• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ان آیات کے مطلق ارشادِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے

شمولیت
نومبر 18، 2014
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
54
اسلام وعلیکم آپ سب سے گزارش ہے مجھے ان آیات قرانی کے مطلق سہی معلومات دیں اکثر لوگ ان آیات کو دلیل بنا کر پیش کرتے ہیں کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم شروع کائنات سے لے کر اب تک ذندہ ہیں اور سب کے حالات سے آگاہ ہیں اور سب دیکھتے اور سنتے ہیں ۔۔۔
دلیل نمبر 1
سورہ بقرہ کی آیت نمبر 258
اَلَمْ تَـرَ اِلَى الَّـذِىْ حَآجَّ اِبْـرَاهِيْمَ فِىْ رَبِّهٓ ٖ اَنْ اٰتَاهُ اللّـٰهُ الْمُلْكَۚ اِذْ قَالَ اِبْـرَاهِيْـمُ رَبِّىَ الَّـذِىْ يُحْيِىْ وَيُمِيْتُ قَالَ اَنَا اُحْيِىْ وَاُمِيْتُ ۖ قَالَ اِبْـرَاهِـيْمُ فَاِنَّ اللّـٰهَ يَاْتِىْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِـهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَـبُهِتَ الَّـذِىْ كَفَرَ ۗ وَاللّـٰهُ لَا يَـهْدِى الْقَوْمَ الظَّالِمِيْنَ (258)
کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراھیم سے اس کے رب کی بابت جھگڑا کیا اس لیے کہ اللہ نے اسے سلطنت دی تھی، جب ابراھیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اس نے کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں، کہا ابراھیم نے بے شک اللہ سورج مشرق سے لاتا ہے تو اسے مغرب سے لے آ تب وہ کافر حیران رہ گیا، اور اللہ بے انصافوں کی سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔
اس آیت میں اللہ پاک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرماتا ھے کیا تم نے نہیں دیکھا ۔۔۔ اس سے بریلوی حضرات یہ مطلب لیتے ہیں جب ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کی بحث ہو رہی تھی تو اللہ تعالیٰ نے نبی علیہ السلام سے ارشاد فرمایا کیا رونے نہیں دیکھا تو اس سے ثابت ہوتا ہے کے نبی وہاں موجود تھے ۔
اس کا سہی علمی جواب درکار ہے ۔۔۔

دلیل نمبر 2
Surat No 105 : Ayat No 1

اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصۡحٰبِ الۡفِیۡلِ ؕ﴿۱﴾

کیا تو نے نہ دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟

اس سے بھی یہ ہی مراد لی جا رہی ہے کے جب اللہ تعالٰی نے ہاتھی والوں کو عذاب دیا تو تب بھی اللہ تعالیٰ نبی علیہ السلام کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کیا رونے نہیں دیکھا اس طرح کی اور بھی آیت ہیں جن سے اس طرح کا مطلب لیا جاتا ہے برائے مہربانی سہی عقہعق کیا ان آیات کے مطلق وہ قرآن و حدیث سے سمجھا دیجئے۔۔۔ شکریا
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
اسلام وعلیکم آپ سب سے گزارش ہے مجھے ان آیات قرانی کے مطلق سہی معلومات دیں اکثر لوگ ان آیات کو دلیل بنا کر پیش کرتے ہیں کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم شروع کائنات سے لے کر اب تک ذندہ ہیں اور سب کے حالات سے آگاہ ہیں اور سب دیکھتے اور سنتے ہیں ۔۔۔
دلیل نمبر 1
سورہ بقرہ کی آیت نمبر 258
اَلَمْ تَـرَ اِلَى الَّـذِىْ حَآجَّ اِبْـرَاهِيْمَ فِىْ رَبِّهٓ ٖ اَنْ اٰتَاهُ اللّـٰهُ الْمُلْكَۚ اِذْ قَالَ اِبْـرَاهِيْـمُ رَبِّىَ الَّـذِىْ يُحْيِىْ وَيُمِيْتُ قَالَ اَنَا اُحْيِىْ وَاُمِيْتُ ۖ قَالَ اِبْـرَاهِـيْمُ فَاِنَّ اللّـٰهَ يَاْتِىْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِـهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَـبُهِتَ الَّـذِىْ كَفَرَ ۗ وَاللّـٰهُ لَا يَـهْدِى الْقَوْمَ الظَّالِمِيْنَ (258)
کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراھیم سے اس کے رب کی بابت جھگڑا کیا اس لیے کہ اللہ نے اسے سلطنت دی تھی، جب ابراھیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اس نے کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں، کہا ابراھیم نے بے شک اللہ سورج مشرق سے لاتا ہے تو اسے مغرب سے لے آ تب وہ کافر حیران رہ گیا، اور اللہ بے انصافوں کی سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔
اس آیت میں اللہ پاک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرماتا ھے کیا تم نے نہیں دیکھا ۔۔۔ اس سے بریلوی حضرات یہ مطلب لیتے ہیں جب ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کی بحث ہو رہی تھی تو اللہ تعالیٰ نے نبی علیہ السلام سے ارشاد فرمایا کیا رونے نہیں دیکھا تو اس سے ثابت ہوتا ہے کے نبی وہاں موجود تھے ۔
اس کا سہی علمی جواب درکار ہے ۔۔۔

