• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل بدعت کے شبہات کا رد

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اہل بدعت کے شبہات کا رد

مولف بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ


بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ


اسلام اللہ تعالی کا پسندیدہ مکمل اور آخری دین ہے جس نے اپنی آمد کے ساتھ ہی تمام ادیان باطلہ کو واضح دلائل کی بنیاد پر شکست دی جس وقت اسلام آیا اس وقت دنیا میں یہودیت، نصرانیت، مجوسیت اور بدھ مت چار بڑے مذاہب تھے ان میں سے عرب میں یہود اور بتوں کے پیروکار "کفار قریش" کی اکثریت تھی۔ کفار قریش دین ابراہیمی کے دعویدار تھے۔ ان مذاہب میں سے کفار کے پاس باقاعدہ کوئی دین نہ تھا صرق اسلاف کی روایات تھیں اس طرح مجوسی زرتشت کے افکار پر کاربند تھے جبکہ یہود ونصاری کے پاس توراۃ و انجیل کے نام پر تحریف شدہ دین موجود تھا جو کہ کبھی وحی پر مبنی رہا تھا۔ اسلام کا بیک وقت ان چاروں مذاہب سے ٹکراو ہوا اور جب دلائل کے میدان میں اسلام سرخرو ہوا تو ان مذاہب کے پیروکاروں نے اپنے ادیان کی مغلوبیت کا بدلہ مختلف انداز سے لیا۔
مثلا کفار قریش نے اپنی عادات کے مطابق اعلان جنگ کیا اور تلوار اٹھا کر میدان میں آگئے۔ چونکہ انکی فطرت میں منافقت نہیں تھی چنانچہ دین حق سے شکست کھائی تو اسے کھلے دل سے تسلیم کیا اور پھر یہی دشمن، اسلام کے سپاہی و نگہبان بن گئے۔
جبکہ یہود و نصاری نے اتحاد کرلیا اور نصاری کی قلت کی وجہ سے وہ یہود کے تابع رہے گویا اسلام دشمنی میں یک مذہب بن گئے۔ انہوں نے اور مجوسیوں نے اسلام کی وسعت اور سربکف جانثاروں کی کثرت کی وجہ سے کفارعرب کیطرح مقابلہ کرنے کی بجائے بزدل قوموں کی طرح سازشوں کا عمل شروع کردیا۔ یہودیوں نے اپنی فطرت کے مطابق دین اسلام میں بھی تحریف کی راہ نکالنے کی کوشش کی اور اسرائیلیات کے جھوٹے قصے اسلامی تعلیمات کے ساتھ غلط ملط کئے۔ مجوس فارس نے اپنے دجل و فریب سے کام لے کر اپنے نظریات و موضوع و خود ساختہ روایات کے ذریعے اسلام میں داخل کرنے کی کامیاب کوشش کی۔
یہود و مجوس کے گٹھ جوڑ اور دسیسہ کاریوں کے نتیجے میں واضح اور بیّن دین اسلام کے مساوی ایک نیا مذہب تصوف کے نام سے وجود میں آیا۔
تصوف کیا ہے؟ اسکی تاریخ، صحیح تعریف اور ماخذ کیا ہے؟ اس بارہ میں تو اہل تصوف کو بھی صحیح طرح کچھ معلوم نہیں ہے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تصوف کی مختلف تعریفات
ابو ریحان الیرونی نے کتاب الہند میں لکھا ہے کہ
تصوف اصل "س" سے تھا یعنی سوف جس کا معنی یونانی زبان میں حکمت کے ہیں پھر استعمال کے بعد یہ "ص" سے صوف بنا۔
( صوفی بمعنی حکیم و دانا- الغزالی 260۔)
"نوالڈکے" نے اس اشتقاق کو رد کیا ہے کہ
یونانی زبان میں ایسا کوئی لفظ نہیں جسے سوفوس اور صوفی کی درمیانی صورت کہا جاسکے۔
(اردہ معارف اسلامیہ جلد 7 صفہ418 )۔
اسامی محققین صوفیاء نے تصوف کو صوف سے مشتق مانا ہے۔ (اسلامی اخلاق اور تصوف ص 169۔)
"اگر یہ اسلامی جیز ہوتی تو قرآن یا حدیث، صحابہ، تابعین سے اسکی واضح تعریف منقول ہوتی۔ بقول علامہ اقبال: اس میں ذرا شک نہیں کہ تصوف کا وجود ہی سرزمین اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے جس نے عجمیوں کی دماغی آب و ہوا میں پرورش پائی ہے۔
