o)
عبدالستار ایدھی پاکستان کی معروف سماجی شخصیت ہیں، ایدھی صاحب 1928ءکو گجرات میں پیدا ہوئے،تقسیم ہند کے بعد انہوں نے پاکستان ہجرت کرلی، یہاں آکر آباد تو ہوگئے لیکن روزگار کچھ بھی نہیں تھا،انہوں نے روزی کی خاطر پان اور بیڑی کی ریڑھی لگالی،ایک دفعہ سوتر منڈی کے مقام پر کسی نے ایک مزدور کو زخمی کردیا، مزدور کو ہسپتال پہنچانے کے لیے وسائل مہیا نہیں تھے ، اس لیے ایدھی صاحب اپنی ریڑھی میں مزدور کوہسپتال پہنچا آئے، یہیں سے پاکستان کے سب سے بڑے فلاحی ادارے ”ایدھی فاﺅنڈیشن “ کی بنیاد پڑی، اس کے علاوہ ایدھی صاحب کی ماں انہیں بچپن میںانسانیت کی خدمت کی تلقین و نصیحت کیا کرتی تھیں، اس لیے ان کے اندر انسانیت کی خدمت کا جذبہ اسی وقت سے کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، انہوں نے کراچی کے علاقے کھارادر سے ایک چھوٹے سے ادارہ کی بنیاد ڈالی، بعد ازاںایدھی صاحب کے خلوص، محنت اور دیانت کی بنیاد پر اس ادارے نے بہت جلد ترقی کے منازل طے کیے، یوں ایدھی صاحب کا یہ چھوٹا سارفاہی ادارہ پاکستان کا سب سے بڑا ویلفیئر سینٹر بن گیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان بھر میں اس کی سینکڑوں شاخیں کھل گئیں،اس ادارے کے ذریعے آج بھی ہزاروں بیواﺅں،یتیموں اور ناداروں کی کفالت ہورہی ہے، زلزلہ، سیلاب یا کسی بھی آفت زدہ علاقے میں ایدھی صاحب وہاں کے متاثرین کی مدد میں پیش پیش ہوتے ہیں، بے گوروکفن لاشوں کو دھلانے،کفنانے اور دفنانے میں بھی یہ آگے ہوتے ہیں، یہ دکھوں کی ماری بیواﺅں، بے کس و ناجائز اولادوں اور معاشرے کے دھتکارے ہوئے معذوروں کی خاطرسڑکوں پر ”بھیک مہم “بھی چلاتے ہیں، پاکستان بھر میں سب سے اولین دارالامان،مردہ خانہ اورپرائیویٹ ایمبولینس سروس انہی کی مرہون منت ہے،آپ ان کی پاپولیریٹی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ان کے ایک اعلان،ایک درخواست اور ایک ایک التجا پر خواتین اپنے زیورات اتارکر ان کو دیدیتی ہیں،مرد اپنا پرس ان کے ہاتھ میں تھمادیتے ہیں، بچے اپنا جیب خرچ ان کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔ان کی اسی انسانیت دوستی کی وجہ سے یہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مقبول ہیں،بین الاقوامی سطح پر ان کو غیر مسلموں نے بھی لا تعدادایوارڈز اور انعامات سے نوازا۔
چھوٹے بڑے کارندوںسمیت غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد حاضر تھی، قادیانی ٹولے کے سربراہ مرزا مسرور احمد کو اسٹیج پر عین درمیان میں براجمان دیکھا گیا، اس تقریب میں عبدالستار ایدھی کو امن کے سب سے بڑے ایوارڈ سے نوازا گیا، اس کے علاوہ مرزا مسرور کی جانب سے ایدھی صاحب کے لیے دس ہزار پاﺅنڈکے چیک کا اعلان بھی کیا گیا،ادھر پاکستان میں موجود ایدھی صاحب نے اس ”سعادت“پر قادیانی جماعت کا بھرپور شکریہ ادا کیا اور ان کے لیے نیک تمناﺅں کا اظہار کیا ،ان کا کہنا یہ تھا کہ انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے، میں کسی تفریق کو نہیں مانتا، قادیانی جماعت نے جو قدم اٹھایا ہے، وہ اللہ کو راضی کرنے کا کام ہے، اللہ انہیں کامیاب فرمائے۔
