• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہمیت وضرورت حدیث وسنت

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اہمیت وضرورت حدیث وسنت

٭…حدیث، شریعت اسلامیہ کاآخری اور دوسرا الہامی ذخیرہ و مأخذ ہے۔جسے قرآن کریم کی طرح بذریعہ وحی، زبان رسالت نے پیش فرمایا۔یہ اس ہستی کا عطا کردہ خزانہ عامرہ ہے جس کا ہر قول وعمل، ہر خطا اور لغزش سے پاک ہے۔ اس لئے اس منصب عالی کے نتائج بھی اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھے ہیں۔اور زمانہ وحالات کے اعتبار سے یہ از ابتداء تا انتہاء وحی ہے خواہ اللہ تعالیٰ نے اسے برقرار رکھا ہو یا اس کی تصویب کی ہو۔

٭…چونکہ آپ ﷺرسول اللہ ہیں وحی الٰہی سے متمتع ہوئے ہیں۔خطأ ، غلطی اور زلت سے آپ ﷺ معصوم ہیں۔اس لئے آپ ﷺ کی دی ہوئی خبر کی تصدیق اور آپ ﷺ کے اوامر کی طاعت کا قرآن کریم بلااستثناء مطالبہ کرتا ہے۔ رسول کی ہر ادا کو ایمان ومحبت سے دیکھنا ہے۔یہ من موجی کو من موہنا بناتی ہے۔ اس لئے اس کی عقلی تعبیر سے احتراز کیا جائے۔ اپنے پیاروں کے طور طریقوں کو اس میں شامل نہ کیا جائے۔اس کی اجازت سیدنا موسیٰ وعیسیٰ علیہما السلام کے لئے بھی نہیں۔

٭…قرآن مجید کی روشنی میں معلم کتاب کے مختلف حیثیات کا واضح پتہ چلتا ہے مگر بعض چشم کوروں کو یہ اجالے دھندلے نظر آتے ہیں۔ اور قرآن کھولتے ہی {ذَہَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِہِمْ}کی بدنصیبی کا شکار ہوجاتے ہیں۔وجہ اپنے آپ کو ماڈرن، محقق ثابت کرنے اور آپ ﷺ کے دئے ہوئے کلچر کو عربی کلچر کا نام دینے اور خود کودوسروں کے کلچر میں ڈھالنے کا شوق ہے جو ذہنی غلامی کے سوا کچھ نہیں۔

حجیت:
اس کی اہمیت کے لئے علماء حدیث کے ہاں حجیت کا لفظ مستعمل ہے۔جس کامعنی: اظہار:۔ سامنے ظاہر کرنا… کشف:۔ کھول کر رکھ دینا … دلالت:۔ رہنمائی کرنا کے ہیں۔اور حجیت حدیث سے مراد یہ ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کا ہر ثابت شدہ قول ، فعل اور تقریر جسمانی یا اخلاقی صفت اور سیرت جب ہمارے سامنے ہو تو صرف وہی ہمارے لئے دلیل اور رہنما ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہی ہمیں فرمایا ہے کہ جو رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے روکے اس سے باز آجاؤ۔اسے ماننا ہی ایمان ہے۔بلکہ قرآن سے پہلے اسے ہی ماننے کا الٰہی مطالبہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کے الفاظ اور معانی (حدیث)دونوں کی حفاظت کی ہے اور یہی اس نے اپنے ذمہ لیا ہے۔ اور اس کا ذکر بھی ساتھ ساتھ چلا دیا ہے۔
کسی مسلمان شاعر نے کیا خوب کہا:
وَضَمَّ الإِلٰہُ اسْمَ النَّبِیِّ مَعَ اسْمِہِ إِذَا قَالَ فِی الْخَمْسِ الْمُؤَذِّنُ أَشْہَدُ
اور اللہ نے اپنے نام کے ساتھ نبی کا نام بھی جوڑ دیا وہ اس طرح کہ جب مؤذن پانچ دفعہ اذان میں أشہد کہتا ہے۔

اسی طرح فارسی شاعر نے اس کا مفہوم یہ بتایا:
گفتہ او گفتہ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبد اللہ بود
آپ ﷺ کا کہنا گویا کہ اللہ تعالیٰ کا کہنا ہے اگرچہ وہ الفاظ نکلتے عبد اللہ(یعنی آپ ﷺ) کے حلق سے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دلائل:
سنت نبویہ ، قرآن کریم کے ہمراہ دین اسلام کا ایک شرعی مصدر ہے جس پر تمام سلف صالح کا اجماع ہے۔قرآن وسنت دونوں دین اسلام کی بنیاد ہیں اس لئے سنت کی حفاظت بھی قرآن کی طرح ہوئی اوردونوں کی بقاء دونوں کے وجود سے ہے۔یہ عقیدہ ،عصمت سنت کا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم کی طرح وحی شدہ ہے۔قرآن کریم میں بے شمار ایسے دلائل ہیں جو سنت نبویہ کو وحی ثابت کرتے ہیں۔ مثلاً:

