• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل بدعت غیر مکفرہ سے احادیث صحیحہ لینا: ۔ ۔ اہل سنت کا منہج تعامل

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اہل بدعت غیر مکفرہ سے احادیث صحیحہ لینا:
اہل بدعت کی روایت مقبول ہوتی ہے اگر وہ ثقہ و صدوق ہو۔چند حوالے ملاحظہ فرمائیں:

امام بخاری ایوب بن عائذ سے روایت لائے ہیںجبکہ اس کے بارے میں امام بخاری لکھتے ہیں کہ وہ ارجاء کے قائل تھے اور وہ صدوق (بہت سچے)تھے (الضعفاء ۲۴)جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام بخاری کے نزدیک ایوب بن عائذ صدوق یعنی حسن الحدیث یا صحیح الحدیث تھے لہٰذا ارجاء کی وجہ سے ان کی روایت کو ضعیف قرار دینا امام بخاری کے نزدیک بھی غلط ہے ۔

نرمی سے پیش آنا:
اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔
﴿وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۲۱۵ۚ﴾ (الشعراۗء:۲۱۵)
''اپنے پیرو کار مومنوں سے نرمی سے پیش آؤ۔''

محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی ہے کہ آپس میں عاجزی اختیار کرو۔کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور نہ کوئی کسی پر زیادتی کرے۔'' (مسلم۲۸۶۵)

خیر خواہی کرنا:
سیدناجریر بن عبداللہ؄ نے رسول اللہ ﷺ سے نماز قائم کرنے ' زکوٰۃ ادا کرنے اور ہرمسلمان کے ساتھ خیر خواہی پر بیعت کی۔ (بخاری:۵۷،مسلم: ۵۶)

آپ ﷺ نے فرمایا: ''دین خیر خواہی کا نام ہے۔''سوال کیا گیا ''کس کی؟'' فرمایا: ''اللہ کی ' اسکی کتاب کی' اسکے رسول کی' خلیفۃ المسلمین کی اور عام مسلمانوں کی۔'' (بخاری:۵۵)

شفقت کرنا:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا ''تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی وہ چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے کرتا ہے۔(بخاری :۱۳۔مسلم:۴۵)

آپ ﷺ نے فرمایا :''مسلم وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کردہ چیزوں کو چھوڑ دے۔ (بخاری:۱۰۔مسلم: ۴۰)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
پریشانی کو دور کرنا :
آپ ﷺ نے فرمایا ''مسلمان مسلما ن کا بھائی ہے۔وہ نہ اس پر زیادتی کرتا ہے، نہ اسے (بے یارو مدد گار چھوڑ کر) دشمن کے سپرد کرتا ہے۔جو اپنے مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہو ' اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری فرماتا ہے۔جو کسی مسلمان سے کوئی پریشانی دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کی قیامت کی پریشانیوں میں سے کوئی بڑی پریشانی دور فرمائے گا۔اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی 'اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ (بخاری:۲۴۴۲۔مسلم:۲۵۸۰)

حقیر نہ سمجھنا:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی مومن سے دنیا کی کوئی سختی دور کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اس پر سے آخرت کی سختیوں میں سے ایک سختی دور کرے گا۔ جو شخص مفلس کو (قرض کے لئے) مہلت دے گا اللہ تعالیٰ اس پر دنیا و آخرت میں آسانی کرے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کا عیب چھپائے گا اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کا عیب چھپائے گا۔ اللہ تعالیٰ بندہ کی مدد میں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔ جو شخص علم دین حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دیتاہے جب لوگ اللہ کی کتاب پڑھنے پڑھانے کے لیے اللہ کے گھر میں جمع ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اترتی ہے جو ان کو ڈھانپ لیتی ہے فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں میں ان کا ذکر کرتا ہے ۔ (مسلم:۲۶۹۹)

سلام کہنا:
آپ ﷺ نے فرمایا''اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اس وقت تک جنت میں نہیں جائوگے جب تک ایمان نہیں لائوگے۔اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک تم ایک دوسرے سے اللہ کے لیے محبت نہیں کروگے۔کیا میں تمہیںایسی چیز نہ بتائوں کہ جب تم اسے اختیار کرو تو باہم محبت کرنے لگ جائوگے اور وہ یہ ہے کہ تم آپس میں سلام کو پھیلائو۔(مسلم :۵۴)