یہ باتیں جب میڈیا میں آئیں تو پورے پاکستان میں ایک ہلچل سی مچ گئی اور عجیب سا تاثر دیکھنے میں آیا، میں نے بھی جب یہ خبر سنی اور ایدھی صاحب کا یہ بیان دیکھا تو مجھے عجیب سا محسوس ہوا، واقعی ایدھی صاحب نے جس والہانہ انداز میں قادیانیوں کے اس اقدام پر مسر ت کا اظہار کیا اوران کے لیے دعاﺅں کا اہتمام کیا، وہ پاکستانی معاشرے میں تو کم از کم ناقابل قبول ہے۔ ایدھی صاحب کی انسان دوستی کو پوری قوم احترام کی نظر سے دیکھتی ہے، لیکن جب یہ ان قادیانیوں کے لیے نیک تمناﺅں کا اظہار کریں جوشریعت محمدیہ کے ساتھ ساتھ پاکستانی آئین کے مطابق بھی کافر مطلق ہیں، تو ظاہر ہے عوام میں ردعمل تو پایا ہی جانا تھا۔ ایدھی صاحب کا یہ کہنا کہ میں کسی تفریق کو نہیں مانتا، آئین پاکستان کے آرٹیکل 6 سے یکسر انحراف کے سوا کچھ بھی نہیں، رہی بات اللہ کو راضی کرنے کی تو ایدھی صاحب کی یہ بات قادیانیوں کو سرٹیفیکیٹ دینے کے مترادف ہے، اس کے علاوہ ان کو دعاﺅں کہاں کی دانش مندی ہے؟ یہ تو ایک مضحکہ خیزبات ہے۔
نہ جانے یہ الفاظ ایدھی صاحب نے خود ادا کیے ہیں یا پھر ان سے کہلوائے گئے ہیں؟ایدھی صاحب کو یہ تو سوچنا چاہیے تھا کہ قادیانی کون ہیں؟یہ پاکستان کے شہری بھی ہیں تو ان کا حکم کیا ہے؟ جو خاتم النبیین ﷺکے بعد کسی اور کو نبی ماننے والا ہو تو وہ دائرئہ اسلام سے ہی خارج ہے، اس کے علاوہ پاکستان میں ان کے لیے اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کی بھی اجازت نہیں اور ان کو پاکستان میں وہ حقوق حاصل نہیں جو کسی عیسائی، ہندو اور سکھ شہری کو حاصل ہیں۔ ان کے ساتھ احسان وہمدردی کے سلوک و رویہ کی ہمارا قانون بھی اجازت نہیں دیتا۔ ایدھی صاحب کو یہ بھی سوچنا چاہیے تھا کہ ان کے اس بیان سے ان کی شرافت پر حرف آسکتا تھا،وہ ”قادیانی نواز“ ڈکلیئربھی ہوسکتے تھے،ان کی ساکھ ، شخصیت اور کردار پر داغ لگ سکتا تھا۔افسوس! ایدھی صاحب اپنی سادگی کی وجہ سے مار کھا گئے ۔
1901 ءسے لیکرآج تک کی قادیانیوںکی تاریخ کا اگرآپ جائزہ لیں تو آپ کے سامنے حقائق کے در وا ہوتے جائیں گے،آپ اس میں دیکھیں گے کہ قادیانیت کا فتنہ امت مسلمہ میں فسادبرپاکرنے کے لیے ابھارا گیا تھا،یہ مسلم قوم میں مسلم روپ دھار کرہمیشہ فتنہ کی آبیاری کرتے رہے ہیں، انہوں نے اس قوم کو کھوکھلا کرنے کے سوا اور کچھ کیا ہی نہیں، جیوش لابی کے پروردہ یہ قادیانی ہمیشہ مختلف ہتھکنڈوں سے مسلمانوں کو گھیرتے رہے،سادہ لوح مسلمانوں کو بہکاتے رہے،پاکستان بھر میں تخریبی کارروائیوں میں یہی استعمال ہوتے رہے ہیں۔ 19اپریل2011ءکو لندن میں قادیانی جماعت کی طرف سے اپنے احمدیہ ہال میں ”ahmadiyya muslim prize for the advencement for peace.“کے نام سے ایک پررونق اور شاندار تقریب منعقد کی گئی،جس میں مرزائیوں کے
