• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل بدعت سے مناظرہ کرنا۔۔ اہلسنت کا منہج تعامل

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

اہل بدعت سے مناظرہ کرنا
شیخ خالد بن أحمد الزہرانی فرماتے ہیں :
اہل بدعت سے مناظرہ کرنے کی دوقسمیں ہیں:

۱۔ممدوح ۲۔مذموم
۱۔ممدوح مناظرہ:
ارشاد ربانی ہے :
﴿ اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ۝۰ۭ ﴾ (النحل:۱۲۵)
'' اے نبی! آپ لوگوں کو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان سے ایسے طریقہ سے مباحثہ کیجئے جو بہترین ہو ۔'

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے مناظرے ذکر فرمائے ہیں جیسے ابراہیم ؈ کا اپنی قوم اور نمرود سے مناظرہ ،موسیٰ ؈ کا فرعون سے مناظرہ۔

سلف میں سے بعض کا قول ہے :
ناظرو ا القدریۃ بالعلم، فان أقرو بہ خصمو ا،وان جحدو ا فقد کفروا (جامع العلوم والحکم :۱/۲۷)

''قدریہ سے علم کے ساتھ مناظرہ کرو ،اگر وہ اللہ کے علم کااعتراف کریں گے تو ان سے بحث کی جائے گی اور اگر وہ علم الٰہی کا انکار کریں گے تو کفرکریں گے ۔''

اسی لیے صحابہ کرام نے گمراہ فرقوں میں سے بعض کے ساتھ مناظرہ کیا ۔جیسا کہ ابن عباس؄ کا خوارج سے مناظرہ کرنا ۔
۲۔مذموم مناظرہ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

(أبغض الرجال الی اللہ الألد الخصم)(بخاری :۲۴۵۷،مسلم:۲۶۶۸)
''اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ آدمی وہ ہے جو سخت جھگڑنے والا ہو۔''

ابو امامہ؄ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :کوئی قوم ہدایت پانے کے بعد اس وقت تک گمراہ نہیں ہوتی جب تک اس میں جھگڑا نہیں شروع ہوجاتا پھر آپﷺ نے یہ آیت پڑھی :

﴿وَقَالُوْٓا ءَ اٰلِہَتُنَا خَيْرٌ اَمْ ہُوَ۝۰ۭ مَا ضَرَبُوْہُ لَكَ اِلَّا جَدَلًا۝۰ۭ بَلْ ہُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ۝۵۸ ﴾(زخرف:۵۸)
''(اور کہنے لگے) کیا ہمارے'' الہ'' اچھے ہیں یا وہ (عیسیٰ) ؟وہ آپ کے سامنے یہ مثال سراسر کج بحثی کی خاطر لائے ہیں۔ بلکہ یہ ہیں ہی جھگڑالو''(ترمذی :۳۲۵۳)

عبدالرحمن بن أبی زناد  فرماتے ہیں :
''ادرکنا أھل الفضل والفقہ من خیار أولیۃ الناس یعیبون أھل الجدل والتنقیب و الاخذ بالرأي أشد العیب ،و ینھونا عن لقائھم و مجالستھم وحذرونا مقاربتھم أشد التحذیر'' (الابانۃ الکبریٰ:۲/۵۳۲)
''ہم نے بہترین لوگوں میں سے اہل فضل و فقہ کو دیکھا کہ وہ جھگڑالو، بہت زیادہ کرید کرنے والوں اور اپنی رائے اختیار کرنے والوں کو سخت معیوب سمجھتے تھے اور ہمیں ایسے لوگوں سے ملنے جلنے سے اور ان کی قربت اختیار کرنے سے سختی سے منع کرتے تھے۔''

