محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس مصلحت کی وجہ یہ ہے کہ ایسے اعمال کرنے والا جب نصیحت کرنے والے کے منہ سے فوراً ''فتوی'' سنے گا تو کبھی بھی راہِ راست پر نہیں آئے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔
حالانکہ اس قبیل کے عوام و علماء بھی یہ کہتے اور سمجھتے ہیں کہ کافر و مشرک بھلائی اور دین اسلام کی طرف پلٹ سکتا ہے۔ اپنے غلط عقیدے اور بداعمالیوں کو چھوڑ سکتا ہے
لیکن
بدعتی کبھی بھی بھلائی اور دین اسلام کی طرف نہیں پلٹ سکتا کیونکہ جو کچھ وہ عمل کر رہا ہے وہ اُسے بھلائی اور دین اسلام ہی سمجھ کر رہا ہوتا ہے۔ اسے برائی سمجھے گا تو چھوڑے گا۔ جب وہ اسے برائی سمجھ ہی نہیں رہا تو چھوڑے گا کیسے؟
اس کے برعکس دوسرا گروہ ہے جو توحید و سنت کے خلاف اعمال کرنے والے لوگوں کو کافر و مشرک اور بدعتی ہی کہتا ہے اور تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتاہے۔ تاکہ حق کا حق ہونا ثابت ہو جائے اور باطل کا باطل ہونا بھی واضح ہو جائے۔ یہ گروہ کبھی بھی دوستی اور دشمنی کے اسلامی معیار پر مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہوتا۔ اور توحید و سنت کے علاوہ کسی بھی درمیانی راہ پر چلنے کا عادی نہیں بنتا۔
اللہ تعالی نے مسلمانوں کو ایک بڑی آزمائش میں پرکھا تاکہ حق کا حق ہونا بھی واضح ہو جائے اور کفر کا کفر ہونا بھی۔ اور ان دونوں کے درمیانی راہ (نفاق) چھٹ کر الگ تھلگ نظر آئے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالی ہے:
وَاِذْ يَعِدُكُمُ اللہُ اِحْدَى الطَّاۗىِٕفَتَيْنِ اَنَّہَا لَكُمْ وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَۃِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَيُرِيْدُ اللہُ اَنْ يُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِہٖ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِيْنَ لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ (سورۃ الانفال:7:8)
اور (وہ وقت یاد کرو) جب اللہ نے تم سے (کفارِ مکہ کے) دو گروہوں میں سے ایک پر غلبہ و فتح کا وعدہ فرمایا تھا کہ وہ یقیناً تمہارے لئے ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ غیر مسلح (کمزور گروہ) تمہارے ہاتھ آجائے اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلام سے حق کو حق ثابت فرما دے اور (دشمنوں کے بڑے مسلح لشکر پر مسلمانوں کی فتح یابی کی صورت میں) کافروں کی (قوت اور شان و شوکت کی) جڑ کاٹ دے۔
تاکہ (معرکۂ بدر اس عظیم کامیابی کے ذریعے) حق کو حق ثابت کر دے اور باطل کو باطل کر دے اگرچہ مجرم لوگ (معرکۂ حق و باطل کی اس نتیجہ خیزی کو) ناپسند ہی کرتے رہیں۔
وَيُحِقُّ اللہُ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِہٖ وَلَوْ كَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ (سورۃ یونس:82)
اور اللہ اپنے کلمات سے حق کا حق ہونا ثابت فرما دیتا ہے اگرچہ مجرم لوگ اسے ناپسند ہی کرتے رہیں۔
ایک رائے یہ ہے کہ جو شخص کلمہ پڑھنے کے باوجود ایسے اعمال کرتا ہے جو کفر و شرک ہیں تو ایسے موقعے پر صرف اور صرف ان اعمال کی برائی ہی بیان کی جائے گی۔ انہیں کفر و شرک ہی کہا اور مانا جائے گا۔ دل میں شدید نفرت رکھی جائے گی البتہ ان کاموں کا فاعل حضرات کو کافر و مشرک وغیرہ نہ کہا جائے۔اہل ایمان و اہل توحید میں کفر و ارتداد اور شرک کے متعلق دو قسم رائے پائی جاتی ہیں۔
اس مصلحت کی وجہ یہ ہے کہ ایسے اعمال کرنے والا جب نصیحت کرنے والے کے منہ سے فوراً ''فتوی'' سنے گا تو کبھی بھی راہِ راست پر نہیں آئے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔
حالانکہ اس قبیل کے عوام و علماء بھی یہ کہتے اور سمجھتے ہیں کہ کافر و مشرک بھلائی اور دین اسلام کی طرف پلٹ سکتا ہے۔ اپنے غلط عقیدے اور بداعمالیوں کو چھوڑ سکتا ہے
لیکن
بدعتی کبھی بھی بھلائی اور دین اسلام کی طرف نہیں پلٹ سکتا کیونکہ جو کچھ وہ عمل کر رہا ہے وہ اُسے بھلائی اور دین اسلام ہی سمجھ کر رہا ہوتا ہے۔ اسے برائی سمجھے گا تو چھوڑے گا۔ جب وہ اسے برائی سمجھ ہی نہیں رہا تو چھوڑے گا کیسے؟
اس کے برعکس دوسرا گروہ ہے جو توحید و سنت کے خلاف اعمال کرنے والے لوگوں کو کافر و مشرک اور بدعتی ہی کہتا ہے اور تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتاہے۔ تاکہ حق کا حق ہونا ثابت ہو جائے اور باطل کا باطل ہونا بھی واضح ہو جائے۔ یہ گروہ کبھی بھی دوستی اور دشمنی کے اسلامی معیار پر مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہوتا۔ اور توحید و سنت کے علاوہ کسی بھی درمیانی راہ پر چلنے کا عادی نہیں بنتا۔
اللہ تعالی نے مسلمانوں کو ایک بڑی آزمائش میں پرکھا تاکہ حق کا حق ہونا بھی واضح ہو جائے اور کفر کا کفر ہونا بھی۔ اور ان دونوں کے درمیانی راہ (نفاق) چھٹ کر الگ تھلگ نظر آئے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالی ہے:
وَاِذْ يَعِدُكُمُ اللہُ اِحْدَى الطَّاۗىِٕفَتَيْنِ اَنَّہَا لَكُمْ وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَۃِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَيُرِيْدُ اللہُ اَنْ يُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِہٖ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِيْنَ لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ (سورۃ الانفال:7:8)
اور (وہ وقت یاد کرو) جب اللہ نے تم سے (کفارِ مکہ کے) دو گروہوں میں سے ایک پر غلبہ و فتح کا وعدہ فرمایا تھا کہ وہ یقیناً تمہارے لئے ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ غیر مسلح (کمزور گروہ) تمہارے ہاتھ آجائے اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلام سے حق کو حق ثابت فرما دے اور (دشمنوں کے بڑے مسلح لشکر پر مسلمانوں کی فتح یابی کی صورت میں) کافروں کی (قوت اور شان و شوکت کی) جڑ کاٹ دے۔
تاکہ (معرکۂ بدر اس عظیم کامیابی کے ذریعے) حق کو حق ثابت کر دے اور باطل کو باطل کر دے اگرچہ مجرم لوگ (معرکۂ حق و باطل کی اس نتیجہ خیزی کو) ناپسند ہی کرتے رہیں۔
وَيُحِقُّ اللہُ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِہٖ وَلَوْ كَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ (سورۃ یونس:82)
اور اللہ اپنے کلمات سے حق کا حق ہونا ثابت فرما دیتا ہے اگرچہ مجرم لوگ اسے ناپسند ہی کرتے رہیں۔