• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اپنے لیے اور غیروں کیلئے اور فتویٰ ۔۔تقلید کے کرشمے

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
اپنے لیے اور غیروں کیلئے اور فتویٰ ۔۔تقلید کے کرشمے

دوستو ایک دوست کی زبانی ایک واقعہ سنا۔اب اس میں سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے اللہ بہتر جانتا ہے۔
یاد رکھنا بھایئو یہ تھریڈ کسی پر تنقید کیلئے نہیں بلکہ عبرت کیلئے ہے۔
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
سبحان اللہ !
کیا میرے محدث بھائی صاحب ایک سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ
١۔ کیا امام احمد بن حنبل اہل حدیث نہیں تھے ؟ کہ وہ ایک مجلسی کی تین طلاق کے ایک ہونے کا فتویٰ نہیں دیتے تھے ؟
٢۔ کیا امام مالک اہل حدیث نہیں تھے ؟ کہ وہ ایک مجلس کی تین طلاق کے ایک ہونے کا فتویٰ نہیں دیتے تھے؟
٣۔ کیا امام شافعی اہل حدیث نہیں تھے کہ وہ ایک مجلس کی تین طلاق کے ایک ہونے کا فتویٰ نہیں دیتے تھے؟
٤۔ کیا شیخ وہاب نجدی اہل حدیث نہیں تھے کہ وہ ایک مجلس کی تین طلاق کے ایک ہونے کا فتویٰ نہیں دیتے تھے؟
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اوپر جو آپ نے قراں و سنت کے عقیدے کے نصیب ہونے کی دعا کی ہے اس میں مندرجہ بالا امام بھی شامل ہیں یا نہیں ؟
اگر شامل ہیں تو باوجود ثقہ محدث ہونے کے قرآن و سنت سے کیوں دور ہیں ؟
اور اگر شامل نہیں تو پھر صرف حنفی حضرات پر الزام کیوں جبکہ اس معاملے میں یہ سب امام ایک موقف رکھتے ہیں جو بقول آپ کے قرآن و سنت سے ہٹا ہوا ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
سبحان اللہ !
کیا میرے محدث بھائی صاحب ایک سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ
۔۔۔۔
اور اگر شامل نہیں تو پھر صرف حنفی حضرات پر الزام کیوں جبکہ اس معاملے میں یہ سب امام ایک موقف رکھتے ہیں جو بقول آپ کے قرآن و سنت سے ہٹا ہوا ہے۔
عمر معاویہ بھائی جان، آپ کی بات کی سمجھ نہیں آ سکی۔ آپ تین طلاق کو ایک ہی طلاق باور کروانا چاہتے ہیں تو اوپر پوسٹ میں بھی محمد زاہد بھائی نے یہی موقف پیش کیا ہے کہ حنفی حضرات بھی ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کرتے ہیں جبکہ اصل مسئلہ یہی ہے کہ اسے ایک ہی شمار کیا جانا چاہئے۔ اور جب خود اپنے اوپر زد پڑتی ہے تو یہ حضرات بذات خود عوام الناس کو اہل حدیث علماء کے پاس بھیج دیتے ہیں۔

ویسے طلاق کے موضوع پر ہم نے کتاب و سنت لائبریری میں الحمدللہ بہت اچھی کتب جمع کی ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے دو کتب بہت پسند ہیں:
احسن الابحاث بجواب عمدۃ الاثاث
درج بالا کتاب ایک سابقہ دیوبندی عالم حکیم محمد صفدر عثمانی صاحب نے ایک دوسرے عالم سرفراز خان صفدر کی کتاب احسن الابحاث کے جواب میں لکھی ہے۔