ایک صحابی نے آپ ﷺ سے پوچھا ''اسلام کی کونسی بات زیادہ بہتر ہے؟'' آپ ﷺ نے فرمایا ''تم(بھوکے کو) کھانا کھلائواور ہر شخص کو سلام کہو چاہے تم اسے جانتے ہو یا نہیں۔''(بخاری:۱۲مسلم :۳۹)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
مسکرا کر ملنا:
آپ ﷺ نے فرمایا کہ''کسی بھی نیکی کو ہرگز حقیر نہ جاننا اگرچہ تیرا اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا ہی کیوں نہ ہو۔''(مسلم:۲۶۲۶)

آپ ﷺ نے فرمایا۔اچھی گفتگو نیکی ہے ۔(بخاری ۲۷۰۷۔مسلم: ۱۰۰۹)

معلوم ہوا کہ مسلمان بھائی سے مسکرا کر ملنا اوراچھی گفتگوکرنا بھی نیکی ہے۔

مریض کی تیمار داری کرنا:
نبی اکرم ﷺ نے مریض کی تیمار پرسی کرنے 'جنازے کے ساتھ چلنے ' چھینکنے والے کی چھینک کا جواب دینے (اگر وہ الحمدللہ کہے تو جواب میں یرحمک اللہ کہنے) قسم دینے والے کی قسم پوری کرنے 'مظلوم کی مدد کرنے 'دعوت کرنے والے کی دعوت قبول کرنے'کمزورکی مدد کرنے اورسلام کے پھیلانے اورعام کرنے کا حکم دیا۔ (بخاری:۶۲۳۵'۱۲۳۹)

جنازے کے ساتھ جانا:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ ''مسلمان کے مسلمان پرپانچ حق ہیں 'سلام کا جواب دینا'بیمار کی مزاج پرسی کرنا'جب وہ مرجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جانا'دعوت قبول کرنا 'اورچھینکنے والے کی چھینک کا جواب دینا۔''(بخاری:۱۲۴۰، مسلم ۲۱۶۲ )

امام ابن تیمیہ  فرماتے ہیں :
واذا قال المؤمن:﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ﴾، یقصد کل من سبقہ من قرون الأمۃ بالایمان ،وان کان قد اخطأ في تأویل تأوَّلہ فخالف السنۃ ،أو اذنب ذنباً ،فانہ من اخوانہ الذین سبقوہ بالایمان ، فیدخل في العموم ،وان کان من الثنتین والسبعین فرقۃ ،فانہ ما من فرقۃ الا وفیھا خلق کثیر لیسوا کفاراً ،بل مؤمنون فیھم ضلال وذنب یستحقون بہ الوعید ،کما یستحقہ عصاۃ المؤمنین ۔والنبي ﷺ لم یخرجھم من الاسلام ،بل جعلھم من أمتہ ،ولم یقل :انھم یخلدون في النار ۔فھذا أصل عظیم ینبغی مراعاتہ۔ (منھاج السنۃ :۲۴۱)
'' جب ایک مومن یہ دعا کرتا ہے ﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ ﴾کہ اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے معاف فرمادے۔ تو اس سے اس کی مراد امت کے وہ تمام اہل ایمان ہوتے ہیں جو اس سے پہلے ایمان لا چکے اگرچہ ان میںسے کوئی تاویل میں خطاء کر کے سنت کی مخالفت یا کوئی گنا ہ کر بیٹھا ہو تو وہ یقینا اس آیت کے عموم میں داخل ہے اوران وہ بھائیوں میں سے ہے جو اس سے پہلے ایمان لا چکے اگرچہ وہ ۷۲ فرقوں میں سے ہی کیوں نہ ہو کیونکہ ہر فرقے میں ایسے بہت سے لوگ پائے جاتے ہیں جو کافر نہیں ہیں بلکہ مومن ہیں اگرچہ ان میں گمراہی اور گناہ پایا جاتا ہو جس کی وجہ سے وہ وعید کے مستحق ہوں ۔ جس طرح گناہ گار اہل ایمان وعید کے مستحق ہیںکیونکہ رسول اللہﷺ نے انہیں اسلام سے خارج نہیں کیا اور یہ نہیں کہا کہ وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بہت بڑی اصل ہے جس کا خیال رکھنا چاہیے ۔''
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
مسکرا کر ملنا:
آپ ﷺ نے فرمایا کہ''کسی بھی نیکی کو ہرگز حقیر نہ جاننا اگرچہ تیرا اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا ہی کیوں نہ ہو۔''(مسلم:۲۶۲۶)

