• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اَبر و بارہ (بارش وغیرہ) بستِ عالم میں حضورﷺ کی برکتوں کی وجہ سے ہوتی ہے ؟؟ یا یہ شرکیہ نظریہ ہے؟

جنید

رکن
شمولیت
جون 30، 2011
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
54
یہ ایک نعت ہے۔ نعت خواں 1:16 منٹ پر کہتا ہے کہ:

وہ (حضورﷺ)جن کی برکتوں سے اَبر و بارہ بستِ عالم میں

میرے ایک مولانا دوست کہتے ہیں کہ یہ شرک ہے، میں قرآن مجید میں غور کیا تو یہ پایا:

وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُّبَارَكًا فَأَنبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ ﴿٩﴾وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَّهَا طَلْعٌ نَّضِيدٌ ﴿١٠ رِّزْقًا لِّلْعِبَادِ (سورہ ق)
اور آسمان سے برکت والا پانی اُتارا اور اس سے باغ وبستان اُگائے اور کھیتی کا اناج اور لمبی لمبی کھجوریں جن کا گابھا تہہ بہ تہہ ہوتا ہے (10) (یہ سب کچھ) بندوں کو روزی دینے کے لئے (کیا ہے)

وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَـٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿٩٦ (سورہ الاعراف)
اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور پرہیزگار ہوجاتے۔ تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات (کے دروازے) کھول دیتے مگر انہوں نے تو تکذیب کی۔ سو ان کے اعمال کی سزا میں ہم نے ان کو پکڑ لیا

وَهُوَ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۚ وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا ﴿٤٨﴾ (سورہ الفرقان)
اوروہی تو ہے جو اپنی رحمت سے پہلے خوشخبری لانے والی ہوائیں چلاتا ہے اور ہم نے آسمان سے پاک پانی نازل فرمایا

پر مجھے معاملے کو تطبیق دینے الجھنے ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ :

وَإِذْ قَالُوا اللَّـهُمَّ إِن كَانَ هَـٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣٢ وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّـهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ﴿٣٣ (سورہ الانفال)
اورجب انہوں نے کہا کہ اے الله اگر یہ دین تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہم پر دردناک عذاب لا (32) اور الله ایسا نہ کرے گا کہ انہیں تیرتے ہوئے عذاب دے اور الله عذاب کرنے الا نہیں درآنحالیکہ وہ بخشش مانگتے ہوں


اِس آیت سے میرے دل میں ایک وسوسہ سا پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی حضورﷺ کی برکت سے عذاب نہیں دیتا، ویسے یہ وسوسہ بھی غلط ہے کیونکہ عذاب میں مانع حضورﷺ برکت نہیں اُن کی اپنی ذات تھی، جیسے إس ہی آیت کی شرح میں علماء یہ آیت لا تے ہیں، کہ مکہ میں عذابِ عام سے مانع پوشیدہ مسلمان تھے کہ وہاں عذاب کی زد میں رسولﷺ بھی آجاتے اور یہاں وہ خفیہ مسلمان:

وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَئُوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۖ لِّيُدْخِلَ اللَّـهُ فِي رَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿٢٥﴾ (سورہ فتح)
اور یہ خطرہ نہ ہوتا کہ نادانستگی میں تم انہیں پامال کر دو گے اور اس سے تم پر حرف آئے گا (تو جنگ نہ روکی جاتی روکی وہ اس لیے گئی) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کر لے وہ مومن الگ ہو گئے ہوتے تو (اہل مکہ میں سے) جو کافر تھے ان کو ہم ضرور سخت سزا دیتے

اور ایک حدیث بھی دماغ میں آتی ہے کہ (مجھے صحت یا حوالہ کچھ بھی یاد نہیں) اللہ تعالی زمین پر پانی جانوروں کی وجہ سے نازل کرتے ہے کہ وہ پیاسے نہ مرجایں، ورنہ انسانوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے پانی ہی نہ برستا۔

