• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایم کیو ایم اور قائد الطاف حسین اپنے نظریات وافکار کے آئینے میں!

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
مقدمہ​
تالیف: ڈاکٹر محمد ابصار دہلوی​
اللہ رب العزت نے کائنات کو وجود بخشنے کے بعد انسان کی تخلیق کی اور پھر اس زمین پر اس کو ایک مقصد کے تحت آباد کیا جس کو قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے :
اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّھَا لِنَبْلُوَھُمْ اَیُّھُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا
''بے شک ہم نے اس زمین پر جو کچھ بنا یا ہے وہ اس کے لئے زیب و زینت ہے،تاکہ ہم ان کو آزمائیں کہ ان میں سے کون عمل کے اعتبار سے اچھا ہے''۔
لہٰذا اللہ رب العزت نے اس زمین پر انسانوں کو بھیجا تاکہ وہ آزمائے کہ کون ہے جو اس کی فرمانبرداری اور اس کے احکامات کی بجاآوری کرنے والاہے، تاکہ اس کے اچھے اعمال کی جزا دے اورکون ہے جو اس کی نافرمانی اور اس کے احکام کی حکم عدولی کرنے والاہے ،تاکہ اس کو اس کے برے اعمال کی سزا دے ۔
اور یہ حقیقت ہے کہ انسانوں کے اس زمین پر بھیجے جانے کے بعد ایک دوسرے کے لئے آزمائش بنایا گیاہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَجَعَلْنَا بَعْضَکُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً
''اور ہم نے تمہیں ایک دوسرے کے لئے آزمائش بنایا ہے''۔
پس یہ آزمائش اس لحاظ سے بھی ہے کہ مختلف علاقوں اور زبانیں بولنے والے لوگوں کے اندر جو اپنی اپنی ثقافت، رہن سہن کی وجہ سے اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں اس میں کون صحیح اور درست طرز عمل اختیار کرتاہے اور کون ہے جوکہ انصاف کادامن ہاتھ سے چھوڑ کر عصبیت کی آگ میں کود جاتاہے۔یہ بات اپنی جگہ ہے کہ انسان اپنی قوم سے محبت کرتا ہے لیکن عصبیت یہ ہے کہ انسان ناحق معاملے میں اپنی قوم کا ساتھ دے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ :
((یَا رَسُولَ اللَّہِ أَمِنَ الْعَصَبِیَّةِ أَنْ یُحِبَّ الرَّجُلُ قَوْمَہُ قَالَ لَا وَلَکِنْ مِنْ الْعَصَبِیَّةِ أَنْ یَنْصُرَ الرَّجُلُ قَوْمَہُ عَلَی الظُّلْمِ))
''یارسول اللہ !کیا یہ بھی عصبیت ہے کہ آدمی اپنی قوم سے محبت کرے ؟فرمایا :''نہیں !عصبیت یہ ہے کہ آدمی ناحق معاملے میں بھی اپنی قوم کی مدد کرے''۔
کتاب کا اصل موضوع ''ایم کیوایم اور اس کے قائدالطاف حسین ،اپنے نظریات و افکار کے آئینے میں ''جوکہ سرورق سے ہی واضح ہوچکا ہے کہ یہ تحریر پاکستان میں سرگرم عمل ایک تحریک اور اس کے قائد کے افکار ونظریات اور اس کی جدوجہد سے متعلق ہے جس کو ایم کیوایم (متحدہ قومی موومنٹ سابقہ مہاجر قومی موومنٹ) کے نام سے جانا جاتاہے ۔
اگر تو موضوعِ بحث کسی انفرادی شخصیت کے افکار ونظریات ہوتے یا پھر کسی ایسی جماعت کی جدوجہد ہوتی جس کا تعلق یا نسبت کسی خاص قومیت یا زبان سے نہ ہوتا تو اس پر بات کرنا اتناحساس اور احتیاط طلب نہ ہوتا کہ جتنا اس تحریک اور اس کے قائد کے افکار و نظریات پر کلام کرنا حساس اور احتیاط طلب ہے ۔کیوں کہ ایسے کسی بھی معاملے میں کلام جس کا تعلق کسی خاص قومیت یا زبان سے ہو ،ذرا سی بھی بے احتیاطی یا بے انصافی ،عصبیت کی آگ کو بھڑکا دینے کے لئے کافی ہوتی ہے۔
لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی گروہ کے افکار یا نظریات اور اس کی عملی جدوجہد اگر اعلانیہ شریعت اور اس کے احکامات کے برخلاف ہوں تو بغیر کسی تغافل اور تساہل کے اس گروہ سے متعلقہ و غیر متعلقہ لوگوں کو اس بات سے آگا ہ کیا جاناازروئے شریعت ضروری ہوجاتا ہے تاکہ وہ اس گروہ کی اصلاح کرسکیں یا پھر خود بھی اس کے فتنے سے بچ سکیں اور دوسرے مسلمانوں کو بھی اس کے فتنے سے بچاسکیں ۔
چونکہ ہمارے موضوع کامحور یہ تحریک اور اس کے قائد کے نظریات وافکار ہیں لہٰذا ہماے اولین مخاطب اس تحریک میں شامل وہ لوگ(کارکنان و رہنما)ہیں،جن کاتعلق اہل سنت والجماعت سے ہے جن کو عرف عام میں ''سنی مسلمان''کہاجاتا ہے، چاہے وہ کسی بھی سنی مکتبہ فکر (حنفی،مالکی ،شافعی ،حنبلی ،سلفی)سے تعلق رکھتے ہوں۔
دوسرے نمبر پرہمارے مخاطب وہ اہل السنۃ(عرف عام میں سنی مسلمان)ہیں جوکہ اس تحریک سے کسی بھی طرح کی ہمدردی و الفت رکھتے ہیں اور اس تحریک کو اپنے مال وجان کے تحفظ کا ضامن سمجھتے ہیں ۔اسی طرح ہمارے مخاطب وہ اہل السنۃ بھی ہیں جوکہ ایسا طرز فکر رکھنے والی کسی بھی جماعت میں شامل ہوں یا اس سے ہمدردی و الفت رکھتے ہوں ۔
چنانچہ اب ہم اس تحریک اور اس کے قائدودیگر رہنماؤں کے افکار و نظریا ت اور ان کی عملی جدوجہد کا جائز لیں گے اور اس بارے میں شریعت کا کیا مؤقف ہے اس کو بھی واضح کریں گے۔کوشش یہ ہوگی کہ ہماری گفتگوکا محور ہمارے ملک میں رائج گندی سیاست کی مانند نہ ہو جوکہ جمہوری نظام کالازمی شاخسانہ ہے بلکہ ہماری مقدور بھر کوشش یہ ہوگی کہ صرف ان اہم اور ضروری نکات پر بحث کی جائے جن کاتعلق ایک مسلمان کے اسلام و ایمان کی سلامتی سے ہو۔
ہم اپنی گفتگو کے درمیان موضوع بحث جماعت ایم کیوایم کے لئے ''تحریک ''،اس کے سربراہ الطاف حسین صاحب کے لئے ''قائد ''کے الفاظ استعمال کریں گے۔اسی طرح ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کے لئے ''اردوبولنے والے''کے الفاظ استعمال کریں گے۔تاکہ ناموں کے باربار استعمال سے بات کا رخ کسی قسم کی عصبیت کی طرف مڑنے کے بجائے اصل موضوع کی طرف رہے۔باقی کل کی کل خیر اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے وہ جس کے لئے چاہتا ہے اس کے لئے خیر کے دروازے کھول دیتاہے ۔​
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
ایم کیوایم اور اس کے قائدالطاف حسین ،اپنے نظریات و افکار کے آئینے میں
اس بات سے قطع نظر کہ اس تحریک کا قیام کیوں اور کیسے عمل میں آیا کیوں کہ اس سے متعلق لوگوں میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں :​
(۱)......بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اس تحریک کا قیام دراصل یہود وہنود کی کارفرمائی اور سازش کا نتیجہ ہے۔​
(۲)......اس کے برعکس بعض لوگ اس تحریک کو اردو بولنے والے کے معاشی وتعلیمی استحصال کا فطری نتیجہ قرار دیتے ہیں۔​
(۳)......بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ تحریک دراصل دوطرفہ سازش کا نتیجہ ہے ،وہ اس طرح کہ ایک طرف اسلام کے نام پر بننے والے ملک کے لئے لاکھوں جانوں اور عزتوں کا نذرانہ دے کر ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کے حوالے سے استعماری ایجنٹوں نے حکومتی سطح پر ایسے اقدامات کئے جس سے اردوبولنے والے مسلمانوں کے اندر احساس محرومی پیدا کیا جاسکے اور ساتھ ساتھ ایسے حالات پیدا کئے گئے جس سے ان کے اور دیگر قومیتوں کے درمیان بے اعتمادی اورنفرت کی فضاء قائم ہوجائے(جیساکہ ملک کے تمام صوبوں میں مختلف قومیتوں کے موجود ہونے کے باوجود صرف ایک صوبہ میں ''کوٹہ سسٹم''کا نفاذ) اور دوسری طرف ایک خفیہ منصوبے کے تحت اردوبولنے والے مسلمانوں اور دیگر مسلمان قومیتوں کے درمیان عصبیت کی آگ کو بھڑکانے کے لئے اس تحریک کی بنیاد رکھی گئی جس کے ذریعے اردوبولنے والوں کے آباؤاجداد کی جانب سے دی جانے والی قربانیوں پر نہ صرف پانی پھیرا جاسکے بلکہ آئندہ ان کی توانائیوں کو اسلام کے بجائے یہود وہنود کی سازشوں کی تکمیل میں جھونک دیا جائے۔​
بہرحال!اس تحریک کے وجود میں آنے کی جو بھی وجوہات یا اسباب تھے مگر اس وقت ہماری گفتگوکا محور موجودہ حالات کے تناظر میں اس تحریک اور اس کے قائد کے افکار و نظریات کی وضاحت اور ساتھ ساتھ ان افکار و نظریات اور ان پر کی جانے والی جدوجہد اور مستقبل کے لائحہ عمل اور اہداف کے متعلق شریعت میں کیا حکم ہے؟ اس کو بھی ان شاء اللہ واضح کریں گے۔​
چنانچہ اب ہم ان اہم نکات پر روشنی ڈالیں گے جوکہ اس تحریک اور اس کے قائد کے بنیادی افکار و نظریات میں شامل ہیں اور جن کی پیروی سے ایک مسلمان اپنے اسلام و ایمان سے ہاتھ دھوبیٹھ سکتاہے ۔​
قادیانیت کا تحفظ

