• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل السنّۃ اور مُرجئہ کون ہیں؟

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اہل السنّۃ اور مُرجئہ کون ہیں؟

[ائمۂ اسلاف کی نظر میں]​
ابو عبد اللہ طارق([1])​
اوائل اسلام میں جب مختلف فتنوں نے سر اُٹھایا تو ائمہ اہل السنۃ کی طرف سے ان کی بھرپور علمی تردید کی گئی۔ ان میں سے ’مسئلۂ ایمان و کفر‘ میں ایک طرف خوارج و معتزلہ تھے تو دوسری انتہا پر مرجئہ و جہمیہ جمے ہوئے تھے ۔ جبکہ اہل السنّۃان دو انتہاؤں کے وسط میں راہِ اعتدال پر قائم تھے اور آج بھی ہیں اور یہ بھی حقیقت بلا ریب ہے کہ مرجئہ و جہمیہ کی طرف سے اہل السنۃکو خارجی ہونے کا طعنہ دیا گیا اور خوارج و معتزلہ کی طرف سے اہل السنۃکو مرجئہ ہونے کا الزام دیا گیا جبکہ ائمہ اہل السنۃ نے اِفراط و تفریط پر مبنی ان افکار ونظریات اور ان کے حاملین کا ردّ کرتے ہوئے ان سے ہمیشہ برات کا اظہار کیا۔
اب ماضی قریب میں بعض عرب علاقوں میں خوارج و معتزلہ کے نظریات کے زیر اثر اور بعض مسلم حکام کے ظلم وستم کے ردّ عمل میں تکفیری افکار اور تحریکوں نے سر اُٹھایا تو علماےاہل السنّۃ نے اُن کا بھر پور تعاقب کیا ۔ جس پر اِن تکفیری حضرات کی جانب سے اپنے بڑوں کی روش پر اہل السنۃو الجماعہ اورسلفی نظریات کے حامل علما کو مرجئہ و جہمیہ کے القابات سے نوازا گیا اور ہمارے اس دور میں پاکستان میں بھی انہی نظریات کے زیر اثر یا لاعلمی کی بنا پر بعض حضرات ابو بصیر عبد المنعم طرطوسی([2]) اور ابو عزیر عبدالالٰہ یوسف الجزائری ایسے حضرات کے انہی افکار ونظریات کو اُمت میں بیداری و اِحیا کے نام سے پیش کر رہے ہیں۔ پھر انہی افراد کی طرف سے شیخ ابن باز ، شیخ محمد بن صالح عثیمین اور شیخ صالح فوزان وغیرہ علما کو طرح طرح کے القاب و اِلزامات سے نوازنے کے علاوہ شیخ البانی اور ان کے اصحاب کو مرجئہ وجہمیہ کے طعنے بھی دیے جا رہے ہیں۔
زیر نظر مضمون میں اسی بات کو اقوالِ سلف سے واضح کیا گیا ہے کہ ایمان اور اِرجا کیا ہے اور مرجئہ و جہمیہ کون ہیں؟اور اہل السنّہ والجماعہ کو خارجی و معتزلی نظریات کے حامل حضرات کی طرف سے جو مرجئہ و جہمیہ ہونے کا طعنہ دیا جا رہا ہے،وہ سراسر باطل ہے۔ اس سلسلے میں پہلے ہم ایمان اور اِرجاکے مفہوم سے موضوع کا آغاز کرتے ہیں:
اَئمۂ اہل سنت کے نزدیک ’عمل‘ایمان کا جزہے، اور ایمان دل سے تصدیق، زبان سے اِقرار اور عمل سے مرکب ہے، اور ایمان میں کمی و بیشی بھی ہوتی ہے۔ اکثر اَئمۂ اسلاف ایمان کو ’قول و عمل‘ کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور قول سے ان کی مراد ہے: قولِ قلب یعنی دل سے تصدیق اور قولِ لسان یعنی زبان سے اِقرار ...