دوسری کتاب ہے :
تین طلاق۔۔مجموعہ مقالات علمیہ
درج بالا کتاب ایک سیمینار کی روداد ہے ۔ جس میں مختلف مکاتب فکر کے جید علماء نے اپنے مقالہ جات پیش کئے تھے اور متفقہ طور پر طلاق ثلاثہ کے حوالے سے ایک مؤقف بیان کیا تھا۔ اسے اجماع تو نہیں کہنا چاہئے لیکن بہرحال مختلف مسالک کے علماء کی ایک متفقہ رائے کہا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ بھی اس موضوع پر کتب موجود ہیں۔ مثلاً

ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اُس کا شرعی حل
شرعی طلاق
حلالہ کی چھری

وغیرہ۔۔
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
عمر معاویہ بھائی جان، آپ کی بات کی سمجھ نہیں آ سکی۔ آپ تین طلاق کو ایک ہی طلاق باور کروانا چاہتے ہیں تو اوپر پوسٹ میں بھی محمد زاہد بھائی نے یہی موقف پیش کیا ہے کہ حنفی حضرات بھی ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کرتے ہیں جبکہ اصل مسئلہ یہی ہے کہ اسے ایک ہی شمار کیا جانا چاہئے۔ اور جب خود اپنے اوپر زد پڑتی ہے تو یہ حضرات بذات خود عوام الناس کو اہل حدیث علماء کے پاس بھیج دیتے ہیں۔

ویسے طلاق کے موضوع پر ہم نے کتاب و سنت لائبریری میں الحمدللہ بہت اچھی کتب جمع کی ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے دو کتب بہت پسند ہیں:
احسن الابحاث بجواب عمدۃ الاثاث
درج بالا کتاب ایک سابقہ دیوبندی عالم حکیم محمد صفدر عثمانی صاحب نے ایک دوسرے عالم سرفراز خان صفدر کی کتاب احسن الابحاث کے جواب میں لکھی ہے۔

دوسری کتاب ہے :
تین طلاق۔۔مجموعہ مقالات علمیہ
درج بالا کتاب ایک سیمینار کی روداد ہے ۔ جس میں مختلف مکاتب فکر کے جید علماء نے اپنے مقالہ جات پیش کئے تھے اور متفقہ طور پر طلاق ثلاثہ کے حوالے سے ایک مؤقف بیان کیا تھا۔ اسے اجماع تو نہیں کہنا چاہئے لیکن بہرحال مختلف مسالک کے علماء کی ایک متفقہ رائے کہا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ بھی اس موضوع پر کتب موجود ہیں۔ مثلاً

ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اُس کا شرعی حل
شرعی طلاق
حلالہ کی چھری

وغیرہ۔۔
معذرت چاہتا ہوں کہ میری پوسٹ کا مقصد واضح نہیں ہو سکا۔

کہنے سے مراد یہ تھی کہ عظیم محدث امام احمد بن حبل، امام مالک، امام شافعی اور شیخ وہاب نجدی یہ سب کے سب ایک مجلس کی تین طلاق کے تین ہی ہونے کے قائل ہیں اور اسے ایک قرار نہیں دیتے جیسا کہ برصغیر پاک و ہند کے اہل حدیث حضرات ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک قرار دیتے ہیں۔

سوال یہ تھا کہ کیا مذکورہ بالا محدث اہل حدیث نہیں تھے، اور بمطاق پہلی پوسٹ کے قرآن و سنت سے ہٹے ہوئے تھے ؟

اگر ایسا ہی تھا تو پھر انہیں اہل حدیث کیوں کہا جاتا ہے ؟ تارک قرآن و سنت کیوں نہیں کہا جاتا ؟

صرف حنفی حضرات کو ہی قرآن و حدیث سے ہٹا ہوا کہنا کیا دو رخا پن نہیں ہے ؟ اور کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق دورخے چہرے والا عذاب کا مستحق نہیں ہوتا؟

اگر مذکورہ بالا امام اہل حدیث اور حامل قرآن و سنت ہیں تو پھر برصغیر پاک و ہند کے حضرات قرآن و حدیث کا اتباع کیوں نہیں کرتے ؟