جس طرح ملک کی دیگر سیکولر جماعتیں (خاص کر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن)''قادیانیت کے تحفظ ''کی بات کرتی ہیں اسی طرح یہ تحریک بھی قادیانیت کے تحفظ کی نہ صرف سب سے بڑی علمبردار ہے بلکہ اس علمبرداری پر اس تحریک کے قائد کو فخر بھی ہے جس کاوہ بارہا اور برملا اظہار کرچکے ہیں ۔ایک ٹی وی انٹرویو میں کہتے ہیں :​
'''ایم کیوایم واحد آرگنائیزیشن ہے کہ جب قادیانیوں کے سربراہ مرزا طاہر بیگ صاحب کا انتقال ہوا تھا،واحد الطاف حسین تھا جس نے تعزیتی بیان دیا تھا جس پر کئی اخبارات نے اداریئے لکھے کہ میں نے ''کفر ''کیا ،اور (اب)میں یہ کفر دوبارہ کرنے جارہا ہوں،جس کا دل چاہے کفر کا فتویٰ دے''۔
٭ایکسپریس ٹی وی ستمبر 2009 ، ٹی وی اینکر مبشر لقمان کا پروگرام٭
اس سے پہلے کہ ہم ''قادیانیت کے تحفظ ''کے ممکنات پربحث کریں کہ آیاایسی کوئی صورت ممکن بھی ہے یا نہیں ،ہم ''قادیانیت ''کی حقیقت کو جان لیں کہ یہ کن افکارو نظریا ت کا مجموعہ ہے اور اس کا شریعت میں کیا مقام ہے ؟کیوں کہ جب قادیانیت کی حقیقت واضح ہوجائے گی تو خود بخود اس کے ''تحفظ ''کی باتیں کرنے والوں کی حقیقت بھی آشکارا ہوجائے گی کہ کن مقاصد کے حصول کے لئے ''قادیانیت کے تحفظ ''کی بات کی جاتی ہے !​
عقیدۂ قادیانیت :
عقیدۂ قادیانیت کو اپنی زبان میں تفصیل سے بیان کرنے کے بجائے ہم قادیانیت کے افکارکو خود قادیانیت کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی ملعون اور اس کے جانشینوں کی زبانی پیش کردیتے ہیں تاکہ اس فتنے کو سمجھنے میں کسی ان پڑھ کو بھی مشکل پیش نہ آئے۔پس مختصر یہ کہ مرزا غلام احمد قادیانی ملعون نہ صرف امام مہدی اور حضرت عیسیٰ ہونے کے دعویٰ رکھنے کے ساتھ ساتھ نبی اور خدا ہونے کا دعوے دار تھا اور جو اس بات سے انکار کرے ،اس کو وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا تھا اور آج بھی اس کے جانشین اور ماننے والے اس عقیدے پر کاربند ہیں گویاکہ یہ گروہ گمراہی در گمراہی اور ضلالت در ضلالت کا مجموعہ ہے ۔گو کہ اس گمراہی و ضلالت کو بیان کرنے کے لئے ایک ضخیم کتا ب بھی کم تھی مگر عوام الناس کو اس فتنے سے آگاہ کرنے کے لئے ہم قادیانیت کے عقائد کوصرف دو لحاظ سے واضح کریں گے:​
(۱) عقیدۂ قادیانیت بطور منکر ختم نبوت​
(۲) عقیدۂ قادیانیت بطورگستاخ نبوت​
عقیدۂ قادیانیت بطور منکر ختم نبوت:
مرزا غلام احمد قادیانی ملعون اپنے بارے میں کہتاہے :​
''میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیوں کر اس سے انکار کر سکتا ہوں ،میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک کہ اس دنیا سے گزر جاؤں''۔
ایک اور جگہ کہتا ہے :
''ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں ''۔
یہ تھے مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کے افکار ،اور اس کے جانشینوں اور ماننے والوں کے کیا عقائد ہیں وہ ملاحظہ فرمائیں :​
''یہ بات بالکل روزِ روشن کی طرح ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ کھلا ہے''
''پس شریعت اسلامی نبی کے جو معنی کرتی ہے اس کے معنی سے حضرت صاحب (مرزا غلام احمد قادیانی )ہرگز مجازی نبی نہیں بلکہ حقیقی نبی ہیں"۔
جاری ہے۔۔۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
عقیدۂ قادیانیت بطور گستاخ نبوت
قادیانی اپنے عقائدمیں نہ صرف عقیدہ ختم نبوت کے انکاری ہیں بلکہ وہ اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام کی شان میں بھی کھلم کھلا گستاخی کرنے والے ہیں ۔مرزا غلام احمد قادیانی خودکو معاذ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی پرتو اور سایہ قرار دیتا ہے بلکہ اپنے آپ کوحضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی بھی گردانتاہے۔​
چنانچہ وہ کہتا ہے:
''خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر اب ہے،اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طور پر محمدیت کی چادر پہنائی گئی.جیساکہ تم جب آئینہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہوسکتے ،بلکہ ایک ہی ہواگر چہ بظاہر دو ہی نظر آتے ہیں ،صرف ظل (سایہ)اور اصل کا فرق ہے''۔
''میں بارہا بتلا چکا ہوں کہ میں.........بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میں میرا نام ''محمد ''اور ''احمد''رکھا ہے اور مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود قرار دیا ہے،پس اس طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا ،کیونکہ ظل (سایہ)اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا''۔
مرزا غلام قادیانی ،نبی ہونے کے دعویدار ہونے کے باوجود اسی کلمے کے اقراری ہوتے ہیں جوکہ مسلمان اداکرتے ہیں اور جس سے بعض مسلمان دھوکہ بھی کھاجاتے ہیں اور کہتے کہ ان کے اورہمارے کلمے میں فرق ہی کیا ہے ؟وجہ اس کی خو د قادیانی اپنی کتاب میں یوں بیان کرتے ہیں:​