۱۔ سابقہ اقوام کے حدیثی انکار پر ان کا فیصلہ:
٭ …بہت سے انبیاء کرام کے خطبات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے ہم جانتے ہیں کہ ان پر کتب نازل نہیں ہوئی تھیں نہ ہی قوم نے مطالبہ کیا تھا۔مگر ان کی بات اور نصیحت (حدیث)کو اللہ تعالیٰ نے قوم کے لئے حجت بنایا۔ یہ سب نبی وقت کی قطعی حدیث تھی جس نے مانا وہ بچا اور جو منکر ہوا اسے تباہ کردیا۔ مثال کے طور پرقوم نوح، قوم شعیب، قوم صالح، قوم ہود کو لے لیجئے۔ان پر نازل شدہ وحی خفی یا خطبات یا احادیث کی انہوں نے تکذیب کی جس کی سزا قوم نے جھیلی۔

٭…موسیٰ علیہ السلام نے وحی خفی کی بنیاد پر فرعون اور اس کے درباریوں کو ایمان لانے اور بنو اسرائیل کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیاتو فرعون تلملایا۔ دونوں بھائیوں کوزچ کرنے کے لئے جادوگر میدان میں لایا۔ جادوگر رسالت کے کمال کو دیکھ کر سنت موسوی کو مان بیٹھے کہ یہ جادو نہیں بلکہ وحی ہے اور ایمان لا کر اسی سنت پر جان تک دے دی مگر فرعون ، سنت رسول کو نہ مان سکااوربے ایمان رہا۔حتی کہ اسی انکار کے سبب سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے دعوی رسالت (حدیث) کے انکار پر اپنے چیلوں کو تباہ وبرباد کروا بیٹھا۔یہ یاد رہے کہ فرعون کے غرق ہونے کے بعد سیدناموسیٰ علیہ السلام پر توراۃ مقدس اتری۔پہلے صرف ان کے پاس حدیث ہی تھی۔

٭…حدیث رسول وحی خفی ہے۔ غرقابی کے وقت فرعون نے بھی اسی سنت کو ماننے کا اعلان کیا۔ایسے عالم میں اسے مزیدذلیل کیا گیا اور منہ پر{ الآن} کہہ کر مٹی پھینکی گئی تاکہ منکرین حدیث کو سبق مل جائے۔

٭… آپ ﷺ کا دعوی: مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ مجھے رسول مانو۔بطور دلیل آپ ﷺ نے نازل شدہ آیات سنائیں۔ جسے ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے سنا اورقبول کیا اور ورقہ بن نوفل نے مانا۔یہ دعوی رسالت، حدیث کہلاتا ہے جو قرآن سے پہلے رسول اللہ ﷺ کو ماننے کامتقاضی ہے۔

٭… اگر آپ ﷺ کو ہم رسول مانتے ہیں تو وحدانیت کا اقرار بھی ہم کریں گے۔ اور اگر نہیں تو دوسری اقوام کی طرح ہم بھی اللہ کو ویسے مان لیں گے جس طرح ابوجہل مانتا تھا۔ اس دعوے کو قبول کرنے کے لئے رسول کے دعو ائے رسالت (حدیث) کو سچ مانیں گے تو عقیدہ توحید دوسروں سے ممتاز ہوگا اورآپ ﷺ پر اتری پہلی وحی کی تصدیق ہو سکے گی ورنہ قرآن بھی مذاق بن جائے گا۔ اس لئے حدیث کو تسلیم نہ کرنے کایہ سادہ مطلب نہ لیں کہ قرآن تو بہر حال مانا جارہا ہے۔ حدیث نہیں مانتے تو کیا ہوا؟ نہیں! بلکہ یہ قرآن کا ہی انکار ہے۔