اس موضوع پر ایک کتاب یہ بھی ہے حلالہ کی چھری یا رافضیت کا خنجر
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
مجھے امید ہے کہ شائشتگی کے دائرے میں رہ کر دلیل سے بات کی جائے گی جیسا کہ دلیل طلب کرنا میرا یا کسی کا بھی حق ہے، آپ جب کسی کو قرآن و سنت سے ہٹا ہوا کہتے ہیں تو اس کو دائرہ اسلام سے خارج کرتے ہیں؟ کہ اسلام اور کیا ہے قرآن و سنت؟ اور اس پر دلیل طلب کرنا میرا حق ہے امید ہے دلیل عنایت کی جائے گی!

ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ کیا دلیل سے ثابت ہے کہ مقلدین کے امام ابو حنیفہ، امام حنبل، امام مالک، امام شافعی، اور دور جدید کے سعودی امام شیخ وہاب نجدی ایک مجلس کی تین طلاق کو تین قرار دے کر قرآن و سنت سے ہٹے ہوئے ہیں ؟ یا پھر برصغیر پاک و ہند کے اہل حدیث قرآن و سنت سے ہٹے ہوئے ہیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
مجھے امید ہے کہ شائشتگی کے دائرے میں رہ کر دلیل سے بات کی جائے گی۔
جی بھائی جان، اسی شائستگی کو برقرار رکھنے کی خاطر تو ہمارے کچھ سخت اقدامات سے ہمارے اپنے بھائی ہم سے ناراض ہیں۔ ان شاء اللہ ہماری بھی یہی کوشش ہوگی کہ آپسی بات چیت میں کوئی ناشائستگی نہ ہو۔ محمد زاہد صاحب جنہوں نے یہ دھاگا شروع کیا ہے انہوں نے ایک معمول کا واقعہ بیان کیا ہے۔اور اس میں اپنوں اور پرائیوں کے لئے الگ فتویٰ کو پوائنٹ آؤٹ کیا ہے۔ اور واقعہ کی صحت پر بھی انہیں اصرار نہیں۔ بہرحال اگر آپ اس موضوع پر بات چیت کے خواہشمند ہیں تو ازراہ کرم ایک نیا دھاگا شروع کر کے ایک مجلس کی تین طلاق کے تین ہی واقع ہونے کے دلائل نقل کر دیں۔ یہاں فورم پر اہل علم موجود ہیں۔ امید ہے کہ اگر مقصد بحث برائے بحث یا ہار جیت نہیں تو وہ بھی ضرور اس میں افہام و تفہیم کی خاطر حصہ لیں گے۔
ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ کیا دلیل سے ثابت ہے
جی بھائی جان۔ ہم بھی دلیل ہی کی فوقیت کے قائل ہیں ۔ اس لئے شخصیات پر بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں۔
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
محترم عمر معاویہ صاحب
صرف ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ اگر حلالہ کا فتویٰ ٹھیک دیا تھا بقول آپ کے۔تو مولانا نے اہل حدیث عالم کے پاس کیوں بھیجا؟
کیا اُن کو اپنے حلالے کے فتوے پر اعتماد نہیں تھا۔؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