امام احمد بن حنبل  فر ماتے ہیں :
''أصول السنۃ عندنا :التمسک بما کان علیہ أصحاب رسول اللہ ﷺ والاقتداء بھم ،وترک البدع ،وکل بدعۃ فھي ضلالۃ ،ترک الخصومات، والجلوس مع أصحاب الأھواء ،وترک المراء والجدل والخصومات في الدین '' (شرح اصول اعتقاد السنۃ:۱/۱۵۶)
'' ہمارے نزدیک سنت کے اصول یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے مسلک کے ساتھ تمسک رکھا جائے ان کی اقتدا اور پیروی کی جائے اور بدعات کو چھوڑ دیا جائے کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے ،خواہش پرست اور بدعتی لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھا جائے ، دین میں جھگڑوں کو ترک کیا جائے اور بحث و مناظروں سے پرہیز کیا جائے ۔''
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
مناظرے کی شرائط اور مقاصد
۱۔مخالفین کو حق کی دعوت دینا اور ان کے سامنے انکی بدعت کا بطلان ثابت کرنا ۔
۲۔دین کی حفاظت کرنا ،مخالفین کی تحریفات اور تاویلات کی حقیقت کھولنا ۔
۳۔عام لوگوں کو بدعت میں واقع ہونے سے بچانا ۔اہل بدعت کے شبہات کا ازالہ کرنا
۴۔مخالفین کی حقیقت لوگوں کے سامنے کھولنا تاکہ لوگ ان کے شر سے بچ جائیں ۔
۵۔لوگوں کو کلمہ توحید پر جمع کرنا ۔ایسا تبھی ممکن ہے جب دین میں شکوک وشبہات پیدا کرنے والوں کا رد کیا جائے ۔

جب مناظرے سے یہ مقاصد پورے ہوتے ہوں تو یہ مناظرہ شرعی کہلائے گا اور اگر یہ مقاصد نہ پائے گئے تو مناظرہ مذموم کہلائے گا۔

مناظرے کے اصول و ضوابط

علم کی بنیاد پر مناظرہ کرنا : مناظرہ کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مخالفین کے ساتھ علم کی اساس پر مناظرہ کرے ۔اللہ تعالیٰ نے بغیر علم کے جدال کرنے والوں کی مذمت فرمائی ہے :

﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللہِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّيَتَّبِـعُ كُلَّ شَيْطٰنٍ مَّرِيْدٍ۝۳ۙ﴾ (الحج:۳)
''کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے بارے میں علم کے بغیر بحث کرتے اور ہر سرکش شیطان کی اتباع کرنے لگتے ہیں ۔''

﴿ ھٰٓاَنْتُمْ ھٰٓؤُلَاۗءِ حَاجَجْتُمْ فِـيْمَا لَكُمْ بِہٖ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاۗجُّوْنَ فِــيْمَا لَيْسَ لَكُمْ بِہٖ عِلْمٌ۝۰ۭ وَاللہُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۶۶﴾(آل عمران:۶۶)
''تم وہ لوگ ہو جو ان باتوں میں جھگڑا کرتے ہو جن کا تمہیں کچھ علم ہے مگر ایسی باتوں میں کیوں جھگڑتے ہو جن کا تمہیں کچھ علم ہی نہیں۔''

ابو فروخ  نے مالک بن انس کو لکھا :ہمارے علاقے میں بدعات کی بھر مار ہے ۔میں نے بدعتیوں کا رد کرتے ہوئے کچھ لکھا ہے ۔امام مالک نے انہیں جواب دیا :

''لا یرد علیھم الا من کان ضابطاً عارفاً بما یقول لھم ،لا یقدرون أن یعرجو ا علیہ ،فھذا لا بأس بہ ،وأما غیر ذلک ،فاني أخاف أن یکلمھم فیخطیٔ فیمضوا علی خطئہ ،أو یظفروا و یزدادو ا تما دیاً علی ذلک '' (الاعتصام للشاطبی)
'' ان پر رد وہی شخص کرے جو پورے ضبط کے ساتھ ان باتوں کو جانتا ہو جو ان گمراہوں کو کہنا چاہیے تاکہ وہ اس پر غالب نہ آ سکیں ' اس صورت میں کوئی حرج نہیں وگرنہ مجھے خدشہ ہے جب وہ ان سے بحث کرے گا تو اس میں خطا ء کا شکار ہو گا پھر وہ اپنی خطا ء پر قائم ہو جائے گا اس طرح یہ گمراہ لوگ کامیاب ہوجائیں گے اور سرکشی میں بڑھ جائیں گے ۔''
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۲۔مخالف کی ہدایت کی طمع کرنا :
ابن عون  کہتے ہیں:''سمعت محمد بن سیرین ینھي عن الجدال الا رجلًاان کلمتہ طمعت في رجوعہ ''(الاعتصام:۱/۴۴)