دلیل نمبر 2
Surat No 105 : Ayat No 1

اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصۡحٰبِ الۡفِیۡلِ ؕ﴿۱﴾

کیا تو نے نہ دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟

اس سے بھی یہ ہی مراد لی جا رہی ہے کے جب اللہ تعالٰی نے ہاتھی والوں کو عذاب دیا تو تب بھی اللہ تعالیٰ نبی علیہ السلام کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کیا رونے نہیں دیکھا اس طرح کی اور بھی آیت ہیں جن سے اس طرح کا مطلب لیا جاتا ہے برائے مہربانی سہی عقہعق کیا ان آیات کے مطلق وہ قرآن و حدیث سے سمجھا دیجئے۔۔۔ شکریا
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اولم یروا، الم یروا اور الم تر وغیرہ جیسے الفاظ قرآن مجید میں غور و فکر اور تدبر کے لیے آئے ہیں نہ کہ عینی مشاہدہ کے لیے ۔ بالفرض اگر ان آیات کو اسی طرح لیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ کائنات کے آغاز سے لے کر اب تک زندہ موجود ہیں تو مندرجہ ذیل آیات کا کیا مطلب ہوگا ؟

وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ إِذْ قَضَيْنَا إِلَىٰ مُوسَى الْأَمْرَ وَمَا كُنتَ مِنَ الشَّاهِدِينَ ﴿٤٤﴾ وَلَٰكِنَّا أَنشَأْنَا قُرُونًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۚ وَمَا كُنتَ ثَاوِيًا فِي أَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَلَٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ ﴿٤٥﴾ وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَٰكِن رَّحْمَةً مِّن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ﴿٤٦﴾
اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ موجود نہیں تھے (اس پہاڑ کے) غربی جانب جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف حکم بھیجا تھا اور نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں میں شامل تھے جو وہاں حاضر تھے لیکن ہم نے پیدا کیں بہت سی نسلیں ‘ تو ان کے اوپر ایک لمبی عمر بیت گئی اور نہ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل مدین کے درمیان مقیم تھے کہ ان کو ہماری آیات پڑھ کر سناتے بلکہ یہ تو ہم ہیں (رسولوں کو) بھیجنے والے اور نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اس وقت) طور کے پاس موجود تھے جب ہم نے (موسیٰ ( علیہ السلام) کو) پکارا تھا بلکہ یہ سب رحمت ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کی طرف سے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قوم کو خبردار کریں جس کی طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا شاید کہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
اگر رسول اللہ ﷺ ہر وقت موجود ہیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کوہ ِ طور پر ہونے وقت کہاں تھے ؟

تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَٰذَا ۖ فَاصْبِرْ ۖ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ ﴿٤٩﴾
(اے محمدﷺ ! ) یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم وحی کر رہے ہیں آپ کی طرف اس سے پہلے نہ آپ ان کو جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم تو آپ صبر کیجئے یقیناً انجام کار بھلا ہوگا اہل تقویٰ ہی کا ۔
اگر رسول اللہ ﷺ ابتدائے کائنات سے اب تک زندہ موجود ہیں تو اللہ تعالٰی آپ ﷺ اور اہل ِ مکہ کو اس طویل واقعہ سے لا علم کیوں بتا رہا ہے ؟

أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّن لَّكُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَيْهِم مِّدْرَارًا وَجَعَلْنَا الْأَنْهَارَ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ وَأَنشَأْنَا مِن بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ ﴿الأنعام: ٦﴾
کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کا اپنے اپنے زمانہ میں دور دورہ رہا ہے؟ اُن کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار بخشا تھا جو تمہیں نہیں بخشا ہے، ان پر ہم نے آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں، (مگر جب انہوں نے کفران نعمت کیا تو) آخر کار ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں تباہ کر دیا اور ان کی جگہ دوسرے دور کی قوموں کو اٹھایا۔

أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّنَ الْقُرُونِ أَنَّهُمْ إِلَيْهِمْ لَا يَرْجِعُونَ ﴿يس: ٣١﴾
کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں اور اس کے بعد وہ پھر کبھی ان کی طرف پلٹ کر نہ آئے؟
اہلِ مکہ نے کب اور کس وقت ان معذب قوموں کی ہلاکت کا مشاہدہ کیا؟

أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ ﴿الأنبياء: ٣٠﴾
کیا وہ لوگ جنہوں نے (نبیؐ کی بات ماننے سے) انکار کر دیا ہے نہیں دیکھا کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے اِنہیں جدا کیا، اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی کیا وہ (ہماری اس خلّاقی کو) نہیں مانتے؟
کفار نے کب عینی مشاہدہ کیا کہ کسی وقت زمین و آسمان آپس میں ملے ہوئے تھے ؟