(سید سلمان ندوی کے نام خط1917ء)
بعض اہل قلم نے تصوف کے بارے میں کچھ اسطرح اظہارخیال کیا ہے:
حقیقی تصوف یہودیت سے شروع ہوا ہے جب ان کے مذہبی پیشواوں نے اسکندریہ میں یونانی فلسفہ کا مطالعہ کیا اور وہاں اس فلسفہ اور اپنے معتقدات کے امتزاج سے ایک نیا مذہب ایجاد کیا۔ فیلو اس مذہب کا امام ہے جبکہ تصوف کا ابولاباء دراصل افلاطون کو کہا جاسکتا ہے۔ جس نے سب سے پہلے یہ تصور پیش کیا تھا کہ اس عالم محسوس کے اوپر ایک اور عالم مثال ہے وہ عالم حقیقی ہے اور یہ عالم صرف اسکا پرتو ہے۔ افلاطون کے اس فلسفہ کی نشاۃ ثانیہ بعد کے فلاسفروں کے ہاتھوں ہوئی جن کا امام فلاطینس تھا ان میں سے ایک فلاسفر نے ہندوستان کا سفر کیا اور وہاں کے برہمنوں سے ہندی تصوف سیکھا۔ فلاطینس رومی لشکر کے ساتھ ایران گیا وہاں کے مغوں سے مجوسی تصوف کی تعلیم حاصل کی اسکے بعد ان فلاسفروں نے فلاطینس کی زیر سرکردگی افلاطون کے فلسفہ قدیم کو ان ہندی اور ایرانی تصورات کے ساتھ ملا کر ایک جدید قالب میں ڈھالا۔ اسکا نام نوفلاطونی فلسفہ ہے اس فلسفہ کا مرکز اسکندریہ تھا جہاں فیلو کا یہودی تصوف اس سے متاثر ہوا۔ اسکا سب سے پہلا تاثر یہ پیدا ہوا کہ تورات کی شریعت معرفت اور حقیقت میں بدل گئی۔
یہودیوں کی ایک اہم کتاب زہار میں لکھا ہے:
تورات کی روح درحقیقت اس کے باطنی معنوں میں پوشیدہ ہے۔ انسان ہر مقام پر خدا کا جلوہ دیکھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ تورات کے ان باطنی معانی کا راز پا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قارئین محترم
یہی بات اسلامی تصوف کے دعویدار بھی کرتے ہیں۔
قدر آفاقی کی کتاب اسلامی اخلاق اور تصوف صفحہ 168 پر لکھا ہے:
بخلاف اسکے تصوف میں اس مسئلہ کا علم مشاہدہ اور کشف کی حیثیت سے ہوتا ہے یعنی صوفی کو چاروں طرف خدا ہی نظر آتا ہے اس پر خشوع و خضوع ، ہیبت، خوف و ادب و اتقیاد کی ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے جو کسی طرح علم ظاہری سے پیدا نہیں ہوسکتی۔
وہی خدا کو دیکھنے اور باطنی علوم کی باتیں دونوں تعلیموں میں یکساں ہیں ان باطنی معانی کی تلاش کی تردید و مذمت میں علامہ اقبال نے اپنے خط میں لکھا ہے:
حقیقت یہ ہے کہ کسی مذہب یا قوم کے دستورالعمل و شعار میں باطنی معانی تلاش کرنا یا باطنی مفہوم پیدا کرنا اصل میں اس دستورالعمل کو مسخ کر دینا ہے یہ ایک نہایت (subtel) طریق تنسیخ کا ہے اور یہ طریق وہی قومیں اختیاریا ایجاد کرسکتی ہیں جن کی فطرت کوسفندی ہو، شعرائے عجم میں بیشتر وہ شعراء ہیں جو اپنے فطری میلان کے باعث وجودی فلسفہ کی طرف مائل تھے اسلام سے پہلے بھی ایرانی قوم میں میلان طبیعت موجود تھا اگرچہ اسلام نے کچھ عرصہ تک اسکی نشوونما نہ ہونے دی تاہم وقت پاکر ایران کا آبائی اور طبعی مزاق اچھی طرح سے ظاہر ہوا یا بالفاظ دیگر مسلمانوں میں ایک ایسے لڑیچر کی بنیاد پڑی جس کی بناء وحدۃ الوجود تھی ان شعراء نے نہایت عجیب و غریب اور بظاہر دلفریب طریقوں سے شعائراسلام کی تروید تنسیخ کی
(اقبال نامہ ج 1 صفحہ 35 ۔)
جس چیز کو علامہ اقبال نے نسخ قرار دیا اور جسے ہم نے ان صفحات کے شروع میں متوازی دین کہا ہے وہ کوئی مبالغہ آمیز بھی نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
شریعت اور تصوف کا فرق