اسی طرح عمل کی بھی دو قسمیں ہیں: عمل ِقلب اور عملِ جوارح ([3])
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اہل السنہ والجماعہ کے ہاں ’ایمان کیا ہے؟‘
1۔عقیدہ طحاویہ کے مشہور شارح امام ابن ابی العز حنفی  راقم ہیں:
ولا خلاف بین أهل السنة والجماعة أن الله تعالىٰ أراد من العباد القول والعمل وأعني بالقول: التصدیق بالقلب والإقرار باللسان وهٰذا الذي یعنی به عند اطلاق قولهم: الإیمان قول و عمل([4])
’’اہل سنت کے ہاں اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اللہ تعالیٰ بندوں سے قول و عمل کو چاہتے ہیں او رقول سے میری مراد ہے: دل سے تصدیق اور زبان سے اِقرار، اور ایمان قول و عمل پرمشتمل ہے۔‘‘
2۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ، امام ابوعبید قاسم بن سلام  کے حوالہ سے اہل مکہ، اہل کوفہ، اہل بصرہ، اہل واسط او راہل مشرق کی ایک بہت بڑی جماعت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
قال أبوعبید هٰؤلاء جمیعًا یقولون: الإیمان قول و عمل یزید و ینقص وهو قول أهل السنة والجماعة المعمول به عندنا([5])
’’ابوعبید نےکہا کہ یہ سب (یہی) کہتے ہیں ایمان قول وعمل ہے۔ اس میں کمی بیشی ہوتی ہے او ریہی اہل السنہ والجماعہ کا قول ہے جو کہ ہمارے ہاں معمول بہٖ ہے۔‘‘
3۔ابویوسف یعقوب بن سفیان فرماتے ہیں:
الإیمان عند أهل السنة والجماعة: الإخلاص لله بالقلوب والألسنة والجوارح وهو قول وعمل ویزید وینقص، علىٰ ذلك وجدنا کل من أدرکنا من عصرنا بمکة والمدینة والشام والبصرة والکوفة.([6])
’’اہل سنت کے ہاں ایمان دلوں، زبانوں اور جوارح کے ساتھ اللہ کے لیے اِخلاص ہے او ریہ قول و عمل ہے، اس میں کمی و بیشی ہوتی ہے۔ ہم نے اپنے زمانہ میں مکہ، مدینہ، شام،بصرہ اور کوفہ میں سب کو اسی موقف پر پایا ہے۔‘‘
4۔آگے چل کر مزید فرماتے ہیں:
أدرکتُ أهل السنة والجماعة على ذلك ([7])
’’میں نے اہل سنت والجماعت کو اسی پر پایا ہے۔‘‘
او رپھر اَئمہ اسلاف، فقہاے کرام اورمحدثین عظام میں سے بہت بڑی جماعت کے نام ذکر کرتے ہیں کہ یہ اسی مذہب کے قائل تھے۔
5۔مذاہب اور فرقوں کے موضوع پر لکھے جانے والے انسائیکلو پیڈیا میں ہے:
أما أهل السنة والجماعة فإن الإیمان عندهم تصدیق بالجنان وقول اللسان عمل بالأرکان یزید بالطاعة و ینقص بالمعاصي([8])
’’اہل السنہ والجماعہ کے نزدیک ایمان دل سے تصدیق، زبان سے اقرار او رعمل بالارکان ہے، اس میں نیک اعمال سے اِضافہ ہوتا ہے اور نافرمانی کی وجہ سے کمی۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
صحابہ و تابعین عظام
6۔امام بغوی فرماتے ہیں:
اتفقت الصحابة والتابعون فمن بعدهم من علماء السنة علىٰ أن الأعمال من الإیمان... وقالوا إن الإیمان قول وعمل وعقیدة یزید بالطاعة وینقص بالمعصیة. ([9])
’’صحابہ تابعین او ران کے بعد علماے سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اعمال ایمان میں سے ہیں او ریہ کہ بلا شبہ ایمان قول و عمل اور عقیدہ ہے۔ نیکی سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور نافرمانی سے کمی واقع ہوتی ہے۔‘‘
7۔صحابہ کرام کے بارے میں امام ابن تیمیہ  فرماتے ہیں:
والماثور عن الصحابة و أئمة الدین وجمهور السلف وهو مذهب أهل الحدیث وهو المنسوب إلىٰ أهل السنة أن الإیمان قول وعمل، یزید وینقص، یزید بالطاعة و ینقص بالمعصیة وأنه یجوز الاستثناء فیه([10])
’’صحابہ ، ائمہ دین او رجمہور سلف سے منقول، او ریہی اہل حدیث کا مذہب ہے، اور اہل السنہ کی طرف اسی کی نسبت ہے کہ ایمان قول و عمل ہے، اس میں کمی وبیشی واقع ہوتی ہے۔نیکی سے ایمان زیادہ ہوجاتا ہے اور معصیت سے کم اور بلا شبہ ایمان میں استثناجائز ہے۔‘‘
8۔حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
فذهب السلف إلىٰ أن الإیمان یزید وینقص وأنکر ذلك أکثر المتکلمین ([11])
’’سلف صالحین کے ہاں ایمان کم او رزیادہ ہوتا ہے اور (سلف کے اس موقف کو ماننے سے) اکثر متکلمین نے انکار کیا ہے۔‘‘
9۔صحابی رسول عبداللہ بن مسعودؓ دعا کیا کرتے تھے:
اللهم زدنا إیمانًا ویقینًا وفقهًا([12])