اس تصویر میں آپ قادیانی گروہ کو اپنی تبلیغ کرتے دیکھ سکتے ہیں۔
علامہ اقبال ؒ کو اس فتنہ کا زبردست ادراک تھا، اس لیے انہوں نے ڈنکے کی چوٹ پراس فساد کے خلاف جہاد کیا ،وہ تو ایسی دعوت سے ہی اٹھ کر چلے جایا کرتے تھے جہاں کوئی جھوٹے نبی کا پیروکار بیٹھا ہوتا تھا۔اس قوم کے بے شمار لوگوں کے ساتھ بھٹو صاحب بھی قادیانیوں کی سازش کا نشانہ بنے،کرنل رفیع الدین کی کتاب ” بھٹو کے آخری 323 دن“ میں بھٹو مرحوم کے ارشادات بھی گواہ ہیں،کھرصاحب اور بھٹو صاحب کے علاوہ ہمارے بہت سارے لیڈرزکو یہ آپس میں لڑاتے رہے،ہمارے 1965ءکے ہیرو ایم ایم عالم کے خلاف بھی انہوں نے سازش کی تھی اور اس سازش کی بناءپر انہیں پاک فضائیہ سے نکلوایاگیا تھا،محسن پاکستان ڈاکٹر خان نے اپنے ملک کی سائنسی ترقی کو مفلوج کرنے کا مجرم قادیانیوں کو ہی قرار دیا ،ان کا 15فروری1984ءکو ایک اخباری نمائندہ کو دیا گیا بیان آج بھی آن دی ریکارڈ ہے ، جس میں انہوں نے کہا تھاکہ اسرائیل(یہودی)،بھارت(ہندو)اور قادیانی تینوں مسلمانوںکے خلاف ایک ہیں، اس لیے ان کا ہمارے ایٹمی پروگرام کے خلاف ہونا لازمی امر ہے۔اس کے علاوہ 1953ءسے لیکر 1974ءتک کی تحریک ختم نبوت میں بے شمار سیاسی رہنما،علمائ،ریٹائرڈ جج و وکلاءاور صف اول کے بے شمار صحافی بھی انسانیت سے خارج اس آلودہ فتنہ کے تارو پود بکھیرنے میں کوشاں رہے۔ان میں سے آج بھی بہت سارے حضرات حیات ہیں۔
اس تصویر میں آپ قادیانی گروہ کو اپنی تبلیغ کرتے دیکھ سکتے ہیں۔
قادیانی روز اول سے ہی اسلام،عالم اسلام اور مسلمانوں کے دشمن رہے ہیں، یہ سانپ سے بھی بدتر ہیں،انہوں نے جس انداز سے پاکستان کو نقصان پہنچایا ۔وہ ناقابل تصور ہے۔اگرآج یہ ”انسانیت“کی خاطر یہ ”نیک قدم“ اٹھاتے بھی ہیںتو وہ بھی ان آستین کے سانپوں کاایک ڈنک ہے،جو وہ اپنے مخصوص انداز میں ایک بار پھر اسلام کے خلاف معرکہ آرا ہونے کا اعلان کررہے ہیں۔ہمیں اس لمحے اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں۔
جیسا کہ دوسری طرف سے ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ قادیانی جماعت کی قیادت کی طرف سے توہین رسالت قانون کے خلاف عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے مہم کا آغاز کردیا گیا ہے،جس کے تحت قادیانیوں کی طرف سے 19اپریل2011ءکی پہلی تقریب میں عبدالستار ایدھی کو امن کے سب سے بڑے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے، جس کا مقصد پاکستان کے ایک بڑے طبقے کی حمایت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں قادیانیت کی آزادانہ تبلیغ اورتوہین رسالت قانون کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنا ہے۔
