• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل شِرک سے برتاؤ

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
569
ری ایکشن اسکور
176
پوائنٹ
77
اہل شِرک سے برتاؤ

بسم الله الرحمن الرحیم

امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اغاثۃ اللھفان میں لکھتے ہیں:

شرکِ اکبر سے صرف وہی شخص بچ سکتا ہے جو اپنی تمام عبادات کو اللہ کے لیے خالص کرے، اور اہل شرک سے اللہ ہی کے لئے عداوت رکھے۔

ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاد شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے فرماتے ہیں، اہلِ شرک سے عداوت رکھنا، ان کے معبودوں سے عداوت رکھنے پر مقدم ہے۔

یہی بات شیخ حمد بن عتیق رحمۃ اللہ علیہ سورہ ممتحنہ کی تفسیر میں بھی لکھتے ہیں:

﴿إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ﴾ وہ فرماتے ہیں کہ اس آیت مبارکہ میں شرک کرنے والے افراد سے اظہار برأت ان کے معبودوں سے پہلے ذکر کیا گیا ہے جس میں یہ نکتہ ہے کہ اہل شرک سے برأت ان کے اصنام سے برأت پر مقدم ہے۔

اہل شرک کی برأت سے خودبخود معبود کی بھی برأت ہو جاتی ہے جیسے سورہ مریم میں ابراہیم علیہ السلام شرک کرنے والوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں:

وَاَعْتَزَلَکُمْ وَمَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ (مریم :۴۸)
میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑتا ہوں اور اُن ہستیوں کو بھی جنہیں آپ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہیں۔

توحید کا دعویٰ کرنے والے اس ترتیب کو خوب سمجھ لیں۔ اصحاب کہف کو بھی ان کی اسی توحید نے جاوداں بنا دیا ہے:
وَ اِذِ اعْتَزَ لْتُمُوْھُمْ وَمَا یَعْبُدُوْنَ.(کہف: ۱۶)
اب جبکہ تم اِن سے اور ان کے معبود ان غیر اللہ سے بے تعلق ہو چکے ہو ۔

شرک سے خود بچنا اور اہل شرک کے شرک پر خاموشی اختیار کرنا اُسے اسلام میں داخل نہیں کرتا وہ تمام انبیاء کے دین کے برخلاف توحید کے اپنے مفہوم سے انبیاء کے دین میں داخل نہیں ہو سکتا۔ ۱ھ

شیخ عبداللطیف بن عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ درر السنیہ میں لکھتے ہیں:

بسا اوقات ایک شخص شرک سے نکل کر توحید کا شیدائی بن جاتا ہے، مگر اس کی توحید کا ایک گوشہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ اس کے اقرار توحید کا مول نہیں پڑنے دیتا، توحید کی محبت اُس سے اہل شرک سے برأت بھی نہیں کراتی اور اہل توحید کی نصرت پر بھی اُسے نہیں اٹھاتی۔ جس عمارت کو وہ بنا رہا تھا، اس کا ستون خود ہی گرا دیتا ہے پھر کیا توحید اور کیا توحید کے تقاضے۔ جو ایمان اللہ کے ہاں پسندیدہ تھا وہ تو (الحب فی اﷲ) سے عبارت تھا۔ توحید کا یہی مفہوم کلمہ شہادت کی حقیقت ہے۔ ۱ھ

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

اللہ کی قربت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اہل شرک سے نفرت، بغض، دشمنی اور ان کے خلاف جہاد کرنا۔ نجات کی صورت مؤمنین کی صف میں شامل ہو کر اہل شرک کے خلاف کھڑا ہونا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کی توحید میں بقدر مؤمنین سے دوستی میں کمی اور اہل شرک سے دوستی جوڑنے کے بقدر کمی ہوتی جائے گی۔ دوستی کی نزاکت کو سمجھو، یہ کبھی تمہارے اسلام کو ہی لے ڈوبتی ہے!

محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

ایک مؤمن کو اِس بات کی دوٹوک لفظوں میں وضاحت کرنی ہوگی کہ وہ اہل ایمان کے ٹولے میں ہے ۔ وہ انہیں مضبوط بھی کرتا ہے اور خود اہل ایمان سے قوت بھی پکڑتا ہے۔ وہ اس طرح تمام طاغوتوں کے لئے ایک کھلا پیغام چھوڑتا ہے کہ وہ اس گروہ کا نمائندہ ہے جو ان سے برسرپیکار ہے۔

شیخ حسن اور شیخ عبداللہ آل شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ سے کسی سائل نے پوچھا، اُس شخص کا اسلام کیسا ہے جو اہل اسلام سے محبت تو کرتا ہے لیکن اہل شرک سے نفرت نہیں کرتا، یا نفرت بھی کرتا ہے مگر کافر نہیں کہتا۔

شیخین نے فرمایا: ایسا شخص غیر مسلم ہے۔ اُس پر قرآن کا یہ فرمان صادق آتا ہے:

..وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلا,أُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا (نساء : ۱۵۱-۱۵۰)

کہتے ہیں ہم کسی بات پر ایمان لائیں گے اور کسی بات پر نہیں، وہ کفر اور ایمان کے بیج میں ایک راہ نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ سب پکے کافر ہیں اور ایسے کافروں کیلئے ہم نے سزا مہیا کر رکھی ہے جو انہیں ذلیل وخوار کر دینے والی ہوگی۔

جہاں تک دعوت کا تعلق ہے تو یقینا اس بات کا خیال کیا جائے گا کہ جن لوگوں کے اسلام قبول کرنے کا امکان ہے اور ان کی تالیف قلب مطلوب ہے وہاں ایک داعی اظہار برأت سے اجتناب کرے گا، البتہ دل سے ہر مشرک کیلئے محبت کے جذبات کو یکسر نکال باہر کرنا واجب ہے۔

ہم جس بات کی وضاحت کر رہے ہیں وہ اظہار برأت سے متعلق ہے، دل میں اہل شرک سے نفرت تو ایمان کا لازمہ ہے، اسلام کی دعوت خوب صورت پیرائے میں دینا خود اسلام ہی کا تقاضا ہے۔ جب تک اُن کے اسلام قبول کرنے کی اُمید ہو اُس وقت تک دعوت کو نت نئے انداز سے پیش کرنا اسلام کا آپ سے تقاضا ہے۔

آپ کے حُسن معاشرت سے وہ اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں تو وہ ہمارے دینی بھائی ہیں اور انہیں اسلام کے وہ تمام حقوق حاصل ہو جاتے ہیں جن سے وہ پہلے محروم تھے۔

دعوت کے تمام اسلوبِ ان کے عناد اور سرکشی کے سامنے ناکام ہو جاتے ہیں۔ وہ اسلام کے مخالف گروہ میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اپنے باطل دِین کو برحق کہنے پر اصرار کرتے ہیں۔

اِس کھلی جنگ کے بعد دعوتی اسلوب سے چمٹے رہنا بزدلی بھی ہے اور انبیاء کے طریقے کے بھی خلاف ہے۔ اگر اس موقع پر ان سے اظہار برأت نہیں کیا جائے گا تو پھر داعیانِ حق کے مر کھپ جانے کے بعد اظہار برأت کیا جائے گا۔ یہاں اس موقع پر دو گروہ بن جاتے ہیں حزب اللہ اور حزب الشیطان۔ آپ کس گروہ میں شمار ہونا چاہتے ہیں۔

دعوتی اسلوب کی غرض وغایت بھی یہی تھی کہ حزب اللہ میں اضافہ ہو اور وہ طاقتور ہو جائے اب نہ صرف حزب اللہ کی تعداد میں اضافے کا امکان رہا ہے اور نہ دونوں گروہوں میں مڈبھیر ہونے کو کوئی روک سکتا ہے۔

دونوں سرحدوں میں لطیف فاصلہ ہے حزب اللہ کی طاقت بڑھانے کیلئے تگ ودو کرنا اور اس کیلئے خوب صورت پیراؤں کا ایک سے بڑھ کر ایک انداز اختیار کرنا اور جب آن پڑے تو اظہار برأت کے لئے بھی ایک سے بڑھ کر ایک انداز اختیار کرنا، دونوں اسلوب انبیاءکرام علیھم السلام کی سنت ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں کی ہدایت کیلئے دُعا بھی کرتے تھے اور ان کے خلاف جہاد بھی کرتے تھے۔ ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنے باپ کو دعوت دینے کے بعد برأت کر لی تھی۔ سورہ توبہ میں باپ بیٹے میں تلخی کا ذکر اس طرح بیان ہوا ہے:

فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ (التوبۃ: ۱۱۴)
جب اُس پر یہ بات کھل گئی کہ اس کا باپ خدا کا دشمن ہے تو وہ اُس سے بیزار ہو گیا۔