''مسیح موعود (مرزا غلام احمد قادیانی)خود محمد رسول اللہ ہیں جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے،اس لئے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں۔ہاں!اگر محمد رسول اللہ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو ضرورت پیش آتی''۔
مرزا قادیانی کے بیٹا اپنے باپ کے بارے میں کہتا ہے:

''یعنی مسیح موعود(مرزا قادیانی)نبی کریم سے الگ کوئی چیز نہیں ،بلکہ وہی ہے جو بروزی رنگ میں دوبارہ دنیا میں آئے گا ،تو اس صورت میں کیا اس بات میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ قادیان میں اللہ نے پھر محمد صلعم کو(مرزا کی صورت میں )اتارا''۔
مرزا غلام قادیانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا دعویدار ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی ہونے کا دعوے دار بھی تھا۔
''میں وہی مسیح موعود (حضرت عیسیٰ )ہوں جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان احادیث صحیح میں خبر دی ہے جو صحیح بخاری اور مسلم اور دوسری صحاح میں درج ہیں''۔
''خدانے مجھے بشارت دی اور کہا کہ وہ مسیح موعود اور مہدی مسعود جس کا انتظار کرتے ہیں وہ توہے''
لیکن سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اس کی بدزبانی اور گستاخی کا عالم یہ تھا کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام پر یہودیوں سے بھی بڑھ کر بہتان درازی پر اترآیا تھا۔​
کہتا ہے کہ :
''آپ(عیسیٰ علیہ السلام)کو گالیاں دینے اور بدزبانی کی اکثر عادت تھی ۔ادنیٰ ادنیٰ بات میں غصہ آجاتا تھا۔اپنے نفس کو جذبات سے روک نہیں سکتے تھے۔مگر میرے نزدیک آپ کی یہ حرکات جائے افسو س نہیں کیونکہ آپ تو گالیاں دیتے تھے اور (جواباً)یہودی ہاتھ سے کسر نکال لیا کرتے تھے۔یہ بھی یاد رہے کہ آپ(عیسیٰ علیہ السلام)کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی''۔
''نہایت شرم کی بات ہے کہ آپ (عیسیٰ علیہ السلام )نے (اپنے حواریو ں کو دی جانے والی)پہاڑی تعلیم کو جو انجیل کا مغز کہلاتی ہے ،یہودیوں کی کتاب ''طالمود''سے چراکر لکھا ہے اور پھر ایسا ظاہر کیا ہے کہ گویا یہ میری تعلیم ہے''۔
''آپ (عیسیٰ علیہ السلام )کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناکار اور کسبی عورتیں تھیں۔جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا مگر شاید یہ بھی خدا ئی کے لئے ایک شرط ہوگی ۔آپ کا کنجریوں سے میلان اور'' صحبت ''بھی شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان میں ہے ورنہ کوئی پرہیز گار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتاکہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگاوے اور زناکاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے اور اپنے بالوں کو اس کے پیروں پر ملے۔سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے''۔
''یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے ، اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے ۔شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے''۔

یہ ہے ادنیٰ سی جھلک اس کی نبوت کی شان میں کھلم کھلا گستاخیوں کی ورنہ اس کی گستاخانہ کلام سے تو اس خبیث کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔​

مرزا غلام احمد قادیانی ملعون اور اس کے جانشینوں کی مسلمانوں سے متعلق رائے:​
مرزا غلام احمد قادیانی ملعون اور اس کے جانشینوں کے مسلمانوں سے متعلق باالفاظ دیگرمرزا غلام احمد قادیانی ملعون کو نبی و مسیح نہ مانے والوں سے متعلق کیا رائے ہے وہ بھی جان لیتے ہیں،تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ کیا ان تمام باتوں کے بعد ''قادیانیت کا تحفظ ''کسی طرح ممکن ہے؟
''کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود ( مرزا غلام احمد قادیانی)کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے ، خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعودکا نام بھی نہیں سنا ہو ، وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں ''۔
''ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ کو مانتاہو مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا یا عیسیٰ کو مانتا ہومگر محمد کو نہیں مانتا یا محمد کو مانتا ہو مگر مسیح موعود (مرزا غلام احمد قادیانی)کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر ہے بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے''۔
''ہمارا فرض ہے کہ ہم غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی (مرزا غلام احمد قادیانی)کے منکر ہیں''۔
''حضرت مسیح موعود نے غیر احمدیوں کے ساتھ صرف وہی سلوک جائز رکھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں کے ساتھ کیا ۔غیر احمدیوں سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں ،ان کولڑکیا ں دینا حرام قرار دیا گیا ،ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا ۔اب باقی کیا رہ گیا جو ہم ان کے ساتھ مل کر کرسکتے ہیں؟''
خود مرزا غلام احمد قادیانی کے اپنے نہ ماننے والوں کے بارے میں کیا رائے تھی:​

''جو شخص میری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام (زناء کاری کی اولاد)بننے کا شوق ہے اوروہ حلال زادہ نہیں''۔
''میری ان کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور ان کے معارف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور میری دعوت کی تصدیق کرتاہے اور اسے قبول کرتا ہے مگر رنڈیوں (بدکار عورتوں )کی اولاد نے میری تصدیق نہیں کی''۔
''(مجھ کو نہ ماننے والے )دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہوگئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں''۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
عقیدہ ختم نبوت:
قادیانیت کے نبوت کے حوالے سے درج بالا نظریات کوجاننے کے بعد ہم عقیدہ ختم نبوت کو قرآن وسنت کی روشنی میں سمجھ لیتے ہیں تاکہ عقیدہ قادیانت کی خباثت عیاں ہوسکے۔​
قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:​

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ​
''(لوگو!)تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )نہیں ہیں لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول اورخاتم النبین ہیں(یعنی آپ کے بعد کوئی نبی نہیں)''۔​
احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اس عقیدے کی وضاحت بالکل صراحت اور تواتر کے ساتھ کرتی ہیں جس سے انکار کسی صورت ممکن ہی نہیں ۔رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا:​
((عَنْ أَبِی ھُرَیْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَثَلِی وَمَثَلُ الْا َٔنْبِیَاء ِ مِنْ قَبْلِی کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی بُنْیَانًا فَأَحْسَنَہُ وَأَجْمَلَہُ اِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِیَةٍ مِنْ زَوَایَہُ فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوفُونَ بِہِ وَیَعْجَبُونَ لَہُ وَیَقُولُونَ ھَلَّا وُضِعَتْ ھَذِہِ اللَّبِنَةُ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَة وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّینَ))
''میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین وجمیل محل بنایا مگر اس کے کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی ،لوگ اس کے گرد گھومنے اور اس پر عش عش کرنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ کیوں نہ لگادی گئی ؟پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے فرمایا:''میں وہی (آخری )اینٹ ہو ں اور میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں''۔​
((عَنْ أَبِی ھُرَیْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فُضِّلْتُ عَلَی الَأَنْبِیَاء ِ بِسِتٍّ......وَخُتِمَ بِیَ النَّبِیُّونَ))
''مجھے چھ چیزوں میں دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے(اس میں آخری یہ ہے کہ )مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا''۔​
((اِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِی وَلَا نَبِیَّ))
''رسالت و نبوت ختم ہوچکی ہے ،پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی''۔​
((وَاِنَّہُ سَیَکُونُ فِی أُمَّتِی ثَلَاثُونَ کَذَّابُونَ کُلُّھُمْ یَزْعُمُ أَنَّہُ نَبِیٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّینَ لَا نَبِیَّ بَعْدِی))
''میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے ،ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں،میرے بعدکوئی نبی نہیں ''۔​