اس سے یہ بات تو طے ہے کہ اس عمل سے قادیانی ایدھی صاحب کے ساتھ انسانیت کی خدمت کا ڈھونگ رچاکرپاکستان سمیت دیگر ممالک میں سیاسی استحکام حاصل کرناچاہتے ہیں،ان کی ”انسانیت پسندی “کو دیکھ کر بہت ساروں کے اذہان میں ان کے خلاف قائم منفی رائے تبدیل ہوسکتی ہے،لاوارث بچوں میں تعلیمی سرگرمیوں کی آڑمیںقادیانیت کی تبلیغ بھی ایک اہم ہدف ہے،یہ ہم سب کے لیے انتہائی لمحہءفکریہ ہے، یہ ایدھی صاحب ،تمام اہل پاکستان اور خود ختم نبوت کے خلاف ایک گہری سازش ہے ۔آخر میں ایدھی صاحب سے اتنا عرض ہے کہ ایدھی صاحب ! قادیانی کبھی انسانیت کے دوست نہیں ہوسکتے ،انہوں نے خاتم النبیین ﷺ کی نبوت پر ڈاکہ ڈالا ہے، بقول آپ کے اگریہ انسانیت کی خاطر کوئی قد م بھی اٹھارہے ہیں تو یہ بھی ان کا ایک ڈنک ہے ، جس کے پہلے شکار آپ ہی ہیں،یہ آستین کے سانپ کل بھی ہمیں ڈس رہے تھے اور آج بھی یہ اپنی سرشت سے باز آنے والے نہیں،یہ لوگ آپ کو آپکی سادہ لوحی کی وجہ سے دھوکہ دے رہے ہیں،وہ آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو ایوارڈ دے رہے ہیں تو ان کا شکریہ ادا کرنا آپ کا اخلاقی فرض ہے ، لیکن ان کی اور اپنی مذہبی تفریق کو نہ ماننا پاکستانی آئین کی رو سے بھی غلط ہے اور ان کے لیے دعا کرنا تو کسی بھی صورت درست نہیں ،آپ سے پوری قوم محبت کرتی ہے جبکہ قادیانیوں سے پوری قوم اجتماعی طور پر نفرت کرتی ہے،آپ انسانیت کے دوست تو ہوسکتے ہیں لیکن وہ انسان دوست تو کیا انسانیت پسند بھی کسی صورت نہیں ہوسکتے ،وہ تو محسن انسانیت ﷺ کے بھی دشمن ہیں
عبدالستار ایدھی پاکستان کی معروف سماجی شخصیت ہیں، ایدھی صاحب 1928ءکو گجرات میں پیدا ہوئے،تقسیم ہند کے بعد انہوں نے پاکستان ہجرت کرلی، یہاں آکر آباد تو ہوگئے لیکن روزگار کچھ بھی نہیں تھا،انہوں نے روزی کی خاطر پان اور بیڑی کی ریڑھی لگالی،ایک دفعہ سوتر منڈی کے مقام پر کسی نے ایک مزدور کو زخمی کردیا، مزدور کو ہسپتال پہنچانے کے لیے وسائل مہیا نہیں تھے ، اس لیے ایدھی صاحب اپنی ریڑھی میں مزدور کوہسپتال پہنچا آئے، یہیں سے پاکستان کے سب سے بڑے فلاحی ادارے ”ایدھی فاﺅنڈیشن “ کی بنیاد پڑی، اس کے علاوہ ایدھی صاحب کی ماں انہیں بچپن میںانسانیت کی خدمت کی تلقین و نصیحت کیا کرتی تھیں، اس لیے ان کے اندر انسانیت کی خدمت کا جذبہ اسی وقت سے کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، انہوں نے کراچی کے علاقے کھارادر سے ایک چھوٹے سے ادارہ کی بنیاد ڈالی، بعد ازاںایدھی صاحب کے خلوص، محنت اور دیانت کی بنیاد پر اس ادارے نے بہت جلد ترقی کے منازل طے کیے، یوں ایدھی صاحب کا یہ چھوٹا سارفاہی ادارہ پاکستان کا سب سے بڑا ویلفیئر سینٹر بن گیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان بھر میں اس کی سینکڑوں شاخیں کھل گئیں،اس ادارے کے ذریعے آج بھی ہزاروں بیواﺅں،یتیموں اور ناداروں کی کفالت ہورہی ہے، زلزلہ، سیلاب یا کسی بھی آفت زدہ علاقے میں ایدھی صاحب وہاں کے متاثرین کی مدد میں پیش پیش ہوتے ہیں، بے گوروکفن