٭…پہلی وحی میں آپ پر کون سی آیات نازل ہوئیں؟ یہ کس نے بتایا؟ اور اگر{ اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ}تھی تو قرآن مجید کی موجودہ ترتیب تو غلط ہے؟ یہ ترتیب کس نے دی؟ یا یہ بدلا ہوا قرآن ہے؟ یہ حدیث ہی ہے جو قرآن کریم کی موجودہ ترتیب بتاتی ہے۔مثلاً آپ ﷺ ہر آیت وسورت کے نزول کے بعدکاتبین وحی سے فرماتے ہیں کہ اس سورت کو یا اس آیت کو فلاں فلاں مقام پہ رکھو۔ اس کی ترتیب بتاتے ہیں اور لکھواتے ہیں یہی توحدیث ہے۔ پہلے اسے مانیں گے تو پھرموجودہ قرآن مجید کو صحیح کتاب تسلیم کریں گے ۔!!!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… آپ ﷺ نے پہاڑی خطبہ دیا ۔ حاضرین کو قرآن سنایا اور نہ ہی وہاں یہ بتایا کہ مجھ پر قرآن اترا ہے۔ صرف لا إلہ إلا اللہ اوراپنی رسالت کو تسلیم کرنے کی دعوت دی۔ یہ الفاظ خطبہ، حدیث ہی کہلاتے ہیں۔ان حاضرین میں جس نے ان الفاظ وحی کو مانا اسے مسلمان کہا گیا اور جس نے نہیں مانا اس کی بربادی کے بارے میں سورہ لہب اتر گئی۔اس لئے قرآن کریم میں{ یٰنُوْحُ إنَّہُ لَیْسَ مِنْ أَہْلِکَ، إنَّہُ عَمَلُ غَیْرِ صَالِحٍ} کی بات ہو یا{ لَا تَخَفْ إنَّکَ أَنْتَ الْأَعْلٰی} کی یا {اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ}۔ یہ سب وہ وحی نہ تھی جو عام ہدایت کے لئے کتاب کی شکل میں نازل ہوتی ہے بلکہ وحی خفی تھی جس کے منکرین کابراانجام ہوا۔

٭… آپ ﷺنے شاہ مصرمقوقس کو خط لکھا جس میں اسلام کی دعوت دی ۔ اس دعوت کا بنیادی نکتہ آپ ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا اور آپ ﷺ کی تصدیق کرنا ہے۔ مقوقس اگر اس خط(حدیث) کو قبول کرتا ہے تو مومن ہے اور اگر نہیں تو کیا کہلائے گا؟۔ یہی حدیث ہے ۔ جو حجت ہے۔

٭…آپ ﷺ معراج سے واپس تشریف لائے تو اس خبر(حدیث) کی تصدیق پر جناب ابوبکر، صدیق اکبر بن گئے اور تکذیب پر ابوالحکم، ابوجہل ٹھہرا۔آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو پنج وقتہ نماز کی فرضیت کا تحفہ دیا ۔قبلہ متعین کیا۔وضو کا طریقہ آپﷺ نے بتایا۔وقت اور تعدادِ رکعات کی تفاصیل آپ ﷺ نے بتائیں۔جس نے مانا اس نے نماز پڑھنا شروع کردی۔ آفرین ہے ان صحابہ کے ایمان پر جنہوں نے یہ تک نہ کہا: اللہ کے رسول! آپ ﷺ جو کچھ فرمارہے ہیں اس بارے میں کوئی آیت یا سورت تو قرآن میں اتری نہیں؟ ہم اسے کیسے مانیں؟ مومنون اور صادقون کا خطاب انہیں آخر ایسے تو نہیں ملا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…حدیث کو حجت نہ سمجھنے والوں کو آپ ﷺ نے ایک مسکت جواب دیا۔ سنن ابوداؤد ۵/۱۱میں ہے:
أَلاَ إِنِّی أُوْتِیْتُ الْقرآنَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ،أَلاَ یُوشِکُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَی أَرِیْکَتِہِ یَقُوْلُ عَلَیْکُمْ بِہٰذَا الْقُرْآنِ، فَمَا وَجَدْتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَلاَلٍ فَأَحِلُّوہُ ، وَمَا وَجَدْتُّمْ فِیْہ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوہُ، أَلاَ لَایَحِلُّ لَکُمُ الْحِمَارُ الأَہْلِیُّ وَلاَ کُلُّ ذِیْ نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ۔
سنو مجھے قرآن اور اس کے مثل بھی دیا گیا ہے۔ سنو: ہو سکتا ہے کوئی سیر شکم آدمی اپنی مسند پہ بیٹھا یہ کہہ دے: قرآن کو ہی صرف پکڑو۔ تو جو تم اس میں حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جو تم اس میں حرام پاؤ اسے حرام جانو۔ (میں کہتا ہوں )غور سے سنو: تمہارے لئے پالتو گدھا حرام ہے اور ہر درندہ بھی۔

