأرى بريقه في خنصره
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ایک انگوٹھی بنوائی اور فرمایا :" ہم نے ایک انگوٹھی بنوائی ہے اور اس پر نقش کندہ کرایا ہے اس بناء پر کوئی شخص انگوٹھی پر یہ نقش کندہ نہ کرائے"۔ حضرت انسؓ نے فرمایا : "گویا میں اب بھی رسول اللہﷺ کی چھنگلیا میں اس کی چمک دیکھ رہا ہوں"[20]۔
18-حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا جويرية، عن نافع، أن عبد الله، حدثه: أن النبي صلى الله عليه وسلم اصطنع خاتما من ذهب، وجعل فصه في بطن كفه إذا لبسه، فاصطنع الناس خواتيم من ذهب، فرقي المنبر، فحمد الله وأثنى عليه، فقال: «إني كنت اصطنعته، وإني لا ألبسه» فنبذه، فنبذ الناس قال جويرية: ولا أحسبه إلا قال: في يده اليمنى
حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ نبیﷺ نے پہلے ایک سونے کی انگوٹھی بنوائی، آپ نے جس وقت اسے پہنا تو اس کا نگینہ ہتھیلی کی اندر کی طرف کیا۔ لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوالیں ۔ آپ ﷺ منبر پر جلوہ افروز ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء کے بعد فرمایا: "میں نے سونے کی انگوٹھی بنوائی تھی لیکن میں اب اسے نہیں پہنوں گا" ۔ پھر آپ نے وہ انگوٹھی پھینک دی تو لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں" ۔ راوی جویریہ کہتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے دائیں ہاتھ میں پہننے کے الفاظ بیان کئے تھے[21]۔
تحکیم: صحیح۔
19-حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة قال: حدثنا سفيان بن عيينة، عن أيوب بن موسى، عن نافع، عن ابن عمر قال: اتخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم خاتما من ورق ثم نقش فيه محمد رسول الله، فقال: «لا ينقش أحد على نقش خاتمي هذا»

حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ رسول اللۃﷺ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی اور اس میں محمد رسول اللہ کے الفاظ کندہ کرئے، پھر فرمایا :"کوئی شخص میری اس انگوٹھی کے نقش کی طرح نقش نہ بنوائے"[22]۔
تحکیم: صحیح۔
20-حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة قال: حدثنا عبد الله بن نمير، عن محمد بن إسحاق، عن يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير، عن أبيه، عن عائشة، أم المؤمنين قالت: أهدى النجاشي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم حلقة فيها خاتم ذهب فيه فص حبشي، فأخذه رسول الله صلى الله عليه وسلم بعود، وإنه لمعرض عنه - أو ببعض أصابعه - ثم دعا بابنة ابنته أمامة بنت أبي العاص، فقال: «تحلي بهذا يا بنية»

حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا :" نجاشیؓ نے نبیﷺ کی خدمت میں سونے کی ایک انگوٹھی ہدیے کے طور پر بھیجی ، اس میں حبشی نگینہ جڑا ہوا تھا، رسول اللہﷺ نے اس میں دلچسپی نہ لیتے ہوئےاسے لکڑی سے یا پانی کچھ انگلیوں سے پکڑا ، پھر اپنی نواسی حضرت امامہ بنت ابو العاصؓ کو بلا کر فرمایا:"بیٹی یہ زیور پہن لو"[23]۔
تحکیم: ضعیف منقطع ، ابن اسحاق مدلس ہیں اور معنعن روایت کررہے ہیں۔
21-حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة قال: حدثنا سفيان بن عيينة، عن أيوب بن موسى، عن نافع، عن ابن عمر، «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يجعل فص خاتمه مما يلي كفه»
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ اپنی انگوٹھی کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھتے تھے[24]۔
تحکیم: صحیح۔
22-حدثنا محمد بن يحيى قال: حدثنا إسماعيل بن أبي أويس قال: حدثني سليمان بن بلال، عن يونس بن يزيد الأيلي، عن ابن شهاب، عن أنس بن مالك، «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لبس خاتم فضة فيه فص حبشي كان يجعل فصه في بطن كفه»
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے چاندی کی انگوٹھی پہنی جس میں حبشی نگینہ تھا۔ آپﷺ نگینے کو ہتھیلی کی اندرونی جانب رکھتے تھے[25]۔
تحکیم: ضعیف، اسماعیل بن ابی اویس جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔
فقہاء کی بحث
انگو ٹھی پر نقش بنانا فقہہ کے نزدیک جائز ہے، اس کے جواز پر تمام کا اتفاق ہے کہ صاحب خاتم کا نام س پر نقش کیا جائے ، البتہ اللہ تعالیٰ کے نام اور الفاظ ذکر کے نقش کے بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے:
حنفیہ اور شافعیہ: ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام اور ذکر کے الفاظ بھی انگوٹھی پر نقش کرنا جائز ہے ، البتہ بیت الخلاء جاتے وقت آستین میں اس کو چھپا لینا اور بوقت استنجاء دائیں ہاتھ میں پہن لینا چاہئیے۔ بعض حنفیہ کا خیال یہ ہے کہ اگر جاندار کی تصویر اتنی چھوٹی ہو کہ دور سے نظر نہ آئے تو اس کا نقش بنانے میں کوئی حرج نہیں۔
حنابلہ: کہتے ہیں کہ انگوٹھی پر ذکر اللہ کے الفاظ خواہ قرآنی ہو ں یا غیر قرآنی، صراحت کے ساتھ لکھنا مکروہ ہے۔ اسحاق بن راہویہ کہتے ہیںک ہ کوئی شخص بیت الخلاء میں ایسے نقش والی انگوٹھی پہن کر نہ جائے، الفرو ع میں لکھا ہے کہ غالباً ابن حنبل نے اسی وجہ سے اس کو مکروہ کہا ہے ، صاحب الفروع کہتے ہیں کہ کراہت کی اس کے سوا کوئی دلیل مجھے نہیں ملی، حالانکہ دلیل کی ضرورت ہے اور اصل یہ ہے کہ کراہت کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے، حنابلہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انگوٹھی پر کسی جاندار کی صورت نقش کرنا حرام ہے اور ایسی انگوٹھی کا پہننا بھی حرام ہے، تصویر والی انگوٹھی کا حکم وہی ہے جو تصویر والے کپڑے کا ہے۔
فقہاء عام طور پر اس طرف گئے ہیں کہ مرد کی جائز انگوٹھی میں چاندی یا کسی دوسری دھات کا نگینہ استعمال کرنا حسب ذیل تفصیل کے ساتھ جائز ہے:

حنفیہ: یہ کہتے ہیں کہ مرد کو اپنی انگوٹھی میں عقیق، فیروزہ یا پھر یاقوت وغیرہ کا نگینہ لگانا جائز ہے، اور حفاظت کے نقطہ نظر سے نگینے کا سوراخ بند کرنے کے لئے سونے کی کیل استعمال کرنے کی بھی گنجائش ہے، اس لئے کہ یہ بہت تھوڑی سی مقدار ہے، یہ کپڑے میں کوٹ کی مانند ہے، اس لئے ایسی انگوٹھی پہننے والے کو سنا پہننے والا نہیں کہا جائے گا، مرد اپنی انگوٹھی کا نگینہ ہتھیلی کے اندرونی رخ پر رکھے، برخلاف عورتوں کے کہ وہ جیسے چاہیں رکھ سکتی ہیں، اس لئے کہ انگوٹھی عورتوں کے لئے زینت ہے مردوں کے لئے نہیں۔
مالکیہ: یہ کہتے ہیں کہ انگوٹھی کے نگینہ میں چاندی کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں، پھر اس کی تشریح میں ان کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، بعض کہتے ہیں کہ چاندی کا نگینہ، لوہا، تانبہ ، اور سیسہ کے علاوہ کسی جائز چیز مثلاً چمڑہ، لکڑی وغیرہ سے تیار شدہ انگوٹھی میں استعمال کیا جائے تو جائز ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ پوری انگوٹھی چاندی کی ہو گی جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث ہے۔ اس طرح یہ اس روایت کے منافی نہ ہو گی جس میں ہے کہ انگوٹھی کا نگینہ بھی اسی دھات کا تھا۔
حاصل تحقیق
احادیث کی روشنی میں یہ بات مکمل طور پر واضح ہوتی ہے کہ :
1۔ سونے کی انگوٹھی (یازیور) کا استعمال مرد کے لیے حرام ہے۔
2۔ چاندی کی انگوٹھی کا استعمال مرد کے لیے ممنوع نہیں ہے۔
3۔ چاندی کے علاوہ کسی دھات کی انگوٹھی کے مرد کے لیے استعمال کی ممانعت پر کوئی حدیث ثابت نہیں۔
4۔ انگوٹھی میں نگینہ یا نقش جائز ہے، البتہ قرآنی آیات کا استعمال فقہاء کے نزدیک ممنوع ہے۔
واللہ اعلم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


[1] ۔ سنن ابو داود 4057۔
[2] ۔ سنن ترمذی 1720۔
[3] ۔ صحیح بخاری 5864
[4] ۔ سنن ابو داود 4059۔ حافظ زبیر علی زئی نے اسے صحیح کہا ہے۔
[5] ۔مسند احمد بن حنبل 8897
[6] ۔ صحیح بخاری 5866
[7] ۔ سنن ابن ماجہ 3646
[8] ۔ سنن ابو داود 4221
[9] ۔ مسند احمد بن حنبل 6518، سنن الکبریٰ 9442۔
[10] ۔ سنن ابو داود 4223
[11] ۔ سنن الکبریٰ 9442
[12] ۔ سنن ابو داود مترجم طبع دارالسلام 4/243۔
[13] ۔ الفوائد المنتقاة عن الشيوخ العوالي ص 54 رقم 154


[14] ۔ سنن ابو داود 4224
[15] ۔ سنن ابو داود 4226
[16] ۔ سنن ابو داود 4228
[17] ۔ سنن ابن ماجہ 3647،شرح السنۃ لبغوی 12/67ح4143۔
[18] ۔ سنن ابو داود 4225، سنن ابن ماجہ 3648
[19] ۔ سنن ابو داود 4229
[20] ۔ صحیح بخاری 5874
[21] ۔ صحیح بخاری 5876
[22] ۔ سنن ابن ماجہ 3639، مصنف ابن ابی شیبہ 25649۔
[23] ۔ سنن ابن ماجہ 3644
[24] ۔ سنن ابن ماجہ 3645
[25] ۔ سنن ابن ماجہ 3646
 
Last edited by a moderator:
Top