آپ ﷺ نے فرمایا۔اچھی گفتگو نیکی ہے ۔(بخاری ۲۷۰۷۔مسلم: ۱۰۰۹)

معلوم ہوا کہ مسلمان بھائی سے مسکرا کر ملنا اوراچھی گفتگوکرنا بھی نیکی ہے۔

مریض کی تیمار داری کرنا:
نبی اکرم ﷺ نے مریض کی تیمار پرسی کرنے 'جنازے کے ساتھ چلنے ' چھینکنے والے کی چھینک کا جواب دینے (اگر وہ الحمدللہ کہے تو جواب میں یرحمک اللہ کہنے) قسم دینے والے کی قسم پوری کرنے 'مظلوم کی مدد کرنے 'دعوت کرنے والے کی دعوت قبول کرنے'کمزورکی مدد کرنے اورسلام کے پھیلانے اورعام کرنے کا حکم دیا۔ (بخاری:۶۲۳۵'۱۲۳۹)

جنازے کے ساتھ جانا:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ ''مسلمان کے مسلمان پرپانچ حق ہیں 'سلام کا جواب دینا'بیمار کی مزاج پرسی کرنا'جب وہ مرجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جانا'دعوت قبول کرنا 'اورچھینکنے والے کی چھینک کا جواب دینا۔''(بخاری:۱۲۴۰، مسلم ۲۱۶۲ )

امام ابن تیمیہ  فرماتے ہیں :
واذا قال المؤمن:﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ﴾، یقصد کل من سبقہ من قرون الأمۃ بالایمان ،وان کان قد اخطأ في تأویل تأوَّلہ فخالف السنۃ ،أو اذنب ذنباً ،فانہ من اخوانہ الذین سبقوہ بالایمان ، فیدخل في العموم ،وان کان من الثنتین والسبعین فرقۃ ،فانہ ما من فرقۃ الا وفیھا خلق کثیر لیسوا کفاراً ،بل مؤمنون فیھم ضلال وذنب یستحقون بہ الوعید ،کما یستحقہ عصاۃ المؤمنین ۔والنبي ﷺ لم یخرجھم من الاسلام ،بل جعلھم من أمتہ ،ولم یقل :انھم یخلدون في النار ۔فھذا أصل عظیم ینبغی مراعاتہ۔ (منھاج السنۃ :۲۴۱)
'' جب ایک مومن یہ دعا کرتا ہے ﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ ﴾کہ اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے معاف فرمادے۔ تو اس سے اس کی مراد امت کے وہ تمام اہل ایمان ہوتے ہیں جو اس سے پہلے ایمان لا چکے اگرچہ ان میںسے کوئی تاویل میں خطاء کر کے سنت کی مخالفت یا کوئی گنا ہ کر بیٹھا ہو تو وہ یقینا اس آیت کے عموم میں داخل ہے اوران وہ بھائیوں میں سے ہے جو اس سے پہلے ایمان لا چکے اگرچہ وہ ۷۲ فرقوں میں سے ہی کیوں نہ ہو کیونکہ ہر فرقے میں ایسے بہت سے لوگ پائے جاتے ہیں جو کافر نہیں ہیں بلکہ مومن ہیں اگرچہ ان میں گمراہی اور گناہ پایا جاتا ہو جس کی وجہ سے وہ وعید کے مستحق ہوں ۔ جس طرح گناہ گار اہل ایمان وعید کے مستحق ہیںکیونکہ رسول اللہﷺ نے انہیں اسلام سے خارج نہیں کیا اور یہ نہیں کہا کہ وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بہت بڑی اصل ہے جس کا خیال رکھنا چاہیے ۔''
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
سعودی عرب کی فتویٰ کمیٹی یعنی اللجنۃ والدائمۃ للافتاء والارشاد سے بدعتیوں کے جنازوں میں حاضری اور ان کے مردوں کی نماز جنازہ پڑھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے یوں فتویٰ دیا۔