لاشوں کو دھلانے،کفنانے اور دفنانے میں بھی یہ آگے ہوتے ہیں، یہ دکھوں کی ماری بیواﺅں، بے کس و ناجائز اولادوں اور معاشرے کے دھتکارے ہوئے معذوروں کی خاطرسڑکوں پر ”بھیک مہم “بھی چلاتے ہیں، پاکستان بھر میں سب سے اولین دارالامان،مردہ خانہ اورپرائیویٹ ایمبولینس سروس انہی کی مرہون منت ہے،آپ ان کی پاپولیریٹی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ان کے ایک اعلان،ایک درخواست اور ایک ایک التجا پر خواتین اپنے زیورات اتارکر ان کو دیدیتی ہیں،مرد اپنا پرس ان کے ہاتھ میں تھمادیتے ہیں، بچے اپنا جیب خرچ ان کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔ان کی اسی انسانیت دوستی کی وجہ سے یہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مقبول ہیں،بین الاقوامی سطح پر ان کو غیر مسلموں نے بھی لا تعدادایوارڈز اور انعامات سے نوازا۔
چھوٹے بڑے کارندوںسمیت غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد حاضر تھی، قادیانی ٹولے کے سربراہ مرزا مسرور احمد کو اسٹیج پر عین درمیان میں براجمان دیکھا گیا، اس تقریب میں عبدالستار ایدھی کو امن کے سب سے بڑے ایوارڈ سے نوازا گیا، اس کے علاوہ مرزا مسرور کی جانب سے ایدھی صاحب کے لیے دس ہزار پاﺅنڈکے چیک کا اعلان بھی کیا گیا،ادھر پاکستان میں موجود ایدھی صاحب نے اس ”سعادت“پر قادیانی جماعت کا بھرپور شکریہ ادا کیا اور ان کے لیے نیک تمناﺅں کا اظہار کیا ،ان کا کہنا یہ تھا کہ انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے، میں کسی تفریق کو نہیں مانتا، قادیانی جماعت نے جو قدم اٹھایا ہے، وہ اللہ کو راضی کرنے کا کام ہے، اللہ انہیں کامیاب فرمائے۔
یہ باتیں جب میڈیا میں آئیں تو پورے پاکستان میں ایک ہلچل سی مچ گئی اور عجیب سا تاثر دیکھنے میں آیا، میں نے بھی جب یہ خبر سنی اور ایدھی صاحب کا یہ بیان دیکھا تو مجھے عجیب سا محسوس ہوا، واقعی ایدھی صاحب نے جس والہانہ انداز میں قادیانیوں کے اس اقدام پر مسر ت کا اظہار کیا اوران کے لیے دعاﺅں کا اہتمام کیا، وہ پاکستانی معاشرے میں تو کم از کم ناقابل قبول ہے۔ ایدھی صاحب کی انسان دوستی کو پوری قوم احترام کی نظر سے دیکھتی ہے، لیکن جب یہ ان قادیانیوں کے لیے نیک تمناﺅں کا اظہار کریں جوشریعت محمدیہ کے ساتھ ساتھ پاکستانی آئین کے مطابق بھی کافر مطلق ہیں، تو ظاہر ہے عوام میں ردعمل تو پایا ہی جانا تھا۔ ایدھی صاحب کا یہ کہنا کہ میں کسی تفریق کو نہیں مانتا، آئین پاکستان کے آرٹیکل 6 سے یکسر انحراف کے سوا کچھ بھی نہیں، رہی بات اللہ کو راضی کرنے کی تو ایدھی صاحب کی یہ بات قادیانیوں کو سرٹیفیکیٹ دینے کے مترادف ہے، اس کے علاوہ ان کو دعاﺅں کہاں کی دانش مندی ہے؟ یہ تو ایک مضحکہ خیزبات ہے۔