شریعت میں قادیانیت کا حکم بطور منکر ختم نبوت :​
عقیدہ ختم نبوت اوراس کے برخلاف قادیانی نظریات جاننے کے بعد یہ بھی جان لینا ضروری ہے کہ جو شخص عقیدہ ختم نبوت پر مکمل ایمان و یقین رکھنے والا نہ ہو تو اس کا شریعت میں کیا حکم ہے؟
صاحب روح المعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:​
''وکونہ ﷺخاتم النبیین ممانطق بہ الکتاب وصدعت بہ السنة، واجمعت علیہ الامت فیکفر مدعی خلافہ ویقتل ان اصر''
''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے پر کتاب اللہ ناطق ہے اوراحادیث نے کھول کر سنادیا اور اس پر امت کا اجماع ہے ،پس اس کے خلاف جو دعویٰ کرے وہ کافر ہوجائے گا اور اگر اصرار کرے تو قتل کیا جائے گا''۔​
اس کی دلیل خلفائے راشدین کا اپنے دور خلافت میں نبوت کے دعوے دارکذابوں اور ان کا ساتھ دینے والے لوگوں کو ''مرتد ''قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قتال کرنا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بہت سے نبوت کے دعوے دار کذاب اٹھے تو خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہادکیا اور اس فتنے کو جزیرہ نماعرب میں جڑ سے اکھاڑ دیا۔اس فتنے کی شرانگیزی اتنی ہے کہ صحابہ کرام نے اس فتنے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگادی تھی چناچہ اس فتنے کی سرکوبی کے دوران کئی بدری صحابہ سمیت بارہ سوصحابہ کرام شہید ہوئے اور صرف ایک معرکہ ''جنگ یمامہ''میں جوکہ مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی ستر حفاظ صحابہ کرام نے جام شہادت نوش کیا ۔​

