• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل بیت

شمولیت
نومبر 11، 2013
پیغامات
79
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
63
ہم اہلِ بیتِ اطہار کوکس طرح مانیں اور ان سے متعلق احکام و عقائد
عقیدہ:
اہل بیت سے محبت ایمان کی علامت ہے اور اہل بیت سے بغض نفاق کی علامت ہے۔تشریح
اہل بیت سے مراد بیوی اور اولاد ہوتے ہیں، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات، تین صاحبزادے، چار صاحبزادیاں اور صاحبزادیوں کی اولاد اہل بیت ہیں۔
ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کی تعداد گیارہ ہے، جن میں سے دو نے آپؐ کی حیاتِ مبارکہ ہی میں وصال فرمایا، ایک حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا اور دوسری حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت نو (۹) ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن باحیات تھیں۔
ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن:
ذیل میں ازواجِ مطہراتؓ کے اسمائے گرامی بہ ترتیبِ نکاح ذکر کئے جاتے ہیں:
(۱) حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا
(۲) حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا
(۳) حضرت عائشہ صدیقہ بنت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما
(۴) حضرت حفصہ بنت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما
(۵) حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا
(۶) حضرت ام سلمہ بنت ابی امیہ رضی اللہ عنہا
(۷) حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا
(۸) حضرت جویریہ بن حارث رضی اللہ عنہا
(۹) حضرت ام حبیبہ بنت ابوسفیان رضی اللہ عنہا
(۱۰) حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا
(۱۱) حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا
گیارہ ازواجِ مطہراتؓ کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین باندیاں بھی تھیں:
(۱) حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا
(۲) حضرت ریحانہ بنت شمعون رضی اللہ عنہا
(۳) حضرت نفیسہ رضی اللہ عنہا۔
اولادِ شریفہ:
نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تین صاحبزادوں کے اسمائے گرامی یہ ہیں: (۱) حضرت قاسم، (۲) حضرت عبد اللہ، ان کو طیب و طاہر بھی کہا جاتا ہے، بعضوں نے ان دونوں کو الگ الگ شمار کیا ہے اور (۳) حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہم، تینوں صاحبزادے آپؐ کی حیاتِ طیبہ ہی میں وصال فرماگئے، آپؐ کی چار صاحبزادیاں ہیں، ان کے نام یہ ہیں: (۱) حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہن، سب بڑی ہوئیں اور بیاہی گئیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ تینوں صاحبزادیوں کا آپؐ کی حیاتِ طیبہ ہی میں وصال ہوگیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد حضرت خدیجہ الکبریٰ سے ہوئی، سوائے حضرت ابراہیمؓ کے، وہ آپؐ کی باندی حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے۔
حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے علاوہ اور کسی صاحبزادی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل کا سلسلہ نہیں چلا۔
قرآن وحدیث سے اہل بیت کے فضائل ثابت ہیں۔
قرآن و حدیث میں اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بے شمار فضائل و مناقب بیان کئے گئے ہیں، ان میں سے چند یہاں ذکر کئے جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کو دنیا بھر کی تمام عورتوں سے افضل قرار دیا اور انہیں ہر قسم کی ظاہری و باطنی گندگی سے پاک قرار دیا۔
اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو طیبات یعنی پاکیزہ عورتیں قرار دیا اور ان پر الزام تراشی کرنے والوں کو دنیا و آخرت میں لعنت اور عذاب عظیم کا مستحق قرار دیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اہل بیت سے محبت کا حکم دیا، فرمایا: تم مجھ سے محبت کی بناء پر میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بیت کو حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کے مثل قرار دیا کہ جو حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی پر سوار ہوگیا اس نے نجات پائی اور جو کشتیٔ نوح پر سوار نہ ہوا وہ ہلاک ہوگیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید اور اہل بیت کے متعلق ارشاد فرمایا: میں تم میں دو بھاری و قیمتی چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، پہلی چیز کتاب اللہ ہے، جس میں ہدایت اور نور ہے، اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہنا، پھر فرمایا: (دوسری چیز) میرے اہل بیت ہیں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ سے ڈراتا ہوں کہ تم میرے اہلِ بیت کے حقوق کا خیال رکھنا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اہلِ بیت سے محبت نہ کرے۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق ارشاد فرمایا: جس نے میرے چچا (حضرت عباسؓ) کو ایذاء دی اس نے مجھے ایذاء دی، کیونکہ آدمی کا چچا اس کے والد کے برابر ہوتا ہے، مزید فرمایا: عباسؓ مجھ سے ہیں اور میں عباسؓ سے ہوں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جنتی عورتوں کی سردار قرار دیا اور فرمایا: فاطمہؓ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، جس نے فاطمہؓ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق ارشاد فرمایا: میرا یہ بیٹا سردار ہوگا اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرائیں گے۔حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کے متعلق ارشاد فرمایا: جو ان سے جنگ کرے گا میری اس سے جنگ ہوگی اور جو ان سے صلح کرے گا میری اس سے صلح ہوگی۔ دلائل