1- تصوف میں شریعت نہیں "جس کو اللہ تعالی نے شرع لکم من الدین ما وصی بہ۔۔۔۔۔کہا ہے" بلکہ طریقت ہے۔
شریعت اور طریقت چیز کیا ہے؟
کہتے ہیں دراصل اس کائنات میں ہر ایک چیز کی مانند بندگی کے بھی دو رخ ہیں، ایک ظاہر دوسرا باطن۔ ظاہر میں بندگی نماز، روزہ، حج، زکوۃ کی ادائیگی سے پوری ہوجاتی ہے مگر باطن میں بندگی کا تعلق ان ارکان کی حقیقت سے ہے اس میں ایمان، محبت، خلو، خوف خدا، رضائے الہی، توکل، اور امیر غیب و شہود کی تعلیم و تربیت اور اس پر عمل سے واسطہ پڑتا ہے۔
(اسلامی اخلاق اور تصوف صفحہ 184)
اب قرآن و حدیث میں اول الذکر کا حکم ہے ثانی الذکر متوازی دین ہے یا نیہں ؟ یہ ظاہر شریعت کی تنسیخ یا تردید نہیں ہے؟
2-تصوف کا علم اس طریقہ سے اخذ نہیں کیا جاتا جس طریقہ سے اسلامی شریعت کا علم حاصل ہوتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات قرآن و حدیث میں موجود ہیں اور ان کے حصول کیلئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ "فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون، النحل:43 ترجمہ
"پس تم پوچھ لیا کرو علم والے لوگوں سے اگر تم "کوئی مسئلہ یا بات" نہیں جانتے"۔
اور یہ بھی ارشاد ہے کہ
تم میں سے ایک جماعت ایسی ہو جو دین کا علم حاصل کرے اور پھر واپس آکر اپنی قوم کوخبردار کرے۔
التوبہ: 122۔
جبکہ تصوف کا طریقہ حصول اس طرح ہے۔
تصوف ایک مخصوص وسیع اور مشکل ترین علم ہے اسکی بنیاد تمام تر احساس و مشاہدہ پر ہے اور احساس و مشاہدہ کا تعلق عمل اور تجربہ سے ہے۔۔۔۔ چنانچہ یہ علم، علم سفینہ نہیں علم سینہ کی تعریف میں آتا ہے یعنی بات سینہ بہ سینہ چلتی ہے اور انتہائی رازداری اور پوری احتیاط کے ساتھ حقائق پیر کے قلب سے مرید کے قلب کی جانب منتقل ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس میں استاد کامل یعنی پیر طریقت کی رہنمائی اور اسکی کامل اتباع نہایت ضروری ہے اور اسکے لئے برسوں کی کٹھن، صبر آزما مسلسل ریاضت، لگن اور یکسوئی درکارہے۔
(اسلامی اخلاق اور تصوف صفحہ 184)

