- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
اہمیت وضرورت حدیث وسنت
٭…حدیث، شریعت اسلامیہ کاآخری اور دوسرا الہامی ذخیرہ و مأخذ ہے۔جسے قرآن کریم کی طرح بذریعہ وحی، زبان رسالت نے پیش فرمایا۔یہ اس ہستی کا عطا کردہ خزانہ عامرہ ہے جس کا ہر قول وعمل، ہر خطا اور لغزش سے پاک ہے۔ اس لئے اس منصب عالی کے نتائج بھی اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھے ہیں۔اور زمانہ وحالات کے اعتبار سے یہ از ابتداء تا انتہاء وحی ہے خواہ اللہ تعالیٰ نے اسے برقرار رکھا ہو یا اس کی تصویب کی ہو۔
٭…چونکہ آپ ﷺرسول اللہ ہیں وحی الٰہی سے متمتع ہوئے ہیں۔خطأ ، غلطی اور زلت سے آپ ﷺ معصوم ہیں۔اس لئے آپ ﷺ کی دی ہوئی خبر کی تصدیق اور آپ ﷺ کے اوامر کی طاعت کا قرآن کریم بلااستثناء مطالبہ کرتا ہے۔ رسول کی ہر ادا کو ایمان ومحبت سے دیکھنا ہے۔یہ من موجی کو من موہنا بناتی ہے۔ اس لئے اس کی عقلی تعبیر سے احتراز کیا جائے۔ اپنے پیاروں کے طور طریقوں کو اس میں شامل نہ کیا جائے۔اس کی اجازت سیدنا موسیٰ وعیسیٰ علیہما السلام کے لئے بھی نہیں۔
٭…قرآن مجید کی روشنی میں معلم کتاب کے مختلف حیثیات کا واضح پتہ چلتا ہے مگر بعض چشم کوروں کو یہ اجالے دھندلے نظر آتے ہیں۔ اور قرآن کھولتے ہی {ذَہَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِہِمْ}کی بدنصیبی کا شکار ہوجاتے ہیں۔وجہ اپنے آپ کو ماڈرن، محقق ثابت کرنے اور آپ ﷺ کے دئے ہوئے کلچر کو عربی کلچر کا نام دینے اور خود کودوسروں کے کلچر میں ڈھالنے کا شوق ہے جو ذہنی غلامی کے سوا کچھ نہیں۔
حجیت:
اس کی اہمیت کے لئے علماء حدیث کے ہاں حجیت کا لفظ مستعمل ہے۔جس کامعنی: اظہار:۔ سامنے ظاہر کرنا… کشف:۔ کھول کر رکھ دینا … دلالت:۔ رہنمائی کرنا کے ہیں۔اور حجیت حدیث سے مراد یہ ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کا ہر ثابت شدہ قول ، فعل اور تقریر جسمانی یا اخلاقی صفت اور سیرت جب ہمارے سامنے ہو تو صرف وہی ہمارے لئے دلیل اور رہنما ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہی ہمیں فرمایا ہے کہ جو رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے روکے اس سے باز آجاؤ۔اسے ماننا ہی ایمان ہے۔بلکہ قرآن سے پہلے اسے ہی ماننے کا الٰہی مطالبہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کے الفاظ اور معانی (حدیث)دونوں کی حفاظت کی ہے اور یہی اس نے اپنے ذمہ لیا ہے۔ اور اس کا ذکر بھی ساتھ ساتھ چلا دیا ہے۔
کسی مسلمان شاعر نے کیا خوب کہا:
وَضَمَّ الإِلٰہُ اسْمَ النَّبِیِّ مَعَ اسْمِہِ إِذَا قَالَ فِی الْخَمْسِ الْمُؤَذِّنُ أَشْہَدُ
اور اللہ نے اپنے نام کے ساتھ نبی کا نام بھی جوڑ دیا وہ اس طرح کہ جب مؤذن پانچ دفعہ اذان میں أشہد کہتا ہے۔
اسی طرح فارسی شاعر نے اس کا مفہوم یہ بتایا:
گفتہ او گفتہ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبد اللہ بود
آپ ﷺ کا کہنا گویا کہ اللہ تعالیٰ کا کہنا ہے اگرچہ وہ الفاظ نکلتے عبد اللہ(یعنی آپ ﷺ) کے حلق سے ہیں۔