مطلب آپ ﷺ کا یہ تھا کہ اگر تم نے میری حدیث کا ہی انکار کرنا ہے تو پھر گدھا کھا لینا اور درندوں میں کتا وسور بھی۔ کیونکہ میری احادیث پر ایمان لائے بغیر تمہارے لئے یہ چیزیں حلال ہوں گی۔ اس لئے کہ ان کی حرمت کا ذکر قرآن میں نہیں۔ ہاںمیری احادیث میں ضرور ہے۔

٭…معاملہ سمجھ آتا ہے کہ انکار حدیث کا مطلب مقام ومنصب ر سالت چھین کر خود لے لیا جائے۔کیاپکی پکائی پر راضی ہونا چاہتے ہیں؟ مگر ذرا ان محاذوں میں بھی داخل ہونے کی کوشش ہونی چاہئے جہاں رسول اللہ ﷺ نے اس قرآن کے مطابق منافق، مشرک، یہود ونصاری سے دلیل، اخلاق اور پھر طاقت سے ان کا سامنا کیا۔
اس لئے امام ابنؒ حزم لکھتے ہیں:
وَلَوْ أَنَّ امْرَأً قَالَ: لاَ نَأخُذُ إِلاَّ مَا وَجَدْنَا فِی الْقُرْآنِ لَکَانَ کَافِراً بِإِجْمَاعِ الأُمَّۃِ، وَلَکَانَ لَا یَلْزَمُہُ إِلاَّ رَکْعَۃٌ مَا بَیْنَ دُلُوْکِ الشَّمْسُ إِلٰی غَسَقِ اللَّیْلِ وَأُخْرٰی عِنْدَ الْفَجْرِ، لِأَنَّ ذَلِکَ أَقَلُّ مَا یَقَعُ عَلَیْہِ اسْمُ الصَّلٰوۃِ وَلَا حَدَّ لِلْأَکْثَرِ فِیْ ذَلِکَ، وَقَائِلُ ہَذَا کَاِفرٌ مُشْرِکٌ۔اگر کوئی یہ کہے: ہم وہی اختیار کریں گے جو قرآن میں ہے تو وہ ازروئے اجماعِ امت کافر ہوگا ایسے شخص پر تو طلوع شمس اور غروب آفتاب کے درمیان صرف ایک رکعت لازم ہوگی اور دوسری فجر کے وقت۔ کیونکہ یہی کم تر تعداد ہے جسے نماز کہا جاسکتا ہے باقی ایک سے زائد رکعت کی تو کوئی حد نہیں۔ ایسا قائل نہ صرف کافر بلکہ مشرک بھی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
انکار حدیث کیجئے اور پھر قرآنی اصطلاحات کو کالی ڈکشنریوں سے نکال کر انہیں من مانا مفہوم دے دیجئے۔پھر دیکھئے کتنا بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔احمد دین امرتسری سے عبد اللہ چکڑالوی تک سبھی کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح پانچ وقت کی نماز اور ہر نماز کی متعین رکعتیں قرآن کریم سے ثابت کرسکیں مگر بری طرح ناکام رہے۔ان کے اخلاف نے قرآن کریم سے دو نمازیں نکالیں اور ان دو نمازوں کو انہوں نے صبح وشام اللہ میاں کا پروپیگنڈہ کرنے کا نام دیا۔

اہمیت:
قرآن مجید کے علوم ہوں یا فقہی احکام ، اصول فقہ ہو یاتفسیر قرآن یااخلاق وآداب ہوں سبھی حدیث کے محتاج ہیں۔ اس کے بغیر کسی بھی علم کی صحیح اور درست وضاحت وترجمانی نہیں ہوسکتی۔ سنت کے بغیر قرآن پر عمل ناممکن ہے۔اس لئے اسلاف کا یہ قول بالکل درست معلوم ہوتا ہے کہ القُرْآنُ أَحْوَجُ إِلَی السُّنَّۃِ مِنَ السُّنَّۃِ۔ قرآن سنت کا زیادہ محتاج ہے بہ نسبت سنت کے۔ آدھا دین تو یہی ہے۔اور قرآن کے دوش بہ دوش ہے۔ اس لئے :

٭… حدیث تمام تر شرعی حجت ہے خواہ وہ متواتر ہو یا خبر واحد۔ بشرطیکہ آپ ﷺ سے ثابت ہو۔ کیونکہ اس کے حجت ہونے میں اعتبار ثقہ راویوں کا ہے نہ کہ ان کی کثرت تعداد کا۔

٭… دین کے اصول اور اعتقادات اس سے ثابت ہیں نہ کہ فروعات۔کیونکہ حدیث کا تعلق رسالت سے ہے جو ایمان وعقیدہ سے مربوط ہے۔ دلائل ثابت ہوجانے کے بعد جو اس کا مخالف ہے وہ دراصل اسلام کا مخالف ہے۔

