محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
امت میں بہت سے اعتقادی مسائل میں اختلاف پیدا ہوا جس کی بنیاد پر مختلف فرقے وجود میں آئے ۔ہر فرقے میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے اساسی عقائد میں مسلمانوں سے اختلاف کیا۔ علمائے کرام نے ان لوگوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا اور ہر فرقے میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے ان امور میں اختلاف نہیں کیا جن کا ضروریات دین سے ہونا قطعی اور حکمی تھا انہوں نے ان ارکان ،اصول ا ور قواعد کو تسلیم کیا جس پر دین اسلام کی عمارت کھڑی ہے لہذا علمائے اہل سنت نے ان کی غیر کفریہ بدعات کی بنا پر اسلام سے خارج نہیں سمجھاالبتہ انہیں اہل سنت سے خارج قرار دیا۔اہل سنت سے اعتقادی اختلاف رکھنے والے فرقوں کے مراتب
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
[چنانچہ اگر ایساہوجائے کہ تمام گروہوں میں عدوان و زیادتی کے مرتکب لوگوں کو سزا دی جائے اور تمام گروہوں میں سے متقی لوگوں کی شرف وعزت افزائی کی جائے تو یہ اللہ اور رسول ﷺکی پسندیدگی اور مسلمانوں کی اصلاح کا سب سے بڑا ذریعہ ہوگا]
(الجواب الصحیح لمن بدّل دین المسیح :22/1)
چند فرقوں کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔
''قدریہ''
''قدریہ'' کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہر چیز انسان کے ارادہ اور قدرت کے تابع ہے گویا ان کے نزدیک انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے سب کام انسان اپنے ارادہ اور اختیار سے کرتا ہے اللہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو حوادث کا علم اسی وقت ہوتا ہے جب وہ وقوع میں آتے ہیں ۔ان اقوال سے ان کا مقصد اللہ کے ازلی علم اور ارادہ کے نفی کرنا تھا ۔
شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین قدریہ کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: '' قدریہ کی دو قسمیں ہیں ایک قسم وہ ہے جنہوں نے کہا کہ اشیاء کے وجود میں آنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کو اس کا علم نہیں ہوتا اور دوسری قسم وہ ہے جو کہتے ہیں کہ بندوں کی افعال اللہ تعالیٰ پیدا نہیں کرتا بلکہ بندے اپنے افعال کے خود خالق ہیں۔''(شرح لمعۃ الاعتقاد)
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
'' وہ قدریہ جو اللہ کے ازلی علم اور تقدیر کے لکھے جانے کے انکاری ہیں سلف صالحین نے ان کو کافر کہا اور جنہوں نے اللہ کے ازلی علم کو تو تسلیم کیا لیکن اس بات کا انکار کیاکہ اللہ تعالیٰ بندوں کے افعال کا خالق ہے ان کو کافر نہیں کہا ۔(فتاویٰ ابن تیمیہ :۳۵۲/۳)
عبداللہ کہتے ہیں: کہ میرے والداحمد بن حنبل سے سوال کیا گیا کہ کیا قدریہ کا قول کہنے والا کافر ہے ؟میرے والد نے جواب دیا: جب وہ (اللہ کے ازلی )علم کا انکار کرے۔ (تو کافر ہے)(السنۃللخلال :روایۃ:862)
یحییٰ ابن یعمربیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے سب سے پہلے تقدیر کا انکار کیا وہ بصرہ کا معبد الجھنی تھا ۔ میں عبداللہ بن عمر؆سے ملا اور کہا اے ابوعبدالرحمن ہمارے علاقے میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوئے ہیں جو قرآن حکیم کو پڑھتے اور عالم ہونے کے دعویدار ہیں لیکن وہ تقدیر کا انکار کرتے ہیں ۔عبداللہ بن عمر؆ نے فرمایا جب تم ان سے ملو تو انہیں بتانا کہ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں ۔ اللہ کی قسم اگر وہ احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کریں اللہ تعالیٰ ان سے ہرگز قبول نہ کرے گا یہاں تک کہ وہ تقدیر پر ایمان لے آئیں (مسلم: ۸)