- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
اولیاء الرحمن کی علامات
اور اگر وہ شخص ایمان کے باطنی حقائق سے آگاہ ہو، احوالِ رحمانی اور احوالِ شیطانی میں فرق کر سکتا ہو تو سمجھو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں نور ایمان ڈال دیا ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَآمِنُوابِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًاتَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴿٢٨﴾الحدید
اور فرمایا:’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس رسول پر ایمان لائو وہ تمہیں اپنی رحمت سے دو حصے بخشے گا اور تمہارے لیے ایسا نور پیدا کرے کا جس کے ذریعے تم چلو پھرو اور تمہیں معاف کر دے گا، اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔‘‘
وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَاإِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَاالْإِيمَانُ وَلَـٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْعِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴿٥٢﴾شوری
تو ایسا شخص ان مومنین میں سے ہوتا ہے جن کے بارے میں وہ حدیث آئی ہے، جسے ترمذی نے سیدناابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’اور اسی طرح بھیجاہم نے تیری طرف ایک فرشتہ اپنے حکم سے، تونہ جانتاتھا کہ کتاب اور ایمان کیا ہے لیکن ہم نے اسے ایک نور بنا دیا ہے اس کے ذریعے ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں راہ پر لاتے ہیں۔‘‘
(ترمذی کتاب التفسیر، سورۃ الحجر، رقم: ۳۱۲۷ ۔ وقال ھذا حدیث غریب)’’مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘
ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن ہے اور اس سے پہلے اس حدیث کا ذکر آچکا ہے جو صحیح بخاری اور دیگر کتابوں میں ہے، جس میں فرمایا ہے کہ
(بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع ، رقم الحدیث: ۶۵۰۲۔ (قوسین کے مابین کے الفاظ صحیح بخاری کے نہیں ہیں))’’میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرتا ہے۔ حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ جب اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پائوں بن جاتا ہوں، جس کے ساتھ وہ چلتا ہے،] چنانچہ مجھی سے سنتا ہے، مجھی سے دیکھتا ہے، مجھی سے پکڑتا ہے اور مجھی سے چلتا ہے]۔ اگر مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے دے دیتا ہوں۔ اگر مجھ سے پناہ مانگتا ہے تو میں اسے پناہ دے دیتا ہوں اور جو کچھ بھی مجھے کرنا ہو، اس میں سے کسی چیز پر مجھے اس درجہ تردد نہیں ہوتا، جتنا اس بندۂ مومن کی روح قبض کرنے کے وقت ہوتا ہے۔ وہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور اس کی دل آزاری مجھے ناپسند ہے حالانکہ اس کے لیے اس سے چارہ نہیں۔
جب کوئی بندہ ان حضرات میں سے ہو تو وہ اولیاء رحمن اور اولیاء شیطان کے احوال کے درمیان اسی طرح فرق کرتا ہے، جس طرح صرّاف کھرے اور کھوٹے درہم میں تمیز کرتا ہے اور جس طرح گھوڑوں کو پہچاننے والا اچھے اور خراب گھوڑے میں فرق پہچان لیتا ہے اور جس طرح فن سپہ گری کا ماہر، بہادر اور ڈرپوک آدمی کے درمیان امتیاز کر لیتا ہے اور جس طرح سچے نبی اور متنبی (جھوٹے نبی) کے درمیان فرق کرنا واجب ہے۔چنانچہ محمد صادق و امین رسول رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم ، موسیٰ، مسیح اور دیگر انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام میں اور مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، طلیحہ اسدی، حارث دمشقی اور پاپائے رومی وغیرہ جھوٹوں میں فرق کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ کے متقی اولیاء اور شیطان کے گمراہ دوستوں کے درمیان فرق کیا جانا بھی واجب ہوگا۔
الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