عبداللہ عبدل
مبتدی
- شمولیت
- نومبر 23، 2011
- پیغامات
- 493
- ری ایکشن اسکور
- 2,479
- پوائنٹ
- 26
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کسی کو کافر یا مرتد قرار دینا بظاہر کتنا ہی آسان نظر آتا ہے مگر اسکے بھیانک نتائج برداشت کرنا اتنا ہی زیادہ مشکل بلکہ ناممکن ہے۔،۔، ہمارے معاشرے میں آج کل نام نہاد “اصلاح پسند‘ اور “مجددین“ کہ جن کے یونٹآج کل گلی گلی ، محلے محلے اور تعلیمی اداروں میں قائم ہیں ، ایک دن میں درجنوں لوگوں کو چلتے پھرتے دین سے خارج قرار دیتے نظر آتے ہیں ، اور یہ تکفیر کسی تحقیق و تفسیش اور قواءد و ضوابط کو بروءے کار لائے بغیر محض فوٹو کاپی یا پرنٹدڈ پیپرز کی صورت میں موجود غیر واضح دستاویز یا 4 یا 5 صفحات پر مشتمل بک لٹ کو پڑھ کر کی جاتی ہے۔،۔،۔،
لیکن بیچارے تکفیر کرنے والے اسکے بعد خود ہی اس بھنور میں پھنسے نظر آتے ہیں ، کیونکہ وہ اپنے گھر والوں کو، آدھے خاندان کو ، گلی والوں کو، شہر والوںکو بلکہ اہل ملک کو مرتد قرار دے چکے ہوتے ہیں۔،۔،۔،۔ اور ہم تو بعض ایسے بھی جانتے ہین کہ جن کی زد میں انکے والدین بھی آتے ہیں کہ جن کے گھر سے انکو ہر قسم کا تعاون و امداد اور پرورش جاری ہوتی ہے۔،۔،
لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔،۔،۔،
کسی نے کیا خوب کہا ہے:
جس کام اسی کو ساجھے
کوئی دوجا چھیڑے تو ڈھینگا باجے!
کوئی دوجا چھیڑے تو ڈھینگا باجے!
آیئے ہم اس “ اندھی تکفیر “ کے چند نتائج پر نظر ڈالتے ہیں جس سے آل تکفیر لاعلم یا اعراض کیا ہوئے نظر آتے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ جسکی تکفیر کی جارہی ہے :
1- اسکا قتل جائز ہے اسکا خون حلال
2- ذبیحہ حرام
3- مال حلال
4- جھنم واجب
5- نکاح باطل
6- مسلمان عورت سے نکاح ناجائز
7- گواہی نامنظور
8- وراثت سے محروم
9- ولا یت نکاح نا مقبول
10- مرنے کے بعد نہ غسل نہ کفن نہ جنازہ نہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا اور نہ ان کے لئے دعا کی جائے گی ۔
مگرآپ دیکھیں گے اس حکم کو لگانے کہ باوجود سب سے( والدین ، خاندان ، اہل محلہ و گلی اہل شہر اور اہل ملک سے) تعامل پھر بھی مسلمانوں والا جاری رہتا ہے، اور وجہ پوچھنے پر مکمل خا موشی یا پھرآئیں بائیں شائیں کرتے ہیں باوجود کہ یہ "مرتدین" کے خلاف قتال کے قائل ہیں اور اس کو اولین فریضہ قرار دیتے پھرتے ہیں مگر۔،۔،۔،۔ اللہ ہی جانے کہ یہ مداہنت کیسی؟؟
اللہ خوب جانتا ہے انکی اس گمراہی کو !
محترم بھائیو!کلمہ پڑھنے والے کا ایمان یقینی ہوتا ہے اس پر کفر کا فتویٰ لگانا حرام ہے اس لئے اس معاملے بہت زیادہ احتیاط سے کام لینا چاہئے جب تک کفر کی شرائط پوری نہ ہو جائیں اور موانع ختم نہ ہوجائیں ۔تکفیر کا فتوی لگانے کے لئے پختہ علم اور تقوی کی بہت زیادہ ضرورت ہے جو کہ ہمارے ہاں کوئی اہمیت نہیںرکھتی۔،۔، بلکہ الٹا علماءکی تحقیر اور ان کو اس عہدے سے محروم کر دیا جاتا ہے اور لوگوں کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ یہ ہر اک کام ہی نہیں بلکہ ہر اک پر فرض ہے۔،۔،
اعوذ باللہ ان اکون من الجھلین