یہاں جانوروں کی وجہ سے پانی دینا اور حضورﷺ کی موجودگی سے عذاب نہ دیا، تو پھر حضورﷺ کی برکت سے پانی بھی برس جاتا ہوگا، پر ایسا سوچنے میں مندرجہ بالا آیات بھی مانع ہیں۔ پانی تو اللہ تعالی کی رحمت سے اور بنددں کی اطاعتِ الہیہ سے کی وجہ ہی سے برستا ہے۔

کیا میں صحیح سوچ رہا ہوں ؟؟
 
Last edited:

جنید

رکن
شمولیت
جون 30، 2011
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
54
ایک اور بات حضورﷺ کو قاسم الخیرات فی الدنیا والعقباء کہنا کیسے ہے جیسا کہ اِس نعت میں کہا گیا ہے؟ ، دنیا کا تو پتہ ہے کہ اپنی حیات میں آپﷺ بہت خیرات کرتے تھے، پر آخرت میں حضورﷺ لوگوں کی شفاعت تو فرمائیں گے اور حوض کوثر سے پانی بھی لائیں گے پر یہ سب اُس ہی کی بابت ہو گا جن کے بارے میں اللہ تعالی اجازت دیں گے۔ جیسے کہ آتا ہے:

مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ

له ما في السماوات وما في الأرض من ذا الذي يشفع عنده إلا بإذنه
يوم يأت لا تكلم نفس إلا بإذنه فمنهم شقي وسعيد
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
ایک اور بات حضورﷺ کو قاسم الخیرات فی الدنیا والعقباء کہنا کیسے ہے جیسا کہ اِس نعت میں کہا گیا ہے؟ ، دنیا کا تو پتہ ہے کہ اپنی حیات میں آپﷺ بہت خیرات کرتے تھے، پر آخرت میں حضورﷺ لوگوں کی شفاعت تو فرمائیں گے اور حوض کوثر سے پانی بھی لائیں گے پر یہ سب اُس ہی کی بابت ہو گا جن کے بارے میں اللہ تعالی اجازت دیں گے۔ جیسے کہ آتا ہے:

مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ

له ما في السماوات وما في الأرض من ذا الذي يشفع عنده إلا بإذنه
يوم يأت لا تكلم نفس إلا بإذنه فمنهم شقي وسعيد
السلام علیکم !
نبیﷺکو ”قاسم الخیرات فی الدینا والعقباء“ غالباًمندرجہ ذیل” روایت“ کی بناء پر کہا جاتا ہے:-
قَالَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ،‏‏‏‏ سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ خَطِيبًا،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ،‏‏‏‏ وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي،‏‏‏‏ وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الْأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ".
حمید بن عبدالرحمٰن نے کہا کہ میں نے معاویہ سے سنا۔ وہ خطبہ میں فرما رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے اور میں تو محض تقسیم کرنے والا ہوں، دینے والا تو اللہ ہی ہے اور یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی اور جو شخص ان کی مخالفت کرے گا، انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت)آجائے (اور یہ عالم فنا ہو جائے)۔

صحیح بخاری، کتاب العلم، حدیث نمبر 71
اس روایت میں بات ”دین کی سمجھ“کے حوالے سے ہو رہی ہےنبیﷺ کی”ذمہ داری “اللہ تعالٰی کا پیغام پہنچانا تھا لوگوں کو ”ہدایت“دینا صرف اللہ تعالٰی کا ”کام“ ہے۔
یہاں ”بات“نبیﷺکے ”عطائی طور“پر لوگوں کی ”قسمتیں بنانے “ کی نہیں ہورہی۔
 

جنید

رکن
شمولیت
جون 30، 2011
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
54
وعلیکم السلام،

جزاک اللہ۔ پر آپ نے دوسرے سوال کے پہلے متفقہ حصہ پر حدیث لائے ہیں۔ میرے سوال دوسرے حصہ سے متعلق ہےکہ قاسم الخیرات فی العقباء کہنا کیسا ہے، مجھے یہ کہنا مجہول ہی سا معلوم ہوتا ہے کہ وہاں تو باذن اللہ صرف سفارش ہو سکے گی۔ باقی ایک حوض کوثر کا مشروط معاملے معلوم ہے، کہ بس اہل سنت ہی فیضیاب ہوسکیں گے۔ اہل بدعت کو تو فرشتے دفع کردیں گے۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
وعلیکم السلام،

