حسین بن محمد
مبتدی
- شمولیت
- اپریل 10، 2021
- پیغامات
- 50
- ری ایکشن اسکور
- 9
- پوائنٹ
- 21
اہلِ نصاریٰ اور یہود کو دارالاسلام میں رہنے کی صورت میں بہت سے اُمور کا پابند کیا، جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بہت ہی مظبوط انداز میں اسلامی تہذیب و تمدن اور اسلامی اَقدار کی حفاظت کی گئی ہے۔
چنانچہ! فتح شام کے موقع پر نصاریٰ شام کے عہدِ صلح کے بعد جو شرائط طے کی گئیں وہ یہ تھیں:
”ہم (نصاریٰ شام) مسلمانوں کی تعظیم و توقیر کریں گے، اور اگر مسلمان ہماری مجالس میں بیٹھنا چاہیں گے توہم ان کے لیے مجلس چھوڑ دیں گے، اور ہم کسی امر میں مسلمانوں کے ساتھ تشبہ اور مشابہت اختیار نہیں کریں گے، نہ لباس میں ، نہ عمامہ میں ، نہ جوتے پہننے میں ، اور نہ سر کی مانگ نکالنے میں ، ہم اُن جیسا کلام نہیں کریں گے، اور نہ مسلمانوں جیسا نام اور کنیت رکھیں گے، اور نہ زین کی سواری کریں گے، نہ تلوار لٹکائیں گے، نہ کسی قسم کا ہتھیار بنائیں گے، اور نہ اُٹھائیں گے، اور نہ اپنی مہروں پر عربی نقش کندہ کروائیں گے، اور سر کے اگلے حصے کے بال کٹوائیں گے، اور ہم جہاں بھی رہیں گے، اپنی ہی وضع پررہیں گے، اور گلوں میں زنار لٹکائیں گے، اور اپنے گرجاوٴں پر صلیب کو بلند نہ کریں گے، اور مسلمانوں کے کسی راستہ اور بازار میں اپنی مذہبی کتاب شائع نہیں کریں گے، اور ہم گرجاوٴں میں ناقوس نہایت آہستہ آواز میں بجائیں گے، اور ہم اپنے مُردوں کے ساتھ آگ لے کر نہیں جائیں گے(یہ آخری شرط مجوسیوں سے متعلق ہے)۔
حضرت عبد الرحمن بن غنم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ شرائط نامہ لکھ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے ملاحظہ کرنے کے لیے رکھا، تو انہوں نے اس شرائط نامہ میں کچھ مزید اضافہ کروایا جو یہ تھا:
” ہم کسی مسلمان کو ماریں گے نہیں ، یعنی تکلیف نہیں پہنچائیں گے، ہم نے انہی شرائط پر اپنے لیے اور اپنے اہلِ مذہب کے لیے امان حاصل کیا ہے، پس اگر ہم نے شرائط مذکورہ بالا میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی کی تو ہمارا عہد اور امان ختم ہو جائے گا اور جو معاملہ اہلِ اسلام کے دشمنوں اور مخالفوں کے ساتھ کیا جاتا ہے وہی معاملہ ان کے ساتھ کیا جائے گا“(تفسیر ابن کثیر، سورہ توبة:28.29)
ایک اورروایت جسے علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے،اس میں کچھ مزید شرائط کا بھی ذکر ہے،جو ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں:
” ہم اپنی آبادی میں کوئی نیا گرجا گھر نہیں بنائیں گے، اور جو گرجا گھرخراب ہو جائیں گے، اس کی مرمت نہیں کروائیں گے، اور جو خطہٴ زمین مسلمانوں کے لیے ہو گا، ہم اُسے آباد نہیں کریں گے، اور کسی مسلمان کو دن ہو یا رات، کسی وقت بھی گرجا میں اُترنے سے نہیں روکیں گے، اور اپنے گرجاوٴں کے دروازے مسافروں اور گزرنے والوں کے لیے کشادہ رکھیں گے، اور تین دن تک ان مسلمان مہمانوں کی مہمان نوازی کریں گے، اور اپنے کسی گرجا اور کسی مکان میں مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرنے والے کو ٹھکانہ نہیں دیں گے، اور مسلمانوں کے لیے کسی غل و غش کو پوشیدہ نہیں رکھیں گے، اور اپنی اولاد کو قرآن کی تعلیم نہیں دیں گے، اور کسی شرک کی رسم کو ظاہراً اور اعلانیہ طور پر نہیں کریں گے، اور نہ کسی کو شرک کی دعوت دیں گے، اور نہ اپنے کسی رشتہ دار کو اسلام میں داخل ہونے سے روکیں گے“۔