’’اے اللہ ہمارے ایمان ، یقین اور دین کی سمجھ میں اضافہ فرما۔‘‘
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
إسناده صحیح وهٰذا أصرح في المقصود ([13])
’’اس (اثر)کی سند صحیح ہے اور یہ مقصود (یعنی ایمان میں کمی و بیشی ہونے ) میں واضح ترین ہے۔‘‘
10۔صحابی رسول جندبؓ فرماتے ہیں:
ہم طاقتور نوجوان نبیﷺ کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ فتعلّمنا الإیمان قبل أن نتعلّم القرآن ثم تعلّمنا القرآن بعد فَازْدَدْنَا إیمانًا([14])
’’ہم نے قرآن سیکھنے سے پہلے ایمان کو سیکھا پھر اس کے بعد ہم نےقرآن کو سیکھا تو ہمارے ایمان میں اِضافہ ہوگیا۔‘‘
11۔خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عامل عدی بن عدی کو خط لکھا:
إن للإیمان فرائض و شرائع وحدودًا وسننًا فمن استکملها استکمل الإیمان ومن لم یستکملها لم یستکمل الإیمان([15])
’’یقیناً ایمان کے لیے فرائض و شرائع او رحدود و سنن ہیں، جس نے ان کو پورا کیا اس نے ایمان کو مکمل کرلیا او رجس نے اُنکو پورا نہیں کیا اس نے ایمان کو مکمل نہیں کیا۔‘‘
12۔حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
والغرض من هذا الأثر أن عمر بن عبد العزیز کان ممن یقول بأن الإیمان یزید و ینقص حیث قال استکمل ولم یستکمل([16])
’’اس اثر سے مقصود یہ ہے کہ بلا شبہ عمر بن عبدالعزیز  ان لوگوں میں سے تھے جن کے نزدیک ایمان میں کمی اور زیادتی واقع ہوتی ہے جیسا کہ ان کا فرمان ہے کہ اس نے (اپنے ایمان کو) مکمل کرلیا اور (جس نے عمل نہیں کیا) اس نے اپنے ایمان کو مکمل نہیں کیا۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اَئمہ فقہاے محدثین
13۔امام ابن اَبی العز حنفی فرماتے ہیں:
فذهب مالك والشافعي والأوزاعي وإسحٰق بن راهویه وسائر أهل الحدیث وأهل المدینة رحمهم الله وأهل الظاهر وجماعة من المتکلمین إليٰ أنه تصدیق بالجنان وإقرار باللسان وعمل بالأرکان([17])
’’امام مالک، شافعی، اوزاعی، اسحٰق بن راہویہ،تمام اہل الحديث ، اہل مدینہ، اہل ظاہر﷭ او رمتکلمین کی ایک جماعت کے ہاں ایمان دل سے تصدیق، زبان سے اقرار اورعمل بالارکان ہے۔‘‘
14۔امام عبدالرزاق فرماتے ہیں:
کان معمر وابن جریج والثوری ومالك وابن عیـينة یقولون: الإیمان قول وعمل یزید وینقص وأنا أقول: ذلك الإیمان قول وعمل یزید وینقص وإن خالفتُهم فقد ضللت إذًا وما أنا من المهتدین ([18])
’’معمر، ابن جریج، ثوری، مالک اور ابن عیینہ کہتے ہیں کہ ایمان قول و عمل ہے۔ اس میں کمی و بیشی ہوتی ہے اور میں بھی یہی کہتا ہوں کہ ایمان قول و عمل ہے۔ اس میں کمی زیادتی ہوتی ہے او راگر میں نے ان (اَئمہ و فقہا) کی مخالفت کی تو میں گمراہ ہو جاؤں گا او رہدایت یافتہ لوگوں میں سے نہیں ہوں گا۔‘‘
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
وهؤلاء فقهاء الأمصار في عصرهم ([19])
’’یہ لوگ اپنے زمانے میں شہروں کے فقہا تھے۔‘‘
مسئلہ ایمان کی ماہیت میں یہی موقف
امام مالک([20])، امام شافعی([21]) ، امام احمدبن حنبل([22])اور اَئمہ ثلاثہ رحمہم اللہ اجمعین سے شرح العقیدہ الطحاویہ ([23]) میں، اور امام عبداللہ بن مبارک([24])، امام وکیع([25]) اور امام ثوری([26]) رحمہم اللہ اجمعین سے منقول ہے۔تفصیل کے لئے محولہ ذیل کتب ملاحظہ فرمائیں۔
15۔امام بخاری صحیح بخاری کے ترجمۃ الباب میں فرماتے ہیں :
وهو قول وعمل ویزید وینقص([27])
’’اور ایمان قول و عمل ہے، اس میں کمی و زیادتی ہوتی ہے۔‘‘
اور پھر اس پر بطورِ دلیل بکثرت قرآنی آیات ذکر فرماتے ہیں۔ اور آخر میں ذکر فرماتے ہیں:
والحب في الله والبغض في الله ([28])
اس کی شرح میں حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
واستدل بذلك علىٰ أن الایمان یزید وینقص لأن الحب والبغض یتفاوتان([29])
’’امام بخاری نے اس سے اس بات پر اِستدلال کیا ہے کہ ایمان میں کمی اور زیادتی ہے کیونکہ محبت اور بغض میں (مقدار کے لحاظ سے)کمی و بیشی ہوتی ہے۔‘‘
نیز فرماتے ہیں:
رویٰ اللالکائي بسند صحیح عن البخاری قال: لقیتُ أکثر من ألف رجل من العلماء بالأمصار فما رأیت أحدًا یختلف في أن الإیمان قول وعمل ویزید وینقص([30])