٭…چند جائز اعتراضات جو غیروں کے تھے اس میں کوئی شک نہیں متعصبانہ تھے نہ کہ علمی ۔اس لئے کہ وہ{ وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ}۔۔ {وَدَّ کَثِیْرٌ مِنْ أہْلِ الْکِتَابِ} کی شہادت ہے۔ ان لوگوں کے سینوں میں چھپا اسلام مخالف کینہ وبغض اس آیت میں بتادیا ہے: {وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُہُمْ أَکْبَرُ} اوران کا ظاہر{ مُوْتُوْا بِغَیْضِکُمْ }کی سچی تصویریں بناپھرتا ہے۔کسی وادی میں کوئی چلا رہا ہے تو کوئی کہیں راکھ کو مزید سلگارہاہے ۔

مگر کیا ان کے اعتراضات سے متاثر ہونا ہی صحیح دین فہمی ہے؟ اگر احادیث کواغیار مشکوک قرار دیتے ہیں تو ہمیں توفیق کیوں نصیب نہیں ہوتی کہ حدیث رسول ﷺ کو خالی الذہن ہوکر پڑھیں اس کا گہرا مطالعہ کریں اور ایسے شکوک اور غلط فہمیوں کا ہم جواب دیں؟کیا یہی حمیت دینی ہے کہ ان کفار کے طرز عمل کو ہم پسند کرکے اپنے ہی گھر پر تابڑ توڑ حملے کرنے لگ جائیں؟ اگرواقعی ان کی بات پر یقین کرنا ہے تو پھر ان اعتراضات کا کیاکریں گے جو انہوں نے قرآن کریم پرکئے؟ کیا ایسے لوگ اسی سوچ کے حامل تو نہیں جو رسول اللہ ﷺ کے دور میں مکہ میں تھے یا منافقین ویہودمدینہ تھے جو قرآن اوررسول اللہ ﷺکا استہزاء کرتے اور آئے دن جدید اعتراضات کیا کرتے تھے؟کیا صرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دل میں نفرت پالنے والوں کی باتوں پر ہی ہم یقین کرلیں اور قرآن کریم کی بات پر ہمارا یقین بڑا کمزور ہو؟ آخر ایمان پھر کس چیز کا نام ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ہم یہ بات بڑے وثوق سے کہتے ہیں کہ ہمارے کچھ دانشور حدیث کے بارے میں بہکے خیالات رکھتے ہیں۔ ظاہروہ یہی کرتے ہیں کہ یہ ہماری تحقیق وافکار ہیں مگر در حقیقت یہ خیالات انہی غیر مسلم مفکرین کے ہیں مگر الفاظ ان کے اپنے ہیں۔

اس لئے ان چند اعتراضات کی بناء پر احادیث سے انکار مناسب نہیں۔و ہاں ان کا تشفی بخش جواب ضرور ہونا چاہئے۔ جو ان شاء اللہ ہم یہاں ضرور بیان کریں گے۔مثلاً یہ اعتراض کہ حدیث حجت نہیں اس لئے کہ وہ قطعی طور پر ثابت نہیں۔

۲۔ سنت وقرآن کے مابین تفریق، کفر ۔
{وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہِ وَلَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ أحَدٍ مِّنْہُمْ أُولٰئِکَ سَوْفَ یُؤْتِیْہِمْ أُجُوْرَہُمْ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَحِیْمًا}۔ اور وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک کے درمیان تفریق نہیں کرتے۔یہی وہ لوگ ہیں جن کو ضرور ان کا اجر اللہ تعالیٰ دے گا یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
{إِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَرُسُلِہِ وُیُرِیْدُوْنَ أَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰہِ وَرُسُلِہِ وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَیُرِیْدُوْنَ أَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلاً أُولٰئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا وَأَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّہِیْنًا}۔ بیشک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں کا کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کرڈالیں اور کہتے ہیں کہ ہم کچھ کو مانیں گے اور کچھ کو نہیں۔اور چاہتے ہیں کہ وہ اس کے درمیان کی کوئی راہ پکڑ لیں۔ یہ لوگ پکے کافر ہیں ہم نے کافروں کے لئے اہانت آمیز عذاب تیار کررکھا ہے۔