(منقول)
ایڈڈ محمد بن حسین
چنانچہ! فتح شام کے موقع پر نصاریٰ شام کے عہدِ صلح کے بعد جو شرائط طے کی گئیں وہ یہ تھیں:
”ہم (نصاریٰ شام) مسلمانوں کی تعظیم و توقیر کریں گے، اور اگر مسلمان ہماری مجالس میں بیٹھنا چاہیں گے توہم ان کے لیے مجلس چھوڑ دیں گے، اور ہم کسی امر میں مسلمانوں کے ساتھ تشبہ اور مشابہت اختیار نہیں کریں گے، نہ لباس میں ، نہ عمامہ میں ، نہ جوتے پہننے میں ، اور نہ سر کی مانگ نکالنے میں ، ہم اُن جیسا کلام نہیں کریں گے، اور نہ مسلمانوں جیسا نام اور کنیت رکھیں گے، اور نہ زین کی سواری کریں گے، نہ تلوار لٹکائیں گے، نہ کسی قسم کا ہتھیار بنائیں گے، اور نہ اُٹھائیں گے، اور نہ اپنی مہروں پر عربی نقش کندہ کروائیں گے، اور سر کے اگلے حصے کے بال کٹوائیں گے، اور ہم جہاں بھی رہیں گے، اپنی ہی وضع پررہیں گے، اور گلوں میں زنار لٹکائیں گے، اور اپنے گرجاوٴں پر صلیب کو بلند نہ کریں گے، اور مسلمانوں کے کسی راستہ اور بازار میں اپنی مذہبی کتاب شائع نہیں کریں گے، اور ہم گرجاوٴں میں ناقوس نہایت آہستہ آواز میں بجائیں گے، اور ہم اپنے مُردوں کے ساتھ آگ لے کر نہیں جائیں گے(یہ آخری شرط مجوسیوں سے متعلق ہے)۔
حضرت عبد الرحمن بن غنم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ شرائط نامہ لکھ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے ملاحظہ کرنے کے لیے رکھا، تو انہوں نے اس شرائط نامہ میں کچھ مزید اضافہ کروایا جو یہ تھا:
” ہم کسی مسلمان کو ماریں گے نہیں ، یعنی تکلیف نہیں پہنچائیں گے، ہم نے انہی شرائط پر اپنے لیے اور اپنے اہلِ مذہب کے لیے امان حاصل کیا ہے، پس اگر ہم نے شرائط مذکورہ بالا میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی کی تو ہمارا عہد اور امان ختم ہو جائے گا اور جو معاملہ اہلِ اسلام کے دشمنوں اور مخالفوں کے ساتھ کیا جاتا ہے وہی معاملہ ان کے ساتھ کیا جائے گا“(تفسیر ابن کثیر، سورہ توبة:28.29)
ایک اورروایت جسے علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے،اس میں کچھ مزید شرائط کا بھی ذکر ہے،جو ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں:
” ہم اپنی آبادی میں کوئی نیا گرجا گھر نہیں بنائیں گے، اور جو گرجا گھرخراب ہو جائیں گے، اس کی مرمت نہیں کروائیں گے، اور جو خطہٴ زمین مسلمانوں کے لیے ہو گا، ہم اُسے آباد نہیں کریں گے، اور کسی مسلمان کو دن ہو یا رات، کسی وقت بھی گرجا میں اُترنے سے نہیں روکیں گے، اور اپنے گرجاوٴں کے دروازے مسافروں اور گزرنے والوں کے لیے کشادہ رکھیں گے، اور تین دن تک ان مسلمان مہمانوں کی مہمان نوازی کریں گے، اور اپنے کسی گرجا اور کسی مکان میں مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرنے والے کو ٹھکانہ نہیں دیں گے، اور مسلمانوں کے لیے کسی غل و غش کو پوشیدہ نہیں رکھیں گے، اور اپنی اولاد کو قرآن کی تعلیم نہیں دیں گے، اور کسی شرک کی رسم کو ظاہراً اور اعلانیہ طور پر نہیں کریں گے، اور نہ کسی کو شرک کی دعوت دیں گے، اور نہ اپنے کسی رشتہ دار کو اسلام میں داخل ہونے سے روکیں گے“۔
(منقول)
ایڈڈ محمد بن حسین