شریعت میں قادیانیت کا حکم بطور گستاخِ نبوت :​
جیساکہ ہم نے یہ سمجھا کہ قادیانیوں کی ایک حیثیت ان کا ''منکر ختم نبوت ''ہونا ہے اور ایک حیثیت ان کا ''گستاخِ نبوت''ہونا ہے جوکہ ''منکر ختم نبوت ''سے زیادہ سخت معاملہ ہے ،جس کی سزا بھی زیادہ سخت ہے۔چناچہ ہم مختصراً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام کی شان میں گستاخی کرنے والوں کا حکم از روئے شریعت جان لیتے ہیں تاکہ ان گستاخ قادیانیوں کی حیثیت کا معاملہ بھی طے ہوجائے۔اس سلسلے میں لکھے جانے والی سب سے عمدہ کتاب''الصارم المسلول علی شاتم الرسول''یعنی ''ننگی تلوار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کے لئے''​
جو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تصنیف کی اس میں سے چند حوالہ جات نقل کردیتے ہیں۔​
ایک شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دربار میں لایا گیا ،وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کیا کرتا تھا ، اس لئے آپ نے اس کو قتل کردیا۔پھر فرمایا:​
''مَنْ سَبَّ اللّٰہ أو سب أحداً من الأنبیاء فاقتلوہ''
''جو اللہ تعالیٰ کو گالی دے یا کسی پیغمبر کی شان میں گستاخی کرے تو اس کوقتل کردو''۔​
مہاجر بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ یمامہ اور اس گردونواح کے علاقے پرحکمران تھے ۔اس علاقے میں دو عورتیں تھیں ان میں ایک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والی تھی اور ایک مسلمانوں کی ہجو کرتی تھی۔حضرت مہاجر رضی اللہ عنہ نے دونوں کا ایک ایک ہاتھ کٹ وادیا اور سامنے کے دانت تڑوادیئے ۔جب اس فیصلے کی خبر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو آپ نے ان کو یہ خط لکھا:​
''بَلَغنی الذی (سرت)بہ فی المرأة التی تغنَّت وزمرت بشتم النبی ﷺ، فلولا ما قد سبقتنی فیہا لأمرتک بِقَتْلِھَا؛ لأن حدَّ الأنبیاء لیس یشبہ الحدود؛ فمن تعاطی ذلک من مسلم فھو مرتدٌّ أو معاھدٍ فھو محارب غادر......... فانہ بلغنی أنک قطعت یَدَ امرأة فی أن تَغَنَّت بھجاء المسلمین ونزعت ثَنِیِّتَھَا، فان کانت ممن تدعی الاسلام فأدب وتقدمة دون المُثْلَة، وان کانت ذِمِیَّةٍ فلعمری لَمَا صفحت عنہ من الشرک أعظم، ولو کنت تقدمت الیک فی مثل ھذا لبلغت مکروھک، فاقبل الدَّعَةَ''
'' مجھے تمہارے فیصلے کا علم ہو ا جو تم نے شان رسالت میں گستاخی کرنے والی عورت کے بارے میں کیا (کہ اس کا ہاتھ کٹوادیا اور دانت تڑوادیئے)،اگر تم مجھ سے پہلے ہی اس کو سزا نہ دے چکے ہوتے تو میں تم کو اس کے ''قتل ''کا حکم دیتا ،کیونکہ انبیاء کرام کی شان میں گستاخی کی سزا عام لوگوں کی سزا کے مشابہ نہیں ،اس لئے یاد رکھو،مسلمانوں میں سے جو کوئی بھی اس جرم کا مرتکب ہوتو وہ ''مرتد''ہے ،اگر معاہد (کافر)ایسی حرکت کرے توحربی عہد شکن ہے.........اسی طرح تم نے اس عورت کا بھی ہاتھ کاٹ دیا اور سامنے کے دانت نکل وادیئے ہیں جس نے گاکر مسلمانوں کی ہجو کی ،اس سلسلہ میں قابل لحاظ یہ بات ہے کہ اگر وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتی تھی تو اس کے لئے تادیب و تعذیر ہی کافی تھی (قید وبند یا کوڑے وغیرہ کی سزا)مثلہ جائز نہ تھا اور اگر وہ ذمیہ تھی تو تم نے اس سے درگزر کیوں نہ کیا ،اس کا مشرک ہونا تو اس سے بڑا جرم تھا اور اگر میں پہلے سے تم کو ہدایت نہ کرچکا ہوتا تو تمہارے ناگوار فیصلے کی نوبت تک نہ آتی ''۔​
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:​
''من شتم النبیَّ ﷺقُتل''
''جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے وہ واجب القتل ہے''۔​
خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:​
'' یُقتل،وذلک أنہ من شتم النبیَّﷺ فھو مُرْتَدٌّ عن الاسلام،ولا یشتم مسلمٌ النبیَّ ﷺ''
''جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے ،اسے قتل کیا جائے کیونکہ وہ اس فعل سے ''مرتد ''ہوجاتا ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ کوئی مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جسارت نہیں کرسکتا''۔​
حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :​
''أیما مسلم سب اللّٰہ أو سب أحداً من الأنبیاء فقد کَذَّبَ برسول اللّٰہ ﷺ، وھی رِدَّةٌ، یُسْتتاب فانْ رَجَع والا قُتِلَ، وأیما معاھدٍ عاند فسب اللہ أو سبّ أحداً من الأنبیاء أو جھر بہ فقد نَقَضَ العھد فاقتلوہ''
''جو مسلمان اللہ تعالیٰ کو گالی دے یاکسی نبی کی شان میں بکواس کرے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے والا ہوا اور یہ''ارتداد''ہے ۔لہٰذا اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے اگر رجوع کرے تو ٹھیک ورنہ قتل کردیا جائے اور جو (کافر)معاہد عناد سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی شان میں گالی گلوچ کرے یا کسی پیغمبر کو سب و شتم کرے یا ایسے کلمات علانیہ کہے تو وہ نقص عہدمرتکب ہو ا،اس لئے اس کو قتل کردو''۔​
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے کلام سے یہاں ایک بات واضح ہوئی کہ شریعت میں اللہ تعالیٰ کو یاپچھلے انبیاء میں سے کسی نبی کی شان میں گستاخی کرنے والے کو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے والا اور ''مرتد''شمارکرتے ہوئے اس کو توبہ کے لئے مہلت دی گئی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کو توبہ کی مہلت دیئے بغیر ہر امتی کو قتل کرنے کااختیار عطافرمایا ہے۔​
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا؟توفرمایا :​
''قد وجب علیہ القتلُ،ولا یُستتاب؛ خالد بن الولید قَتَلَ رجلاً شتم النبیﷺولم یَسْتَتِبْہ''
''نہیں !اس کے لئے توبہ کی مہلت نہیں ،قتل کی سزا لازم ہوچکی ،اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ایک گستاخ کو قتل کیا اوراس سے توبہ کا مطالبہ نہ کیا''۔​
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی دلیل وہ قول بھی ہے جوکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ازواجِ مطہرات پر افتراء بازی کرنے والے کے بارے میں فرمایا:​
''لقاذف أزواج النبی ﷺتوبةٌ،وقاذف غیرھن لہ توبةٌ''
''ازواجِ مطہرات پر بہتان باندھنے والے کی کوئی توبہ قبول نہیں (تو گستاخ رسول کی توبہ کیونکر قبول ہو)جبکہ دوسری عام عورتوں پر الزام تراشی کرنے والوں کی توبہ ہے''۔​
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شان میں گستاخی کرنے والوں میں سے اکثرکے قتل کا حکم جاری کیا اور جس صحابی نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کو آپ سے اجازت لئے بغیر از خود قتل کیااس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رضامندی کا اظہار کیا بلکہ اس کی تحسین بھی فرمائی ۔​
یہودی سردار کعب بن اشرف کی ایذا رسانیوں اور کھلی گستاخیوں پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا :​
((مَنْ لِکَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ فَاِنَّہُ قَدْ آذَی اللَّہَ وَرَسُولَہُ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَہُ یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ نَعَمْ))
''کعب بن اشرف کو کون ٹھکانے لگائے گا ؟کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو اذیت دی ہے''۔محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یارسول اللہ !کیا اس بات کو آپ پسند کریں گے کہ اسے قتل کروں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا''ہاں ٹھیک ہے!''۔​
بالآخر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے ایک خفیہ تدبیر کے ذریعے اس کوجہنم واصل کردیا۔اسی طرح طلیحہ اسدی اور اسود عنسی وہ کذاب تھے جن کے قتل کاحکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں دے دیا تھا۔​
(بشمول موضوع بحث تحریک کے قائدسمیت) کچھ لوگ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ان واقعات سے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اذیت دینے والوں کو معاف کیا گیا،بنیاد بناکر کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانی دشمنوں اور اذیت دینے والوں کو معاف کردیا تو ہم کون ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرنے والوں کو سزا دیں۔​
اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گستاخ کو کبھی معاف کردیا اور کبھی اس کو قتل کرنے کاحکم دیا کیونکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صوابدیدی اختیار تھا لیکن اگر صحابہ میں کوئی بھی بلااجازت کسی گستاخ کو قتل کردیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تحسین فرماتے۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال فرمانے کے بعد توصحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے ہر گستاخ رسول کو ''واجب القتل ''سمجھا اور کسی کو بھی معاف نہ کیا اور یہی حکم بالاجماع قیامت تک ساری امت کے لئے ہے۔​
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس مسئلہ کے بارے میں فرماتے ہیں:​
''ومعلوم أن النّیْل منہ أعظم من انتھاک المحارم، لکن لما دخل فیھا حقہ کان الأمر الیہ فی العفو أو الانتقام، فکان یختار العفو.........فاذا تعذر عفوہ بموتہ ﷺبقی حقاً محضاً للّٰہ ولرسولہ وللمؤمنین لم یعف عنہ مستحقہ، فتجب اقامتہ.........''
''یہ بات معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ا یذا دینا بھی سب سے بڑی خلاف ورزی اور حرمتوں کی پامالی ہے لیکن چونکہ اس معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا حق شامل ہوگیا ،اس لئے معاف کردینا یا یا انتقام لینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا اختیار ٹھرا .........اب جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد گستاخ کو معاف کرنا اہل ایمان کے اختیار میں نہیں اس لئے اس کو سزا دینا واجب ہے''۔​
اس کے علاوہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کعب بن اشرف کے واقعہ کو بیان کرنے کے بعد ایک اور حدیث نقل کرتے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل فرمایا:​
((انّہ نَالَ مِنَّا الأَ ذَی، وَھَجَانَا بِالشِّعْرِ، وَ لاَ یَفْعَل ھَذَا أَحَدٌ مِنْکُم اِلاَّ کَانَ السَّیْف))
''کعب نے ہمیں اذیت دی ،اشعار کے ذریعے ہماری ہجو کی لہٰذا جوکوئی اس جرم کا ارتکاب کرے گا تہ تیغ کیا جائے گا''۔​
جاری ہے۔۔۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
شریعت میں قادیانیوں کا حکم بطو رمرتد و زندیق:
اہل سنت والجماعت کے تما م مکاتب فکر اس بات پر متفق ہیں کہ قادیانیوں کا حکم ''مرتداور زندیق ''کا ہے ،اور جیساکہ ہم پہلے سمجھ چکے کہ قادیانیوںکا ''مرتد ''ہونے کا حکم اس لئے بھی ہے کہ وہ مسلمان ہونے کے دعوے دار ہونے کے ساتھ ساتھ ''منکر ختم نبوت''اور ''گستاخِ نبوت''بھی ہیں ۔لیکن وہ زندیق کیوں قرار پائے اور زندیق کس کوکہتے ہیں یہ بھی سمجھ لینے کی ضرورت ہے!​

یوں تو شریعت کی نظرمیں کفر کی کئی قسمیں ہیں لیکن ان میں سے ایک کفر تو وہ ہے جس میں کھلم کھلا شریعت ِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے کفر کااظہارہو ،تو ایسا کرنے والا کافر کہلاتا ہے جیسے کہ یہودی ،نصرانی اور ہندووغیرہ۔ایک کفر کی قسم یہ ہے کہ کسی خوف یا مفاد کے تحت آدمی زبان سے تو اسلام و ایمان کا اقرار کرے لیکن دل سے اس پر ایمان نہ رکھے،ایسے شخص کو ''منافق'' کہا جاتا ہے۔لیکن ایک کفر کی قسم یہ ہے کہ آدمی زبان سے تو اسلام کا اقرار اور شریعت ِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلیم کرے مگر ساتھ میں اس کی ایسی تاویل و تشریح کرے جس سے شریعت کے واضح احکامات کی حقیقت ہی بدل جائے۔جیسے کہے کہ نمازسے مراد دُعایا ذکر کرنا ہے،یاکہے کہ زکوٰۃ سے مرا د تزکیہ نفس ہے نہ کہ مال میں سے ایک خاص مقدار کا دینا۔ تو جوکوئی عقیدے یا واضح احکامات میں ایسی تحریف کرے اور پھر اس تحریف کو عین اسلام سمجھے اس کو شریعت میں ''زندیق ''کہا جاتا ہے۔​

قادیانیوں کے اس لحاظ سے ''زندیق ''ہونے میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے شریعت کے واضح عقائد و احکامات میں ایسی تحریفات کر دی ہیں جس کے مرتکب کوشریعت نے ''کافر '' قرار دیا ہے ، (مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء تسلیم کرنے کے باوجود مرزا قادیانی کو نبی مانناوغیرہ)اس کے باوجودوہ اپنے اس عقیدے کو عین اسلام قراردیتے ہیں اور جو ان کے عقائد بد کو تسلیم نہ کرے اس کو یہ الٹا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں ۔​