اس عبارت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تمام اصطلاحات فارسی ہیں خصوصا پیر، اسی طرح پیر کی اتباع ضروری ہے "جبکہ اسلام میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع لازمی قرار دی گئی ہے"۔ اسکا علم پیرکے قلب سے مرید کے قلب پر منتقل ہوتا ہے.
جبکہ دین اسلام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے باقاعدہ پڑھتے تھے اور آپ پڑھاتے، لکھواتے تھے۔ قرآن، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا جبکہ تصوف علم سینہ ہے۔ قرآن کو اللہ نے آسان کیا ہے جبکہ تصوف کو مشکل بنادیا گیا ہے

بقول اقبال "یہ ایرانیوں کی کوشش ہے"
اسکا ثبوت اصطلاحات تصوف سے بخوبی ہوسکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اہل مراتب کے اسماء گرامی

سب نقیبوں کا نام علی ہوتا ہے
اور نجیبوں کا حسن
اور سات اخیار کا نام حسین ہوتا ہے
اور عمائد چار ہیں
ان کا نام محمد ہوتا ہے
ایک غوث ہوتا ہے اس کا نام عبداللہ ہوتا ہے
جب غوث فوت ہوجاتا ہے تو عمائدین میں سے کسی کو غوث کا مقام مل جاتا ہے
اور جب عمائدین میں سے کوئی مرجاتا ہے تو اسکی کرسی نجیب لے لیتا ہے
اور نجیب فوت ہوجانے پر کسی نقیب کو ترقی مل جاتی ہے۔ (اسلامی اخلاق اور تصوف صفحہ ص 197)

اوپر والی ترتیب سے کس طرح شیعت مترشح ہے

قطب کے مراتب کیا ہیں ملاحظہ فرمائیں:
ظاہری نظام کی طرح اللہ تعالی نے ایک باطنی نظام بھی مقرر فرمایا ہے۔ قرآن حکیم میں اس نظام کا سراغ موسی اور خضر علیہ السلام کے واقعہ سے ملتا ہے کہ موسی علیہ السلام وقت کے پیغمبر تھے لیکن وہ اللہ کی مشیت سے چلنے والے باطنی نظام سے حجاب میں تھے۔ چنانچہ انکی درخواست پر خضر علیہ السلام سے ان کی ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ کشف المحجوب میں اس نظام کے اجمالی خاکہ کا بیان آچکا ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

قطبوں کا بیان



اقطاب میں قطب مولا اور غوث بھی ہوتا ہے
تمام قطبوں اور اولیاء سے افضل قطب حقیقی ہوتا ہے۔
قطب مدار ایک شخص ہوتا ہے
تمام زمانوں اور وقتوں میں دنیا میں اللہ تعالی کی نظر کا موضع ہے اور اسکا مرتبہ اسرافیل علیہ السلام جیسا ہے۔
قطب کبری کا مرتبہ قطب الاقطاب کا ہوتا ہے
اور وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے باطن پر ہوتا ہے
اور وہ خاتم ولایت ہوتا ہے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبوۃ تھے۔

کیسے نبوت کے مقابلہ پر ولایت رکھی گئی ہے "تمام اصطلاحات غیر قرآنی ہیں"
شیخ داود قدس سرہ نے لکھا ہے کہ قطب عالم ہرزمانے میں اور دور میں ایک ہی ہوتا ہے
اور دنیا کی تما علوی اور سفلی مخلوق قطب عالم کے وجود سے قائم ہوتی ہے ہیں
"جبکہ قرآن کہتا ہے کہ اللہ نے تمام عالم کو تھام رکھا ہے"
اور اس پر حق تعالی کا فیض بے واسطہ ہوتا ہے۔
اسکے دو وزیر ہوتے ہیں
قطب عالم کا اصل نام چاہے کچھ بھی ہو وہ عبداللہ ہو جاتا ہے۔
قطب مدار کو تہہ زمین سے عرش تک تصرف حاصل ہوتا ہے
جبکہ فرد کو تہہ زمین سے عرش تک تحقیق حاصل ہے۔ ( اسلامی اخلاق اور تصوف 191-193 )

تصوف کا شیعیت سے تعلق کتنا ہے اسکا اندازہ اس سے بھی لگائیں۔
کہتے ہیں فرد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے قلب پر ہوتے ہیں اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر علی رضی اللہ ہیں (اسلامی اخلاق اور تصوف صفحہ 194)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ابدالوں کا بیان