جزاک اللہ۔ پر آپ نے دوسرے سوال کے پہلے متفقہ حصہ پر حدیث لائے ہیں۔ میرے سوال دوسرے حصہ سے متعلق ہےکہ قاسم الخیرات فی العقباء کہنا کیسا ہے، مجھے یہ کہنا مجہول ہی سا معلوم ہوتا ہے کہ وہاں تو باذن اللہ صرف سفارش ہو سکے گی۔ باقی ایک حوض کوثر کا مشروط معاملے معلوم ہے، کہ بس اہل سنت ہی فیضیاب ہوسکیں گے۔ اہل بدعت کو تو فرشتے دفع کردیں گے۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ !
ہمارے ہاں طبقہء خاص قرآنی آیات اور احادیث کی روایات کو ان کے سیاق وسباق سے الگ کر کے اپنے باطل نظریات کا اثبات کرنے کی کوشش کرتاہے یہ حضرات پہلے ایک عقیدہ اپنے جی سے گھڑتے ہیں اور پھر اسکی تائید قرآنی آیات اوراحادیث کی رکیک تاویلات سے زبردستی اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حالانکہ سب جانتے ہیں عقیدہ ہوتا ہی نصوص پر مبنی ہے اخذ کی ہوئی کوئی چیز عقیدہ ثابت نہیں کر سکتی۔
اسکا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ طبقہء خاص کے نزدیک قاسم الخیرات فی الدنیا و العقباءکس معنی میں ہے؟ پھر اس کا کوئی جواب دیا جاسکتا ہے۔
لیکن ،اگر ان کے نزدیک قاسم الخیرات فی الدنیا و العقباء کا مطلب نبیﷺ کے ہاتھوں میں بھلائیو ں کا خرانہ ہونا مراد ہے کہ جس پر چاہیں تقسیم کریں اور جسے چاہیں محروم رکھیں تو بلاشبہ یہ قطعی غلط ہے۔ اس لیے اس بناء پر آپ کا قاسم الخیرات فی الدنیا و العقباءکو مجہول سمجھنا باکل صحیح ہے۔
قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿١٨٨﴾
اے محمدﷺ، ان سے کہو ”میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہو تا ہے اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا میں تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوش خبری سنانے والا ہوں اُن لوگوں کے لیے جو میری بات مانیں“۔
قرآن، سورت الاعراف، آیت نمبر 188
اگر وہ قرآنی آیات کو اسکے سیاق و سباق میں رکھ کر سمجھیں تو انہیں ایسی بے جا تاویلات کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
یہ ایک نعت ہے۔ نعت خواں 1:16 منٹ پر کہتا ہے کہ:

وہ (حضورﷺ)جن کی برکتوں سے اَبر و بارہ بستِ عالم میں

میرے ایک مولانا دوست کہتے ہیں کہ یہ شرک ہے، میں قرآن مجید میں غور کیا تو یہ پایا:

وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُّبَارَكًا فَأَنبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ ﴿٩﴾وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَّهَا طَلْعٌ نَّضِيدٌ ﴿١٠ رِّزْقًا لِّلْعِبَادِ (سورہ ق)
اور آسمان سے برکت والا پانی اُتارا اور اس سے باغ وبستان اُگائے اور کھیتی کا اناج اور لمبی لمبی کھجوریں جن کا گابھا تہہ بہ تہہ ہوتا ہے (10) (یہ سب کچھ) بندوں کو روزی دینے کے لئے (کیا ہے)

وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَـٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿٩٦ (سورہ الاعراف)
اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور پرہیزگار ہوجاتے۔ تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات (کے دروازے) کھول دیتے مگر انہوں نے تو تکذیب کی۔ سو ان کے اعمال کی سزا میں ہم نے ان کو پکڑ لیا

وَهُوَ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۚ وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا ﴿٤٨﴾ (سورہ الفرقان)
اوروہی تو ہے جو اپنی رحمت سے پہلے خوشخبری لانے والی ہوائیں چلاتا ہے اور ہم نے آسمان سے پاک پانی نازل فرمایا

