• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اپنی خامی

شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
82
ری ایکشن اسکور
309
پوائنٹ
79
اپنی خامی

میرے دوست مجھے بتارہے تھے کہ انہوں نے کس طرح دوسروں کی خرابیوں کے بجائے اپنے عیوب کو دیکھنا شروع کیا۔ وہ کہنے لگے کہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے آغاز پر میں نے ایک دفتر میں ملازمت کی۔ اس دفتر میں دوپہر کا کھانامیں دوسرے ساتھیوں کے ہمرا ہ کھاتا تھا۔ کھانے کے وقت اکثر ہمارے ساتھ ایک چپراسی (Peon) آ کربیٹھ جایا کرتا تھا۔ یہ ایک غریب آدمی تھا جس کی تنخواہ بمشکل 1500 روپے تھی۔

دیگر لوگ تو اپنا کھانا گھر سے لاتے تھے، مگر یہ صاحب اپنے گھر سے صرف دو روٹی لے آتے۔ لوگ کھانے کے لیے بیٹھتے یہ دو روٹی لے کر آجاتے اور کسی کے بھی سالن سے یہ روٹیاں کھانا شروع کردیتے۔ لوگ اکثر ان کے ساتھ بیٹھنے پر ناگواری کا اظہار کرتے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ جب یہ کھانا کھاتے تو منہ سے چپ چپ کی آوازیں آتیں جو کھانا کھاتے وقت بہت گراں گزرتیں ۔

وہ اکثر میرے ہی ساتھ کھانا کھاتے کیونکہ میں نے چہرے پر کبھی ناگواری کے تاثرات کا اظہار نہیں کیا تھا، مگر دل میں مجھ پر بھی ان کا اپنے ساتھ بیٹھنا بہت ناگوار گزرتا تھا۔ حتیٰ کہ دفتر میں میرا کھانا کھانا دوبھر ہوجاتا۔ لیکن ایک روز میرے ذہن میں ان کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے ایک خیال آیا۔ وہ خیال یہ تھا کہ اس وقت جتنی زیادہ کراہیت مجھے ان کی اس آواز سے ہورہی ہے، اس سے کہیں زیادہ کراہیت اللہ تعالیٰ اور اس کے پاک فرشتوں کو مجھ سے اس وقت محسوس ہوتی ہوگی جب میں اس کی نافرمانی کرتا ہوں ۔ لیکن کبھی اس نے مجھے رزق کی نعمت سے محروم کیا اور نہ نماز میں اپنی قربت سے دور کیا۔

اس کے بعد مجھے کبھی ان کا ساتھ بیٹھنا برا نہیں لگا۔ پھر انہوں مجھ سے کہا کہ دنیا میں دوسروں کو برا سمجھنا بہت آسان ہے۔ اس لیے کہ ان کی خامیاں بغیر کوشش کے نظر آجاتی ہیں ۔ مگر اپنی خامیوں کا احساس کرنے کے لیے ایک خاص نظر چاہیے۔ یہ نظر جس میں پیدا ہوگئی وہی خدا کا بندہ ہے۔ جس میں نہ ہوسکی وہ اپنی ذات کا بندہ ہے۔

(مصنف: ریحان احمد یوسفی)​
 
Top