''وہ بدعتی جن کی بدعت اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک تک پہنچ جاتی ہے مثلاً جو مردوں ، غائب انسانوں ،جنوں ،فرشتوںیا دیگر مخلوقات سے مدد مانگتے اور فریاد کرتے ہیں تو وہ کافر ہیں ۔انکے مردوں کی نماز جنازہ پڑھنا اور ان کے جنازوں میں حاضر ہونا جائز نہیں ہے اور وہ بدعتی جن کی بدعت شرک تک نہیں پہنچتی مثلاً جو میلاد اور معراج کی محفلیں منعقد کرتے ہیں تو یہ لوگ گناہگار ہیں ۔انکی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ان کے جنازوں میں حاضری دی جائے گی۔ اور ان کے لیے مغفرت کی اسی طرح امید ہے جس طرح موحد گناہگاروں کے لیے امید ہے ۔(فتاویٰ اسلامیہ جلد دوم ص ۵۵)

امام ابن تیمیہ  فرماتے ہیں :

(اگر کسی کے ایمان کے بارے میں شک کیا گیا ہو تب بھی اس کا نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ وہ اسلام ظاہر کرنے والا ہو (یعنی اصلی کافر نہ ہو )۔کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ایسے لوگوں کی نماز جنازہ پڑھی جن میں نفاق پایا جاتا تھا اور آپﷺ اُس کے نفاق کو نہیں جانتے تھے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ۝۰ۭۛ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِيْنَۃِ۝۰ۣۛؔ مَرَدُوْا عَلَي النِّفَاقِ۝۰ۣ لَاتَعْلَمُھُمْ۝۰ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ۝۰ۭ ﴾ (التوبۃ:۱۰۱)
'' تمہارے ارد گرد بسنے والے دیہاتیوں میں اور خود مدینے میں بھی کچھ منافق موجود ہیں جو اپنے نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ۔انہیں تم نہیں جانتے ہم انہیں جانتے ہیں۔'' (مجموع الفتاویٰ:جلد۲۴ص۲۸۷ )

البتہ اگر کسی گناہ میں ملوث یا بدعت کے مرتکب کا جنازہ کسی بزرگ ،عالم دین کے نہ پڑھانے سے لوگوں کو سبق ملتا ہو اور وہ اُس بدعت سے باز آتے ہوں تب اُس عالم کا جنازہ نہ پڑھانا درست ہے 'ایسی صورت میں باقی لوگ اُس کا جنازہ پڑھیں گے ۔جیسے نبی کریمﷺ نے خودکشی کرنے والے کا جنازہ پڑھانے سے انکار کیا ۔ ایسا کرتے وقت ضروری ہے کہ اس میت پر مسلمانوں میں کوئی جنازہ پڑھنے والا اور اسے دفنانے والا موجود ہو 'اگر کوئی موجود نہ پایا گیا تب اُس کا جنازہ نہ پڑھانا 'یا اُسے نہ دفنانا جائز نہیں( تفصیل کے لیے دیکھیں : موقف اھل السنۃ والجماعۃ من اھل الاھواء والبدع :۲/۴۳۳)
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
اہل بدعت غیر مکفرہ سے احادیث صحیحہ لینا:
اہل بدعت کی روایت مقبول ہوتی ہے اگر وہ ثقہ و صدوق ہو۔چند حوالے ملاحظہ فرمائیں:
امام بخاری ایوب بن عائذ سے روایت لائے ہیںجبکہ اس کے بارے میں امام بخاری لکھتے ہیں کہ وہ ارجاء کے قائل تھے اور وہ صدوق (بہت سچے)تھے (الضعفاء ۲۴)جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام بخاری کے نزدیک ایوب بن عائذ صدوق یعنی حسن الحدیث یا صحیح الحدیث تھے لہٰذا ارجاء کی وجہ سے ان کی روایت کو ضعیف قرار دینا امام بخاری کے نزدیک بھی غلط ہے ۔
اس کےعلاوہ بھی ایک شرط یہ ہےکہ وہ حدیث اس بدعت کی طرف دعو ت دنیےوالی نہ ہوجس کاوہ داعی ہے۔
 
Top