ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,378
- پوائنٹ
- 635
چند ہفتے پہلے خبر آئی کہ چین برآمدات میں جاپان کو مات دیکر جی ڈی پی یعنی گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ میں دنیا میں دوسرے نمبر پر آ گیا ہے جبکہ جاپان اب تیسرے نمبر پر چلا گیا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ چین کون سا ملک ہے…؟ جی ہاں ہمارا قریبی دوست کہلوانے والا پڑوسی ملک جس کی برآمدات اور صنعتی ترقی نے نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں، وہی چین کہ جس کے بارے میں ساری دنیا کہہ رہی ہے کہ وہ جلد امریکا کی جگہ سنبھال لے گا اور وہ صرف صنعتی طور پر ہی نہیں بلکہ معاشی، عسکری اور ہر لحاظ سے اپنی قوت اور اثرورسوخ سے دنیا کا ناخدا بن جائیگا۔ اسی لئے تو آج کل ساری دنیا اسی چین سے دوستی کی پینگیں ڈالنا چاہتی ہے۔ راہ و رسم بڑھانا چاہتی ہے۔ بھارت جس کی آبادی کو منڈی سمجھ کر امریکا اور یورپ کے منہ سے رال ٹپکتی ہے کہ اس کو ہاتھ سے جانے نہ دیں اور اپنے اپنے ملکوں کی تباہ و برباد ہوتی معیشت کو سہارا دینے کے لئے بھارت سے معاملات بہتر کریں، بھارت کی افرادی قوت سے بھی فائدہ اٹھائیں۔ اسی کے لئے برطانیہ، امریکا اور فرانس جیسے ممالک کے سربراہان باری باری بھارت کا دورہ کرتے نظر آتے ہیں لیکن چین اسی بھارت کی اتنی سی بات نہیں مانتا کہ اس نے کشمیریوں کو جو بلاروک ٹوک اپنے ملک آنے جانے کے لئے سادے کاغذ پر مہر لگا کر اجازت دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اسے بند کرے۔ جی ہاں چین بھارت کے ایک بڑے جنرل کو اپنے ملک میں اس لئے داخل نہیں ہونے دیتا کہ وہ متنازعہ علاقے مقبوضہ کشمیر میں متعین ہے… بھارت روتا پیٹتا اور چلاتا ہے لیکن چین کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ آخر یہ کون سا چین ہے… جناب یہ وہی چین ہے جس نے چند روز پہلے اپنے ملک میں یہ حکم جاری کیا ہے کہ اب وہاں ذرائع ابلاغ میںانگریزی زبان استعمال نہیں کی جائے گی۔ اس حوالے سے چینی حکومت نے جو بیان دیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ انگریزی زبان کی ملاوٹ ان کی خالص زبان کو آلودہ کر رہی ہے۔ ہماری چینی زبان ایک قدیم زبان ہے، جس کی اپنی ایک طویل اور بھرپور تاریخ ہے اور ہمیں کسی دوسری زبان کی ضرورت ہی نہیں اور ہاں اگر صورتحال یہاں تک پہنچی کہ معاملہ بہت ہی ناگزیر ہو گیا تو پھر اس کی چینی زبان میں الگ سے وضاحت کی جائے گی۔ لیکن جس طرح غیر ملکی زبانوں خصوصاً انگریزی کی ملاوٹ سے جو خرابی پیدا ہو رہی ہے، ملک کی اپنی ثقافت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں اور ہمارے معاشرے میں اس کے اثرات نظر آنا شروع ہو گئے ہیں، انہیں ہر صورت روکا جائے گا۔ اسی طرح چین میں کچھ عرصہ پہلے کھلنے والا وہ واحد سکول بھی بند ہو گیا ہے جہاں انگریزی پڑھائی جانے لگی تھی۔