’’لالکائی نے بسند صحیح امام بخاری سے روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے (مختلف) شہروں میں ایک ہزار سے زائد علماے زمانہ سے ملاقات کی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی ایمان کے قول و عمل ہونے اور اس کے کم و زیادہ ہونے میں اختلاف نہیں کرتا تھا۔‘‘
16۔سہل بن المتوکل شیبانی فرماتے ہیں:
أدرکت ألف أستاذ وأکثر کلّهم یقولون: الإیمان قول وعمل یزید وینقص والقرآن کلام الله غیر مخلوق وکتبتُ عنهم([31])
’’میں نے ایک ہزار سے زائد اساتذہ کو پایا ہے، وہ سب یہی کہتے تھے کہ ایمان قول و عمل ہے۔ اس میں کمی بیشی ہوتی ہے او رقرآن اللہ کاکلام ہے، مخلوق نہیں ہے اور میں نے ان سے لکھا (بھی ) ہے۔‘‘
17۔امام سفیان بن عیینہ سے پوچھا گیا:
الإیمان یزید وینقص؟ کیا ایمان میں کمی و بیشی ہوتی ہے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ہو؟ (اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) ﴿فَزَادَهُمْ إِیْمَانًا﴾([32])’’اِس نے ان کے ایمان میں اِضافہ کردیا۔‘‘
قیل ینقص؟ قال لیس شيء یزید إلا وهو ینقص([33])
’’پھر آپ سے پوچھا گیا کہ کیا ایمان کم بھی ہوتا ہے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ جس چیز میں زیادتی واقع ہوتی ہے، (لامحالہ) اس میں کمی بھی واقع ہوتی ہے۔‘‘
18۔حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
وبثبوتها یثبت المقابل فإن کل قابل للزیادة قابل للنقصان ضرورة([34])
’’(ایمان میں زیادتی) کے ثبوت کے بعداس کے مدمقابل (یعنی ایمان کا کم ہونا) بھی ثابت ہوجاتا ہے۔ بلا شبہ ہر زیادتی کوقبول کرنے والی چیز لامحالہ کمی کو بھی قبول کرنے والی ہے۔‘‘
19۔امام اوزاعی﷫ کے بارے میں عقبہ بن علقمہ فرماتے ہیں:
سألت الأوزاعي عن الإیمان أیزید؟ قال: نعم حتی یکون کالجبال، قلت فینقص؟ قال: نعم حتی لا یبقی منه شيء([35])
’’میں نے امام اوزاعی سے سوال کیا کہ کیا ایمان زیادہ ہوتا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ ہاں، حتیٰ کہ پہاڑ کی مانند ہوجاتا ہے۔ میں نے کہا کہ کیا ایمان کم ہوتا ہے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ ہاں، حتیٰ کہ (کم ہوتے ہوتے بالآخر) کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔‘‘
20۔شیخ محی الدین کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی راقم ہیں:
قال الشیخ:والأظهر المختار أن التصدیق یزید وینقص بکثرة النظر ووضوح الأدلة ولهٰذا إیمان الصدیق أقوٰی من إیمان غیره بحیث لا یعتریه الشبهة ویؤیده أن کل أحد یعلم أن ما في قلبه یتفاضل حتی أنه یکون في بعض الاحیان أعظم یقینًا وإخلاصًا وتوکلًا منه في بعضها وکذلك في التصدیق والمعرفة بحسب ظهور البراهین وکثرتها، وقد نقل محمدبن نصرالمروزی في کتابه تعظیم قدرالصلاة عن جماعة من الأئمة نحوذلك([36])
شیخ (محی الدین) فرماتے ہیں: ’’ظاہر و مختار یہی ہے کہ کثرتِ غوروفکر او ردلائل کے واضح ہونے کے سبب سے تصدیق میں کمی و بیشی ہوتی ہے۔ اسی لیے صدیق اکبر کا ایمان سب سے زیادہ مضبوط تھا اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ہر ایک جانتا ہے کہ بلا شبہ اس کے دل میں جو (ایمان) ہے، وہ زیادہ ہوتا رہتا ہے حتیٰ کہ بعض اوقات یقین و اخلاص اور توکل میں بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے بنسبت دوسرے اوقات کے۔ اور دلائل کے ظہور و کثرت کے حساب سے تصدیق ومعرفت بھی ایسے ہی ہے او رامام محمد بن نصر مروزی نے (بھی) اپنی کتاب تعظیم قدرالصلاۃ میں ائمہ کی جماعت سے اسی کی مثل (ہی)نقل کیا ہے۔‘‘
21۔محدث العصر شیخ محمد ناصر الدین البانی بھی مسئلۂ ایمان میں سلف کے متبع اور اہل سنت کے ترجمان تھے، فرماتے ہیں:
الإیمان یزید وینقص([37])
’’ایمان کم او رزیادہ ہوتا ہے۔‘‘
الغرض ائمہ فقہاومحدثین کی مذکورہ بالا تصریحات اس باب میں واضح ہیں کہ
’’اہل السنۃ والجماعہ: سلف صالحین﷭ کے نزدیک عمل ایمان کا حصہ ہے اور ایمان میں کمی و بیشی واقع ہوتی ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حوالہ جات

([1])..اُستاد جامعہ لاہور اسلامیہ (البیت العتیق ، برانچ جوہرٹاؤن)، لاہور