بھائی اہل الحدیث چند مسائل کا نام نہیں ہے بلکہ ایک منہج فکر ہے جس کی ابتدا صحابہ وتابعین سے ہوئی اور اسے ائمہ ثلاثہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اور فقہائے محدثین نے ایک باقاعدہ مذہب کی صورت دی ۔امام مالک رحمہ اللہ کے زمانہ میں ہی دو مکاتب فکر اہل الحدیث اور اہل الرائے کے نام سے وجود میں آ چکے تھے۔ امام مالک اہل الحدیث کے نمائندہ تھے کہ جن کے شاگرد امام شافعی ہوئے اور پھر امام شافعی کے شاگرد امام احمد بن حنبل ہوئے اور پھر امام احمد بن حنبل کے شاگردوں میں فقہائے محدثین کی ایک کثیر تعداد ہے، دوسرے مکتبہ فکر کی بنیاد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے رکھی جن کے نمایاں شاگردوں میں امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ ہیں۔ اہل الحدیث اور اہل الرائے کا بنیادی فرق یہ تھا کہ اہل الحدیث کے نزدیک اجتہاد ضرورت کے تحت تھا اور عارضی تھا یعنی جب ضرورت پڑی اجتہاد کر لیا اور یہ عارضی تھا یعنی اسی دور کے لوگوں کے لیے تھا یعنی ہر دور کے علماء اپنے زمانہ کے لوگوں کے لیے اجتہاد کریں گے۔
اس کے برعکس اہل الرائے کا موقف یہ تھا کہ اجتہاد ایک مستقل شیئ ہے اور بغیر ضرورت بھی ہو سکتا ہے اور اسی بنیاد پر انہوں نے مستقبل کے مسائل کے بارے بھی رہنمائی دینے کے لیے فقہ تقدیری کے نام سے ہزراوں فرضی مسائل مرتب کیے۔ دوسری بات اہل الرائے کے نزدیک یہ تھی کہ وہ اجتہاد کو کتاب وسنت کی طرح دائمی حیثیت دیتے تھے یعنی ان کے نزدیک ائمہ کے اجتہادات یا فقہ شریعت اسلامیہ کی طرح دائمی تھی اور اس بنیاد پر اس کی پابندی لازم تھی۔
خلاصہ کلام یہ ہے جو اہل علم کے اجتہادات کو ضرورت کے وقت اور عارضی مانتا ہے وہ اہل الحدیث ہے اور جو ائمہ کے اجتہادات کو ایک مستقل حیثیت سے مصدر دین مانتا ہے اور انہیں شریعت اسلامیہ کی طرح دائمی سمجھتا ہے تو وہ اہل الرائے ہے۔
باقی اہل الحدیث میں اختلافات موجود ہیں جس طرح اہل الرائے میں بھی ہیں۔ اصل شیئ منہج ہے جو اس منہج کا قائل ہے کہ ہر دور میں موجود اہل علم ہی اس دور کے عوام کی رہنمائی کریں گے اور ان کے یہ اجتہادات صرف اسی دور کے لیے ہوں تو وہ اہل الحدیث ہے، چاہے ان کے اختلافات آپس میں کس قدر ہی کیوں نہ ہوں۔اہل الرائے میں آپ امام محمد اور امام ابو یوسف رحمہما اللہ کے اختلافات دیکھیں کہ امام ابو حنیفہ سے کس قدر ہیں لیکن وہ فقہ حنفی سے باہر نہیں نکلتے کیونکہ ان کا منہج استدلال وہی ہے جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ہے۔ پس اہل الحدیث وہ ہے جو منہج وفکر میں ان سے متفق ہے۔
آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ اگر کوئی عالم دین عدم تقلید کا قائل ہے اور منہج سلف صالحین کے مطابق اپنی تحقیق کی روشنی میں وہ جہری نمازوں میں فاتحہ خلف الامام کا قائل نہیں ہوتا یا ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک تین شمار کرتا ہے وغیرہ ذلک تو اس سے وہ اہل الحدیث سے خارج نہیں ہو جاتا ہے۔