جب تک باپ کے ایمان لانے کی اُمید تھی اُس وقت تک اُن کا انداز نرم اور ادب واحترام کے پیرائے میں تھا :

يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ (مریم : ۴۳)
اباجان میرے پاس ایک علم (روشنی) ہے۔

اسی طرح ایمان نہ لانے کی صورت میں دردناک انجام بھی بتاتے ہیں لیکن اسلوب میں حد درجے سنجیدگی اور متانت اور احترام ہے:

يَا أَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِنَ الرَّحْمَنِ.. ( مریم: ۴۵ )
ابا جان مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ رحمان کے عذاب میں مبتلا نہ ہو جائیں۔

موسیٰ علیہ السلام کو بھی دعوت کے مرحلے میں نرم گفتاری کی تلقین کی جاتی ہے:

فَقُولا لَهُ قَوْلا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى (طٰہ: ۴۴)
اُس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔

اللہ پر ایمان لانے کی اہمیت بتانے کیلئے فرعون سے فرماتے ہیں:


فَقُلْ هَلْ لَكَ إِلَى أَنْ تَزَكَّى وَأَهْدِيَكَ إِلَى رَبِّكَ فَتَخْشَى (النازعات: ۱۹-۱۸)
کیا تو اس کے لئے تیار ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے اور میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تو اس کا خوف تیرے اندر پیدا ہو۔

نرم روی بے اثر ہوئی۔ اُس کے بعد یکے بعد دیگرے معجزات دکھائے گئے مگر اُس ہٹ دھرم پر کچھ اثر نہ ہوا تو اُس کے ساتھ ہی موسیٰ علیہ السلام کے اسلوب میں بھی شدت آجاتی ہے:

قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ أَنْزَلَ هَؤُلآَءِ إِلاَّ رَبُّ السَّمـوتِ وَالأَْرْضِ بَصَآئِرَ وَإِنِّى لأََظُنُّكَ يـفِرْعَونُ مَثْبُوراً (اسراء: ۱۰۲)

(موسی علیہ السلام نے کہا) تو خوب جانتا ہے کہ یہ بصیرت افروز نشانیاں رب السماوات والارض کے سوا کسی نے نازل نہیں کی ہیں اور میرا خیال یہ ہے کہ فرعون، تو ضرور ایک شامت زدہ آدمی ہے۔

پھر اللہ کے لئے محبت اور اللہ کے لئے عداوت، موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ اٹھواتی ہے اور وہ بددُعا دیتے ہیں:

وَقَالَ مُوسَى رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلأهُ زِينَةً وَأَمْوَالا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَنْ سَبِيلِكَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَلا يُؤْمِنُوا حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الألِيمَ (یونس: ۸۸)

پھر ایک وقت موسیٰ علیہ السلام نے یہ بھی کہا اے ہمارے رب تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دُنیا کی زندگی میں زینت اور مال وزر سے نواز رکھا ہے، اے رب کیا یہ اس لئے ہے کہ وہ لوگوں کو تیری راہ سے بھٹکائیں؟ اے رب! ان کے مال غارت کر دے اور ان کے دلوں پر ایسی مہر کر دے کہ ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔

ہر داعی کو یہ سبق سیکھنا ہوگا کہ کہاں نرم روی اسلام کے لئے فائدہ مند ہے اور کہاں شدت اسلوب سے اپنے عقیدے اور ایمان کی سچائی بتلانا اور اس کے خلاف ذرا سی بات برداشت نہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہے۔

جہاں آپ سے شدت کا مطالبہ ہو وہاں آپ نرم روی سے اسلام کا حلیہ بگاڑ رہے ہوں اور انبیاء کی سیرت سے صرف وہی مقامات ڈھونڈ ڈھونڈ کرلا رہے ہوں جن میں نرمی پائی جاتی ہو۔ کیا یہ اس نرمی کا نتیجہ نہیں کہ ہمارے گرد وپیش بُرائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

علماء اور صلحاء پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ انہیں کسی الزام میں دھرنے کے بہانے ڈھونڈے جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے سرکاری مخبر ان کی جاسوسی کرتے رہتے ہیں، دوسری طرف بُرائی پھیلانے والوں کو سرکاری تحفظ اور تمام ذرائع میسر کئے جاتے ہیں۔