([2])..جو بذاتِ خود طاغوتِ اعظم برطانیہ میں ’مستامن‘ کاحیلہ کرکے وہاں رہائش رکھے ہوئے ہیں۔
([3])..الایمان از ابن تیمیہ:ص 137،149؛ کتاب الصلوٰۃ ازابن قیم :ص26؛ شرح العقیدہ الطحاویۃ از ابن ابی العز حنفی:ص333،341
([4])..شرح العقیدۃ الطحاویۃ :ص333
([5])..الایمان :ص 243
([6])..شرح اُصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعہ: 2؍60
([7])..ایضاً:2؍56
([8])..الموسوعۃ المیسرة فی الادیان والمذاہب والاحزاب المعاصرۃ: 2؍154 ،1؍44
([9])..شرح السنۃ از بغوی:1؍78
([10])..مجموع الفتاویٰ از ابن تیمیہ : 7؍505
([11])..فتح الباری:1؍64
([12])..شرح اُصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ:2؍45؛الایمان:ص177، السنۃ لعبد اللہ بن احمد :ص 109 الرقم 797؛ الشریعہ: ص109
([13])..فتح الباری:1؍66
([14])..السنۃ الابن احمد ص 109 الرقم 799، الایمان لابن تیمیہؒ ص 178، شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ واجماعۃ جلد2 ص45
([15])..صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب قول النبی بنی الاسلام علی خمسں تعلیقاً؛ شرح السنۃ از بغوى:1؍79 ، ابن ابی شیبۃ الرقم30435
([16])..فتح الباری:1؍66
([17])..شرح العقیدہ الطحاویہ: ص 332
([18])..الشریعہ از آجری :ص113؛التمھید لابن عبدالبر165/4 ، السنہ از عبداللہ بن احمد :ص 97 رقم 726،واللفظ لہ
([19])..فتح الباری :1؍65
([20])..الشریعہ: ص113
([21])..فتح الباری: 1؍65
([22])..الشریعہ: صفحہ 113
([23])..صفحہ333
([24])..السنۃ از عبداللہ بن احمد :ص 85
([25])..السنۃ از عبداللہ بن احمد:ص 82، شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعہ:2؍59
([26])..صحیح البخاری :1؍5 درسی
([27])..ایضاً
([28])..فتح الباری :1؍65
([29])..فتح الباری:1؍65
([30])..شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ:2؍61
([31])..آل عمران:173
([32])..الشریعہ از آجری :ص 112
([33])..فتح الباری :1؍65
([34])..شرح اُصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ:2؍57
([35])..فتح الباری:1؍64
([36])..السلسلۃ الصحیحۃاز البانی :4؍369، موسوعۃ الالبانی:4؍99
([37])..الشعراء :36
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
إرجاء

1۔شیخ محمد بن عبدالکریم شہرستانی راقم ہیں:
والإرجاء علىٰ معینین: أحدهما: التاخیر کما في قوله تعالىٰ ﴿قَالُوْا أَرْجِهْ وَأخَاهُ﴾ أی أمهله. والثاني: إعطاء الرجاء... أما اطلاق اسم المرجئة على الجماعة بالمعنى الأول فصحیح لأنهم کانوا یؤخرون العمل عن النیة والإعتقاد. وأما بالمعنی الثاني فظاهر، فإنهم کانوا یقولون: لا یضرمع الإیمان معصیة، کما لا ینفع مع الکفر طاعة([38])
’’إرجاء کے دو معنی ہیں:پہلے معنی ہیں تاخیر (مؤخر کرنے) کے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿قَالُوْا أَرْجِهْ وَأخَاهُ﴾ ([39]) یعنی فرعون کے درباریوں نے کہا: موسیٰ اور اس کے بھائی کو مہلت دے اور ان کے معاملہ کو ملتوی کر۔‘‘
یہاں إرجاء کے معنی ہیں’أمهله‘اسے مہلت دے اور ’أخره‘اسے مؤخر کر۔
(إرجاء کے) دوسرے معنی ہیں:’’اُمید دلانا‘‘...رہا اس فرقہ پر ’المرجئہ‘ کے نام کا اطلاق تو پہلے معنیٰ کے لحاظ سے یہ صحیح ہے کیونکہ یہ لوگ عمل کو نیت اور اعتقاد سے مؤخر کرتے تھے۔رہا دوسرے معنیٰ کے اعتبار سے (اس فرقہ کی وجہ تسمیہ) تو یہ بھی ظاہر ہے کیونکہ یہ لوگ (خصوصاً جہمیہ) کہتے تھے کہ ایمان کے ساتھ کوئی معصیت نقصان نہیں پہنچاتی جیسا کہ کفر کے ساتھ کوئی نیکی مفید نہیں۔‘‘
2۔حافظ ابن حجر عسقلانی راقم ہیں:
والمرجئة نُسبوا إلىٰ الأرجاء وهو التاخیر لأنهم أخَّروا الأعمال عن الإیمان فقالوا: الإیمان هو التصدیق بالقلب فقط، ولم یشترط جمهورهم النطق، وجعلوا للعصاة اسم الإیمان علىٰ الکمال وقالوا: لا یضر مع الإیمان ذنب أصلًا([40])