ان شاء اللہ تفصیل سے اس بارے ذرا فرصت ملنے پر عرض کروں گا کہ اہل الحدیث چند مسائل کا نام نہیں ہے کہ جو ان مسائل کا قائل نہیں ہے تو وہ اہل الحدیث نہیں ہے بلکہ اہل الحدیث ایک منہج کا نام ہے اور جو بھی اس منہج پر ہے تو اس کے نتائج تحقیق چاہے حنفی فقہ ہی سے ملتے ہوں تو وہ اہل الحدیث ہی شمار ہو گا اور وہ منہج ہم بیان کر چکے ہیں کہ وہ ضرورت کے وقت یعنی نص کی عدم موجودگی میں حالت اضطرار میں اجتہاد کا قائل ہو اور پھر اجتہاد کرنے کے بعد اسے دائمی نہ سمجھے بلکہ صرف اپنے دور کے لوگوں کے لیے اس اجتہاد سے استفادہ کرنے کا قائل ہو۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اہل الحدیث اور اہل الرائے کا بنیادی فرق یہ تھا کہ اہل الحدیث کے نزدیک اجتہاد ضرورت کے تحت تھا اور عارضی تھا یعنی جب ضرورت پڑی اجتہاد کر لیا اور یہ عارضی تھا یعنی اسی دور کے لوگوں کے لیے تھا یعنی ہر دور کے علماء اپنے زمانہ کے لوگوں کے لیے اجتہاد کریں گے۔
اس کے برعکس اہل الرائے کا موقف یہ تھا کہ اجتہاد ایک مستقل شیئ ہے اور بغیر ضرورت بھی ہو سکتا ہے اور اسی بنیاد پر انہوں نے مستقبل کے مسائل کے بارے بھی رہنمائی دینے کے لیے فقہ تقدیری کے نام سے ہزراوں فرضی مسائل مرتب کیے۔ دوسری بات اہل الرائے کے نزدیک یہ تھی کہ وہ اجتہاد کو کتاب وسنت کی طرح دائمی حیثیت دیتے تھے یعنی ان کے نزدیک ائمہ کے اجتہادات یا فقہ شریعت اسلامیہ کی طرح دائمی تھی اور اس بنیاد پر اس کی پابندی لازم تھی۔
خلاصہ کلام یہ ہے جو اہل علم کے اجتہادات کو ضرورت کے وقت اور عارضی مانتا ہے وہ اہل الحدیث ہے اور جو ائمہ کے اجتہادات کو ایک مستقل حیثیت سے مصدر دین مانتا ہے اور انہیں شریعت اسلامیہ کی طرح دائمی سمجھتا ہے تو وہ اہل الرائے ہے۔
جزاکم اللہ خیرا علوی بھائی! بہت اچھی وضاحت فرمائی آپ نے اہل الحدیث اور اہل الرائے کے درمیان فرق میں۔ چونکہ یہ موضوع بہت ہی اہم ہے، لہٰذا میں آپ کی بات کو ہی آگے بڑھاتے ہوئے کچھ مثالوں سے وضاحت کرنا چاہ رہا تھا، تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ اہل حدیثیت صرف چند مسائل (رفع الیدین، فاتحہ خلف الامام، آمین بالجہر وغیرہ وغیرہ) کا نام نہیں، بلکہ یہ تو ایک طرزِ فکر ہے۔
باقی آپ نے جو اس موضوع پر تفصیلی لکھنے کا وعدہ کیا ہے، وہ جلد از جلد پورا کیجئے تاکہ اس اہم ترین موضوع پر ہم آپ کی علمی باتوں میں مستفید ہو سکیں!