اس طرح کے الفاظ پر مبنی متعدد آیات قرآن مجید میں موجود ہیں چونکہ ہمارا مقصد تمام آیات کو نقل کرنا مقصود نہیں اس لیے اسی پر اکتفاء کرتے ہیں۔
دراصل اس طرح کے باطل نظریات ان لوگوں کے ہیں جو عربی زبان تو ایک طرف اُردو زبان کے اسالیب و امثال سے بھی نا بلد ہیں ۔


 
شمولیت
نومبر 18، 2014
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
54
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اولم یروا، الم یروا اور الم تر وغیرہ جیسے الفاظ قرآن مجید میں غور و فکر اور تدبر کے لیے آئے ہیں نہ کہ عینی مشاہدہ کے لیے ۔ بالفرض اگر ان آیات کو اسی طرح لیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ کائنات کے آغاز سے لے کر اب تک زندہ موجود ہیں تو مندرجہ ذیل آیات کا کیا مطلب ہوگا ؟

وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ إِذْ قَضَيْنَا إِلَىٰ مُوسَى الْأَمْرَ وَمَا كُنتَ مِنَ الشَّاهِدِينَ ﴿٤٤﴾ وَلَٰكِنَّا أَنشَأْنَا قُرُونًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۚ وَمَا كُنتَ ثَاوِيًا فِي أَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَلَٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ ﴿٤٥﴾ وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَٰكِن رَّحْمَةً مِّن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ﴿٤٦﴾
اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ موجود نہیں تھے (اس پہاڑ کے) غربی جانب جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف حکم بھیجا تھا اور نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں میں شامل تھے جو وہاں حاضر تھے لیکن ہم نے پیدا کیں بہت سی نسلیں ‘ تو ان کے اوپر ایک لمبی عمر بیت گئی اور نہ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل مدین کے درمیان مقیم تھے کہ ان کو ہماری آیات پڑھ کر سناتے بلکہ یہ تو ہم ہیں (رسولوں کو) بھیجنے والے اور نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اس وقت) طور کے پاس موجود تھے جب ہم نے (موسیٰ ( علیہ السلام) کو) پکارا تھا بلکہ یہ سب رحمت ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کی طرف سے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قوم کو خبردار کریں جس کی طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا شاید کہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
اگر رسول اللہ ﷺ ہر وقت موجود ہیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کوہ ِ طور پر ہونے وقت کہاں تھے ؟

تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَٰذَا ۖ فَاصْبِرْ ۖ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ ﴿٤٩﴾
(اے محمدﷺ ! ) یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم وحی کر رہے ہیں آپ کی طرف اس سے پہلے نہ آپ ان کو جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم تو آپ صبر کیجئے یقیناً انجام کار بھلا ہوگا اہل تقویٰ ہی کا ۔
اگر رسول اللہ ﷺ ابتدائے کائنات سے اب تک زندہ موجود ہیں تو اللہ تعالٰی آپ ﷺ اور اہل ِ مکہ کو اس طویل واقعہ سے لا علم کیوں بتا رہا ہے ؟

أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّن لَّكُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَيْهِم مِّدْرَارًا وَجَعَلْنَا الْأَنْهَارَ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ وَأَنشَأْنَا مِن بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ ﴿الأنعام: ٦﴾
کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کا اپنے اپنے زمانہ میں دور دورہ رہا ہے؟ اُن کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار بخشا تھا جو تمہیں نہیں بخشا ہے، ان پر ہم نے آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں، (مگر جب انہوں نے کفران نعمت کیا تو) آخر کار ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں تباہ کر دیا اور ان کی جگہ دوسرے دور کی قوموں کو اٹھایا۔

أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّنَ الْقُرُونِ أَنَّهُمْ إِلَيْهِمْ لَا يَرْجِعُونَ ﴿يس: ٣١﴾
کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں اور اس کے بعد وہ پھر کبھی ان کی طرف پلٹ کر نہ آئے؟
اہلِ مکہ نے کب اور کس وقت ان معذب قوموں کی ہلاکت کا مشاہدہ کیا؟

أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ ﴿الأنبياء: ٣٠﴾
کیا وہ لوگ جنہوں نے (نبیؐ کی بات ماننے سے) انکار کر دیا ہے نہیں دیکھا کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے اِنہیں جدا کیا، اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی کیا وہ (ہماری اس خلّاقی کو) نہیں مانتے؟
کفار نے کب عینی مشاہدہ کیا کہ کسی وقت زمین و آسمان آپس میں ملے ہوئے تھے ؟

اس طرح کے الفاظ پر مبنی متعدد آیات قرآن مجید میں موجود ہیں چونکہ ہمارا مقصد تمام آیات کو نقل کرنا مقصود نہیں اس لیے اسی پر اکتفاء کرتے ہیں۔
دراصل اس طرح کے باطل نظریات ان لوگوں کے ہیں جو عربی زبان تو ایک طرف اُردو زبان کے اسالیب و امثال سے بھی نا بلد ہیں ۔

اسلام وعلیکم جناب آپ نے بہت تسلی بخش جواب دیا ہے اللہ آپ کو اس کی جزا خیر دے آپ کا بہے شکریہ۔۔۔۔
 
Top