ابدالوں میں سے سات مخصوص ہیں۔
یہ سفر میں رہتے ہیں۔ فلک کے خیمہ کی رسیوں کے لئے ابدال اور ایک قطب ہیں۔
(اسلامی اخلاق اور تصوف صفحہ 195)
نعوذ باللہ من ذالک۔
جس طرح ان تمام خرافات کے لئے کوئی بھی قرآنی آیت یا صحیح حدیث نہیں ہے اسی طرح ان کی دیگر اصطلاحات بھی دین اسلام سے کہیں ثابت نہیں ہیں۔
مثلا
بقا و فنا،
حال اور وقت،
مقام وتمکین،
انس و ہیبت،
مہر و لطف،
علم الیقین،
عین الیقین،
حق الیقین،
نفی وثبات،
مسامرہ دثہ،
شریعت و حقیقت
اور علم و معرفت۔
ان تمام اصطلاحات کے خصوصی مفاہیم ہیں جو مختلف صوفیاء سے منقول ہیں قرآن و حدیث کا کوئی حوالہ نہیں ہے صرف مشائخ طریقت یا علی ہجویری یا داود وغیرہ کی بنائی ہوئی ہیں اسی طرح کشف المحجوب میں دیگر اصطلاحات بھی ہیں جو اسلام کی کسی اصطلاح سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
مثلا
الخاصر،
الواقع،
الاختیار،
الامتحان،
الابتلا،
التجلی،
اشرود،
القصود،
الاصیطناع،
الاصطلام،
العین،
الشرب
اور الذوق وغیرہ۔
ان سے کی تفصیل کے لئے ایک ضنحیم کتاب درکار ہو گی جو کہ اس مختصر میں ناممکن ہے بے شمار خرافات ہیں جن سے کتب تصوف بھری پڑی ہیں۔
اب ذرا تصوف کے شیخ اکبر کی چند باتیں اور پھر تصوف و صوفیاء کے چند کارناموں پر علامہ ابن جوزی رحمہ کی تنقید آگے آئے گی، ان شاء اللہ۔
تصوف میں ہسپانیہ کے مشھور صوفی محی الدین ابن عربی کو شیخ اکبر کہا جاتا ہے۔ انکی فتوحات مکیہ اس فصوص الحکم تصوف کا عروۃ الوثقی کہلاتی ہیں۔
جبکہ
" قرآن مجید میں اللہ تعالی نے قرآن کو حبل اللہ اور عروۃ الوثقی کہا ہے"۔
فصوص الحکم کے متعلق علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
جہاں تک مجھے علم ہے فصوص الحکم میں سوائے الحاد و کفر کے کچھ نہیں ہے۔
(اقبال نامہ ص44 )
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فصوص الحکم کیا ہے

اس فصوص الحکم کے بارہ میں مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ نے تفصیل سے لکھا ہے۔ اب فصوص الحکم کی داستان بھی سن لیجئے۔
فصوص، فص بمعنی نگینہ کی جمع ہے اور فصوص الحکم بمعنی دانائی کے نگینے۔ یہ کل 27 فص یا نگینے ہیں۔ ہر ایک فص کو قرآن کریم میں مذکور 27 انبیاء سے منسوب کیا گیا ہے۔
ابن عربی کا دعوی ہے کہ
ان فصوص کا علم مجھے مشاہدہ سے حاصل ہوا ہے میں نے اسے لوح محفوظ سے لیا۔ بعد میں 627ہ کے محرم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دمشق کے شہر محروسہ میں دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔ آپ نے مجھ سے فرمایا یہ کتاب فصوص الحکم ہے اس کو محفوظ کرو اور لوگوں کے سامنے پیش کرو تاکہ انہیں فائدہ ہو چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اسے لوگوں میں پھیلانے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ اور اس میں کمی بیشی کرنا میرے لئے ممکن نہ رہا۔
"فصوص 47-58"

