• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل بیت کون ؟ رافضی اعتراض اور سنی جواب

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
(حيات و خدمات مولانا سلطان محمود محدث جلالپوری رحمہ اللہ ص 54، 55از شیخ الحدیث رفیق أثری حفظہ اللہ میں یہ واقعہ انہوں نے محدث جلالپوری کے اساتذہ کے ضمن میں ان کے شیخ بلکہ شیخ عرب وعجم محدث عبد الحق ہاشمی رحمہ اللہ کے زمانہ طالب علمی کے حوالے سےبیان کیا ہے ۔ )

رفیق اثری صاحب حفظہ اللہ لکھتے ہیں :

’’ایک شخص جہاز جیونڑاں تھے انہوں نے ایک مجلس میں یہ آیت پڑھی :
إنما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس أہل البیت و یطہرکم تطہیرا
اور شیخ محترم رحمہ اللہ سے کہا ( جبکہ وہ تعلیم حاصل کر رہے تھے ) اس کے مصداق وہ ہوسکتے ہیں جن میں مرد شامل ہوں اور وہ ہیں علی ، فاطمہ ، حسن ،حسین رضی اللہ عنہم ۔ شیخ محترم رحمہ اللہ نے فرمایا دیکھیے جناب ان آیات مبارکہ میں بائیس ضمیریں ہیں جو جمع مؤنث مخاطبات کی ہیں اور ان آیات میں تین '' نداء '' ہیں ۔ جن میں دو '' نداء '' ازواج مطہرات سے متعلق ہیں ۔
اس سیاق و سباق سے واضح ہوتاہے کہ روئے سخن ازواج مطہرات کی طرف ہے اور ان سب آیات میں ایسے احکام دیے گئے ہیں جو حصول تطہیر کا سبب بن سکتے ہیں ۔ اس سے واضح ہوتا ہےکہ اس اعزاز کی اصل حقدار ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ البتہ اس جملہ میں ضمیر مذکر مخاطبین وارد ہے تو عرض ہے کہ یہ انداز تخاطب قرآن پاک میں دیگر مواقع پر بھی بیوی کے لئے آیا ہے سورہ ہود میں ہے :
أتعجبين من أمرالله رحمة الله وبركاته عليكم أهل البيت إنه حميد مجيد
'' کیا آپ اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہیں اے اہل بیت ! تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکات ہیں وہ یقینا تعریف والا اور بزرگی والا ہے ''
اس خطاب میں حضرت إبراہیم کی زوجہ محترمہ مراد ہیں اس میں '' علیکم '' ضمیر مذکر ہے اس کی دو وجوہ ہیں :
1۔ پہلے خطاب کا تعلق زوجہ سے ہے اس لئے ضمیر مؤنث ہے اور دوسرے میں ابراہیم علیہ السلام بھی شریک ہیں ، تغلیب مذکر کی وجہ سے ضمیر مذکر ہے ۔
2۔ جب کسی عورت سےخطاب ہو اور اس خطاب میں احترام مقصود ہو تو واحد مؤنث کے لئے بھی جمع مذکر کی ضمیر سے خطاب کیا جاتا ہے ، عرب شعراء کے کلام میں اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں ایک حماسی شاعر جعفر الحارثی کہتا ہے :


عجبت لمسراها وأنى تخلصت إلي وباب السجن دوني مغلق
ألمّت فحيّت ثم قامت فودعت فلما تولت كادت النفس تزهق
فلا تحسبي أني تخشعت بعدكم لشيئ ولا أني من الموت أفرق


الخ .....
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
چند دن پہلے ایک شیعہ (ایران کی کسی یونیورسٹی میں کہتا تھا میں استاذ ہوں ) سے ملاقات ہوئی وہ بھاگ بھاگ کر ازواج مطہرات کے حوالے سے اس مسئلہ پر بات کرنے کے لیےبڑا بےچین تھا ۔
وہی ہوا اس نے ’’ عنکم ‘‘ کی ضمیر والا اعتراض کردیا ۔ تو میں نے یہی شیخ ابو محمد عبد الحق ہاشمی رحمہ اللہ کے جواب میں موجود سورہ ہود کی اس کو آیت دکھائی تھی خاموش ہوگیا اور کہنے لگا میں عام آدمی ہوں اپنےعلماء سےجواب پوچھوں گا اور یہ آیت نمبر نوٹ کر کے لے گیا ۔
 