کس قدر سخت بات ہے مگر اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان جامع ارشادات کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی توضیحات ، آوارگی کی تمام راہوں کو روک دے گی۔آیت میں تفریق کا مطلب یہی ہے کہ قرآن کو مانا جائے اور سنت رسول کا انکار کردیا جائے۔یارسول اللہ ﷺ کی اطاعت کا وہ مفہوم نہ لیاجائے جو قرآن نے متعین کیا ہے۔وغیرہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…مشرکین واہل کتاب کے آپ ﷺ سے سوالات واعتراضات۔۔ دعوت دین کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات اور ان کا حل ۔۔ مدنی زندگی کے معاہدات۔۔ درون خانہ منافقین کی عیارانہ چالیں۔۔ غزوات رسول۔۔یہود ومشرکین کا ایکا۔۔صلح حدیبیہ۔۔اوردینی دعوت کے بہترین مواقع ۔۔فتح مکہ۔۔حجۃ الوداع۔۔اور وفات رسول۔یہ سبھی ادوارسوالات کے ہیں اور قرآن کریم سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔مگربیشتر کا جواب رسول اللہ ﷺ نے دیا۔اگر آپ ﷺ نہ ہوں تو آیات قرآنیہ بے معنی رہ جاتی ہیں۔یہ سوال بے معنی ہوجاتے ہیں۔ اس لئے دونوں کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔

٭…غزوۂ احد کے بعد زخموں سے چور مسلمانوں کو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہمیں کفار کا پیچھا کرنا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ پلٹ کروہ ہم پر حملہ کردیں۔ مسلمان تیار ہوگئے اور حمراء الاسد تک گئے۔ بعد کی نازل شدہ آیات نے یہ باور کرایا کہ کفار کا پیچھا کرنے کا حکم اللہ کی طرف سے تھا حالانکہ صحابہ جانتے تھے کہ آپ ﷺ پر کوئی آیت نہیں اتری جس میں مسلمانوں کو کفار کا پیچھا کرنے کا حکم دیا گیا ہو۔ نازل شدہ آیت یہ تھی: {الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَہُمُ الْقَرْحُ}۔۔

٭… اگر قرآن الفاظ میں ہی پہنچانا ہوتا تو یہ کام اللہ تعالیٰ خود بھی کرسکتا تھا کہ وہ لوگوں کے دلوںمیں اس کا القاء کردیتا یا کوئی بھی طریقہ اختیار کرلیتا۔کیونکہ وہ قادر مطلق ہے۔رسول اللہ ﷺسے اس کی قولی اور عملی وضاحت کیوں کروائی؟ اس کا جواب بھی یہی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے جو عمل کئے جو بھی فیصلے فرمائے یا دین کی تفصیلات اور فروعی مسائل ارشاد فرمائے۔ سبھی {بِمَاأَرَاکَ اللّٰہُ} یعنی قرآن کی روشنی میں ہی اللہ تعالیٰ نے سجھائے۔ اور یہ انسانوں کی سمجھ سے بالا تر نہیں تھے اور نہ ہی عملاً ناممکن تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسرے لفظوںمیں:
علماء متفق ہیں کہ سنت ،سارے کا سارا دین ہے، وحی ہے اور منزل من اللہ ہے۔ جس میں ذاتی معاملات میں بھی رسول محترم کا حکم ماننا عین دین ہے ورنہ ایمان کی رخصتی ہے۔ قرآن کا مطالبہ ہے کہ {إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ} میری اتباع کرو۔ آپ ﷺ کا بھی ارشاد ہے:
تَرَکْتُکُمْ عَلَی الْبَیْضَائِ لَیْلُہَا کَنَہَارِہَا لاَ یَزِیْغُ عَنْہُ بَعْدِیْ إِلَّا ہَالِکٌ۔(مقدمہ ابن ماجہ)
میں تمہیں ایسی روشن راہ پر چھوڑے جارہا ہوں جس کی رات بھی اس کے دن کی طرح ہے اس سے میرے بعد وہی ٹیڑھا ہوگا جس نے ہلاک ہونا ہو۔