ابلاغ عامہ کے تمام وسائل برسر اقتدار طبقے کے گن گانے کیلئے مخصوص ہیں حالانکہ انہیں اہل وطن کی جان ومال، عزت وآبرو اور اللہ کی حدود کا کوئی پاس نہیں ہے۔ انسان ساختہ قوانین لوگوں پر نافذ کرتے ہیں۔ اس طبقے کے ساتھ نرم روی انبیاء کی تو سنت نہیں ہے ہاں اسے مداہنت اور چاپلوسی ضرور کہتے ہیں۔

یہاں آپ سے شریعت کا یہ مطالبہ تھا کہ آپ ان کے قوانین اور ان کی معاشرتی قدروں سے اظہار برأت کرتے اور کہتے کہ ہماری اور تمہاری راہیں جدا ہیں۔ یہاں تک کہ تم اکیلے اللہ رب العالمین کے مطیع وفرماں بردار بن جاؤ۔

عوام الناس پر واضح کرنا ہوگا کہ اللہ کی شریعت کو چھوڑ کر کسی اور دستور کو نافذ کرنے والے طواغیت ہوتے ہیں ان سے محبت کرنا اور ان کے قوانین کا احترام کرنا حرام ہے۔ جو محکمے باطل نظام کا تحفظ کرتے ہیں ان میں ملازمت کرنا حرام ہے جیسے محکمہ دفاع (فوج) اور انتظامیہ (پولیس) جو ہر نظام کے بنیادی ستون ہوتے ہیں۔

تم سلف صالحین کے طرز عمل کو دیکھو۔ اُس وقت حکمران طبقہ شریعت سے کچھ اتنا آزاد بھی نہیں ہوا تھا لیکن اس کے باوجود وہ حکمران طبقے سے میل ملاپ نہیں رکھتے تھے۔ اس کے بلانے اور ڈرانے دھمکانے یا مال وزر کے لالچ دینے کے باوجود ملاقات کو نہ جاتے تھے۔

اب تم اپنے زمانے کے ان علماء کو دیکھو جو حکمرانوں سے ملاقات کو سعادت اور خوش بختی سمجھتے ہیں۔ وہ اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ان کی رسائی اعلیٰ طبقے تک ہو جائے۔

سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ، عباد بن عباد رحمۃ اللہ علیہ کو پنے مراسلے میں لکھتے ہیں: خبردار، امراء سے قربت نہ رکھنا۔ شیطان تمہیں سمجھائے گا کہ سلطان سے راہ رسم بڑھانا دین کی مصلحت ہے۔ تم اس طرح مظلوم کی داد رسی کر پاؤگے۔ یاد رکھو یہ شیطان کی چال ہوگی۔

سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ مظلوم کی داد رسی کیلئے حکمرانوں سے راہ رسم بڑھانے کو شیطان کی چال بتاتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں تو علماء کرام سے زیادہ کام دین کی غلط تشریح کرنے کا لیا جاتا ہے۔

محمدبن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اہل بدعت کے پاس بیٹھنے والا تین گناہوں میں سے ایک کا ضرور مرتکب ہوتا ہے۔ اہل بدعت جیسے کام کرنے لگے گا یا اُسے ان کا طریقہ اچھا لگنے لگے گا، یا وہ یہ تاویل کرے گا کہ میں ان کی باتوں میں آنے والا نہیں ہوں۔

ائمہ کرام کی یہ رائے اہل بدعت کی مجلس میں بیٹھنے والے کے متعلق ہے جو ان لوگوں کی مجلس میں بیٹھے جو غیر اللہ کی شریعت اللہ کے بندوں پر نافذ کرکے مرتد ہو گئے ہیں ان کی بابت کیا خیال ہے۔

سورہ ھود میں آپ کو کہا جاتا ہے:

وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لا تُنْصَرُونَ (ہود: ۱۱۳)
ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجائو گے اور تمہیں کوئی ایسا ولی اور سرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمہیں بچا سکے اور کہیں سے تمہیں مدد بھی نہ پہنچ پائے گی۔

بزدلی اور گم راہ لوگوں کے معیت میں رہ کر دین کی کس مصلحت کا حق ادا ہو پاتا ہے! ’’ لا تَرْكَنُوا ‘‘ سے اکثر مفسرین نے معمولی میلان کا ہونا مراد لیا ہے۔

مفسر قرآن ابو العالیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اہل شرک سے محبت اور نرم روی نہ رکھو، یہی ان کی طرف مائل ہونا ہے۔

سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کفار کو قلم دوات یا کاغذ فراہم کرنا ان کی محبت پر دلالت کرتا ہے۔

شیخ حمد بن عتیق رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے دشمنوں سے نرم کلامی کو برداشت نہیں کرتا اور انہیں جہنم کی آگ سے ڈراتا ہے۔

