• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک دیوبندی فورم پر موجود اپنے اکابرین سے متعلق چشم کشا اقتباس

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(اکابر علماء دیوبند اتباع شریعت کی روشنی میں۔عارف باللہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی قدس سرہ)​
عزیزی مولوی محمد شاہد سلمہ بعد سلام مسنون کئ سال ہوئے تم نے مجھ پر اصرار کیا تھا کہ میں اس اعتراض کا جواب لکھوں کہ ان علماء دیوبند کے درمیان اپنے اکابر کے ساتھ جو عقیدت ہے وہ کہیں دوسری جگہ نہیں پائی جاتی ان علماء کے اکابر کے بظاہر خلاف شرع اگر کوئی کچھ لکھے تو یہ تکفیر تک پہنچا دیتے ہیں اور جب معلوم ہو کہ یہ الفاظ تو انہیں کے اکابر کے ہیں تو اسکی تاویلیں کرتے پھرتے ہیں ۔ میں نے تمہارے اس اعتراض کو باوجود تمہارے اصرار کے توجہ کے قابل نہیں سمجھا اور اپنے مشاغل کو ان فضولیات کی وجہ سے چھوڑنا نہیں چاہا ۔ میں نے اس قسم کافقرہ تو بہت بچپن میں جب میری عمر غالبا دس برس کی تھی حضرت قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد صاحب قدس سرہ اعلی اللہ مراتبہ کے انتقال پر جو حضرت شیخ الہند نے مرثیہ لکھا تھا اور میرے والد صا حب نوراللہ مرقدہ نے کئی ہزار چھپوایا تھا اور خوب مفت بانٹا تھا مجھے بھی قریب قریب سب یاد تھا اور خوب مزے لے لیکر پڑھا کرتا تھا اور میرے کانوں میں یہ پڑا کرتا تھا کہ دیکھو یہ شعر اگر ہم کہیں تو ہم کافر ہو جائیں مگر چونکہ شیخ الہند نے کہدیا اس لئے کوئی اس پر لب کشائی نہیں کرتا۔ اور میں ان فقروں کو سن کر یوں دل کوسمجھا لیا کرتا تھا کہ یہ جاہل آدمی ہیں حضرت شیخ الہند نوراللہ مرقدہ کی جوتوں کی خاک بھی نہیں ہو سکتے یہ حضرت کے کلام کو کیا سمجھیں ۔ اس کے بعد جب میری عمر تقریبا بارہ برس کی تھی اور والد صاحب نوراللہ مرقدہ کے ساتھ سہارنپور آیا تو میرے والد صاحب کا معمول یہ تھا کہ مدرسہ کے وقت کے علاوہ جو وقت گزرتا وہ موچیوں کی مسجد میں گزارا کرتے تھے، البتہ آرام گھر پر کیا کرتے تھے اس زمانہ کے طالب علم قابل رشک تھے وہ استادوں کی خدمت کو عبادت سمجھا کرتے تھے کوئی خدمت کسی استاد کی ہو جائے تو ان کے لئے موجب فخر تھی آج کل کے روشن خیالوں کی طرح سے نہیں تھے جو یوں سمجھتے ہیں کہ ان اساتذہ کو میری بدولت ہی تنخواہیں اور روٹیاں مل رہی ہیں وہ گرمی کازمانہ تھاایک مرتبہ میرے والد صاحب عصر کے بعد موچیوں کی مسجد میں کنوئیں کے قریب تشریف فرما تھے اور دو تین ولایتی طالب علم کنوئیں پر کھڑے ھوئے دما دم کنوئیں سے ڈول کھینچ کر والد صاحب پر ڈال رھے تھے۔ ایک ختم نھیں ھوتا تھا کہ دوسرا شروع ھو جاتا تھا۔ مولوی امداد کے والد حافظ مقبول مرحوم بھی میرے والد صاحب کے معتقدین میں تھے اور وہ بھی اکثر عصر کے بعد ویاں چلے جایا کرتے تھے ، وہ کہنے لگے حضرت جی ! یہ اسراف نہیں ۔ میرے والد صاحب نے فرمایا تمہارے لیے اسراف ہے میرے لیے نھیں ۔ انھوں نے فرمایا یہ کیا بات ? والد صاحب نے فرمایا تو جاھل اور میں مولوی ۔