’’إرجاء(کے معنی) مؤخر کرنا ہے اور مرجئہ کی نسبت ’اِرجا‘ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ یہ لوگ اعمال کو ایمان سے مؤخر کرتے ہیں (یعنی اعمال کو ایمان کا جز قرار نہیں دیتے) اُنہوں نے کہا کہ ایمان صرف دل سے تصدیق (کا نام) ہے او ران کے جمہور نے تو (ایمان کے لیے) زبان سے اقرار کو بھی شرط قرار نہیں دیا اور اُنہوں نے گنہگاروں کو مؤمن کامل قرار دیا ہے اور یہ (خصوصاً جہمیہ) کہتے ہیں کہ ایمان کی موجودگی میں گناہ نقصان نہیں پہنچاتا۔‘‘
3۔امام احمد بن حنبل﷫کے بیٹے عبد اللہ  فرماتے ہیں:
سئل أبي عن الإرجاء فقال: الایمان قول وعمل ویزید و ینقص إذا زنى و شرب الخمر نقص إیمانُه([41])
’’میرے باپ(امام احمد) سے إرجاء کے بارے میں سوال کیا گیا تو اُنہوں نے جواب دیا کہ ایمان قول و عمل ہے اور کم و زیادہ ہوتا ہے جب (کوئی مؤمن) زنا کرے، شراب پی لے تو اس کا ایمان کم ہوجاتا ہے۔‘‘
4۔ابو وائل ﷫ كے بارے میں زبیدفرماتے ہیں:
سألتُ أبا وائل عن المرجئة میں نے ابووائل سے مُرجئہ کے بارے میں سوال کیا، تو اُنہوں نے کہا کہ عبداللہ (ابن مسعودؓ) نے مجھے حدیث بیان کی۔ بلا شبہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: سباب المسلم فسوق وقتاله کفر ([42])
’’مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اُس سے قتال کفر ہے۔‘‘
امام احمد سے إرجاء اور ابووائل سے مرجئہ کے بارے میں سوال ہوا، تو ان دونوں کے جواب سے یہ بات واضح ہے کہ عمل ایمان کا حصہ ہے او راس میں کمی و بیشی ہوتی ہے۔ گناہ سے ایمان میں نقص واقع ہوتا ہے اور یہ ایمان کو نقصان پہنچاتا ہے جبکہ مرجئہ کاکوئی بھی گروہ اس کا قائل نہیں اور یہ إرجاء ہے۔
5۔صالح بن احمد بن حنبل فرماتے ہیں:
أنه سأل أباه عن من لایرٰی الإیمان قول وعمل قال: هؤلاء المرجئة([43])
’’بلاشبہ اُنہوں نے اپنے باپ سے ایسے لوگوں کے بارے میں سوال کیا جن کے نزدیک ایمان قول و عمل نہیں ہے تو اُنہوں نے فرمایا کہ یہ مرجئہ ہیں۔‘‘
وسئل أبوعبد الله وأنا أسمع عن الإرجاء ما هو؟ قال من قال: الإیمان قول فهو مرجئ. والسنة أن تقول الإیمان قول وعمل، یزید وینقص([44])
’’(راوی ابو الحارث کہتے ہیں) میں سن رہا تھا كہ ابوعبداللہ (امام احمد) سے سوال کیا گیا کہ ارجا کیا ہے؟ تو اُنہوں نے جواب دیاکہ جس نے کہا کہ ایمان قول ہے پس وہ مرجئہ ہے۔ (سلف کا) طریقہ یہ ہے کہ تو کہے کہ ایمان قول و عمل ہے، کم اور زیادہ ہوتا ہے۔‘‘
6۔امام وکیع فرماتے ہیں:
أهل السنة یقولون: الإیمان قول وعمل والمرجئة یقولون: الإیمان قول والجهمیة یقولون: الإیمان معرفة([45])
’’اہل سنت کہتے ہیں کہ ایمان قول و عمل ہے اور مرجئہ کہتے ہیں کہ ایمان قول ہے اورجہمیہ کہتے ہیں کہ ایمان معرفت ہیں۔‘‘
7۔امام سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں:
خالفنا المرجئة في ثلاث. نحن نقول الإیمان قول وعمل وهم یقولون: الإیمان قول بلاعمل، ونحن نقول: یزید وینقص وهم یقولون: لا یزید ولا ینقص، ونحن نقول:نحن مؤمنون بالإقرار وهم یقولون: نحن مؤمنون عند الله([46])
’’مرجئہ نے تین چیزوں میں ہماری مخالفت کی ہے، ہم کہتے ہیں کہ ایمان قول و عمل ہے جبکہ مرجئہ کہتے ہیں کہ ایمان قول ہے عمل کے بغیر، او رہم کہتے ہیں کہ ایمان زیادہ اور کم ہوتا ہے جبکہ وہ کہتے ہیں کہ ایمان نہ کم ہوتا ہے او رنہ زیادہ، اور ہم کہتے ہیں کہ ہم اقرار کے ساتھ مؤمن ہیں جبکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے ہاں مؤمن ہیں۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
خلاصۂ کلام

یہ ہے کہ سلف کے نزدیک عمل ایمان کا جز اور اس میں شامل ہے، لیکن مرجئہ کے نزدیک عمل ایمان کا جز اور اس میں شامل نہیں ہے۔ سلف کے نزدیک ایمان کم اور زیادہ ہوتا ہے جبکہ مرجئہ کے نزدیک ایمان کم اور زیادہ نہیں ہوتا۔اہل السنہ والجماعہ اورمرجئہ کے درمیان پائے جانے والے اس اختلاف کو بڑے واضح الفاظ میں شیخ البانی بیان فرماتے ہیں:
الخلاف جذري بین أهل السنة حقًا و بین المرجئة حقًا من ناحیتین اثنتین: أن أهل السنة یعتقدون أن الأعمال الصالحة من الإیمان وأما المرجئة فلا یعتقدون ذلك ویصرحون بأن الإیمان هو إقرار باللسان وتصدیق بالجنان وهو القلب، أما الأعمال الصالحة فلیست من الإیمان وبذلك یردون نصوصًا کثیرة لا حاجة بنا إلىٰ ذکر شيء منها علىٰ الأقل إلا إذا اضطرنا.