نہ جانے یہ الفاظ ایدھی صاحب نے خود ادا کیے ہیں یا پھر ان سے کہلوائے گئے ہیں؟ایدھی صاحب کو یہ تو سوچنا چاہیے تھا کہ قادیانی کون ہیں؟یہ پاکستان کے شہری بھی ہیں تو ان کا حکم کیا ہے؟ جو خاتم النبیین ﷺکے بعد کسی اور کو نبی ماننے والا ہو تو وہ دائرئہ اسلام سے ہی خارج ہے، اس کے علاوہ پاکستان میں ان کے لیے اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کی بھی اجازت نہیں اور ان کو پاکستان میں وہ حقوق حاصل نہیں جو کسی عیسائی، ہندو اور سکھ شہری کو حاصل ہیں۔ ان کے ساتھ احسان وہمدردی کے سلوک و رویہ کی ہمارا قانون بھی اجازت نہیں دیتا۔ ایدھی صاحب کو یہ بھی سوچنا چاہیے تھا کہ ان کے اس بیان سے ان کی شرافت پر حرف آسکتا تھا،وہ ”قادیانی نواز“ ڈکلیئربھی ہوسکتے تھے،ان کی ساکھ ، شخصیت اور کردار پر داغ لگ سکتا تھا۔افسوس! ایدھی صاحب اپنی سادگی کی وجہ سے مار کھا گئے ۔
1901 ءسے لیکرآج تک کی قادیانیوںکی تاریخ کا اگرآپ جائزہ لیں تو آپ کے سامنے حقائق کے در وا ہوتے جائیں گے،آپ اس میں دیکھیں گے کہ قادیانیت کا فتنہ امت مسلمہ میں فسادبرپاکرنے کے لیے ابھارا گیا تھا،یہ مسلم قوم میں مسلم روپ دھار کرہمیشہ فتنہ کی آبیاری کرتے رہے ہیں، انہوں نے اس قوم کو کھوکھلا کرنے کے سوا اور کچھ کیا ہی نہیں، جیوش لابی کے پروردہ یہ قادیانی ہمیشہ مختلف ہتھکنڈوں سے مسلمانوں کو گھیرتے رہے،سادہ لوح مسلمانوں کو بہکاتے رہے،پاکستان بھر میں تخریبی کارروائیوں میں یہی استعمال ہوتے رہے ہیں۔ 19اپریل2011ءکو لندن میں قادیانی جماعت کی طرف سے اپنے احمدیہ ہال میں ”ahmadiyya muslim prize for the advencement for peace.“کے نام سے ایک پررونق اور شاندار تقریب منعقد کی گئی،جس میں مرزائیوں کے
اس تصویر میں آپ قادیانی گروہ کو اپنی تبلیغ کرتے دیکھ سکتے ہیں۔
علامہ اقبال ؒ کو اس فتنہ کا زبردست ادراک تھا، اس لیے انہوں نے ڈنکے کی چوٹ پراس فساد کے خلاف جہاد کیا ،وہ تو ایسی دعوت سے ہی اٹھ کر چلے جایا کرتے تھے جہاں کوئی جھوٹے نبی کا پیروکار بیٹھا ہوتا تھا۔اس قوم کے بے شمار لوگوں کے ساتھ بھٹو صاحب بھی قادیانیوں کی سازش کا نشانہ بنے،کرنل رفیع الدین کی کتاب ” بھٹو کے آخری 323 دن“ میں بھٹو مرحوم کے ارشادات بھی گواہ ہیں،کھرصاحب اور بھٹو صاحب کے علاوہ ہمارے بہت سارے لیڈرزکو یہ آپس میں لڑاتے رہے،ہمارے 1965ءکے ہیرو ایم ایم عالم کے خلاف بھی انہوں نے سازش کی تھی اور اس سازش کی بناءپر انہیں پاک فضائیہ سے نکلوایاگیا تھا،محسن پاکستان ڈاکٹر خان نے اپنے ملک کی سائنسی ترقی کو مفلوج کرنے کا مجرم قادیانیوں کو ہی قرار دیا ،ان کا 15فروری1984ءکو ایک اخباری نمائندہ کو دیا گیا بیان آج بھی آن دی ریکارڈ ہے ، جس میں انہوں نے کہا تھاکہ اسرائیل(یہودی)،بھارت(ہندو)اور قادیانی تینوں مسلمانوںکے خلاف ایک ہیں، اس لیے ان کا ہمارے ایٹمی پروگرام کے خلاف ہونا لازمی امر ہے۔اس کے علاوہ 1953ءسے لیکر 1974ءتک کی تحریک ختم نبوت میں بے شمار سیاسی رہنما،علمائ،ریٹائرڈ جج و وکلاءاور صف اول کے بے شمار صحافی بھی انسانیت سے خارج اس آلودہ فتنہ کے تارو پود بکھیرنے میں کوشاں رہے۔ان میں سے آج بھی بہت سارے حضرات حیات ہیں۔