… سنت رسول ایسی وحی ہے جو ہمہ گیر ہے۔ جس نے ہر عادت، کلچر، تہذیب کو اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی۔یہ متأثر کرنے کے لئے آئی متأثر ہونے کے لئے نہیں۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے زید ؓبن حارثہ سے شادی پرآپ ﷺ کے پیغام سے جب انکار کیا تویہ آیت اتری جس میں کہا گیا: {مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا لِمُؤْمِنَۃٍ إِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَمْرًا أَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أَمْرِہِمْ۔۔۔}(الأحزاب: ۳۶) اس میں لفظ {أمرًا} سیاق شرط میں آیا ہے جو عام ہوگیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ مومن مردو عورت میں کوئی ایسا ہو ہی نہیں سکتا جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم سننے کے بعد کسی معاملے میں اپنا حق دیکھتے پھریں۔اگر وہ اپنے حق اختیار کو اپناتا ہے تو وہ اللہ ورسول کا نافرمان وباغی ہے۔بلکہ وہ بھٹکا ہوا ہے جس کا اس کے پاس کوئی عذر نہیں۔یہ آیت بلا استثناء رسول اکرم ﷺ کے ہر حکم کو شامل ہے۔ کیونکہ یہ {إذا قضی اللّٰہ ورسولہ أمراً} کا مفہوم عام دے رہی ہے۔ سبب نزول پر غور کیں تو بات مزید سنجیدہ اور سخت نظر آتی ہے اور جب یہ آیت اتری تو انہوں نے مان لیا۔یہ ایک دنیوی معاملہ تھا اور خاص طور پر ذاتی نوعیت کا بھی۔ پھر بھی حکم یہی آیا کہ آپ ﷺ کی اطاعت وتسلیم چاہئے جس میں تہدید ووعید بھی واضح اسلوب میں تھی۔ امام مکحول ؒفرمایا کرتے تھے:
اَلسُّنَّۃُ سُنَّتَانِ: سُنَّۃُ الأَخْذُ بِہَا فَرِیْضَۃٌ وَتَرْکُہَا کُفْرٌ، وسُنَّۃَُ الأَخْذُ بِہَا فَضِیْلَۃٌ وَتَرْکُہَا إِلیٰ غَیْرِہَا حَرَجٌ۔سنت دوہیں۔ایک وہ جس کا پکڑنا فرض ہے اور ترک کرنا کفر، اور دوسری وہ جس کا پکڑنا باعث فضیلت ہے اور اسے چھوڑ کر غیر کو اپنانا باعث حرج۔(سنن دارمی ۱/۱۴۵ )
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
… تعلقات بھی آپ ﷺ نے رکھے مگر سنت کا سودا نہیں کیا۔ صحابہ رسول نے سفارت کی تو نمائندگی سنت کی ہی کی۔اور واشگاف الفاظ میں پیغام رسول وعادات رسول کو نہ صرف پیش کیا بلکہ فخریہ انہیں کرکے بھی دکھایا۔ سنت کے درس سادگی نے بڑے بڑوں کو متأثر کیا اور غریبوں کو اپنا عزیزتر بنادیا۔ آپ ﷺ اپنی سرزمین میں جو کچھ پاتے اس کا مناسب استعمال کرتے ، کھا تے اور پہنتے بھی، سوار ی بھی کرتے۔ یہ زہد وقناعت بھی تھا اور سنت بھی۔

… ہمسایہ مشرکین واہل کتاب کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ان سے معاہدہ دوستی بھی کیا مگرالإسْلَامُ یَعْلُوْ وَلاَ یُعْلٰی۔ دین سربلند رہتا ہے اور کبھی زیر نہیں ،کے اصول پر۔ اور سرکشی پر ان کے خلاف جہاد بھی کیا۔

٭…یہ سنت قرآن مجید کے دوش بہ دوش رہتی ہے۔اسی کی طرح واجب الاتباع بھی ہے۔ خلیفہ راشد عمر ؓبن الخطاب کے سیکرٹری نے خط کے آخر میں لکھ دیا:
ہَذَا مَارَأَی اﷲ ُوَ رَأَی عُمَرُ یعنی یہ وہ رائے ہے جو اﷲ کی ہے اور عمر ؓکی۔ خلیفۂ راشد نے اصلاح کرتے ہوئے فرمایا : یہ بات درست نہیں تم یوں کہو: یہ وہ رائے ہے جو عمر ؓ کی ہے اگر یہ اچھی ہوئی تو اﷲ کی طرف سے ہے اور اگر خدا نخواستہ غلط ہوئی تو عمر کی طرف سے ہے۔ پھر فرمایا: السُّنَّۃُ مَا سَنَّہُ اللّٰہ ُوَرَسُوْلُہُ، لاَ تَجْعَلُوْا خَطَأَ الرَّأْیِ سُنَّۃً لِّلْأُمَّۃِ۔سنت وہ ہے جسے اﷲ اور اس کا رسول سنت قرار دیں۔ ایک غلط رائے کو امت کیلئے سنت مت بناؤ ۔(اعلام الموقعین: ۲/۴۶ )

