• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اور میرے بندوں سے کہہ دیجیئے (تفسیر سعدی سے خوشہ چینی )

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
اور میرے بندوں سے کہہ دیجیئے (تفسیر سعدی سے خوشہ چینی )
1 ۔
قُل لِّعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا يُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خِلَالٌ ﴿ابراهيم: ٣١﴾
میرے ایمان والے بندوں سے کہہ دیجئے کہ نمازوں کو قائم رکھیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ پوشیده اورظاہر خرچ کرتے رہیں اس سے پہلے کہ وه دن آجائے جس میں نہ خرید وفروخت ہوگی نہ دوستی اور محبت (31)
تفسیر سعدی :
(قُل لِّعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا)
” میرے مومن بندوں سے کہہ دو۔“
یعنی انہیں ان امور کا حکم دیجئے جن میں ان کی اصلاح ہے اور انہیں یہ بھی حکم دیا کہ اس سے قبل کہ ان کی اصلاح ممکن نہ ہو وہ فرصت کو غنیمت جانیں۔
( يُقِيمُوا الصَّلَاةَ)
وہ ظاہری اور باطنی آداب کے ساتھ نماز قائم کریں
(وَيُنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ )
” اور ہم نے جو انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کریں۔“
یعنی ہم نے انہیں کم یا زیادہ جو بھی نعمتیں عطا کی ہیں ان میں سے خرچ کریں
(سِرًّا وَعَلَانِيَةً )
” چھپے اور ظاہر“
یہ حکم نفقات واجبہ مثلاً زکوٰۃ اور نفقات کفالت اور نفقات مستحبہ مثلاً عام صدقات وغیرہ کو شامل ہے۔
(مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خِلَالٌ)
” پہلے اس کے کہ وہ دن آجائے، جس میں نہ کوئی سودا ہوگا نہ دوستی“
یعنی اس دن کوئی چیز فائدہ نہ دے گی اور جو چیز فوت ہوگئی ہوگی تو کسی خریدوفروخت کے معاوضے، کسی ہبہ اور کسی دوست یار کے ذریعے سے اس کا تدارک ممکن نہیں ہوگا۔ پس ہر شخص کا اپنا اپنا معاملہ ہوگا جو اس کو دوسروں سے بے نیاز کردے گا۔ اس لیے ہر شخص کو اپنے لئے کچھ بھیجنا چاہئے، اور خوب اچھی طرح غور کرلے کہ وہ کل کے لئے کیا آگے بھیج رہا ہے؟ وہ اپنے اعمال پر نظر ڈالے اور بڑے حساب کتاب سے پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کرلے۔

2 ۔
وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿الإسراء: ٥٣﴾
اور میرے بندوں سے کہہ دیجیئے کہ وه بہت ہی اچھی بات منھ سے نکالا کریں کیونکہ شیطان آپس میں فساد ڈلواتا ہے۔ بےشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے (53)
تفسیر سعدی :
یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم ہے کہ اس نے انہیں بہتر اخلاق‘ اعمال اور اقوال کا حکم دیا ہے جو دنیا و آخرت کی سعادت کے موجب ہیں چنانچہ فرمایا :
(وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ )
” کہہ دو میرے بندوں سے‘ بات وہی کہیں جو اچھی ہو۔“
یہ ہر اس کلام کے بارے میں حکم ہے جو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ ہے مثلاً قرآءت قرآن‘ ذکر الہٰی‘ حصول علم‘ امر بالمعروف‘ نہی عن المنکر اور لوگوں کے ساتھ ان کے حسب مراتب اور حسب منزلت شیریں کلامی وغیرہ۔ اگر دو اچھے امور درپیش ہوں اور ان دونوں میں جمع و تطبیق ممکن نہ ہو تو ان میں جو بہتر ہو اس کو ترجیح دی جائے اور اچھی بات ہمیشہ خلق جمیل اور عمل صالح کو دعوت دیتی ہے‘ اس لیے جسے اپنی زبان پر اختیار ہے اس کے تمام معاملات اس کے اختیار میں ہیں۔
(إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ )
” بے شک شیطان ان کے درمیان جھڑپ کرواتا ہے“
یعنی شیطان بندوں کے دین و دنیا کو خراب کر کے ان کے درمیان فساد پھیلانا چاہتا ہے اور اس فساد کی دوا یہ ہے کہ وہ بری باتوں میں شیطان کی پیروی نہ کریں جن کی طرف شیطان دعوت دیتا رہتا ہے اور آپس میں نرم رویہ اختیار کریں تاکہ شیطان کی ریشہ دوانیوں کا قلع قمع ہو جو ان کے درمیان فساد کا بیج بوتا رہتا ہے‘ اس لیے کہ شیطان ان کا حقیقی دشمن ہے اور ان پر لازم ہے کہ وہ شیطان کے خلاف مصروف جنگ رہیں۔ اس لیے کہ وہ تو انہیں دعوت دیتا رہتا ہے
( لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴿٦ : فاطر﴾ )
تاکہ وہ جہنم والے بن جائیں۔
“ اگرچہ شیطان ان کے درمیان فساد اور عداوت ڈالنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے لیکن اس بارے میں کامل حزم و احتیاط یہ ہے کہ اپنے دشمن شیطان کی مخالفت کی جائے‘ نفس امارہ کا قلع قمع کیا جائے جس کے راستے سے شیطان داخل ہوتا ہے‘ اس طرح وہ اپنے رب کی اطاعت کرسکیں گے‘ ان کا معاملہ درست رہے گا اور راہ ہدایت پالیں گے۔
 
Top