حافظ جی نے کہا یہ تو وہی بات ھو گئ جو لوگ کہیں کہ یہ مولوی اپنے واسطے ھر چیز کو جائز کر لیں ۔میرے والد صاحب نے کہا مولوی تو اس فقرے پر خواہ مخواہ شرمندہ ہوں وھی کام تم اگر کرو تو نا واقفیت کی وجہ سے گناہ ھو گا اور مولوی اسی کام کو جائز کر کے کرے گا انھوں نے وجہ پوچھی تو میرے ابا جان نے فرمایا کہ عربی پڑھو۔ (یہ تو تمہیں بھی یاد ھو گا کہ میرے والدصاحب کا عام مقولہ تھا کہ یہ مشغول لوگ بالخصوص وکلاء یا انگریزی اسکولوں کے ماسٹر مجھے 72بہتر گھنٹے دیں تو میں انھیں مولوی بنا دوں اور یہ تفریحی فقرہ نھیں تھا بلکہ ان کے پڑھے ھوئے کئ وکلاء اس زمانے کے اس سے بھی کم وقت) میں اچھے خاصے مولوی ھو گئے ۔ وہ 72 بہتر گھنٹے مسلسل نھیں مانگتے تھے بلکہ ھر اتوار کو 2 گھنٹے مانگتے تھے اور ان دو گھنٹوں میں اتنا کام ان کے سپرد کر دیتے تھے کہ اگلے اتوار تک ان کو یاد کر کے لاؤ ۔ اس زمانے کے مشھور وکیل مولوی شہاب الدین ، مولوی منفعت علی صاحب کو تو شاید تم نے بھی سنا ھو، سہارنپور لیگ کے صدر حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے مجاز صحبت میرے مخلص دوست، اب تو وہ بھی پاکستان جانے کے بعد مرحوم ھو چکے بیچ میں بات آ گئ مگر اس کے نظائر بہت تھےاور مولوی شبیر علی صاحب مرحوم نے "اکمال الشیم"کے مقدمہ میں جو خط لکھا ہے اس میں اس طرز تعلیم کا بھی ذکر کیا ھے )حافظ مقبول اصرار کرتے رھے اور میرے والد صاحب اصرار کرتے رھے کہ عربی پڑھو مولوی ھو جاؤ گے اس وقت تو یہ اسراف والا مسئلہ میری بھی سمجھ میں نہیں آیا۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,111
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(اکابر علماء دیوبند اتباع شریعت کی روشنی میں۔عارف باللہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی قدس سرہ)​
عزیزی مولوی محمد شاہد سلمہ بعد سلام مسنون کئ سال ہوئے تم نے مجھ پر اصرار کیا تھا کہ میں اس اعتراض کا جواب لکھوں کہ ان علماء دیوبند کے درمیان اپنے اکابر کے ساتھ جو عقیدت ہے وہ کہیں دوسری جگہ نہیں پائی جاتی ان علماء کے اکابر کے بظاہر خلاف شرع اگر کوئی کچھ لکھے تو یہ تکفیر تک پہنچا دیتے ہیں اور جب معلوم ہو کہ یہ الفاظ تو انہیں کے اکابر کے ہیں تو اسکی تاویلیں کرتے پھرتے ہیں ۔ میں نے تمہارے اس اعتراض کو باوجود تمہارے اصرار کے توجہ کے قابل نہیں سمجھا اور اپنے مشاغل کو ان فضولیات کی وجہ سے چھوڑنا نہیں چاہا ۔ میں نے اس قسم کافقرہ تو بہت بچپن میں جب میری عمر غالبا دس برس کی تھی حضرت قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد صاحب قدس سرہ اعلی اللہ مراتبہ کے انتقال پر جو حضرت شیخ الہند نے مرثیہ لکھا تھا اور میرے والد صا حب نوراللہ مرقدہ نے کئی ہزار چھپوایا تھا اور خوب مفت بانٹا تھا مجھے بھی قریب قریب سب یاد تھا اور خوب مزے لے لیکر پڑھا کرتا تھا اور میرے کانوں میں یہ پڑا کرتا تھا کہ دیکھو یہ شعر اگر ہم کہیں تو ہم کافر ہو جائیں مگر چونکہ شیخ الہند نے کہدیا اس لئے کوئی اس پر لب کشائی نہیں کرتا۔ اور میں ان فقروں کو سن کر یوں دل کوسمجھا لیا کرتا تھا کہ یہ جاہل آدمی ہیں حضرت شیخ الہند نوراللہ مرقدہ کی جوتوں کی خاک بھی نہیں ہو سکتے یہ حضرت کے کلام کو کیا سمجھیں ۔ اس کے بعد جب میری عمر تقریبا بارہ برس کی تھی اور والد صاحب نوراللہ مرقدہ کے ساتھ سہارنپور آیا تو میرے والد صاحب کا معمول یہ تھا کہ مدرسہ کے وقت کے علاوہ جو وقت گزرتا وہ موچیوں کی مسجد میں گزارا کرتے تھے، البتہ آرام گھر پر کیا کرتے تھے اس زمانہ کے طالب علم قابل رشک تھے وہ استادوں کی خدمت کو عبادت سمجھا کرتے تھے کوئی خدمت کسی استاد کی ہو جائے تو ان کے لئے موجب فخر تھی آج کل کے روشن خیالوں کی طرح سے نہیں تھے جو یوں سمجھتے ہیں کہ ان اساتذہ کو میری بدولت ہی تنخواہیں اور روٹیاں مل رہی ہیں وہ گرمی کازمانہ تھاایک مرتبہ میرے والد صاحب عصر کے بعد موچیوں کی مسجد میں کنوئیں کے قریب تشریف فرما تھے اور دو تین ولایتی طالب علم کنوئیں پر کھڑے ھوئے دما دم کنوئیں سے ڈول کھینچ کر والد صاحب پر ڈال رھے تھے۔ ایک ختم نھیں ھوتا تھا کہ دوسرا شروع ھو جاتا تھا۔ مولوی امداد کے والد حافظ مقبول مرحوم بھی میرے والد صاحب کے معتقدین میں تھے اور وہ بھی اکثر عصر کے بعد ویاں چلے جایا کرتے تھے ، وہ کہنے لگے حضرت جی ! یہ اسراف نہیں ۔ میرے والد صاحب نے فرمایا تمہارے لیے اسراف ہے میرے لیے نھیں ۔ انھوں نے فرمایا یہ کیا بات ? والد صاحب نے فرمایا تو جاھل اور میں مولوی ۔حافظ جی نے کہا یہ تو وہی بات ھو گئ جو لوگ کہیں کہ یہ مولوی اپنے واسطے ھر چیز کو جائز کر لیں ۔میرے والد صاحب نے کہا مولوی تو اس فقرے پر خواہ مخواہ شرمندہ ہوں وھی کام تم اگر کرو تو نا واقفیت کی وجہ سے گناہ ھو گا اور مولوی اسی کام کو جائز کر کے کرے گا انھوں نے وجہ پوچھی تو میرے ابا جان نے فرمایا کہ عربی پڑھو۔ (یہ تو تمہیں بھی یاد ھو گا کہ میرے والدصاحب کا عام مقولہ تھا کہ یہ مشغول لوگ بالخصوص وکلاء یا انگریزی اسکولوں کے ماسٹر مجھے 72بہتر گھنٹے دیں تو میں انھیں مولوی بنا دوں اور یہ تفریحی فقرہ نھیں تھا بلکہ ان کے پڑھے ھوئے کئ وکلاء اس زمانے کے اس سے بھی کم وقت) میں اچھے خاصے مولوی ھو گئے ۔ وہ 72 بہتر گھنٹے مسلسل نھیں مانگتے تھے بلکہ ھر اتوار کو 2 گھنٹے مانگتے تھے اور ان دو گھنٹوں میں اتنا کام ان کے سپرد کر دیتے تھے کہ اگلے اتوار تک ان کو یاد کر کے لاؤ ۔ اس زمانے کے مشھور وکیل مولوی شہاب الدین ، مولوی منفعت علی صاحب کو تو شاید تم نے بھی سنا ھو، سہارنپور لیگ کے صدر حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے مجاز صحبت میرے مخلص دوست، اب تو وہ بھی پاکستان جانے کے بعد مرحوم ھو چکے بیچ میں بات آ گئ مگر اس کے نظائر بہت تھےاور مولوی شبیر علی صاحب مرحوم نے "اکمال الشیم"کے مقدمہ میں جو خط لکھا ہے اس میں اس طرز تعلیم کا بھی ذکر کیا ھے )حافظ مقبول اصرار کرتے رھے اور میرے والد صاحب اصرار کرتے رھے کہ عربی پڑھو مولوی ھو جاؤ گے اس وقت تو یہ اسراف والا مسئلہ میری بھی سمجھ میں نہیں آیا۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا لنک بھی دیں
 
Top