آپ بھی اس کتاب کے مندرجات سے مستفید ہونا پسند کریں گے؟
اس کتاب میں ابن عربی نے قرآن کی تعلیمات کی تحریف کرکے اس کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے اور وحدۃ الوجود کی عینک جڑھا کر ہر واقعہ پر تبصرہ فرماتے ہیں۔
مثلا، کہتے ہیں کہ
قوم ھود بھی صراط مستقیم پر تھی۔
فرعون کامل ایمان تھا اور قوم نوح بھی۔
اللہ پاک نے قوم نوح اور فرعون کو ان کے نیک اعمال کا بدلہ دیتے ہوئے وحدۃ الوجود کے سمندر میں غرق کیا اور قوم ھود کو عشق الہی کی آگ میں داخل کیا تاکہ اسے عیش و آرام حاصل ہو۔
ہارون علیہ السلام سے غلطی یہ ہوئی تھی کہ انہوں نے بنی اسرائیل کو بچھڑے کی عبادت سے منع کیا حالانکہ بچھڑا بھی خدا تھا یا خدا کا عکس۔
نوح علیہ السلام نے بھی اچھا کردار ادا کیا کہ جو بت پرستی سے باز نہ آئے کیونکہ یہ تمام بت خدا ہی کے مظاہر تھے جہنم عذاب کی جگہ نہیں بلکہ اس میں حلاوت و شیرینی موجو ہے
"امام ابن تیمیہ از کوکن عمری"

جاری....
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ابن العربی اور علمائے حق

کیلانی صاحب لکھتے ہیں کہ
ہم یہ تو بتلاچکے ہیں کہ یہ عقائد وحدت و حلول دین طریقت یا تصوف کی جان ہیں تو جب سے تصوف اسلام میں داخل ہوا یہ عقائد بھی شامل ہوتے گئے پھر جسطرح حسین بن منصور نے کھل کر عقیدہ حلول کو پیش کرنے اور اپنے خدا ہونے کا دعوی کیا اور مقتول ہوا بعینہ یہی صورت شیخ اکبر کی تھی چونکہ عقیدہ وحدت الوجود، قرآن کی تعلیم سے براہ راست متصادم تھا اس لئے علمائے دین مخالف ہوگئے چنانچہ یہ مصر پہنچے تو علمائے کرام نے انکے کفر کا فتوی دیا اور سلطان مصر نے ان کے قتل کا حکم دے دیا۔ یہ بات ابن عربی کو بھی معلوم ہو گئی تو چپکے سے راہ فرار اختیار کرکے دمشق پہنچ گئے۔
(شریعت و طریقت ص87)
اس ابن عربی جسے وقت کے علماء نے کافر قرار دیا اور اسکی کتاب کو قرآن سے متصادم قرار دیا ہے
اسکے بارے میں اشرف علی تھانوی کیا کہتے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔ چنانچہ دور متاخرین میں سے اشرف علی تھانوی نے ایک کتاب "التنبیہ الطربی فی تنزیہ العربی" لکھ کر یہی خدمت انجام دی یعنی ابن عربی کا دفاع و تنزیہ۔ اشرف علی تھانوی اس کتاب کو فصوص الحکم کی شرح کے طور پر لکھنا چاہتے تھے۔ لکھتے ہیں
اس شرح لکھنے کے زمانہ میں مجھ کو جو توحش و اتقباض ان مضامین سے ہوتا تھا عمر بھر یاد رہے گا بعض مقامات پر قلب کو بے حد تکلیف ہوتی تھی۔ چنانچہ کہیں کہیں اسکا ذکر کیا ہے اور یہ وجہ تھی اس شرح کو چھوڑ دینے کی۔
مگرپھر بھی اشرف علی تھانوی نے ابن عربی کی تنزیبہ و دفاع میں مستقل کتاب لکھ دی
(تجدید تصوف ص 408)
فصوص الحکم کو بعض لوگ قرآن کی طرح سبقا سبقا پڑھتے تھے۔ جیسے عفیف الدین تلسمانی، یہی تلسمانی کہتا ہے
قرآن میں توحید کہاں، وہ تو پورے کا پورا شرک سے بھرا ہوا ہے جو شخص اسکی اتباع کرے گا وہ کبھی توحید کے بلند مرتبے پر نہیں پہنچ سکتا-
(امام ابن تیمیہ از کوکن عمری ص321)
اعاذنا اللہ من ھذہ الھفوات-
تلسمانی کی توحید کیا ہے یعنی وحدۃ الوجود، اس کی مثال ملاحظہ فرمائیں۔
تلسمانی کے شاگرد شیخ کمال الدین نے ایک مرتبہ اعتراض کیا کہ اگر عالم کی تمام چیزیں ایک ہیں جیسا کہ تمہارا عقیدہ ہے تو پھر تمہارے نزدیک جورو، بیٹی، اور ایک اجنبی عورت میں کیا فرق ہے؟ تلسمانی نے جواب دیا ہمارے ہاں کوئی فرق نہیں چونکہ محجوبوں "اہل شریعت " نے انکو حرام قرار دیا ہے تو ہم بھی کہہ دیتے ہیں کہ یہ چیزیں تم پر حرام ہیں ورنہ ہم پر کوئی چیز حرام نہیں۔
( امام ابن تیمیہ از کوکن عمری ص321)۔
یہ ہے وحدت الوجود جس میں ماں، بیٹی اور اجنبی عورت سب جائز ہیں۔ اس عقیدہ کے بارہ میں دیوبند کے مشہور صوفی عالم امداد اللہ مہاجر مکی کہتے ہیں۔
نکتہ شناسا مسئلہ وحدالوجود حق و صحیح ہے اس مسئلہ میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ فقیر و مشائخ فقیر اور جن لوگوں نے فقیر سے بیعت کی ہے سب کا اعتقاد یہی ہے۔
(شمائم امدادیہ ص32)
یہی عقیدہ احمد رضا خان بریلوی کا ہے۔