شمولیت
اکتوبر 31، 2013
پیغامات
85
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
28
اہل بیت میں بنی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مظہرات شامل ہیں۔ان کے بغیر بیت کیسے مکمل ہو سکتا ہے۔فاطمہ،علی ،حسن اور حسین رضوان اللہ علیہ اجمعین بھی شامل ہیں۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
إنما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس أہل البیت و یطہرکم تطہیرا
اس آیت مبارکہ کی جو عملی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی ہے اس کے مطابق پنج تن پاک کو اپنی چادر میں لے کر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی اس پر ام امومینن نے درخواست کی کہ کیا میں بھی چادر میں آجاؤں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم اپنی جگہ پر رہو تم مقام خیر پر ہو یعنی ام مومینن کو ان کی درخواست کے باوجود اس آیت کی عملی تفسیر میں شامل نہیں فرمایا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس آیت میں جن اہل بیت کا ذکر ہے وہ صرف پانچ مقدس لوگ ہیں
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
إنما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس أہل البیت و یطہرکم تطہیرا
اس آیت مبارکہ کی جو عملی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی ہے اس کے مطابق پنج تن پاک کو اپنی چادر میں لے کر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی اس پر ام المومنین نے درخواست کی کہ کیا میں بھی چادر میں آجاؤں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم اپنی جگہ پر رہو تم مقام خیر پر ہو یعنی ام المومنین کو ان کی درخواست کے باوجود اس آیت کی عملی تفسیر میں شامل نہیں فرمایا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس آیت میں جن اہل بیت کا ذکر ہے وہ صرف پانچ مقدس لوگ ہیں
1۔ ان آیات کا سیاق و سباق بتاتا ہے کہ أمہات المؤمنین رضی اللہ عنہن اس میں شامل ہیں ۔ کسی عامی آدمی کو بھی ان آیات کا ترجمہ پڑھنے کے لیے کہا جائے تو اس کو بھی سمجھ آ جائے گی کہ یہاں اہل بیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں شامل ہیں ۔
اس پورے رکوع کو آپ اس آیت سے پہلے پڑھ لیں اس کے بعد پڑھ لیں سب کا اتفاق ہے کہ اس سے مراد امہات المؤمنین ہیں بلکہ یہی آیت اس کو شروع سے پڑھ لیں
و قرن فی بیوتکن ۔۔۔اس میں خطاب مؤنث کے صیغے کے ساتھ ہے ۔
اور پھر اس سے بعد والی آیت بھی واذکرن سے شروع ہورہی ہے جو خطاب جمع مؤنث کے لیے ہے ۔
جبکہ إنما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس أہل البیت و یطہرکم تطہیرا
میں یہ نکتہ ہے ۔ واللہ أعلم ۔ تاکہ امہات المؤمنین کے ساتھ دیگر اہل بیت کی شمولیت کا بھی امکان باقی رہے ۔ یہی وجہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی تو علی و فاطمہ حسن وحسین رضی اللہ عنہم اجمعین کو بطور خاص اہل بیت میں شامل کیا تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ سیاق سباق تو امہات المؤمنین کے لیے ہے یہ چار ہستیاں اس میں کیسے شامل ہیں ۔
اور امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن چونکہ اس سے پہلے بنص قرآن اس میں شامل تھیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ضرورت نہ سمجھی کیونکہ یہ تو ایک قسم کا تحصیل حاصل تھا ۔
اور ویسے بھی معروف بات ہے کہ اہل بیت کے واقعے والی اس حدیث میں یہ تو ذکر ہے کہ چار ہستیاں اہل بیت میں سے ہیں لیکن باقیوں کی نفی کہیں بھی نہیں ۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تو کہا تھا کہ یہ چار میرے اہل بیت ہے لیکن یہ نہیں کہا تھا کہ ان کے علاوہ اور کوئی اہل بیت میں سے نہیں ہے ۔

رہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کہنا کہ : انت علی خیر أنت علی مکانک ۔یعنی تم بھلائی پر ہو اور اپنی جگہ پر اس سے مراد یہی ہے کہ تم تو پہلے ہی اہل بیت میں سے ہو ۔
اگر مسئلہ یہ ہوتا کہ وہ اہل بیت میں سے نہیں تھیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو کہہ دیتے کہ نہیں تم اس مقام و مرتبے کا استحقاق نہیں رکھتی ۔

سیدھی سے بات ہے جب کسی کے گھر والوں کا پوچھا جاتا ہے تو اس میں آدمی کی بیوی یابیویاں شامل ہوتی ہیں ۔ بلکہ آج کل تو لوگ ’’ بچے ‘‘ بول کر بھی بیوی مراد لیتے ہیں ۔
خلاصہ :
جس کو آپ علمی تفسیر کہہ رہے ہیں اس میں چار کا اثبات ہے دیگر کی نفی نہیں ۔
قرآن مجید کے جس رکوع میں یہ آیت آئی دیگر قارئین کے لیے میں مکمل نقل کرتا ہوں کیونکہ یہ اتنا واضح مسئلہ ہے کہ گہرے فہم کی ضرورت نہیں مجرد پڑھنے سے حق بات معلوم ہوجاتی ہے ۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا (28) وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا (29) يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا (30) وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا (31) يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا (32) وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (33) وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا (34)
صرف اسی ایک آیت میں (جس کا آخری ایک ٹکڑا یہ ہے :
نَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا )
اللہ تعالی نے چھے دفعہ ایساخطاب کیا ہے جو صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہے ۔ جبکہ اس کے بعد صرف دو ضمیریں ایسی لائی گئی ہیں جس میں مردو عورت دونوں شامل ہوسکتے ہیں اور اس کے بعد پھر دو ضمیریں ایسی ہیں جو خالصتا عورتوں کے لیے ہیں ۔
لیکن اس کے باوجود اہل بیت میں سے امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن و أرضاہ کو نکالنے کی سعی لاحاصل کی جاتی ہے۔ اور وہ بھی ایسی دلیل کی بنیاد پر جس میں اس مسئلے پر (امہات المؤمنین کی نفی من اہل بیت ) سرے سے دلالت ہی نہیں ہے ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
1۔ ان آیات کا سیاق و سباق بتاتا ہے کہ أمہات المؤمنین رضی اللہ عنہن اس میں شامل ہیں ۔ کسی عامی آدمی کو بھی ان آیات کا ترجمہ پڑھنے کے لیے کہا جائے تو اس کو بھی سمجھ آ جائے گی کہ یہاں اہل بیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں شامل ہیں ۔
اس پورے رکوع کو آپ اس آیت سے پہلے پڑھ لیں اس کے بعد پڑھ لیں سب کا اتفاق ہے کہ اس سے مراد امہات المؤمنین ہیں بلکہ یہی آیت اس کو شروع سے پڑھ لیں
و قرن فی بیوتکن ۔۔۔اس میں خطاب مؤنث کے صیغے کے ساتھ ہے ۔
اور پھر اس سے بعد والی آیت بھی واذکرن سے شروع ہورہی ہے جو خطاب جمع مؤنث کے لیے ہے ۔
جبکہ إنما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس أہل البیت و یطہرکم تطہیرا
میں یہ نکتہ ہے ۔ واللہ أعلم ۔ تاکہ امہات المؤمنین کے ساتھ دیگر اہل بیت کی شمولیت کا بھی امکان باقی رہے ۔ یہی وجہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی تو علی و فاطمہ حسن وحسین رضی اللہ عنہم اجمعین کو بطور خاص اہل بیت میں شامل کیا تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ سیاق سباق تو امہات المؤمنین کے لیے ہے یہ چار ہستیاں اس میں کیسے شامل ہیں ۔
اور امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن چونکہ اس سے پہلے بنص قرآن اس میں شامل تھیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ضرورت نہ سمجھی کیونکہ یہ تو ایک قسم کا تحصیل حاصل تھا ۔
اور ویسے بھی معروف بات ہے کہ اہل بیت کے واقعے والی اس حدیث میں یہ تو ذکر ہے کہ چار ہستیاں اہل بیت میں سے ہیں لیکن باقیوں کی نفی کہیں بھی نہیں ۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تو کہا تھا کہ یہ چار میرے اہل بیت ہے لیکن یہ نہیں کہا تھا کہ ان کے علاوہ اور کوئی اہل بیت میں سے نہیں ہے ۔

رہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کہنا کہ : انت علی خیر أنت علی مکانک ۔یعنی تم بھلائی پر ہو اور اپنی جگہ پر اس سے مراد یہی ہے کہ تم تو پہلے ہی اہل بیت میں سے ہو ۔
اگر مسئلہ یہ ہوتا کہ وہ اہل بیت میں سے نہیں تھیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو کہہ دیتے کہ نہیں تم اس مقام و مرتبے کا استحقاق نہیں رکھتی ۔

سیدھی سے بات ہے جب کسی کے گھر والوں کا پوچھا جاتا ہے تو اس میں آدمی کی بیوی یابیویاں شامل ہوتی ہیں ۔ بلکہ آج کل تو لوگ ’’ بچے ‘‘ بول کر بھی بیوی مراد لیتے ہیں ۔
خلاصہ :
جس کو آپ علمی تفسیر کہہ رہے ہیں اس میں چار کا اثبات ہے دیگر کی نفی نہیں ۔
قرآن مجید کے جس رکوع میں یہ آیت آئی دیگر قارئین کے لیے میں مکمل نقل کرتا ہوں کیونکہ یہ اتنا واضح مسئلہ ہے کہ گہرے فہم کی ضرورت نہیں مجرد پڑھنے سے حق بات معلوم ہوجاتی ہے ۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا (28) وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا (29) يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا (30) وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا (31) يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا (32) وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (33) وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا (34)
صرف اسی ایک آیت میں (جس کا آخری ایک ٹکڑا یہ ہے :
نَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا )
اللہ تعالی نے چھے دفعہ ایساخطاب کیا ہے جو صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہے ۔ جبکہ اس کے بعد صرف دو ضمیریں ایسی لائی گئی ہیں جس میں مردو عورت دونوں شامل ہوسکتے ہیں اور اس کے بعد پھر دو ضمیریں ایسی ہیں جو خالصتا عورتوں کے لیے ہیں ۔
لیکن اس کے باوجود اہل بیت میں سے امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن و أرضاہ کو نکالنے کی سعی لاحاصل کی جاتی ہے۔ اور وہ بھی ایسی دلیل کی بنیاد پر جس میں اس مسئلے پر (امہات المؤمنین کی نفی من اہل بیت ) سرے سے دلالت ہی نہیں ہے ۔