…معاندین کی کوشش:
یہ پوری کوشش ہورہی ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کو اللہ اور اس کے رسول کی پیروی سے ہٹا دیں۔ جس کے لئے ان کا نشانہ جہاں کتاب اللہ ہے وہاں سنت رسول بھی ہے۔ جس کے مفاہیم کو بگاڑنے میں انہوں نے راتوں کی نیندیں حرام کیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کی سنت یہی رہی ہے کہ رسول محترم کی سنت کو باقی رکھنے کے لئے اس کے بندے ہمیشہ میدان کارزار میں رہیں اور ایسے لوگوں کے جھوٹ وفساد اور بدعملی ودورنگی کو بے نقاب کرتے رہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۳۔ خلافتی امور میں حدیث رسول کا کردار
٭… خلفاء اربعہ اور فقہاء صحابہ کو جب قرآن مجید سے کوئی نص نہ ملتی تواستنباط احکام، حدیث سے کرتے ۔سیدنا ابوبکر ؓنے میراث جدہ کا مسئلہ اسی سے حل کیا۔ سیدناعمر ؓ نے عورت کا حمل کسی کی زیادتی کی وجہ سے گرنے پر صحابہ کرام سے اس کا حل پوچھا تو دو صحابہ نے گواہی دی کہ آپ ﷺ نے زیادتی کرنے والے پر ایک غلام یا ایک لونڈی کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ یہ سنتے ہی امیر المؤمنین نے آپ ﷺ کے فیصلہ کی پیروی کرتے ہوئے فیصلہ دیا۔ حدیث استئذان(گھر میں داخل ہونے کی اجازت) کے پیش کرنے پر ہی ابوموسیٰ اشعری ؓ کو معاف کیا تھا۔ سیدنا علیؓ نے سیدنا عثمانؓ کے حج تمتع سے منع فرمانے پر حج تمتع کا احرام باندھا اور فرمایا کہ کسی شخص کے کہنے پر میں سنت نبوی کو خیر باد نہیں کہہ سکتا۔صحابہ کرام تو حدیث کے بغیر کسی بھی آرڈینینس یا فیصلے کو قبول نہیں کیا کرتے تھے بلکہ ہر موقع پر انہیں حدیث رسول ہی قائل کیا کرتی تھی۔

۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بار فرمایا:
میرا دل چاہتا ہے کہ آباد وبنجر زمین مسلمانوں کے درمیان بانٹ دوں۔ شیبہ کہتے ہیں : میں نے کہا: آپ یہ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے فرمایا: وہ کیوں؟ میں نے عرض کی: لَمْ یَفْعَلْہُ صَاحِبَاکَ۔ آپ کے دو ساتھیوں۔۔رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابوبکر ؓ نے۔۔ ایسا نہیں کیا۔ فرمانے لگے: ہُمَا الْمَرْآنِ، یُقْتَدٰٰی بِہِمَا۔ جی ہاں وہ دونوں ہی توایسے مردہیں جن کی پیروی کرنا ضروری ہے۔(فتح الباری ۱۳؍۲۴۹)

عکرمہ ؒ کہتے ہیں:
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس زندیق لائے گئے۔ جنہیں سیدنا علی ؓ نے زندہ جلوا دیا۔ سیدنا ابن عباسؓ کو جب اس کا علم ہو تو فرمانے لگے: اگر میں ہوتا تو انہیں نہ جلاتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ لاَ تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللّٰہِ۔ لوگوں کو اللہ والا عذاب مت دو۔ بلکہ میں انہیں قتل کردیتا کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا: جو اپنا دین بدلے اسے قتل کردو۔ امام ترمذی کی روایت میں یہ لفظ بھی ہیں: سیدنا علیؓ کو جب ابنؓ عباس کی گفتگو کا علم ہو تو انہوں نے فرمایا: صَدَقَ ابْنُ عَبَّاسٍ۔ ابن عباسؓ نے سچ کہا۔(فتح الباری ۶؍۱۴۹، سنن الترمذی ۴؍۵۹)

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ طواف بیت اللہ کیا اور ہر رکن کو انہوں نے استلام کرنا شروع کردیا۔ ابنؓ عباس فرمانے لگے: آپ کیوں ان دورکنوں کو استلام کرتے ہیں جبکہ آپ ﷺ نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ سیدنا امیر معاویہ فرمانے لگے: لَیْسَ شَئٌ مِنْ ہٰذَا الْبَیْتِ مَہْجُوراً۔ اس گھر کی کوئی شے چھوڑی نہیں جاسکتی۔ سیدنا ابن عباسؓ نے فرمایا: {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ}تمہارے لئے رسول اللہ میں ایک بہترین نمونہ ہے۔ سیدنا امیر معاویہ ؓنے سنتے ہی فرمایا: صَدَقْتَ: ابن عباسؓ! تم نے سچ کہا۔ (مسند احمد: ۱۲؍۴۱، فتح الباری ۳؍۲۰۴)
 
Top