مرتد اور زندیق کی سزا ایک ہی ہے ،اوروہ ہے ''قتل ''مگرجمہور علماء جن میں امام مالک ،امام احمدرحمہمااللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ایک قول کے مطابق فرق صرف اتنا ہے کہ مرتد کو تین دن کی توبہ کی مہلت دی جاتی ہے تا کہ اس کے شبہات دور ہوجائیں سوائے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے، جبکہ زندیق کو توبہ کی مہلت بھی نہیں دی جاتی، اس لحاظ سے زندیق کا معاملہ مرتد سے بھی سنگین ہے ۔لہٰذا جس کا زندیق ہونا ثابت ہوجائے اس کے باوجود وہ اپنے زندقہ سے انکاری ہوتو اس کوبغیر مہلت دیئے قتل کردیا جاتاہے ۔اس سلسلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ منقول ہے:
''أُتی علی رضی اﷲ عنہ بأناسٍ من الزنادقة ارتدوا عن الاسلام، فسألھم، فجحدوا، فقامت علیھم البینة العدول، قال: فقتلھم ولم یستتبھم، وقال:وأُتی برجلٍ کان نصرانیاً وأسلم، ثم رجع عن الاسلام، قال: فسألہ فأقرّ بما کان منہ، فاستتابہ، فترکہ فقیل لہ: کیف تستتیب ھذا ولم تستتب أولئک؟ قال:ان ھذا أقرّ بما کان منہ، وان أولئک لم یقروا وجحدوا حتی قامت علیھم البینة، فلذلک لم أستتبھم، رواہ الامام أحمد.........''
''اسلام سے پھرجانے والے زندیقوں کی ایک جماعت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس لائی گئی ۔آپ نے ان سے ان کے ارتداد کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے اس سے انکار کیا ۔پس عادل گواہوں کی شہادت پیش کی گئی توحضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو توبہ کا موقع نہ دیا اور ان کو قتل کردیا۔اسی طرح ایک شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا اس نے عیسائیت چھوڑ کر ا سلام قبول کیا اور بعد میں پھر مرتد ہوگیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے مرتد ہونے کا سوال کیا ،اس نے اقرار کیا ۔آپ نے توبہ کا مطالبہ کیا اور اس کی توبہ کرنے پر اس کو چھوڑ دیا۔اس پر آپ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے اس مرتد سے تو بہ کا مطالبہ کیا جبکہ ان زندیقوں کو اس کا موقع نہ دیا ، ایسا کیوں ہے؟فرمایا :اس نے اپنے ارتداد کا اقرار کیا جبکہ ان لوگوں نے انکار کیا یہاں تک کہ مقدمہ میں ان کے خلاف بذریعہ شہادت ثبوت مہیا ہوگیا اس لئے توبہ کی گنجائش باقی نہ رہی۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
''فھذا من أمیر المؤمنین علی رضی اﷲ عنہ بیانٌ أن کل زندیقٍ کتم زندقتہ وجحدھا حتی قامت علیہ البینة قتل ولم یستتب''
''یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے وضاحت ہے جو زندیق اپنا زندقہ چھپائے اور اس جرم کا انکار کرے مگردلیل سے اس کا جرم ثابت ہوجائے تو اس کی سزا موت ہے،اس کو توبہ کا موقع نہ دیا جائے گا ''۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''یُقْتَلُ الزَّنَادِقَةُ وَلَا یُسْتَتَابُونَ''
''زندیقوں کو قتل کیا جائے گا اور ان کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی''۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
''اُقْتُلْ الزِّنْدِیقَ سِرًّا فَاِنَّ تَوْبَتَہُ لَا تُعْرَفُ''
''چھپے ہوئے زندیق کو (جوکہ اپنا کفر چھپاتا ہے )قتل کردو اس لئے کہ اس کی توبہ کا اعتبار نہیں''۔​
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
''منکرختم نبوت''اور '' گستاخِ نبوت'' کو کافر نہ سمجھنا :
پس جو کوئی بھی قرآن و حدیث اور صحابہ کرام کے ان واضح نصوص کے بعد بھی ''منکر نبوت ''اور ''گستاخِ نبوت ''کو کافر نہ سمجھے تو اس کا دین وایمان سلامت نہیں رہتا اور خود بھی کافروں کی صف میں کھڑا ہوجاتاہے ۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ امام محمد بن سحنون مالکی رحمہ اللہ جوکہ امام شافعی و امام ا حمد بن حنبل کے پایہ کے امام تھے ،ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں :​
''أجمع العلماء أن شاتم النبی ﷺ المنتقص لہ کافر،والوعید جارٍ علیہ بعذاب اللہِ، وحُکمہ عند الأُمة القتل، ومن شکَّ فی کفرہ وعذابہ کفرَ''
''علماء کا اتفاق ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شاتم اور گستاخ کافر ہے ،اس پر عذاب الٰہی کی وعید ہے اور امت کے نزدیک اس کا شرعی حکم ''قتل ''ہے اور جو شخص اس کے کفر و عذاب میں شک کرے وہ بھی کافر ہوجاتاہے ''۔​
مسلمہ امہ کے لئے لمحہ فکریہ :
اسے مسلمہ امہ کی بے خبری یا غفلت کہیں یا پھر علماء اور دینی عناصر کا بھولا پن کہ قادیانیوں کے اس قدر کفر وضلالت پر مبنی عقائد کے باوجود اکثر اسلامی ممالک میں ان پر کوئی قدغن نہیں بلکہ ان کو کھلی آزادی حاصل ہے۔
مگر غضب پر غضب یہ کہ جن اسلامی ممالک میں ان کے خلاف عوام الناس میدان میں آگئے تھے اور قریب تھا کہ قادیانی عام مسلمانوں کے غیض وغضب کا نشانہ بن جاتے ،ان کو، ان کی املاک کواور ان کی عبادت گاہوں کو ''غیر مسلم اقلیت''قرار دے کر آئینی و قانونی تحفظ فراہم کردیا گیا اور ان کو وہ حیثیت عطاکردی گئی جوکہ اسلامی حکومت میں ''جزیہ'' دینے والے کافروں کی ہوتی ہے کہ ان کے مال و جان ، ان کی املاک اور عبادت گاہوں کا تحفظ کیا جاتا ہے، اور یوں ان خبیث صفت لوگوں کے بارے میں شریعت نے جو سزا مقر ر کی ہے، اس پر بڑی عیاری و مکاری سے پردہ ڈالتے ہوئے ان کو، ان کی اصل سزا سے بچالیا گیا۔
اس ضمن میں ''دینی ''کہلانے والی جماعتیں جو کہ ایک طرف قادیانیت کی شدید مخالفت کرتی ہیں (اور اس معاملے میں ان کے عام کارکنان کے خلوص میں کوئی شک و شبہ بھی نہیں )مگر جب کبھی قادیانیوں کی خبیث حرکات پر حکومت وقت کی جانب سے کسی سرزنش کے بجائے ''تحفظ''فراہم کرنے پر مسلمانوں کی جانب سے کوئی اقدام کردیا جائے تو یہ قادیانیت مخالف جماعتیں اس اقدام کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ڈھکے چھپے الفاظ میں قادیانیت کے تحفظ کی بات کرتی نظر آتی ہیں یا پھر ایسے اقدامات کو بھارتی و اسرائیلی ایجنسیوں را اور موساد کے ایجنٹوں کی کاروائی قرار دیتی ہیں۔اس کی سب سے بہترین مثال 28مئی2010ء کو لاہور میں ہونے قادیانیوں کی نام نہاد عبادت گاہ پر ہونے والے حملے کے بعد ان''دینی''کہلانے والی جماعتوں کے قائدین کی جانب سے دیئے جانیوالے بیانات ہیں۔ایک ''دینی''کہلانے والی جماعت کے رہنما جو اس وقت نائب امیر ہیں ،ان سےAry Newsکے ایک ٹی وی اینکر نے پوچھاکہ :
''یہ جو واقعہ ہوا ہے احمدیوں کی عبادت گاہ پر حملے کا ،کیایہ قابل مذمت ہے لیاقت بلوچ صاحب ؟''(تو جواب میں انہوں نے کہا کہ) :''جی بالکل قابل مذمت ہے''۔
اور تو اور عالمی مجلس ختم نبوت والوں کی طرف سے یہ بیان جاری کیا گیا :
''عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے لاہور میں دو قادیانی عبادت گاہوں میں وحشیانہ فائرنگ اور بم دھماکوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''بے گناہوں ''کے قتل عام کی کسی بھی مذہب میں کوئی گنجائش نہیں ہے، جن لوگوں نے یہ واردات کی ہے وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں''۔
یہاں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ کافروں کی عبادت گاہوں پر حملے تو کسی بھی صورت جائز نہیں تو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اوّلاً یہ بات ٹھیک ہے کہ کافروں کی عبادت گاہوں کوتحفظ حاصل ہوتا ہے لیکن اس وقت جبکہ دار الاسلام موجود ہواور یہ کہ یہ تحفظ اُن کفار کی عبادت گاہوں کو حاصل ہوتا ہے جوکہ دار الاسلام کو ''جزیہ ''دینے پر آمادہ ہوجائیں۔دوسری با ت یہ کہ یہ تحفظ عام کفار کو حاصل ہوتاہے مگر ''مرتد و زندیق''کو نہیں اور جیساکہ ہم سمجھ چکے کہ قادیانیوں کاحکم کافر سے بڑھ کر ''مرتد وزندیق ''کا ہے لہذا وہ واجب القتل ہیں۔پس شریعت میں جن لوگوں کا حکم ''واجب القتل''کا ہو ، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن ان کے بارے ارشاد فرمایا تھا:
((اقْتُلُوھُمْ وَاِنْ وَجَدْتُمُوھُمْ مُتَعَلِّقِینَ بِأَسْتَارِ الْکَعْبَةِ))
''اگر تم انہیں کعبۃ اللہ کے پردوں سے چمٹا ہوا بھی پاؤتو ان کو قتل کردو''۔
پس شریعت جن لوگوں سے جینے کا حق چھین لے توسوال یہ ہے کہ کیا ان کی عبادت گاہوں کا کوئی وجود بھی شرعی طور پر ممکن ہے؟​
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
قادیانیت کے تحفظ کے سب سے بڑے علمبردار:
مگر جس طرح ''قادیانیت کے تحفظ''کے لئے اردوبولنے والوں کی ترجمانی کا دعویٰ کرنے والی تحریک خم ٹھونک کر میدان میں آئی اور اس تحریک کے قائد نے ''قادیانیت کے تحفظ''کے لئے کی جانے والی اپنی کوششوں پر فخر کا مظاہر کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔
ایک ٹی وی انٹرویو جوکہ ستمبر2009کو ایکسپریس ٹی وی کی جانب سے بدنامِ زمانہ اینکر مبشر لقمان نے اس تحریک کے قائد سے لیا تھا۔ اس میں اینکر کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وہ قادیانیوں کی حمایت کرتے ہوئے کہتے ہیں :
''ایم کیوایم واحد آرگنائیزیشن ہے کہ جب قادیانیوں کے سربراہ مرزا طاہر بیگ صاحب کا انتقال ہوا تھا،واحد الطاف حسین تھا جس نے تعزیتی بیان دیا تھا جس پر کئی اخبارات نے اداریئے لکھے کہ میں نے ''کفر ''کیا ،اور (اب)میں یہ کفر دوبارہ کرنے جارہا ہوں،جس کا دل چاہے کفر کا فتویٰ دے۔قادیانیوں کو اگر آپ مسلمان نہیں سمجھتے تو نہ سمجھیں ۔کس نے کہا ہے(کہ سمجھیں)؟لیکن جو قادیانی یا احمدی پاکستان میں بستے ہیں انہیں اپنے عقیدے ، مسلک کے مطابق زندگی گزارنے کی برابر کی آزادی ہونی چاہیے،چاہے تما م لوگ مجھ سے ناراض ہوجائیں لیکن میں (یہ )حق بولنا نہیں چھوڑوں گا''۔
اینکر نے ایک اور سوال پوچھتے ہوئے کہا:
''ہمارا 73ء کا آئین کہتا ہے کہ اقلیتوں کو ان کا اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت ہے تو کیاجماعت احمدیہ(قادیانیوں )کو بھی اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت ہونی چاہیے؟
''(اس کے جواب میں انہوں نے کہا)''بالکل ہونی چاہیے ،میری نظر میں ہونی چاہیے،ہر کسی کوہونی چاہیے۔(یہ ) میں ایسے ہی نہیں کہہ رہا!میں نے احمدیوں (قادیانیوں)کا لٹریچر بھی پڑھا ہے،میں نے احمدیوں کے پروگرام بھی دیکھیں ہیں،میں نے دیکھا وہی کلمہ ہے، اور سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتے ہیں۔اب(پس پردہ)وجھگڑا ہے اس کی بحث میں جانا نہیں چاہتا۔آپ انہیں مسلمان نہیں مانتے نانہ مانیں،ہندوؤں کا اللہ رسول جو ہے تواس کا اپنا اللہ رسول ہے،اس کوتو آپ تسلیم کرتے ہیں تو احمدیوں کو بھی تسلیم کیجئے ۔یہ جرأت پاکستان کے اندر کسی میں نہیں ہے،احمدیوں پر ظلم نہیں ہونا چاہیے،انسان ہیں ،وہ پاکستانی ہیں،اور میں آپ کو ایک بات اور بتادو مبشر بھائی پاکستان کا سب سے پہلا نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبد السلام وہ بھی احمدی تھا(اینکر اس دوران کہتاہے Who is a great man)۔اب آپ اس کا نام صرف اس لئے نہ لیں یا طلباء کو اس لئے نہ پڑھایا جائے کہ ڈاکٹر عبد السلام احمدی تھے۔یہ سراسر ظلم ہے اور زیادتی ہے۔اس ناانصافی کوختم ہونا چاہیے''۔