پر مجھے معاملے کو تطبیق دینے الجھنے ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ :

وَإِذْ قَالُوا اللَّـهُمَّ إِن كَانَ هَـٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣٢ وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّـهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ﴿٣٣ (سورہ الانفال)
اورجب انہوں نے کہا کہ اے الله اگر یہ دین تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہم پر دردناک عذاب لا (32) اور الله ایسا نہ کرے گا کہ انہیں تیرتے ہوئے عذاب دے اور الله عذاب کرنے الا نہیں درآنحالیکہ وہ بخشش مانگتے ہوں


اِس آیت سے میرے دل میں ایک وسوسہ سا پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی حضورﷺ کی برکت سے عذاب نہیں دیتا، ویسے یہ وسوسہ بھی غلط ہے کیونکہ عذاب میں مانع حضورﷺ برکت نہیں اُن کی اپنی ذات تھی، جیسے إس ہی آیت کی شرح میں علماء یہ آیت لا تے ہیں، کہ مکہ میں عذابِ عام سے مانع پوشیدہ مسلمان تھے کہ وہاں عذاب کی زد میں رسولﷺ بھی آجاتے اور یہاں وہ خفیہ مسلمان:

وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَئُوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۖ لِّيُدْخِلَ اللَّـهُ فِي رَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿٢٥﴾ (سورہ فتح)
اور یہ خطرہ نہ ہوتا کہ نادانستگی میں تم انہیں پامال کر دو گے اور اس سے تم پر حرف آئے گا (تو جنگ نہ روکی جاتی روکی وہ اس لیے گئی) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کر لے وہ مومن الگ ہو گئے ہوتے تو (اہل مکہ میں سے) جو کافر تھے ان کو ہم ضرور سخت سزا دیتے

اور ایک حدیث بھی دماغ میں آتی ہے کہ (مجھے صحت یا حوالہ کچھ بھی یاد نہیں) اللہ تعالی زمین پر پانی جانوروں کی وجہ سے نازل کرتے ہے کہ وہ پیاسے نہ مرجایں، ورنہ انسانوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے پانی ہی نہ برستا۔

یہاں جانوروں کی وجہ سے پانی دینا اور حضورﷺ کی موجودگی سے عذاب نہ دیا، تو پھر حضورﷺ کی برکت سے پانی بھی برس جاتا ہوگا، پر ایسا سوچنے میں مندرجہ بالا آیات بھی مانع ہیں۔
پانی تو اللہ تعالی کی رحمت سے اور بنددں کی اطاعتِ الہیہ سے کی وجہ ہی سے برستا ہے۔


کیا میں صحیح سوچ رہا ہوں ؟؟
ہائی لائٹ کردہ الفاظ ہی آپ کے سوال کا جواب ہیں۔

دنیا میں آج بھی ایسے کئی علاقے ہیں جہاں مویشی ہونے کے با وجود پانی نہیں برستا اور وہاں کے جانور پیاس سے مر جاتے ہیں لہذا بارش ہونے کا معاملہ جانوروں کی برکت یا رسول کی برکت کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کی حکمت پرمنحصر ہوتا ہے۔

اسی طرح یہ بات بھی صحیح نہیں کہ رسول کی موجودگی کی وجہ سے عذاب نہیں آ سکتا کیونکہ سورۃ انفال ،آیت نمبر34 رسول کی موجودگی کے با وجودعذاب کا وقوع ہو جانا ثابت کرتی ہے۔

وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُوا أَوْلِيَاءَهُ ۚ إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٣٤﴾
لیکن اب کیوں نہ وہ ان پر عذاب نازل کرے جبکہ وہ مسجد حرام کا راستہ روک رہے ہیں، حالانکہ وہ اس مسجد کے جائز متولی نہیں ہیں اس کے جائز متولی تو صرف اہلِ تقویٰ ہی ہو سکتے ہیں مگر اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔
قرآن، سورت الانفال، آیت نمبر 34
عذاب نازل نہ ہونی کی ایک وجہ لوگوں کا اپنی اصلاح اور استغفار کرتے رہنا بھی بتلایا گیا ہے:-