  1. اہل الرائے اجتہاد کو دائمی سمجھتے ہیں، حالانکہ اجتہاد کی حیثیت عارضی اور وقتی ہے، اسی طرح اجتہاد میں حالات، لوگ اور زمانے کے اختلاف سے ٹکراؤ بھی ہو سکتا ہے۔ مثلاً اگر ایک بے نماز شخص مجتہد سے پوچھے کہ میرے لئے بہترین عمل کیا ہے؟ تو وہ جواب دیں گے کہ نماز اپنے وقت پر پڑھنا! لیکن ایک نمازی شخص جس میں دیگر اخلاقی بیماریاں، جھوٹ، وعدۂ خلافی اور خیانت وغیرہ موجود ہیں، وہ اگر مجتہد سے پوچھے کہ میرے لئے بہترین عمل کیا ہے؟ تو وہ جواب دیں گے کہ سچ بولنا، امانت اور وعدہ کی رعایت رکھنا وغیرہ وغیرہ، اسی طرح ایک غصیلے، اپنے آپ پر قابو نہ رکھنے والا شخص کیلئے بہترین عمل اپنے آپ پر کنٹرول ہوگا۔
    بعض مشکل حالات میں معاشرے میں موجود رہ کر حالات کا مقابلہ کرنا، اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی ہر ممکن کوشش بہتر عمل ہوگا، لیکن بعض حالات میں فتنے والے علاقے کو چھوڑ کر جنگلوں میں بسیرا کرنا بہتر ہوگا۔
    لیکن شریعت (یعنی قرآن وسنت) دائمی ہیں، جو ضابطۂ حیات ہیں، جو جس طرح چودہ سو سال پہلے قابلِ احتجاج تھے، آج بھی اور قیامت تک ہم ان سے اپنی اصلاح کر کے دین ودُنیا کی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
    اسی لئے اسلامی ممالک اور حکومتوں کا اسلامی قانون، دائمی شریعت (یعنی کتاب وسنت) ہوگا، نہ کہ فقہاء کی ترتیب دی گئی فقہ واجتہادات، اسی لئے سیدنا امام مالک﷫ نے الموطا (جس میں ان کے اجتہادات شامل ہیں) کو خلافتِ عباسیہ کا قانون بناکر خانہ کعبہ میں معلّق کرنے کی تجویز کو ردّ کر دیا تھا۔ فرمانِ باری ہے: ﴿ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ ﴾ ۔۔۔ سورة المائدةگویا اللہ تعالیٰ نے ’ما انزل اللہ‘ کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ آسمان سے نازل شدہ شریعت کتاب وسنت ہے، نہ کہ علمائے کرام﷭ کے اجتہادات (بلکہ وہ کتاب وسنّت میں علماء کا غور وفکر ہے، جس میں غلطی کی گنجائش موجود ہے)
  2. اہل الرائے اجتہاد کی شریعت کی طرح ایک مستقل حیثیت قرار دیتے ہیں، حالانکہ اجتہاد (علماء کا فہم) ایک عارضی حل ہوتا ہے، اور اس میں تضاد بھی ہو سکتا ہے، جبکہ شریعت میں کوئی تضاد نہیں ہوتا، فرمانِ باری ہے: ﴿ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ﴾ ۔۔۔ سورة النساء
    مثلاً وراثت کا ایک مشہور مسئلہ مشرکہ ہے کہ سیدنا عمر﷜ کے دور میں ان کے پاس وراثت کا یہ مسئلہ پیش کیا گیا کہ شوہر، ماں، دو اخیافی (ماں شریک) بھائی اور حقیقی بھائی! تو انہوں نے اجتہاد کرکے یہ رائے دی کہ شوہر کو نصف، ماں کو چھٹا، دو اخیافی بھائیوں کو ایک تہائی دے دیا جائے اور چونکہ حقیقی بھائیوں عصبہ ہیں اور ان کیلئے کچھ نہیں بچا لہٰذا انہیں محروم کر دیا جائے، لیکن اگلے سال جب یہی مسئلہ کچھ اور لوگوں نے ان کے سامنے پیش کیا اور انہوں نے یہی فیصلہ صادر فرمایا تو حقیقی بھائیوں نے کہا کہ ہم تو سگے بھائی ہونے کے ناطے اخیافی بھائیوں سے زیادہ قریب ہیں (یعنی اخیافی بھائی تو صرف میت کے ماں شریک بھائی ہیں، جبکہ ہم تو ماں شریک بھی