سوال : حضرت منصور تبریزو سرمد نے ایسے الفاظ کہے جن سے خدائی ثابت ہے۔ لیکن وہ ولی اللہ گنے جاتے ہیں اور فرعون، شداد، ہامان و نمرود نے دعوی کیا تھا تومخلد فی النار ہوئے اس کی وجہ کیا ہے؟
جواب: ان کافروں نے خود کہا اور ملعون ہوئے اور انہوں نے خود نہ کہا اس نے کہا جسے کہنا شایان شان ہے اور آواز بھی انہی سے مسموع ہوئی جسے حضرت موسی علیہ السلام نے درخت سے سنا "انی انا اللہ " میں ہوں رب اللہ سارے جہان کا کیا درخت نے کہا تھا حاشا بلکہ اللہ نے یونہی یہ حضرات اس وقت شجر موسی ہوتے ہیں۔

(احکام شریعت ص 93)-
یہ تو تھے تین حنفی المسلک علماء کے خیالات وحدۃ الشھود اور ابن العربی کے بارے میں۔ اب حنفی عالم شرح عقیدہ الطحاویہ کے مصنف علامہ ابن العز حنفی کی رائے، ابن عربی اور اس کے متبعین و حمایتیوں سے متعلق ترجمہ :
ان میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ انبیاء اور رسل اللہ تعالی کا علم خاتم الاولیاء کے طاق میں سے لیتے ہیں اور خود ہی خاتم الاولیاء کا دعوی کرتے ہیں۔
(ص 492)۔
جب ابن عربی نے دیکھا کہ شریعت میں تحریف ممکن نہیں تو یہ کہا کہ نبوت تو ختم ہوگئی مگر ولایت جاری ہے اور اپنے لئے اس ولایت کا دعوی کیا۔ جس کو نبوت سے بڑھکرکہتے ہیں اور اس درجہ پر خود کو فائز کیا جس پر انبیاء و رسل بھی نہیں۔ نبی اور رسل انکے مرتبہ سے مستفید ہوتے ہیں جیسا کہ ابن عربی کا شعر ہے۔
" نبوت کا مقام برزخ ہے یعنی رسولوں سے اوپر ولایت کے نیچے"
یہ شریعت کو الٹنے کے مترادف ہے ابن عربی نے ولایت کا محل بھی قرار دیا ہے جیسا کہ نبی علیہ السلام نے نبوت کی عمارت میں ایک خود کو ایک اینٹ قرار دیا اسی طرح ابن عربی نے خود کو ولایت کی عمارت کا آخری اینٹ قرار دیا۔ صرف یہ فرق رکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاندی کے اینٹ میں اور خود کو سونے کی اینٹ قرار دیا ہے "جس کا ظاہر و باطن دونوں بہتر" اس طرح خود کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر قرار دیا اس سے بڑھ کر کون کافر ہوسکتا ہے؟ جس کے اقوال ایسے ہوں اسکا کفر موجود ہے "ص493"۔
ابن عربی کا کفر ان لوگوں کے کفر سے بڑھ کر ہے جنہوں نے کہا تھا کہ" لَن نُّؤْمِنَ حَتَّىٰ نُؤْتَىٰ مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّـهِ : انعام 123