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ﴿٣٣﴾
اُس وقت تو اللہ ان پر عذاب نازل کرنے والا نہ تھا جبکہ تو ان کے درمیان موجود تھا اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دیدے۔​
قرآن، سورت الانفال ، آیت نمبر 33
وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَىٰ بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ ﴿١١٧﴾
تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں۔
قرآن، سورت ھود ، آیت نمبر 117
لہذا عذاب نازل ہونے یا نہ ہونے کی وجہ رسول کی موجودگی یا غیر موجودگی پر منحصر نہیں بلکہ رسول کی طرف سے اتمامِ حجت ہو جانےکی بناء پر عذاب کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

کسی قوم پر اللہ تعالٰی کا عذاب کب آتا ہے؟ یہ ایک الگ موضوع ہے اس لیے اس بحث سے قطع نظر ،یہاں اس بات کی تردید کرنا مقصود ہے کہ رسول کی موجودگی عذاب میں مانع ہوتی ہے۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
یہ ایک نعت ہے۔ نعت خواں 1:16 منٹ پر کہتا ہے کہ:

وہ (حضورﷺ)جن کی برکتوں سے اَبر و بارہ بستِ عالم میں

میرے ایک مولانا دوست کہتے ہیں کہ یہ شرک ہے، میں قرآن مجید میں غور کیا تو یہ پایا:

وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُّبَارَكًا فَأَنبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ ﴿٩﴾وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَّهَا طَلْعٌ نَّضِيدٌ ﴿١٠ رِّزْقًا لِّلْعِبَادِ (سورہ ق)
اور آسمان سے برکت والا پانی اُتارا اور اس سے باغ وبستان اُگائے اور کھیتی کا اناج اور لمبی لمبی کھجوریں جن کا گابھا تہہ بہ تہہ ہوتا ہے (10) (یہ سب کچھ) بندوں کو روزی دینے کے لئے (کیا ہے)

وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَـٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿٩٦ (سورہ الاعراف)
اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور پرہیزگار ہوجاتے۔ تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات (کے دروازے) کھول دیتے مگر انہوں نے تو تکذیب کی۔ سو ان کے اعمال کی سزا میں ہم نے ان کو پکڑ لیا

وَهُوَ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۚ وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا ﴿٤٨﴾ (سورہ الفرقان)
اوروہی تو ہے جو اپنی رحمت سے پہلے خوشخبری لانے والی ہوائیں چلاتا ہے اور ہم نے آسمان سے پاک پانی نازل فرمایا

پر مجھے معاملے کو تطبیق دینے الجھنے ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ :

وَإِذْ قَالُوا اللَّـهُمَّ إِن كَانَ هَـٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣٢ وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّـهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ﴿٣٣ (سورہ الانفال)
اورجب انہوں نے کہا کہ اے الله اگر یہ دین تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہم پر دردناک عذاب لا (32) اور الله ایسا نہ کرے گا کہ انہیں تیرتے ہوئے عذاب دے اور الله عذاب کرنے الا نہیں درآنحالیکہ وہ بخشش مانگتے ہوں


اِس آیت سے میرے دل میں ایک وسوسہ سا پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی حضورﷺ کی برکت سے عذاب نہیں دیتا، ویسے یہ وسوسہ بھی غلط ہے کیونکہ عذاب میں مانع حضورﷺ برکت نہیں اُن کی اپنی ذات تھی، جیسے إس ہی آیت کی شرح میں علماء یہ آیت لا تے ہیں، کہ مکہ میں عذابِ عام سے مانع پوشیدہ مسلمان تھے کہ وہاں عذاب کی زد میں رسولﷺ بھی آجاتے اور یہاں وہ خفیہ مسلمان:

وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَئُوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۖ لِّيُدْخِلَ اللَّـهُ فِي رَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿٢٥﴾ (سورہ فتح)
اور یہ خطرہ نہ ہوتا کہ نادانستگی میں تم انہیں پامال کر دو گے اور اس سے تم پر حرف آئے گا (تو جنگ نہ روکی جاتی روکی وہ اس لیے گئی) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کر لے وہ مومن الگ ہو گئے ہوتے تو (اہل مکہ میں سے) جو کافر تھے ان کو ہم ضرور سخت سزا دیتے