هٰذا هي النقطة الأولىٰ التی یخالف المرجئة فیها أهل السنة حقًا، النقطة الثانیة وهي تتفرع من النقطة الأولىٰ وهی: أن أهل السنة یقولون:الإیمان یزید وینقص، زیادته بالطاعة، ونقصانه بالمعصیة، والمرجئة ینکرون هذه الحقیقة الشرعیة ویقولون:بأن الإیمان لا یزید ولا ینقص
([47])
’’خالص اہل السنہ اور خالص مرجئہ کے مابین بنیادی اختلاف دو اعتبار سے ہے: بلاشبہ اہل سنت یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ بے شک نیک اعمال ایمان میں سے ہیں، اور رہے مرجئہ تو وہ یہ اعتقاد نہیں رکھتے او رصراحتاً یہ کہتے ہیں کہ ایمان زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق ہی ہے ۔رہے اعمالِ صالحہ تو وہ ایمان میں سے نہیں ہیں او راس بنا پر وہ بہت زیادہ نصوص کو بھی ردّ کردیتے ہیں۔ یہ ہے وہ پہلا نکتہ جس میں مرجئہ نے خالص اہل السنہ کی مخالفت کی ہے۔
او ردوسرا نکتہ جو کہ پہلے نکتے سے ہی نکلتا ہے، یہ ہے کہ بلا شبہ اہل سنت کہتے ہیں کہ ایمان زیادہ اورکم ہوتا ہے، اس کا زیادہ ہونا نیکی کے سبب سے ہے اور کم ہونا معصیت کی وجہ سے ہے، اور مرجئہ اس شرعی حقیقت کا انکار کرتے ہیں او رکہتے ہیں کہ ایمان نہ زیادہ ہوتا ہے او رنہ کم۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تاریخ إرجاء
امام ابن تیمیہ  فرماتے ہیں:
فی أواخر عصر الصحابة حدثت بدعة القدریة والمرجئة فأنکر ذلك الصحابة والتابعون کعبد الله بن عمر و ابن عباس و جابر و واثلة بن الأسقع([48])
’’صحابہ کے آخر زمانہ میں قدریہ اور مرجئہ کی بدعت پیدا ہوئی، تو صحابہ اور تابعین نے اس کا انکار کیا (یعنی اس کو غلط کہا اور تنقید کی) جیساکہ عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس، جابر اور واثلہ بن اسقع نے۔‘‘
مزیدراقم ہیں:
إنه حدثت بدعة المرجئة فی أواخر عصر الصحابة فی عهد عبد الملك بن مروان و عبد الله بن الزبیر و عبد الملك توفی سنة86، و ابن الزبیر قتل سنة73([49])
’’مرجئہ کی بدعت صحابہ کے آخر زمانہ میں، عبدالملک بن مروان اور عبداللہ بن زبیر ؓکے عہد میں پیدا ہوئی اور عبدالملک86ھ میں فوت ہوا اور عبداللہ بن زبیر ؓ 73 ھ میں قتل ہوئے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ایمان زبان سے قول، دل سے تصدیق ا ورعمل صالحہ کا نام ہے، یہ ایمان کے تین ارکان ہیں اورجو شخص ان تینوں اراکین ایمان کا اعتقاد رکھتا ہے، وہ اہل السنہ والجماعۃ کے موقف پر ہے۔ البتہ جو شخص ان تینوں ارکان کا اعتقاد رکھنے کے باوجود عملاً کوتاہی یا گناہ کا ارتکاب کرے تو اُس سے اس کے ایمان کا درجہ تو کم ہوجاتا ہے، لیکن اس عملی کوتاہی سے وہ شخص مرجئہ نہیں بن جاتا بلکہ وہ اہل السنّہ ہی رہتا ہے، کیونکہ اِرجاءکا تعلق اعتقاد سے ہے ، نہ کہ عمل سے ۔آج جن علما کو بعض جذباتی حضرات مرجئہ ہونے کا الزام دیتے ہیں، تو اُنہیں یاد رہنا چاہئے کہ ان علما میں سے کوئی شخص اگر اعتقادِ فاسد رکھتا ہے تو اس پر تو دوسرا حکم لگانے کا اِمکان ہوسکتاہے، تاہم عملی کوتاہی کی بنا پر اُن کو کمتر ایمان کے مسلمان ہی قرار دیا جاسکتا ہے نہ کہ مرجئہ۔ زیر نظر مضمون کا مقصد ائمۂ سلف کے نزدیک ارجا کی حقیقت کو واضح کرنا اور اہل السنّۃ والجماعۃ میں شامل بعض سلفی علما پر لگائے جانے والے اِرجا کے الزام کا ابطال کرنا ہے۔ اس مضمون کا مقصد نہ تو کسی گروہ کی دل آزاری یا کسی قسم کی فتویٰ بازی ہے اور نہ ہی یہاں تکفیر اور عدم تکفیرکے اُصول وضوابط کو پیش کرنا مقصود ہے۔
اہل السنۃ والجماعۃ اور سلف صالحین کے نزدیک ایمان اور اِرجاء کا مفہوم کیا ہے؟ یہ بات بالتفصیل بیان ہو چکی ہے ۔ اسی کی روشنی میں اَب مزید بیان کیا جائے گا کہ