لیکن ابن عربی اور اسکے متبعین و امثال منافق زنادقہ اتحادیہ ہیں جو جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔
(ص494)
یہ تھا فتوی اس عالم کا جنکی لکھی ہوئی عقیدہ کی کتاب تمام احناف میں مسلم ہے مگر احمد رضا خان اسکی حمایت کرتے ہیں۔ اشرف علی تھانوی انکی تنزیہ و توصیف میں کتابیں لکھتے ہیں اور امداد اللہ مہاجر مکی انکے نظریہ کو حق قرار دیتے ہیں۔ تصوف میں حلول کا عقیدہ بھی مسلم ہے
اسکے بارے میں کیلانی صاحب فرماتے ہیں۔ خدا کے کسی انسان کے جسم میں حلول کر جانے کا عقیدہ یہود و نصاری میں بھی پایا جاتا تھا۔ وقالت الیہود عزیرابن اللہ وقالت النصاری المسیح ابن اللہ۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سینٹ پال مشہور فلسفی صوفی کا قول

ہم ذات باری تعالی میں مسلسل تحلیل ہوتے رہتے ہیں جب ایک شے دوسرے میں مدغم ہوجائے تو دونوں کے درمیان کوئی امتیاز باقی نہیں رہتا۔ میں بھی خدا میں تحلیل ہورہا ہوں اور وہ ذات برحق مجھ سے ہم آہنگ ہورہی ہے۔ اب مجھ میں اور خالق کائنات میں کوئی امتیاز باقی نہیں رہا۔ اب ہم دونوں ایک ہی ہیں۔ اس قول سے حلول اور وحدۃ الوجود کس طرح مترشح ہورہا ہے۔
صوفی عبدالکریم جیلی کا تجزیہ

سینٹ پال عیسائی کی طرح ایک صوفی عبدالکریم جیلی حلول کے متعلق اپنا ذاتی تجربہ ان الفاظ میں بیان کرتا ہے
میں نے اپنا وجود کھودیا ہے پھر وہ (یعنی اللہ) میری طرف سے مجھ میں قائم مقام ہوا۔ یہ عوض جلیل القدر تھا بلکہ بعینہ میں ہی تھا پس میں وہ تھا اور وہ میں تھا وجود منفرد تھا جس کے لئے کوئی جھگڑنے والا نہیں تھا میں اس کے ساتھ اس میں باقی رہا۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنی چشم حقیقت سے اپنے آپ کو حق دیکھا
(انسان کامل ص108)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ہندوستان میں بھی یہ نظریات قدیم سے پائے جاتے ہیں۔ ہندووں میں ایسے انسان جو جس کے بدن میں خدا اتر آتا ہے اور اوتار کہتے ہیں۔ رام چندر جی اور کرشن ان کے ایسے ہی اوتار ہیں جنہیں یہ لوگ خدائی صفات کے حامل قرار دیتے ہیں اور مسلمانوں میں اس عقیدہ کی باز گشت ان الفاظ میں سنائی دیتی ہے۔

وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہوکر​
اتر پڑا مدینے میں مصطفٰی ہوکر​
اسی طرح دوسرا شعر ہے۔

اپنا اللہ میاں نے ہند میں نام​
رکھ لیا خواجہ غریب نواز​
 
Top