اس تصویر میں آپ قادیانی گروہ کو اپنی تبلیغ کرتے دیکھ سکتے ہیں۔
قادیانی روز اول سے ہی اسلام،عالم اسلام اور مسلمانوں کے دشمن رہے ہیں، یہ سانپ سے بھی بدتر ہیں،انہوں نے جس انداز سے پاکستان کو نقصان پہنچایا ۔وہ ناقابل تصور ہے۔اگرآج یہ ”انسانیت“کی خاطر یہ ”نیک قدم“ اٹھاتے بھی ہیںتو وہ بھی ان آستین کے سانپوں کاایک ڈنک ہے،جو وہ اپنے مخصوص انداز میں ایک بار پھر اسلام کے خلاف معرکہ آرا ہونے کا اعلان کررہے ہیں۔ہمیں اس لمحے اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں۔
جیسا کہ دوسری طرف سے ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ قادیانی جماعت کی قیادت کی طرف سے توہین رسالت قانون کے خلاف عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے مہم کا آغاز کردیا گیا ہے،جس کے تحت قادیانیوں کی طرف سے 19اپریل2011ءکی پہلی تقریب میں عبدالستار ایدھی کو امن کے سب سے بڑے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے، جس کا مقصد پاکستان کے ایک بڑے طبقے کی حمایت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں قادیانیت کی آزادانہ تبلیغ اورتوہین رسالت قانون کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنا ہے۔
اس سے یہ بات تو طے ہے کہ اس عمل سے قادیانی ایدھی صاحب کے ساتھ انسانیت کی خدمت کا ڈھونگ رچاکرپاکستان سمیت دیگر ممالک میں سیاسی استحکام حاصل کرناچاہتے ہیں،ان کی ”انسانیت پسندی “کو دیکھ کر بہت ساروں کے اذہان میں ان کے خلاف قائم منفی رائے تبدیل ہوسکتی ہے،لاوارث بچوں میں تعلیمی سرگرمیوں کی آڑمیںقادیانیت کی تبلیغ بھی ایک اہم ہدف ہے،یہ ہم سب کے لیے انتہائی لمحہءفکریہ ہے، یہ ایدھی صاحب ،تمام اہل پاکستان اور خود ختم نبوت کے خلاف ایک گہری سازش ہے ۔آخر میں ایدھی صاحب سے اتنا عرض ہے کہ ایدھی صاحب ! قادیانی کبھی انسانیت کے دوست نہیں ہوسکتے ،انہوں نے خاتم النبیین ﷺ کی نبوت پر ڈاکہ ڈالا ہے، بقول آپ کے اگریہ انسانیت کی خاطر کوئی قد م بھی اٹھارہے ہیں تو یہ بھی ان کا ایک ڈنک ہے ، جس کے پہلے شکار آپ ہی ہیں،یہ آستین کے سانپ کل بھی ہمیں ڈس رہے تھے اور آج بھی یہ اپنی سرشت سے باز آنے والے نہیں،یہ لوگ آپ کو آپکی سادہ لوحی کی وجہ سے دھوکہ دے رہے ہیں،وہ آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو ایوارڈ دے رہے ہیں تو ان کا شکریہ ادا کرنا آپ کا اخلاقی فرض ہے ، لیکن ان کی اور اپنی مذہبی تفریق کو نہ ماننا پاکستانی آئین کی رو سے بھی غلط ہے اور ان کے لیے دعا کرنا تو کسی بھی صورت درست نہیں ،آپ سے پوری قوم محبت کرتی ہے جبکہ قادیانیوں سے پوری قوم اجتماعی طور پر نفرت کرتی ہے،آپ انسانیت کے دوست تو ہوسکتے ہیں لیکن وہ انسان دوست تو کیا انسانیت پسند بھی کسی صورت نہیں ہوسکتے ،وہ تو محسن انسانیت ﷺ کے بھی دشمن ہیں