اور ایک حدیث بھی دماغ میں آتی ہے کہ (مجھے صحت یا حوالہ کچھ بھی یاد نہیں) اللہ تعالی زمین پر پانی جانوروں کی وجہ سے نازل کرتے ہے کہ وہ پیاسے نہ مرجایں، ورنہ انسانوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے پانی ہی نہ برستا۔

یہاں جانوروں کی وجہ سے پانی دینا اور حضورﷺ کی موجودگی سے عذاب نہ دیا، تو پھر حضورﷺ کی برکت سے پانی بھی برس جاتا ہوگا، پر ایسا سوچنے میں مندرجہ بالا آیات بھی مانع ہیں۔ پانی تو اللہ تعالی کی رحمت سے اور بنددں کی اطاعتِ الہیہ سے کی وجہ ہی سے برستا ہے۔

کیا میں صحیح سوچ رہا ہوں ؟؟
آپ کا قرآنی آیات میں غور وفکر کرنا قابلِ تعریف ہے، اللہ تعالٰی آپ کے علم و عمل میں اضافہ فرمائے، آمین !
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پہلی پوسٹ کے متعلق عر ض ہے ،کہ لفظ ۔ابر و بارہ نہیں ہوتا ۔۔۔بلکہ ۔۔ابر و باراں ۔۔ہوتا ہے ۔
اور عقیدہ کی بنیادی بات ہے بارش اللہ کے حکم و اختیار سے برستی ہے۔۔
قرآن مجید اللہ تعالی بتاتا ہے (إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ )اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے ،اور وہی بارش نازل کرتا ہے )
اور یہاں چونکہ مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا علم اللہ کے ساتھ خاص ہونا بتایا گیا یعنی صرف اللہ کے علم میں ہے
تو بارش نازل کرنے کا اختیار تو درکنار ،،بارش کب آئے گی اس کا علم بھی کسی کو نہیں ۔

