• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث کے فرائض میں سے یہ بھی ہونا چاہئے

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
بسم اللہ الرحمن الرحیم

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:

’’مَن جاءَ مَسجِدي هذا لم يَأتِهِ إلّا لِخيرٍ يتعلَّمُهُ أو يعلِّمُهُ فَهوَ بمنزلةِ المجاهِدِ في سبيلِ اللَّهِ ومن جاءَ لغيرِ ذلِكَ فَهوَ بمنزلةِ الرَّجُلِ ينظرُ إلى متاعِ غيرِهِ‘‘.

جو شخص میری اِس مسجد میں آئے اور اس کا ارادہ محض کوئی اچھی بات سیکھنا یا سکھانا ہو (کوئی اور دنیوی غرض نہ ہو)‘ تو اس کا درجہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کا سا ہے. اور جو شخص کسی اور مقصد کے لئے (مسجد میں) آیا، تو وہ اس آدمی کی طرح ہے جس کی نظر کسی اور کے مال پر ہو.

[سنن ابن ماجہ: ۲۲۷، مسند أحمد: ۹٤۱۹، وصححہ الألبانی]

فائدہ: مسجد اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت گاہ ہونے کے ساتھ‘ دین کی نشر واشاعت کا مرکز اور علم سیکھنے سکھانے کا ادارہ بھی ہے، تعمیرِ مساجد کے یہی دو بنیادی مقاصد ہیں. مساجد میں جہاں اجتماعی طور پر عبادات انجام دئے جاتے ہیں‘ وہیں کتاب وسنت کی تعلیم کے ذریعہ امت کے تزکیہ وتربیہ کا فریضہ بھی انجام دیا جاتا ہے.

اس لیے جب کوئی مسلمان مسجد میں آئے‘ تو اس کی نیت اِنہی بلند مقاصد کے حصول کی ہونی چاہیے، تبھی وہ مسجد کے بابرکت ماحول سے صحیح استفادہ کر سکے گا، ورنہ اس کے ہاتھ بس محرومی ہی لگے گی.

علامہ قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

’’اہل حدیث کے فرائض میں سے یہ بھی ہونا چاہئے کہ محلہ کی مسجد میں نمازِ صبح یا عشاء کے بعد گھنٹہ، آدھ گھنٹہ حدیث کی تلاوت [درسِ حدیث] کی جائے؛ ایک صاحب کتاب کو سامنے رکھ کر پڑھیں اور باقی سب سنیں، عربی متن کے بعد اردو ترجمہ پڑھ دیا جایا کرے، اور پھر ترجمہ کی تشریح میں زیادہ وقت صرف نہ کیا جائے‘ حتی کہ حدیث پاک کے ساتھ قلب کو خود ایک رابطہ پیدا ہوجائے، اور فہم روشن وقلب منور ہوجائے، اور باریک باریک نکات سمجھ میں آنے لگیں ...‘‘.

[خطبات سلمان: ۱۸٦]
 
Top