تفسیر حاشیہ شیخ زادہ:۶؍۶۳۵۔شرح فقہ اکبر:۱۱۰۔ سیر اعلام النبلاء:۱؍۲۲۸۔ الوفاء:۶۶۷۔و لم یکن لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عقب الامن ابنتہ فاطمۃ رضی اللہ عنہا، فانتشر نسلہ الشریف منھا فقط من جھۃ السبطین اعنی الحسنین۔ (شرح فقہ اکبر:۱۱۰) و تزوج الخدیجۃ و ھو ابن بضع و عشرین سنۃ فول لہ منھا قبل مبعثہ القاسم و رقیہ و زینب و ام کلثوم و ولد لہ بعد البعث الطیب و الطاھر و فاطمہ رضی اللہ عنہم۔ (اصول کافی:۲۷۹، کتاب الحجۃ، باب مولد النبیؐ)۔ يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِنَ النِّسَآءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا۔ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولٰى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَاٰتِينَ الزَّکَاةَ وَأَطِعْنَ اللہَ وَرَسُولَهٗ إِنَّمَا يُرِيدُ اللہُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا۔ (الاحزاب:۳۲،۳۳) ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالاٰخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ۔ يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ بِمَا کَانُوا يَعْمَلُونَ۔ يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللہُ دِينَهُمُ الْحَقَّ وَيَعْلَمُونَ أَنَّ اللہَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِينُ۔ الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ أُولٰٓئِکَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ کَرِيمٌ۔ (النور:۲۳تا۲۶)۔ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحِبُّوا اللہَ لِمَا يَغْذُوكُمْ مِنْ نِعَمِهٖ وَأَحِبُّونِي بِحُبِّ اللہِ وَأَحِبُّوا أَهْلَ بَيْتِي بِحُبِّي۔ (سنن ترمذی:۲؍۶۹۹) ۔ حَدَّثَنَا أَبُو الطُّفَيْلِ ، أَنَّهٗ رَأٰى أَبَا ذَرٍّ قَائِمًا عَلٰى هٰذَا الْبَابِ وَهُوَ يُنَادِي، أَلَا مَنْ عَرَفَنِي فَقَدْ عَرَفَنِي، وَمَنْ لَمْ يَعْرِفْنِي فَأَنَا جُنْدُبٌ، أَلَا وَأَنَا أَبُو ذَرٍّ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ، مَنْ رَكِبَ فِيهَا نَجَا وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ۔ (مستدرک حاکم:۲؍۳۳۴) ۔ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ حَيَّانَ قَالَ انْطَلَقْتُ أَنَا وَحُصَيْنُ بْنُ سَبْرَةَ وَعُمَرُ بْنُ مُسْلِمٍ إِلٰى زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ فَلَمَّا جَلَسْنَا إِلَيْهِ قَالَ لَهٗ حُصَيْنٌ لَقَدْ لَقِيتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا کَثِيرًا رَأَيْتَ رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَمِعْتَ حَدِيثَهٗ وَغَزَوْتَ مَعَهٗ وَصَلَّيْتَ خَلْفَهُ لَقَدْ لَقِيتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا کَثِيرًا حَدِّثْنَا يَا زَيْدُ مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَا ابْنَ أَخِي وَاللہِ لَقَدْ کَبِرَتْ سِنِّي وَقَدُمَ عَهْدِي وَنَسِيتُ بَعْضَ الَّذِي كُنْتُ أَعِي مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا حَدَّثْتُكُمْ فَاقْبَلُوا وَمَا لَا فَلَا تُکَلِّفُونِيهِ ثُمَّ قَالَ قَامَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فِينَا خَطِيبًا بِمَاءٍ يُدْعٰى خُمًّا بَيْنَ مَکَةَ وَالْمَدِينَةِ فَحَمِدَ اللہَ وَأَثْنٰى عَلَيْهِ وَوَعَظَ وَذَکَرَ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللہِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللہِ وَ اسْتَمْسِكُوا بِهٖ فَحَثَّ عَلٰى كِتَابِ اللہِ وَرَغَّبَ فِيهِ ثُمَّ قَالَ وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللہَ فِي أَهْلِ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللہَ فِي أَهْلِ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمْ اللہَ فِي أَهْلِ بَيْتِي۔ (صحیح مسلم:۲؍۲۷۹) ۔حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمُطَّلِبِ بْنُ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنَّ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ دَخَلَ عَلٰى رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُغْضَبًا وَأَنَا عِنْدَهٗ فَقَالَ مَا أَغْضَبَکَ قَالَ يَا رَسُولَ اللہِ مَا لَنَا وَلِقُرَيْشٍ إِذَا تَلَاقَوْا بَيْنَهُمْ تَلَاقَوْا بِوُجُوهٍ مُبْشَرَةٍ وَإِذَا لَقُونَا لَقُونَا بِغَيْرِ ذٰلِکَ قَالَ فَغَضِبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهٗ ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهٖ لَا يَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الْإِيمَانُ حَتّٰى يُحِبَّكُمْ لِلّٰہِ وَلِرَسُولِهٖ ثُمَّ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ اٰذَى عَمِّي فَقَدْ اٰذَانِي فَإِنَّمَا عَمُّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِيهِ۔ (سنن ترمذی:۲؍۶۹۶)۔ أَنَّ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ دَخَلَ عَلٰى رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُغْضَبًا ..... فَقَالَ مَا أَغْضَبَکَ .... ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ اٰذَى عَمِّي فَقَدْ اٰذَانِي فَإِنَّمَا عَمُّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِيهِ۔ (سنن ترمذی:۲؍۶۹۶) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَبَّاسُ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ ۔ (سنن ترمذی:۲؍۶۹۶)۔ عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَاطِمَةُ بِضْعَةٌ مِنِّي فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي۔ (صحیح بخاری:۱؍۵۳۲)۔ عَنْ الْحَسَنِ سَمِعَ أَبَا بَكْرَةَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَالْحَسَنُ إِلٰى جَنْبِهٖ يَنْظُرُ إِلَى النَّاسِ مَرَّةً وَإِلَيْهِ مَرَّةً وَيَقُولُ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللہَ أَنْ يُصْلِحَ بِهٖ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ۔ (صحیح بخاری:۱؍۵۳۰)۔ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَليٍّ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبْتُمْ وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمْتُمْ۔ (سنن ترمذی:۲؍۷۰۶) ۔
 
Top