• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک رافضی کا اعتراض کہ قاتل عثمان رضی اللہ عنہ صحابی تھے؟

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اس کا جواب عنایت فرما دیں
"قال: وأما عمرو بن الحمق فوثب على عثمان، فجلس على صدره وبه رمق، فطعنه تسع طعنات قال عمرو: فاما ثلاث منهن فانى طعنتهن اياه الله، وأما ست فإني طعنتهن إياه لما كان في صدري عليه."
اسکین
14641949_228006827613548_3641442856664420744_n.jpg

جزاک اللہ خیراً

نوٹ: کوشش کریں کہ ترجمہ بھی ساتھ لکھ دیں
 
Last edited by a moderator:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اس کا جواب عنایت فرما دیں
"قال: وأما عمرو بن الحمق فوثب على عثمان، فجلس على صدره وبه رمق، فطعنه تسع طعنات قال عمرو: فاما ثلاث منهن فانى طعنتهن اياه الله، وأما ست فإني طعنتهن إياه لما كان في صدري عليه."
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تاریخ الطبری میں سند کے ساتھ یہ روایت درج ذیل ہے :
قال محمد بن عمر: حدثني عبد الرحمن بن أبي الزناد، عن عبد الرحمن ابن الحارث، قال: الذي قتله كنانة بن بشر بن عتاب التجيبي وكانت امرأة منظور بن سيار الفزاري تقول: خرجنا إلى الحج، وما علمنا لعثمان بقتل، حتى إذا كنا بالعرج سمعنا رجلا يتغنى تحت الليل:
ألا إن خير الناس بعد ثلاثة ... قتيل التجيبي الذي جاء من مصر
قال: وأما عمرو بن الحمق فوثب على عثمان، فجلس على صدره وبه رمق، فطعنه تسع طعنات قال عمرو: فاما ثلاث منهن فانى طعنتهن اياه الله، وأما ست فإني طعنتهن إياه لما كان في صدري عليه.


لیکن یہ روایت قابل استدلال نہیں ، کہ اس کا بنیادی راوی (محمد بن عمر بن واقد الواقدي ) متروک اور ناکارہ راوی ہے ،علامہ الذہبی میزان الاعتدال میں اس کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :

قال أحمد بن حنبل: هو كذاب، يقلب الأحاديث، يلقى حديث ابن أخي الزهري
على معمر ونحو ذا.
وقال ابن معين: ليس بثقة.
وقال - مرة: لا يكتب حديثه / وقال البخاري وأبو حاتم: متروك.
وقال أبو حاتم أيضا والنسائي: يضع الحديث.
وقال الدارقطني: فيه ضعف.
وقال ابن عدي: أحاديثه غير محفوظة والبلاء منه.
وقال أبو غالب ابن بنت معاوية بن عمرو: سمعت ابن المديني يقول.
الواقدي يضع الحديث.

(میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 663 )
خلاصہ یہ کہ ان مذکور جلیل القدر ائمہ محدثین نے واقدی کو کذاب ، اور حدیثیں گھڑنے والا ، اور ناکارہ راوی بتایا ہے
لہذآ صحابہ کرام کے متعلق ایسے گھٹیا آدمی کی روایات کیسے قابل قبول ہوسکتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری اہم بات یہ کہ صحابہ کے خلاف تاریخ طبری پیش کرنے والوں سے پوچھ لیں کہ انہیں جناب علی کے خلاف طبری کی روایات قبول ہیں ؟
 
Top