اس پوری آیت کریمہ میں اور کہیں بھی اہل بیت سے خطاب نہیں صرف ایسی ایک آیت میں جس کا یہ ٹکڑا ہے ایسی میں اہل بیت کو خطاب کیا گیا جبکہ اس سے پہلے يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ سے امہات مومینن کو خطاب کیا گیا ہے اور جب اس آیت کا یہ آخری ٹکڑا نازل ہوا کہ
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
تب ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پنج تن پاک کو اپنی چادر میں لیا اس سلسلے میں وادر ہونے والی تمام احادیث میں اس آیات کے ایسی آخری ٹکڑے کا بیان ہے چاہے وہ ام المومینن حضرت ام سلمیٰ والی روایت ہو یا ام المومینن حضرت عائشہ والی روایت ان تمام میں اس آیت کے آخری ٹکڑے کا ہی بیان ہے اور ایسی آخری ٹکڑے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عملی تفسیرفرمادی ہے
حضرت ام سلمیٰ والی حدیث
نزلَت هذِهِ الآيةُ على النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا في بيتِ أمِّ سلَمةَ، فدعا النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ فاطمَةَ وحَسنًا وحُسَيْنًا فجلَّلَهُم بِكِساءٍ وعليٌّ خَلفَ ظَهْرِهِ فجلَّلَهُ بِكِساءٍ ثمَّ قالَ: اللَّهمَّ هؤلاءِ أَهْلُ بيتي فأذهِب عنهمُ الرِّجسَ وطَهِّرهم تطهيرًا قالَت أمُّ سلمةَ: وأَنا معَهُم يا رسولَ اللَّهِ؟ قالَ: أنتِ على مَكانِكِ وأنتِ إلي خَيرٍ
الراوي: عمر بن أبي سلمة المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 3787
خلاصة حكم المحدث: صحيح


''حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروردہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت ''اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔'' نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین سلام اﷲ علیہم کو بلایا اور انہیں ایک کملی میں ڈھانپ لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا : اے اﷲ! یہ میرے اہل بیت ہیں، پس ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں خوب پاک و صاف کر دے۔ سیدہ اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی! میں (بھی) ان کے ساتھ ہوں، فرمایا : تم اپنی جگہ رہو اور تم تو بہتر مقام پر فائز ہو۔''


اس حدیث میں صریح طور سے بیان ہوا کہ جب اس آیت کا مذکورہ حصہ نازل ہوا تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حصہ کی عملی تفسیر فرمائی نہ کہ پوری آیت کی
امی عائشہ والی حدیث
1 - خرج النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ غداةً وعليه مِرْطٌ مُرحَّلٌ ، من شعرٍ أسودٍ . فجاء الحسنُ بنُ عليٍّ فأدخلَه . ثم جاء الحسينُ فدخل معه . ثم جاءت فاطمةُ فأدخلها . ثم جاء عليٌّ فأدخلَه . ثم قال " إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا " [ 33 / الأحزاب / 33 ] .
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2424
خلاصة حكم المحدث: صحيح

''حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ کے پاس حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں بھی اس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ''اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔''
اردو ترجمہ ڈاکٹر طاہر القادری

اور پھر امی عائشہ کو بھی دیکھا دیا کہ مذکورہ آیت کی تفسیر کیا ہے ان دونوں احادیث میں بھی صرف اس آیت کے ایسی آخری ٹکڑے کا ہی ذکر ہے اس کے علاوہ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت زید بن ارقم سے جب سوال کیا گیا کہ کیا ازواج بھی اہل بیت میں شامل ہیں تو آپ نے جو جواب ارشاد فرمایا اس کا معنی یہی بنتا ہے کہ ازواج اہل بیت میں شامل نہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اس پوری آیت کریمہ میں اور کہیں بھی اہل بیت سے خطاب نہیں صرف ایسی ایک آیت میں جس کا یہ ٹکڑا ہے ایسی میں اہل بیت کو خطاب کیا گیا جبکہ اس سے پہلے يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ سے امہات مومینن کو خطاب کیا گیا ہے (1)اور جب اس آیت کا یہ آخری ٹکڑا نازل ہوا کہ
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
تب ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پنج تن پاک کو اپنی چادر میں لیا اس سلسلے میں وادر ہونے والی تمام احادیث میں اس آیات کے ایسی آخری ٹکڑے کا بیان ہے چاہے وہ ام المومینن حضرت ام سلمیٰ والی روایت ہو یا ام المومینن حضرت عائشہ والی روایت ان تمام میں اس آیت کے آخری ٹکڑے کا ہی بیان ہے اور ایسی آخری ٹکڑے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عملی تفسیرفرمادی ہے
حضرت ام سلمیٰ والی حدیث
نزلَت هذِهِ الآيةُ على النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا في بيتِ أمِّ سلَمةَ، فدعا النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ فاطمَةَ وحَسنًا وحُسَيْنًا فجلَّلَهُم بِكِساءٍ وعليٌّ خَلفَ ظَهْرِهِ فجلَّلَهُ بِكِساءٍ ثمَّ قالَ: اللَّهمَّ هؤلاءِ أَهْلُ بيتي فأذهِب عنهمُ الرِّجسَ وطَهِّرهم تطهيرًا قالَت أمُّ سلمةَ: وأَنا معَهُم يا رسولَ اللَّهِ؟ قالَ: أنتِ على مَكانِكِ وأنتِ إلي خَيرٍ
الراوي: عمر بن أبي سلمة المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 3787
خلاصة حكم المحدث: صحيح

''حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروردہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت ''اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔'' نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین سلام اﷲ علیہم کو بلایا اور انہیں ایک کملی میں ڈھانپ لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا : اے اﷲ! یہ میرے اہل بیت ہیں، پس ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں خوب پاک و صاف کر دے۔ سیدہ اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی! میں (بھی) ان کے ساتھ ہوں، فرمایا : تم اپنی جگہ رہو اور تم تو بہتر مقام پر فائز ہو۔''


اس حدیث میں صریح طور سے بیان ہوا کہ جب اس آیت کا مذکورہ حصہ نازل ہوا تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حصہ کی عملی تفسیر فرمائی نہ کہ پوری آیت کی
امی عائشہ والی حدیث
1 - خرج النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ غداةً وعليه مِرْطٌ مُرحَّلٌ ، من شعرٍ أسودٍ . فجاء الحسنُ بنُ عليٍّ فأدخلَه . ثم جاء الحسينُ فدخل معه . ثم جاءت فاطمةُ فأدخلها . ثم جاء عليٌّ فأدخلَه . ثم قال " إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا " [ 33 / الأحزاب / 33 ] .
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2424
خلاصة حكم المحدث: صحيح

''حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ کے پاس حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں بھی اس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ''اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔''
اردو ترجمہ ڈاکٹر طاہر القادری

اور پھر امی عائشہ کو بھی دیکھا دیا کہ مذکورہ آیت کی تفسیر کیا ہے ان دونوں احادیث میں بھی صرف اس آیت کے ایسی آخری ٹکڑے کا ہی ذکر ہے اس کے علاوہ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت زید بن ارقم سے جب سوال کیا گیا کہ کیا ازواج بھی اہل بیت میں شامل ہیں تو آپ نے جو جواب ارشاد فرمایا اس کا معنی (2)یہی بنتا ہے کہ ازواج اہل بیت میں شامل نہیں۔
1-
آ پ تسلیم کرتےہیں نا کہ (إنما یرید اللہ ۔۔۔ تطہیرا ) سے پہلے بھی اور بعد میں بھی امہات المؤمنین کو خطاب ہے ۔ آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ آیت کے اس خاص حصے (إنما یرید اللہ ۔۔۔ تطہیرا ) میں امہات المؤمنین اس خطاب سے خارج ہوگئ ہیں ؟ کوئی دلیل دیں صرف اپنا ذوق ہم پر لاگو نہ کریں ۔
جس واقعے کو آپ اس آیت کی عملی تفسیر قرار دے رہے ہیں اس میں ان چار کے علاوہ بقیہ کی نفی کہاں ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمۃ رضی اللہ عنہا سے کہا تھا کہ تم اہل بیت میں سےنہیں ہو لہذا تم اس چادر کے اندر نہیں آسکتی ؟
بات سمجھیں دلیل ایسی دیں جس میں اہل بیت میں سے ہونے کی نفی ہو ۔ ایسی دلیل نہ دیں جس میں اثبات کی دلیل ہو ۔ کیونکہ السبطین ابوہما و أمہما یہ چاروں ہمارے نزدیک بھی اہل بیت میں سے ہیں ۔آپ دلیل دے رہے ہیں کہ یہ چاروں اہل بیت میں سے ہیں ۔ حالانکہ یہ مسئلہ محل نزاع ہے ہی نہیں مسئلہ محل نزاع یہ ہے کہ امہات المؤمنین اہل بیت میں سے ہیں ۔ آپ ایسی دلیل لے کر آئیں جس میں ان کو اہل بیت سے خارج کیا گیا ہو ۔