شیخ عبداللطیف بن عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ: لفظ ’رکون‘ کی وضاحت کرتے ہوئے مفسرین کے اقوال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شرک اللہ کی معصیت میں سب سے بڑی معصیت ہے۔

جب اہل شرک کی طرف جھکاؤ پر اتنی وعید ہے تو اللہ کی آیات کا مذاق اڑانا، اس کی اتاری ہوئی شریعت اور احکام معزول ہوں اور اس کی جگہ ایسے قوانین نافذ ہوں جو عدل وانصاف پر مبنی شریعت کے خلاف اور اس کو ضِد ہوں۔

بلاشبہ جس کے دِل میں ذرا برابر بھی اللہ اور اس کے رسول کے لئے غیرت موجود ہے وہ اسے بدترین کفر اور بدترین گم راہی کہے گا۔ اس کی غیرت ایمان ہر مجلس، ہر ممبر اور ہر پلیٹ فارم پر اُس سے شریعت کے مخالف ضابطہ حیات کا انکار کرائے گی اور وہ اس پر برأت کا اظہار کرے گا۔ دشمن کے خلاف یہی وہ جہاد ہے جس کا حکم دیا گیا ہے۔

اللہ کے اس دِین کو لوگوں کے سامنے کھول کر بیان کرنے کی سعادت حاصل کرو، اس دِین کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناؤ اور دوسرے ضابطہ حیات کی مذمت کرتے رہو اور جو دوسرے ضابطہ حیات کو ماننے والے ہیں ان سے برأت کرتے رہو۔

جو ان کے ضابطہ حیات کو مضبوط کرنے والے ذرائع و وسائل ہیں انہیں پوری شدت سے توڑ ڈالو۔ اس قسم کی برأت کرکے ہی وہ اس حزب اللہ میں شمار ہوگا جو اُن سے مل کر اللہ کی دین کے پاسبان بن جاتے ہیں۔

محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بھائیو! دِین کی بنیاد کو مضبوطی سے تھام لو، یاد رکھو دین اسلام کا کلی انحصار ’’ لا اِلہ اِلاَّ اﷲ‘‘ کی شہادت پر موقوف ہے۔ اس کلمہ کے معانی کو سمجھو، اس کلمہ سے محبت کرو۔

اس کلمہ پر چلنے والوں کے گروہ میں شامل ہو کر اسے مضبوط کرو وہ تمہارے رشتے داروں سے بھی زیادہ محبت کے حق دار ہیں۔ اس کلمہ کو جان لینے سے تم طواغیت سے نفرت کرتے ہوئے ان کی تکفیر کرو گے ان سے دشمنی رکھو گے۔

جو طواغیت سے محبت رکھتے ہوں گے تم اُن سے بھی دشمنی کرو گے، جو طواغیت کے لئے دلائل لاتا ہوگا تم اُس سے بیر رکھتے ہوگے۔ جو طواغیت کی تکفیر نہیں کرتا ہوگا وہ بھی انہیں میں گنا جائے گا، یا جو یہ کہے کہ میری بلا سے، مجھے کیا پڑی ہے کہ کسی سے دشمنی اور نفرت رکھوں۔ کیا میں نے سارے جہاں سے نفرت کرنے کی ذمہ داری لے رکھی ہے۔ مجھے کیا اللہ نے یہ حکم دیا ہے! ایسا شخص اپنے آپ کو لاتعلق کرنے میں قطعاً حق بجانب نہیں ہے۔ وہ اللہ پر بہتان باندھتا ہے کہ اُس نے’’ لا اِلہ اِلاَّ اﷲ‘‘ کی شہادت نہ دینے والوں سے نفرت اور عداوت کا حکم نہیں دیا ہے۔

یقینا ہر مسلمان سے اُس کے رب کا یہ مطالبہ ہے کہ وہ کفار سے نفرت کرے اُن سے دشمنی رکھے اُن کی تکفیر کرے اور اُن سے اظہار برأت کرے، خواہ وہ اُس کے خونی رشتہ دار ہوں، اُس کے والدین، بھائی بند یا آل اولاد ہی کیوں نہ ہوں۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو۔ اس کے بعد ہی اُمید کی جانی چاہیے کہ تم اپنے رب سے جب ملو گے تو تمہارے نامہ اعمال میں لکھا ہوگا کہ یہ شخص شرک سے بچ کر رہا ہے۔ (مجموعۃ التوحید)
 
Top