’’سلف کے نزدیک مسئلہ ایمان میں مرجئہ کا اطلاق کن گروہوں پر کیا گیا اور ان کے نظریات کیا ہیں؟ آخر میں ان نظریات کا سلف کے نظریات کے ساتھ تقابل پیش کیا جائے گا اور اس بارے میں شیخ البانی کے اَقوال کو بھی ذکر کیا جائے گا۔ تاکہ یہ بات مزید نکھر کر واضح ہو جائے کہ سلف اور سلفی حضرات پر مرجئہ کا اِلزام لگانے والے لوگوں کے دعویٰ باطلہ کی حقیقت کیاہے؟
مرجئہ کی اَقسام
موسوعہ میں مرجئہ کی اقسام کے بیان میں لکھا ہے:
فمنهم من یقول:إن الإیمان قول باللسان و تصدیق بالقلب فقط و بعضهم یقصره علی قول اللسان و البعض الآخر یکتفی فی تعریفه بأنه التصدیق و غالی آخرون منهم فقالوا: إنه المعرفة([50])
’’ان مرجئہ میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایمان صرف زبان سے اقرار او ردل سے تصدیق ہے اور بعض کے نزدیک ایمان صرف زبان سے اقرار ہے اور بعض دوسرے ایمان کی تعریف میں صرف اسی پر اکتفاء کرتے ہیں کہ یہ تصدیق ہے اورکچھ دوسروں نے غلو کرتے ہوئے کہا کہ ایمان (صرف) معرفت ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مرجئہ فقہا
موسوعہ میں رقم ہے:
من قال إن الإیمان تصدیق القلب وقول اللسان وهم مرجئة الفقهاء
’’جو کہتے ہیں کہ ایمان دل سے تصدیق او رزبان سے اقرار ہے وہ مرجئہ فقہا ہیں۔‘‘
نیز
أخرجوا الأعمال من مسمی الإیمان ممانشأعندهم عدم القول بالزیادة والنقصان و عدم الإستثناء فی الإیمان مع اعتبار الأوائل منهم لأهمیة الأعمال حیث عدوها من لوازم الإیمان و رتبوا علی الإخلال بها الوعید و علی العمل بها الزیادة فی الثواب.... بالجملة فإن هذا النوع هو أخف أنواع الإرجاء ([51])
’’انہوں نے اعمال کو مسمی ایمان سے خارج کردیا جس سے ان کے ہاں ایمان میں کمی و بیشی نہ ہونے او رعدم استثناء کا قول وجود میں آیا، اس کے باوجود ان میں سے متقدمین نے اعمال کو لوازم ایمان میں شمار کرکے اور عمل نہ کرنے والے پر وعید اور عمل کرنے پر ثواب میں زیادتی کو مرتب کرکے اعمال کی اہمیت کا اعتبار کیا ہے پس یہ اِرجاء کی سب سے ہلکی قسم ہے۔‘‘
یعنی ان کے نزدیک اعمال ثمرہ ایمان اور اس کا مقتضی ہیں، جز نہیں۔([52])
امام ابن تیمیہ راقم ہیں:
والمرجئة الذین قالوا: الإیمان تصدیق القلب و قول اللسان والأعمال لیست منه کان منهم طائفة من فقهاء الکوفة و عبادها ولم یکن قولهم مثل قول جهم ([53])
’’وہ مرجئہ جنہوں نے کہا کہ ایمان دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار ہے اور اعمال ایمان میں سے نہیں ہے، ان میں کوفہ کے فقہا و عباد کا ایک گروہ بھی ہے اور ان کا (یہ) قول جہم کے قول کی مثل نہیں ہے ۔‘‘
ان کے نزدیک ایمان شئ واحد ہے اور اصل ایمان میں تمام مومن برابرہیں۔‘‘([54])
مزید فرماتے ہیں:
وکان أکثرهم من أهل الکوفة ولم یکن أصحاب عبد الله من المرجئة ولا إبراهیم النخعی وأمثاله فصاروا نقیض الخوارج والمعتزله، فقالوا: إن الأعمال لیست من الإیمان وکانت هذه البدعة أخف البدع، ولم أعلم أحدا منهم نطق بتکفیر هم بل هم متفقون علی أنهم لا یکفرون فی ذلك وقد نص أحمد وغیرہ من الأئمة علی عدم تکفیر هؤلاء المرجئة([55])
’’اور ان کی اکثر یت اہل کوفہ میں سے تھی (البتہ) عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگرد اور ابراہیم نخعی او ران جیسے لوگ مرجئہ میں سے نہیں تھے، اور یہ مرجئہ خوارج اور معتزلہ کی نقیض تھے۔ انہوں نے کہا کہ اعمال ایمان میں سے نہیں ہیں او ریہ بدعت (مرجئہ کی) بدعتوں میں سے سب سے زیادہ ہلکی ہے (سلف اور اَئمہ نے ان پر سخت نکیر و تغلیظ کی ہے البتہ) میں کسی کو نہیں جانتا جس نے ان کی تکفیر کی ہوں بلکہ وہ اس بات پر متفق ہیں کہ اس (مسئلہ ایمان) میں ان کی تکفیر نہیں کی جائے گی اور ان مرجئہ کی عدم تکفیر پر امام احمد وغیرہ ائمہ سے نص ہے۔‘‘
 
Top