پھر اس کے چند دن بعد علماء کو دی گئی افطار پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
''اب آپ بتائے کہ کوئی سچ بات کر ہی نہیں سکتا ۔میں صر ف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ احمدی (قادیانی )پاکستانی شہری ہیں جس طرح کرسچن ہیں،ہندو ہیں ،سکھ ہیں،پارسی ہیں۔بھئی ان کو بھی جینے کا حق ملنا چاہیے۔''

اہلیان گلشن اقبال کراچی کی جانب سے دی گئی افطار پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
''آئین پاکستان کے تحت احمدیوں(قادیانیوں )کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پاکستان کے شہری نہیں،(لہٰذا)انہیں قتل کردیا جائے۔مذہبی اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے کے قتل کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ۔جب میں انسانیت کی بات کرتاہو ں تومجھے ایجنٹ قرار دے دیا جاتاہے لیکن جو سچ ہے اور جو حق ہے وہ کہتا رہوں گا،جھوٹ کی تبلیغ نہیں کروں گا۔جب اللہ تعالیٰ مسلم اور غیر مسلم کو بلاتخصیص تمام نعمتیں عطا کررہا ہے تو ہم ان سے یہ نعمتیں چھیننے والے کون ہوتے ہیں''۔
جب کبھی قادیانیوں پر کوئی آفت ٹوٹتی ہے تو سب سے پہلا مذمتی بیان اس تحریک کے قائد کی جانب سے آتا ہے۔نواب شاہ میں ایک قادیانی کے مارے جانے پر ایک نیوز رپورٹ یوں تھی:
''(الطاف حسین نے )نواب شاہ میں مسلح دہشت گردوں کے ہاتھوں احمدی (قادیانی )فرقے کے ضلعی امیر محمد یوسف کے بہیمانہ قتل کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے اور اس واردات کو ''مذہبی انتہا پسندی''کا تسلسل قرار دیا ہے''۔
اسی طرح تعزیتی اور مذمتی بیانات لاہور میں قادیانیوں کی عبادت گاہ پر ہونے والے حملے پر جاری کئے گئے۔
Ary Newsکے ایک پروگرام میں PJ Meerکے اس سوال کے جواب میں کہ کیا قادیانیوں کو پارلیمنٹ کے ممبر بننے کا حق ہے تو اس کے جواب میں اس تحریک کے قائد کہتے ہیں:
''دیکھئے صاحب!پی جے بھائی!ایم کیوا یم میں کوئی رہے یا نہ رہے ،میری بطور ایم کیوایم کے بانی کی حیثیت سے، میری شروع سے یہ preachingرہی ہے کہ تمام پاکستانی برابر ہیں.........چاہے کرسچن ہوں ،چاہے ہندو ہوں،چاہے سکھ ہوں،کسی بھی مذہب سے تعلق ہو یا احمدی (قادیانی ) ہوں، ان کو حق ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے رکن بنیں ۔پاکستان میں شاید کسی اور میں اتنی جرأت نہ ہوکہ وہ یہ بات کہہ سکے ۔مجھے معلوم ہے کہ مجھ پر اس بات پر فتوے لگیں گے،میری صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔میرا فیصلہ''مالک یوم الدین''جو روز محشر اللہ تعالیٰ فیصلہ کرے گا ،میں نے اس کے حضور پیش ہونا ہے وہ میرا فیصلہ کرے گا،دنیا کا کوئی مولوی میرا فیصلہ نہیں کرسکتا''۔

