• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہلِ فلسفہ کیونکر گمراہ ہوئے؟

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207


اہلِ فلسفہ کیونکر گمراہ ہوئے؟

متاخرین اہلِ فلسفہ نے یہ ٹھوکر اس وجہ سے کھائی کہ لفظ عقل کا مفہوم اہلِ اسلام کی زبان میں اور تھا اور یونانی فلسفیوں کی زبان میں کچھ اور۔ مسلمانوں کی زبان میں لفظ عقل{عَقَلَ یَعْقِلُ عَقْلًا} کا مصدر ہے۔
جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
وَقَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّافِيْٓ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ۱۰
الملک
’’اگر ہم سنتے یا عقل سے کام لیتے تو اہل دوزخ میں سے نہ ہوتے۔‘‘
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَلَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ
النحل
’’اس امر میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘
اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَتَكُوْنَلَہُمْ قُلُوْبٌ يَّعْقِلُوْنَ بِہَآ اَوْ اٰذَانٌ يَّسْمَعُوْنَبِہَا۰ۚ
الحج
’’کیا وہ زمین میں سیر نہیں کرتے کہ ان کے دل ہوں، جن کے ذریعہ وہ سمجھیں اور کان ہوں جن سے وہ سنیں۔‘‘
اور عقل سے مراد وہ قوت غزیری بھی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں رکھی ہے تاکہ وہ اس کے ذریعے سے سمجھے اور فلسفیوں کے نزدیک عقل عاقل کی مانند ایک جوہر ہے جو بنفسہ قائم ہے اور یہ خیال پیغمبروں اور قرآن کی زبان کے مطابق نہیں ہے۔ عالمِ خلق بھی ان کے نزدیک جیسا کہ ابوحامد نے ذکر کیا ہے۔ عالم اجسام ہے اور عقل اور نفوس کو وہ عالم الامر سے تعبیر کرتا ہے اور کبھی عقل کو عالمِ جبروت اور نفوس کو عالمِ ملکوت سے موسوم کیا جاتا ہے اور اجسام کو عالمِ الملک سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان حالات میں وہ شخص جو پیغمبروں کی زبان سے واقف نہ ہو۔ کتاب و سنت کے معنی نہ جانتا ہو۔ وہ یہ گمان کر بیٹھتا ہے کہ کتاب و سنت میں ملک ملکوت اور جبروت کا جو ذکر آیا ہے اس کا مفہوم وہی ہے، جو یونان کے فلسفیوں کی زبان میں ہے۔ حالانکہ نفس الامر میں ایسا نہیں ہے۔
اسی طرح یہ لوگ اہل اسلام کے ساتھ تلبیس اور دھوکہ کرتے ہیں مثلاً کہتے ہیں کہ فلک محدث یعنی معلول ہے حالانکہ وہ اسے قدیم بھی مانتے ہیں اور محدث وہی ہوتا ہے، جو پیدا ہونے سے پہلے معدوم رہ چکا ہو۔ عرب کی زبان اور کسی اور زبان میں قدیم ازلی کو محدث سے موسوم نہیں کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ ہر چیز کا خالق ہے اور ہر مخلوق محدث ہے اور ہر محدث عدم سے وجود میں آیا ہے۔ ان لوگوں کے ساتھ اہلِ کلام یعنی جہمیہ و معتزلہ نے ناتمام سا مناظرہ کیا ہے، جس میں نہ تو انہوں نے پیغمبر کی بتائی ہوئی بات کا تعارف کروایا اور نہ قضا یا عقلیہ کو ثابت کر سکے۔ سو نہ تو وہ اسلام کے لیے باعث ِ نصرت ہوئے اور نہ دشمنوں کو شکست دے سکے بلکہ بعض فاسد آراء میں وہ فلسفیوں کے ہم نوا ہوگئے اور معقولات میں سے بعض درست باتوں میں ان سے اختلاف کرتے رہے، سو ان جہمیہ اور معتزلہ کا عقلی و نقلی علوم میں کوتا دست ہونا، اہلِ فلسفہ کی گمراہی کی تقویت کا سبب بن گیا۔ جیسا کہ کسی دوسرے مقام پر تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاچکا ہے۔

الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
 
Top