- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
اہل السنّۃ اور مُرجئہ کون ہیں؟
[ائمۂ اسلاف کی نظر میں]
ابو عبد اللہ طارق([1])
اوائل اسلام میں جب مختلف فتنوں نے سر اُٹھایا تو ائمہ اہل السنۃ کی طرف سے ان کی بھرپور علمی تردید کی گئی۔ ان میں سے ’مسئلۂ ایمان و کفر‘ میں ایک طرف خوارج و معتزلہ تھے تو دوسری انتہا پر مرجئہ و جہمیہ جمے ہوئے تھے ۔ جبکہ اہل السنّۃان دو انتہاؤں کے وسط میں راہِ اعتدال پر قائم تھے اور آج بھی ہیں اور یہ بھی حقیقت بلا ریب ہے کہ مرجئہ و جہمیہ کی طرف سے اہل السنۃکو خارجی ہونے کا طعنہ دیا گیا اور خوارج و معتزلہ کی طرف سے اہل السنۃکو مرجئہ ہونے کا الزام دیا گیا جبکہ ائمہ اہل السنۃ نے اِفراط و تفریط پر مبنی ان افکار ونظریات اور ان کے حاملین کا ردّ کرتے ہوئے ان سے ہمیشہ برات کا اظہار کیا۔زیر نظر مضمون میں اسی بات کو اقوالِ سلف سے واضح کیا گیا ہے کہ ایمان اور اِرجا کیا ہے اور مرجئہ و جہمیہ کون ہیں؟اور اہل السنّہ والجماعہ کو خارجی و معتزلی نظریات کے حامل حضرات کی طرف سے جو مرجئہ و جہمیہ ہونے کا طعنہ دیا جا رہا ہے،وہ سراسر باطل ہے۔ اس سلسلے میں پہلے ہم ایمان اور اِرجاکے مفہوم سے موضوع کا آغاز کرتے ہیں:اب ماضی قریب میں بعض عرب علاقوں میں خوارج و معتزلہ کے نظریات کے زیر اثر اور بعض مسلم حکام کے ظلم وستم کے ردّ عمل میں تکفیری افکار اور تحریکوں نے سر اُٹھایا تو علماےاہل السنّۃ نے اُن کا بھر پور تعاقب کیا ۔ جس پر اِن تکفیری حضرات کی جانب سے اپنے بڑوں کی روش پر اہل السنۃو الجماعہ اورسلفی نظریات کے حامل علما کو مرجئہ و جہمیہ کے القابات سے نوازا گیا اور ہمارے اس دور میں پاکستان میں بھی انہی نظریات کے زیر اثر یا لاعلمی کی بنا پر بعض حضرات ابو بصیر عبد المنعم طرطوسی([2]) اور ابو عزیر عبدالالٰہ یوسف الجزائری ایسے حضرات کے انہی افکار ونظریات کو اُمت میں بیداری و اِحیا کے نام سے پیش کر رہے ہیں۔ پھر انہی افراد کی طرف سے شیخ ابن باز ، شیخ محمد بن صالح عثیمین اور شیخ صالح فوزان وغیرہ علما کو طرح طرح کے القاب و اِلزامات سے نوازنے کے علاوہ شیخ البانی اور ان کے اصحاب کو مرجئہ وجہمیہ کے طعنے بھی دیے جا رہے ہیں۔
اَئمۂ اہل سنت کے نزدیک ’عمل‘ایمان کا جزہے، اور ایمان دل سے تصدیق، زبان سے اِقرار اور عمل سے مرکب ہے، اور ایمان میں کمی و بیشی بھی ہوتی ہے۔ اکثر اَئمۂ اسلاف ایمان کو ’قول و عمل‘ کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور قول سے ان کی مراد ہے: قولِ قلب یعنی دل سے تصدیق اور قولِ لسان یعنی زبان سے اِقرار ...
اسی طرح عمل کی بھی دو قسمیں ہیں: عمل ِقلب اور عملِ جوارح ([3])