''میں نے محمد بن سیرین کو سنا وہ مناظرہ کرنے سے منع کرتے تھے ،سوائے اُس آدمی سے کہ جس سے جب مناظرہ کیا جائے تو مناظرہ کرنے والا اُس کے حق کی طرف رجوع کرنے کی طمع کرے ۔ ''

اگر مناظرہ معاند (ہٹ دھرمی کے ساتھ باطل پر اڑا رہنے والے )سے ہوجائے تب ایسی صورت میںمناظرہ کرنا درست ہے جب اُس سے دوسرے لوگوں کو فائدہ حاصل ہونے کا یقین ہو اور مناظرہ ترک کرنے سے اہل سنت کی بے عزتی کا خدشہ ہو ۔اس قسم کے مناظرے کا تصور سلف کے ہاں بھی ملتا ہے ۔ حافظ امام ابو بکر احمد اسماعیلی  کے زمانے میں باطنی اسماعیلیوں میں سے ایک شخص نے حاکم وقت سے مناظرے کا مطالبہ کیا ۔امیر نے حافظ ابو بکر اسماعیلی  کو مناظرے کے لیے بھیجا ۔ یہ مناظرہ ایک مجمع کے سامنے ہوا جس میں حافظ نے اُس اسماعیلی کو عبرتناک شکست دی ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے : (الاعتصام:۱/۲۰۳،۲۰۲)

۳۔مناظرہ کا اسلوب
مناظرے کا اسلوب آداب و اخلاق کے لحاظ سے مناسب ہونا چاہیے ۔مخالف کو اللہ سے ڈراتے ہوئے اُس پر احسن انداز میں حق واضح کرے تاکہ وہ اپنی غلطی سے رجوع کر لے ۔

۴۔مناظرہ کا مقصد حق کی نصرت
مناظرے کا مقصد حق تک پہنچنا اور حق کو اخلاص کے ساتھ بیان کرنا ہو ۔نہ کہ باطل کی نصرت اور حق کا انکار ۔جیسا کہ ہر کافر قوم کا وطیرہ رہا ہے

﴿ وَجٰدَلُوْا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوْا بِہِ الْحَــقَّ ﴾(المؤمن:۵)
''اور انہوں نے ناحق جھگڑا کیا تاکہ باطل سے حق کو شکست دے سکیں ۔''

اگر مناظرہ کا مقصد کج بحثی اور جھگڑا کرنا ہو تو یہ مشرکین کا طریقہ ہے
اسی طرح مناظرے کا مقصد اپنے علم وذہانت کا اظہار کرنا ،لوگوں کو اپنی صلاحیتوں سے متاثر کرنا ،یا دنیا طلب کرنا نہ ہو یہ سب مذموم مناظرے کی شکلیں ہیں۔

۵۔مناظرہ بدعت کی شان و شوکت کا باعث نہ ہو۔
مناظرے کی وجہ سے بدعت کی شان و شوکت میں اضافہ اور اسے اہمیت نہ ملتی ہو۔ امام لالکائی مناظروں کا ایک نقصان یہ بیان کرتے ہیں کہ اس سے بدعتیوں کو اہمیت ملتی ہے اور لوگ انہیں حیثیت دیتے ہیں ۔(دعوۃ اھل البدع لشیخ خالد احمد الزہرانی )
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
بدعتی سے مناظرہ کرنے کا طریقہ

‏هشام بن عروة رحمه الله تابعی فرماتے ہیں:

لوگوں سے اس چیز کے متعلق نا پوچھو جو انہوں نے (دین میں) ایجاد کرلیا ہے، کیونکہ اس کے لیے تو انہوں نے پہلے سے ہی جواب تیار کر رکھا ہوگا، لیکن ان سے سنت کےمتعلق پوچھو، کیونکہ وہ سنت کو نہیں جانتے۔

[خطبة الكتاب المؤمل ص163]
 
Top