نبی کر یم ﷺ کے پاکیزہ دور میں جب قحط کی صورت پیدا ہوتی تو آپ ﷺ بارش اللہ ہی سے طلب کرتے ۔
اسی کو احادیث میں ’‘ استسقاء ’‘ کہا جاتا ہے
اور اگر خود اپنے اختیار سے بارش نازل کر سکتے تو صحابہ کرام کے ساتھ شہر سے نکل کر باہر میدان میں نماز استسقاء اور دعاء کرکے اللہ تعالی سے عرض گزار کیوں ہوئے ۔
صحیح بخاری میں حدیث مبارک ہے (حدیث نمبر 1014 )
عن انس بن مالك ان رجلا دخل المسجد يوم جمعة من باب كان نحو دار القضاء ورسول الله صلى الله عليه وسلم قائم يخطب فاستقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم قائما ثم قال:‏‏‏‏ يا رسول الله هلكت الاموال وانقطعت السبل فادع الله يغيثنا فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه ثم قال:‏‏‏‏ اللهم اغثنا اللهم اغثنا اللهم اغثنا قال انس:‏‏‏‏ ولا والله ما نرى في السماء من سحاب ولا قزعة وما بيننا وبين سلع من بيت ولا دار قال:‏‏‏‏ فطلعت من ورائه سحابة مثل الترس فلما توسطت السماء انتشرت ثم امطرت فلا والله ما راينا الشمس ستا ثم دخل رجل من ذلك الباب في الجمعة ورسول الله صلى الله عليه وسلم قائم يخطب فاستقبله قائما فقال:‏‏‏‏ يا رسول الله هلكت الاموال وانقطعت السبل فادع الله يمسكها عنا قال:‏‏‏‏ فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه ثم قال:‏‏‏‏ " اللهم حوالينا ولا علينا اللهم على الآكام والظراب وبطون الاودية ومنابت الشجر " قال:‏‏‏‏ فاقلعت وخرجنا نمشي في الشمس قال شريك:‏‏‏‏ سالت انس بن مالك اهو الرجل الاول؟ فقال:‏‏‏‏ ما ادري.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شریک نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوا۔ اب جہاں دار القضاء ہے اسی طرف کے دروازے سے وہ آیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے خطبہ دے رہے تھے، اس نے بھی کھڑے کھڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا کہا کہ یا رسول اللہ! جانور مر گئے اور راستے بند ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہم پر پانی برسائے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی «اللهم أغثنا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم أغثنا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم أغثنا» اے اللہ! ہم پر پانی برسا۔ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کی قسم! آسمان پر بادل کا کہیں نشان بھی نہ تھا اور ہمارے اور سلع پہاڑ کے بیچ میں مکانات بھی نہیں تھے، اتنے میں پہاڑ کے پیچھے سے بادل نمودار ہوا ڈھال کی طرح اور آسمان کے بیچ میں پہنچ کر چاروں طرف پھیل گیا اور برسنے لگا۔ اللہ کی قسم! ہم نے ایک ہفتہ تک سورج نہیں دیکھا۔ پھر دوسرے جمعہ کو ایک شخص اسی دروازے سے داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ دے رہے تھے، اس لیے اس نے کھڑے کھڑے کہا کہ یا رسول اللہ! (کثرت بارش سے) جانور تباہ ہو گئے اور راستے بند ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ بارش بند ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی «اللهم حوالينا ولا علينا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم على الآكام والظراب وبطون الأودية ومنابت الشجر» اے اللہ! ہمارے اطراف میں بارش برسا (جہاں ضرورت ہے) ہم پر نہ برسا۔ اے اللہ! ٹیلوں پہاڑیوں وادیوں اور باغوں کو سیراب کر۔ چنانچہ بارش کا سلسلہ بند ہو گیا اور ہم باہر آئے تو دھوپ نکل چکی تھی۔ شریک نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا یہ پہلا ہی شخص تھا؟ انہوں نے جواب دیا مجھے معلوم نہیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ایک اور بات حضورﷺ کو قاسم الخیرات فی الدنیا والعقباء کہنا کیسے ہے جیسا کہ اِس نعت میں کہا گیا ہے؟ ، دنیا کا تو پتہ ہے کہ اپنی حیات میں آپﷺ بہت خیرات کرتے تھے، پر آخرت میں حضورﷺ لوگوں کی شفاعت تو فرمائیں گے اور حوض کوثر سے پانی بھی لائیں گے پر یہ سب اُس ہی کی بابت ہو گا جن کے بارے میں اللہ تعالی اجازت دیں گے۔ جیسے کہ آتا ہے:

مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ

له ما في السماوات وما في الأرض من ذا الذي يشفع عنده إلا بإذنه
يوم يأت لا تكلم نفس إلا بإذنه فمنهم شقي وسعيد
اس کا جواب TKH بھائی نے ایک حدیث سے حوالہ دے دیا ہے ۔ کہ آپ ﷺ علوم و حکمت تقسیم کرتے تھے ، وہ بھی اللہ کی مرضی و مشیت سے،کیونکہ ھدایت بھی اللہ کے اختیار اور حکمت کونیہ پر منحصر ہے ، (من یھد اللہ فھو المھتد ومن یضلل فلا ھادی لہ )
اور نبی کرم ﷺ اپنی مبارک زندگی غنائم و صدقات بھی اللہ کے قانون کے مطابق تقسیم فرماتے ،

اور آخرت میں باذن اللہ مومنین کی شفاعت کا اعزاز بھی پیارے مصطفی ﷺ کو ملے گا ۔
لیکن اس کے ’‘ قاسم الخیرات ’‘ کا لفظ ٹھیک اور جائز نہیں۔
نہ ہی سلف سے ایسی کوئی اصطلاح مروی ہے ۔
بس صرف ’‘ شفاعت ’‘ جو اصل میں بارگاہ الہی میں دعاء ہی ہے وہ ثابت ہے
ایک عام مومن کے لئے یہ ماننا اور سمجھ لینا ضروری ہے
(۱) اللہ کے اذن سے
(۲) ایمان والوں کے لئے ،(مشرکین و مبتدعین کیلئے نہیں )
( ۳)شفاعت رسول ﷺ ہوگی ۔
 
Top