قادیانیت کی حمایت میں تحریک کے قائد کی جانب سے دیئے جانے والے بیان پر قادیانیوں کے موجودہ سربراہ مرزا مسرور بیگ ملعون،اس تحریک کے قائد کے بارے میں جو فرماتے ہیں ،وہ قابل توجہ ہے :​

''گزشتہ دنوں کسی اخبار کے حوالے سے مجھے خبر بھجوائی گئی .........ایسی خبروں کو میرے علم میں لانے کے لئے اور شاید میری رائے پوچھنے کے لئے بھی۔وہ خبر تھی الطاف حسین صاحب کے حوالے سے جو ایم کیو ایم کے لیڈر ہیں،کہ انہوں نے احمدیوں(قادیانیوں )کے حق میں کھل کر بیان دیا ہے اور احمدیوں کے ساتھ پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے ،ظلم وزیادتی ہورہی ہے، اس کی کھلی کھلی مذمت کی ہے کہ یہ سب کام غلط کئے جارہے ہیں.جہاں تک الطاف حسین صاحب کے بیان کا تعلق ہے ،ہر محب وطن پاکستانی میرے خیال میں یہ چاہے گاکہ ملک میں امن ہو اور ''ملائیت ''کا خاتمہ ہو.........بڑے خوشی کی بات ہے ،مجھے خوشی ہوئی اس بات پر کہ الطاف حسین صاحب نے یہ بیان دیااور جرأ ت کا مظاہرہ کیابلکہ اس دفعہ اچھا بیان دے کر کافی جرأ ت کا مظاہر ہ کیا ہے.........اور ہاں میں یہ ضرور کہوں گا کہ اللہ کرے جوبھی ملک کو بچانے کے لئے ان نفرتوں کی دیوار کو گرانے کی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو کامیاب کرے۔ہر احمدی (قادیانی )کو دعاکرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لیڈر پیدا کرے ملک میں''۔
جاری ہے۔۔۔​
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
فیصلہ آپ کے ہاتھ میں.........! !
قادیانیت کے عقائد،شریعت میں ان کے بارے میں حکم اور تحریک کے قائد کے عزائم کو اتنی تفصیل کے ساتھ بیان کرنا س لئے ضروری ہوا کہ کسی بھی تحریک کے بارے میں فیصلہ کرنے سے پہلے یہ لازم ہے کہ اس کے عزائم کو شریعت کی روشنی میں پرکھا جائے تاکہ اصل حقیقت سامنے آسکے اور یہ بھی کہ اس معاملے میں کسی ناانصافی اورعصبیت سے بچاجاسکے۔
اب جبکہ تحریک کے قائد تو اپنا فیصلہ سناچکے کہ کوئی ان کی تحریک میں رہے یا نہ رہے وہ قادیانیوں کی اعلانیہ حمایت سے پیچھے نہ ہٹیں گے چاہے ان کا دین و ایمان جاتا رہے اور یہ کہ قادیانیوں کی حمایت سے اگر'' کفر'' بھی لازم آتا ہے پھر بھی وہ یہ کفر کرتے رہیں گے اور دوسری طرف یہ بھی واضح ہوگیا کہ اس دنیامیں قادیانیوں جیسے عقائد رکھنے یا ان کی حمایت کرنے والوں کا دنیا میں کیا حکم ہے اور روزِ محشر ان کا کیا انجام ہوگا.........!!
لہٰذا فیصلہ اب اس تحریک میں شامل اہل السنۃ سے تعلق رکھنے والے کارکنا ن اور ہمدردوں اور ہر اس فرد نے کرنا ہے، جوکہ کسی بھی ایسی جماعت یا گروہ سے وابستہ ہوجوکہ قادیانیت کی حمایت کرتی ہویا ان کے'' تحفظ'' کی بات کرتی ہو،کہ آیااسے اپنا دین و ایمان محبوب ہے یا کفر کے ساتھ کھڑا ہونا ۔پس جس کی قسمت میں رسول اللہ کی شفاعت سے محرومی اور روزِ محشر کی رسوائی لکھی ہوگی اس پر ان باتوں کا شاید کوئی اثر بھی نہیں ہوگامگر جس کو اپنا دین و ایمان محبوب ہوگا اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبار ک سے روزِ محشر آب کوثر کا جام پینے اور آپ کی شفاعت کا طالب ہوگا وہ ایسی ہر تحریک سے اظہارِ لاتعلقی اور برأت کا اعلان کردے گا۔​
شیعہ سنی مفاہمت کے پس پردہ حقائق
چونکہ موضوعِ بحث تحریک اہل السنۃ اور رافضیت میں اتحاد ویگانگت ، جس کو عرف عام میں ''شیعہ سنی مفاہمت'' کہاجاتا ہے ، کی سب سے بڑی علمبردار ہے۔لہٰذا سب سے پہلے یہ بات جاننے کی ضرور ت ہے کہ آیااہل السنۃ اور روافض میں کسی قسم کا اتحاد و یگانگت باالفاظ دیگر ''شیعہ سنی مفاہمت ''کا وجود بھی ممکن ہے۔اور دوسری بات یہ کہ روافض جن کو عام طور پر شیعہ کہا جاتا ہے ان کے بار ے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟​
اس سے پہلے کہ ہم اس با ت کا جائز ہ لیں کہ کیا ''شیعہ سنی مفاہمت ''ممکن ہے ،ہم اس بات کو جان لیتے ہیں کہ ''رافضیت ''دراصل ہے کس عقیدے کانام اور اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟کیوں کہ جب یہ بات واضح ہوجائے گی کہ شریعت میں روافض کاکیا مقام ہے تو یہ بات بھی از خود واضح ہوجائے گی کہ کیا ''شیعہ سنی مفاہمت ''کی شریعت میں کوئی گنجائش موجود بھی ہے یا نہیں ؟​
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
شریعت میں رافضیت کی تعریف :
شیعوں کی اکثریت غالی ترین (گمراہ ترین)قسم ''روافض ''پر مشتمل ہوتی ہے ۔بہت کم ہی ایسے ہوتے ہیں جوکہ رافضی عقیدہ کے ظاہری یا باطنی طور پر حامل نہ ہوں ۔ان میں سے جوکوئی بھی اس عقیدے سے لاتعلق ہونے کا دعویٰ بھی کرے پھر بھی اس کے ''تقیہ ''(چھپانے)کے عقیدے کی وجہ سے اس پراعتبار کرنا محال ہوجاتا ہے۔​
بہرحال !روافض کی تعریف کیا ہے؟ اور کن لوگوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے؟وہ جان لیتے ہیں:
جاری ہے۔۔۔
 
Top