ہیں اور باپ شریک بھی) تو اصلاً تو ہمارا حصّہ اخیافی بھائیوں سے زیادہ ہونا چاہئے، لیکن آپ اخیافی بھائیوں کو ایک تہائی مال دے رہے ہیں اور ہمیں محروم کر رہے ہیں، چلیں ہمیں زیادہ نہیں تو کم از کم اخیافی بھائیوں کے برابر ہی ان کے ساتھ ایک تہائی میں شریک کر لیں (اسی لئے اسے مسئلہ مشرکہ کہا جاتا ہے) تو ان کی بات سیدنا عمر﷜ کے دل کو لگی اور انہوں نے یہی فیصلہ دے دیا، جب پچھلے سال والے لوگوں کو (یعنی حقیقی بھائی جسے محروم کیا گیا تھا، اسے) معلوم ہوا تو اس نے کہا کہ حالیہ مسئلے میں تو آپ نے حقیقی بھائیوں کو بھی اخیافی بھائیوں کے ساتھ شریک کر دیا ہے، حالانکہ پچھلے سال آپ نے ہمیں محروم کر دیا تھا تو اب آپ ہمیں بھی وارث بنائیں تو سیدنا عمر﷜ نے (اجتہاد کی حقیقت واضح کرتے ہوئے) اپنا مشہور مقولہ فرمایا: « تلك على ما قضينا ، وهذه على ما قضينا » کہ ’’پچھلے سال والا حکم اسی کے مطابق ہے جو ہم نے فیصلہ کیا تھا، جبکہ اس سال والا حکم ہمارے حالیہ فیصلے کے مطابق ہوگا۔‘‘
  3. چونکہ اہل الرّائے کے نزدیک اجتہاد کی حیثیت استقلالی ہے، لہٰذا یہ بغیر ضرورت کے بھی ہو سکتا ہے، اسی لئے انہوں نے فقہ تقدیری کے نام سے ہزاروں فرضی مسائل جن میں کئی اتنے الٹے سیدھے اور مضحکہ خیز ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
  4. اہل الرّائے چونکہ اجتہاد کو ایک مستقل حیثیت دیتے ہیں، لہٰذا ان کے نزدیک اجتہاد پر اجتہاد (قیاس) جائز ہے، جس سے انسان شریعت سے دور اور مزید دور ہوتا جاتا ہے۔ جبکہ اہل الحدیث کے نزدیک اجتہاد دَر اجتہاد صحیح نہیں۔
  5. اہل الرّائے چونکہ اجتہاد کو شریعت کی طرح ایک مستقل حیثیت دیتے ہیں، لہٰذا ان کے نزدیک قاضی کا فیصلہ (اجتہاد) ظاہراً بھی لاگو ہوتا ہے، باطناً بھی۔ حالانکہ اہل الحدیث کے ہاں اجتہاد ایک وقتی ضرورت ہے، جس سے اگرچہ ظاہرا تو مسئلے کا حل ہوجائے گا، باطناً نہیں، یعنی اگر دو لوگ ایک زمین کی ملکیت کے بارے میں اپنا اختلاف قاضی کے پاس لاتے ہیں تو واضح سی بات ہے کہ ان میں ایک حق پر ہے اور ایک جھوٹا، اگر جھوٹا شخص چرب زبانی سے یا جھوٹے گواہ بھگتا کر قاضی کا فیصلہ اپنے حق میں کرا لیتا ہے تو اہل الحدیث کے نزدیک ظاہرا (یعنی دُنیا میں مسئلہ ختم کرنے کیلئے) تو وہ زمین اس جھوٹے شخص کی ہوجائے گی، لیکن وہ باطنی طور پر سخت گناہ گار ہوگا، جس کی سزا اسے روزِ قیامت بھگتنا ہوگی، جبکہ اہل الرائے کے نزدیک وہ زمین ظاہراً وباطناً اُسی کی ہوجائے گی اور وہ روزِ قیامت گناہگار بھی نہ ہوگا۔ چونکہ بعض اہل الرائے حضرات کے پاس قضا وغیرہ کے عہدے ہوتے تھے لہٰذا انہیں حکمرانوں کو مطمئن رکھنے کیلئے کچھ حیلے کرنے پڑتے تھے، مثال کے طور پر کسی عورت کے بارے میں دو لوگ اس کے شوہر ہونے کے دعویدار ہیں تو یہ بات یقینی ہے کہ اس میں ایک سچا ہے اور دوسرا جھوٹا، تو اہل الرائے کے نزدیک کسی بھی وجہ سے اگر جھوٹے کے حق میں قاضی فیصلہ دے دے تو ظاہرا بھی وہ عورت اس کی بیوی ہوگی اور باطنا بھی، یعنی وہ اس سے ’زبردستی‘ زن وشو کے تعلقات بھی قائم کر سکتا ہے، وہ اس پر گناہگار بھی نہ ہوگا، جبکہ اہل الحدیث کے نزدیک قاضی کے فیصلے کی بناء پر اگر جھوٹا شخص خاتون کو بیوی بنا کر رکھے گا تو وہ اللہ کے ہاں سخت گناہگار ہوگا، اس کی مثالوں میں سے یہ بھی ہے کہ اہل الرّائے کے نزدیک اگر کسی سے اس کی بیوی کو اسلحے کے نوک پر جبرا طلاق دلوا دی جائے تو وہ طلاق واقع ہوجاتی ہے، جبر کرنے والا عدت کے بعد اس عورت سے شادی کر سکتا ہے، جبکہ اہل الحدیث کے نزدیک جبراً طلاق واقع ہی نہیں ہوتی۔
    یہ تو ایک عام قاضی کا معاملہ ہے، جبکہ صحیح حدیث کے مطابق اگر نبی کریمﷺ بھی اگر کسی کی چرب زبانی یا جھوٹے گواہوں کی بناء پر کسی کے حق میں فیصلہ کر دیں تو پھر بھی وہ باطناً لاگو نہیں ہوتا۔ فرمانِ نبوی ہے: « إنما أنا بشر ، وإنكم تختصمون إلي ، ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض ، وأقضي له على نحو مما أسمع ، فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذ ، فإنما أقطع له قطعة من النار » ۔۔۔ صحيح البخاري’’سوائے اس کے کہ نہیں میں ایک انسان ہوں، تم میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو، شائد تم میں کوئی اپنا موقف بیان کرنے بھی دوسرے سے زیادہ تیز ہو، جس کی بناء پر میں سنی ہوئی بات کے مطابق فیصلہ کر دوں، تو اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا کوئی بھی حصہ (غلطی سے) دے دوں تو وہ اسے نہ لے، کیونکہ میں تو اسے آگ کا ایک حصہ کاٹ کر دے رہا ہوں۔‘‘ اب اس حدیث مبارکہ سے بڑھ کر صریح بات کیا ہوسکتی ہے، کہ قاضی (خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو) کا فیصلہ باطنی طور پر لاگو نہیں۔ لیکن اس کے باوجود اگر اہل الرائے اجتہاد کو مستقل حیثیت دیتے ہوئے اسے باطنی طور پر بھی لاگو کریں تو پھر اللہ ہی حافظ ہیں۔
  6. اہل الرّائے کے نزدیک چونکہ اجتہاد کی مستقل حیثیت ہے، لہٰذا ان کے نزدیک اس پر عمل ایسے ہی ضروری ہے جیسے کتاب وسنت پر، خواہ کتاب وسنت اس کے صریح خلاف ہی کیوں نہ ہو، اسی بناء پر اہل الرائے علماء کی تقلید کے (بغیر اس کی دلیل جانے) قائل ہیں۔ اب نہ جانے ان کے نزدیک شخصی تقلید کی کیا دلیل ہے؟ حالانکہ ان کے نزدیک بھی امام صاحب﷫ سے افضل اور اعلم حضرات موجود تھے، یعنی امام صاحب کے اساتذہ کرام﷭، تابعین عظام اور سب سے بڑھ کر صحابہ کرام﷢!
واللہ تعالیٰ اعلم!
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما
 
Top