جناب آپ اتنا اختصار نہ کریں آپ دلائل پیش کریں معنی کیا بنتا ہے ؟ اس کا فیصلہ دلائل دیکھ کر خود کرلیاجائےگا ۔ مطلب آپ کا موقف کیا ہے آپ نصوص سے کیا معنی سمجھےہیں ؟ یہ بیان کرنےکی ضرورت نہیں ۔ بلکہ جن دلائل کی بنا پر آپ نے موقف بنایا ہے یا جن دلائل کا آپ نے معنی سمجھا ہے ان کوپیش کریں ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
1-
آ پ تسلیم کرتےہیں نا کہ (إنما یرید اللہ ۔۔۔ تطہیرا ) سے پہلے بھی اور بعد میں بھی امہات المؤمنین کو خطاب ہے ۔ آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ آیت کے اس خاص حصے (إنما یرید اللہ ۔۔۔ تطہیرا ) میں امہات المؤمنین اس خطاب سے خارج ہوگئ ہیں ؟ کوئی دلیل دیں صرف اپنا ذوق ہم پر لاگو نہ کریں ۔
قرآن عظیم اللہ تعالی کی طرف سے انسانیت کی ہدایت کے لیے ایک جامع واکمل کتاب ہے جس کی رسول ﷺاللہ نے اعمال واقوال کے ذریعے تشریح فرمائی ۔
http://www.kitabosunnat.com/kutub-library/article/urdu-islami-kutub/quran-aur-uloom-ul-quran/23-tafseer-e-quran/3667-quran-e-mjeed-ki-lughvi-tashree.html
حدیث صحیح میں آیا ہے کہ جب آیت تطہیر
" إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا "
جب نازل ہوئی تو اس آیت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عمل سے جو اس کی تفسیر فرمائی اس میں ام المومینن حضرت ام سلمیٰ کو ان کی درخواست کے باوجود شامل نہیں کیا اور پھراس آیت تطہیر کی عملی تفسیر امی عائشہ کے یہاں بھی دھرائی اور تب بھی اس تفسیر میں امی عائشہ کو شامل نہیں کیا اب ایک ایسا عمل جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیت تطہیر کے نازل ہونے کے فورا بعد کیا اور پھر اس عمل کو ایک بار پھر دھرا کر بھی بتادیا ایسے آپ دلیل ہی نہیں مان رہے ہیں آپ ایسے صرف میرا ذوق گمان فرمارہیں ہیں تعجب ہے
صرف اس بات پر غور کرلیا جائے کہ سورہ الاحزاب کی آیت 33 کا آخری حصہ جب نازل ہوا تب آپ نے صرف اس آخری حصہ کی ہی عملی تفسیر فرمائی ہے ناکہ پوری آیت 33 کی یہ بھی صحیح حدیث میں صراحت سے بیان ہوا ہے
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
1-

جناب آپ اتنا اختصار نہ کریں آپ دلائل پیش کریں معنی کیا بنتا ہے ؟ اس کا فیصلہ دلائل دیکھ کر خود کرلیاجائےگا ۔ مطلب آپ کا موقف کیا ہے آپ نصوص سے کیا معنی سمجھےہیں ؟ یہ بیان کرنےکی ضرورت نہیں ۔ بلکہ جن دلائل کی بنا پر آپ نے موقف بنایا ہے یا جن دلائل کا آپ نے معنی سمجھا ہے ان کوپیش کریں ۔
یہ بات آپ جیسے صاحب علم کو زیب نہیں دیتی اس کا معنی یہ ہوا کہ آپ نے صحیح مسلم کو نہیں پڑھا ہے ورنہ اس طرح کا ارشاد نہیں فرماتے
 
Top